رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کھانا نمک کے ساتھ شروع کرنا چاہیئے اس لیے ستر امراض اور بیماریوں سے نمک میں شفاء رکھی گئی ہے اور ان میں سے چند یہ ہیں
جنان، جذام ، کوڑھ، پیٹ کا درد اور دانت کا درد۔۔۔۔۔کیس یہ صحیح حدیث ہے علمائے کرام رہنمائی فرمائیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ بات ایک طویل روایت میں ہے ،جو ابو محمد الحارث المعروف بابن ابی اسامہ (المتوفى: 282 ھ) نے اپنی مسند میں نقل فرمائی ہے :
بالاسناد درج ذیل ہے :
قال: حدثنا عبد الرحيم بن واقد، ثنا حماد بن عمرو، عن السري بن خالد بن شداد، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده، عن عليّ أنه قال: قال لي رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم: «يا عليُّ، إذا توضأت فقل: بسم الله، اللهم إني أسألك تمام الوضوء، وتمام الصلاة، وتمام رضوانك، وتمام مغفرتك، فهذه زكاة الوضوء، وإذا أكلت فابدأ بالملح واختم بالملح؛ فإن في الملح شفاء من سبعين داء، أولها الجذام والجنون والبرص، ووجع الأضراس ووجع الحلق، ووجع البصر،
« بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث 469 »
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جب بھی کھا شروع کرو ،تو ابتدا نمک کے ساتھ کرو ، اور آخر میں بھی نمک کھاؤ ، کیونکہ نمک میں ستر امراض اور بیماریوں سے شفاء رکھی گئی ہے اور ان میں سے
جنون، جذام ،برص، پیٹ کا درد اور دانت کا درد اور حلق اور آنکھوں کا درد شامل ہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ روایت موضوع ہے ، امام ابن الجوزیؒ نے ۔۔ الموضوعات ۔۔ میں اسے موضوع قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں :
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم والمتهم به عبد الله ابن أحمد بن عