• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز جمعہ سے قبل والی سنتیں مؤکدہ کب ادا کی جائینگی ؟؟

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
السلام علیکم !
مسئلہ


دمام، سعودی عرب :
ہمارے محلے کی مسجد میں جمعہ کی پہلی اذان ساڑھے دس بجے ہوتی ہے ، اسکے بعد دوسری اذان تقریبا گیارہ بیس پر ہوتی ہے اور اذان کے ختم ہوتے ہی خطبہ شروع ہوجاتا ہے اور خطبہ کے اختتام کے فورا بعد نماز جمہ ادا کی جاتی ہے

سوال :
ایسی صورت میں جبکہ پہلی اذان کے بعد غالبا زوال کا وقت ہوتا ہے جس میں نوافل منع ہیں ، پھر جب دوسری اذان ہوتی ہے جوکہ جمعہ کا صحیح وقت ہوتا ہے ، تو پھر نماز جمعہ سے قبل والی سنت مؤکدہ کب پڑھینگے ؟ جبکہ امام صاحب اذان کے فورا بعد خطبہ دیتے ہیں اور خطبہ کے فورا بعد نماز جمعہ ۔
نماز جمعہ کے بعد والی سنت مؤکدہ تو اد کرلی جائے گی ،
تو کیا نماز جمعہ سے قبل والی سنت بھی نماز جمعہ کے نعد ادا کی جائینگی ؟؟


براہ مہربانی جواب دے کہ شکریہ کا موقع دیں
(اگر ہوسکے تو ابوالحسن علوی سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس پر تبصرہ کریں)

شکریہ
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
کیا ادھر سوال کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ ہے یا میں نے سوال غلط کردیا ہے ؟
ابھی تک کسی کا جواب نہیں آیا ، اگر کوئی مصروفیت ہے تو اور بات ہے۔

امید کرتا ہوں کہ میرے سوال کا جواب جلد مل جائے گا

ان شاء اللہ
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
چلیں جی کوئی بات نہیں انتظار کرلیتے ہیں ۔۔۔
میں نے انکا اس لیے ذکر خاص کیا کیونکہ ماشاء اللہ وہ کافی تسلی بخش جواب دیتے ہیں، میں نے انکے جوابات دیکھے ہیں فورم پہ، ۔جبکہ میں بالکل نیا ہوں یہاں پر
اللہ انکی پریشانیوں کو دور فرمائے ۔۔۔

آمین
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ تبدیلی شہر کے بعد پی ٹی سی ایل میں انٹرنیٹ کنکشن کے لیے اپلائی کیا ہوا لیکن اس میں شاید کچھ تاخیر ہے کیونکہ نمبر بھی نیا لگوانا ہے۔
ایسی صورت میں جبکہ پہلی اذان کے بعد غالبا زوال کا وقت ہوتا ہے جس میں نوافل منع ہیں ، پھر جب دوسری اذان ہوتی ہے جوکہ جمعہ کا صحیح وقت ہوتا ہے ، تو پھر نماز جمعہ سے قبل والی سنت مؤکدہ کب پڑھینگے ؟ جبکہ امام صاحب اذان کے فورا بعد خطبہ دیتے ہیں اور خطبہ کے فورا بعد نماز جمعہ ۔
نماز جمعہ کے بعد والی سنت مؤکدہ تو اد کرلی جائے گی ،
تو کیا نماز جمعہ سے قبل والی سنت بھی نماز جمعہ کے نعد ادا کی جائینگی ؟
آپ کے سوال میں دو مسئلے ہیں:
پہلا مسئلہ
کیا جمعہ کی نماز زوال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے؟
اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک جمعہ کی نماز زوال کے بعد ادا ہو گی جیسا کہ ظہر کی نماز کا وقت زوال آفتاب ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سورج ڈھل جانے کے بعد ادا کرتے تھے:
(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الجمعة حين تميل الشمس) رواه البخاري
البتہ حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز زوال سے پہلے بھی ادا ہو سکتی ہے جیسا کہ ایک بعض روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زوال سے پہلے بھی بعض اوقات جمعہ نماز ادا کر لیتے ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
جابر رضي الله عنه : (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي - يعني الجمعة - ثم نذهب إلى جمالنا فنريحها حين تزول الشمس) رواه مسلم .
سلمة بن الأكوع رضي الله عنه : (كنا نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الجمعة ثم ننصرف وليس للحيطان فيء) رواه أبو داود .

مجھے سعودی عرب میں جمعہ اور زوال کے اوقات کا علم تو نہیں ہے لیکن جو اوقات آپ بتا رہے ہیں، ان سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ وہاں جمعہ کی نماز زوال سے پہلے ادا ہو رہی ہے لہذا آپ کو یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا ہے کہ آپ زوال کے وقت کوئی نفل پڑھ رہے ہوں۔

دوسرا مسئلہ
اگر تو صورت حال یہ ہو کہ سعودی عرب میں جمعہ کا وقت زوال کا ہو تو ایسی صورت میں اہل علم کا اختلاف یہ ہے کہ جمعہ کہ دن زوال کا وقت ہے یا نہیں؟
عام طور جمہور اہل علم نے جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنے کو ناپسند کیا ہے یا اس سے منع کیا ہے جبکہ اہل علم کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جمعہ کہ دن زوال کا وقت نہیں ہے۔ امام شافعی، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے کے بعد مطلقا نفل نماز کی اجازت دی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:

أقوال العلماء في المسألة :
القول الأول : قال الحنابلة لا مخصص له أما ما رواه أبو داود أن أبا سعيد قال ( كره النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة نصف النهار إلا يوم الجمعة ) فقد ضعفه البيهقي و الحافظ في التلخيص و الألباني وله شاهد من حديث أبي هريرة . فلذلك قال الحنابلة : لا يبتدي في أوقات النهي صلاة تطوع ولا فرق بين يوم الجمعة وغيره وهذا مروي عن عمر بن الخطاب وقال سعيد المقبري : أدركت الناس يتقون ذلك . اهـ قال ابن القيم في زاد المعاد : وهذا مذهب أبي حنيفة

القول الثاني : قال الشافعي بجواز الصلاة قبل الزوال يوم الجمعة وهو قول الحسن البصري وترجيح شيخ الإسلام ابن تيمية والعلامة الألباني ولم يعتمد هؤلاء العلماء على حديث أبي سعيد لضعفه و إنما اعتمدوا في تخصيص يوم الجمعة عن باقي الأيام بما ثبت في صحيح البخاري عن سلمان الفارسي قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم لا يغتسل رجل يوم الجمعة ويتطهر ما استطاع من طهر ويدهن من دهنه أو يمس من طيب بيته ثم يخرج فلا يفرق بين اثنين ثم يصلي ما كتب له ثم ينصت إذا تكلم الإمام إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى ) قال ابن حجر في الفتح : وفيه - أي من الفوائد - جواز النافلة نصف النهار يوم الجمعة .
قال العلامة الألباني : فهذا الحديث يبين بجلاء وظيفة الداخل إلى المسجد يوم الجمعة في أي وقت كان هي أن يصلي ما قدر له وفي حديث آخر: "" ما بدا له "" حتى يخرج الأمام فينصت له فهو دليل صريح أو كالصريح على جواز الصلاة قبل الزوال يوم الجمعة وذلك من خصوصيات هذا اليوم كما بينه المحقق ابن القيم في الزاد واحتج له بهذا الحديث فقال عقبه: "" فندبه إلى صلاة ما كتب له ولم يمنعه عنها إلا في وقت خروج الإمام لانتصاف النهار "" . ثم ذكر مذاهب العلماء في الصلاة قبل الزوال وهي ثلاثة: مباح مطلقا يوم الجمعة وغيره ، ومكروه مطلقا ، والثالث أنه وقت كراهة إلا يوم الجمعة وهو مذهب الشافعي وهو الحق الذي اختاره جماعة من الحنفيين وغيرهم وهو قول الإمام أبي يوسف رحمه الله وهو المعتمد المصحح في المذهب كما في الأشباه والنظائر وعليه الفتوى كما في الطحطاوي على مراقي الفلاح . وعلى هذا جرى عمل الصحابة رضي الله عنهم فروى ابن سعد في الطبقات بإسناد صحيح على شرط مسلم عن صافية قالت: "" رأيت صفية بنت حيي ( وهي من أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ماتت في ولاية معاوية ) صلت أربعا قبل خروج الإمام وصلت الجمعة مع الإمام ركعتين "" . وفي "" الزاد "" قال ابن المنذر: روينا عن ابن عمر أنه كان يصلي قبل الجمعة اثنتي عشرة ركعة وعن ابن عباس أنه كان يصلي ثمان ركعات ، وهذا دليل على أن ذلك كان منهم من باب التطوع المطلق ولذلك اختلف العدد المروي عنهم في ذلك وقال الترمذي في الجامع: "" وروي عن ابن مسعود أنه كان يصلي قبل الجمعة أربعا وبعدها أربعا وإليه ذهب ابن المبارك والثوري انتهى كلامه رحمه الله .
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
جزاک اللہ ابوالحسن علوی ۔۔۔آپ کا بہت شکریہ

میں جمعہ کے روز نماز جمعہ سے قبل سنت مؤکدہ کے بارے میں کافی الجھن کا شکار تھا ، لیکن آپ کے جواب کے بعد کافی حد تک یہ الجھن ختم ہوئی

بس ایک اور بات پوچھنا چاہونگا کہ
کیا جمعہ کی پہلی اذان ، جمعہ کے وقت کے دخول کا تعین اور اسکی تیاری کے لیے ہوتی ہا یا دوسری اذان ؟
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں کہ پہلی اذان جمعہ کے وقت کی ابتداء اور اسکی تیاری کے لیے جبکہ دوسری اذان یاددہانی (ریمائنڈر) کے لیے ہے -
کیا یہ صحیح ہے ؟

یہ بات میں نے کہیں پڑھی تھی کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا لیکن یاد نہیں آرہا تھا کہ کہاں پڑھی ، آپ کے جواب میں اسکا بھی جواب مل گیا ۔۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔۔آمین

نوٹ : سعودی عرب کے مشرقی منطقہ (دمام ،الخبر) میں جمعہ کی نماز مختلف اوقات میں ہوتی ہے ، میں جہاں جمعہ پڑھتا ہوں وہاں پر جمعہ کی نماز
ساڑے گیارہ بجے تک ہوتی ہے جوکہ غالبا یہان پر زوال کا وقت ہوتا ہے
جب ہم نماز پڑھ کر باہر آتے ہیں تو دوسری مسجد میں خطبہ چل رہا ہوتا ہے اور وہاں بارہ بجے جماعت کھڑی ہوتی ہے ،
جبکہ چند مساجد میں ایک بجے تک بھی جماعت کھڑی ہوتی ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کیا جمعہ کی پہلی اذان ، جمعہ کے وقت کے دخول کا تعین اور اسکی تیاری کے لیے ہوتی ہا یا دوسری اذان ؟
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں کہ پہلی اذان جمعہ کے وقت کی ابتداء اور اسکی تیاری کے لیے جبکہ دوسری اذان یاددہانی (ریمائنڈر) کے لیے ہے -
جی ہاں! جمعہ کی پہلی اذان نماز کی تیاری کے لیے ہوتی ہے۔
 
Top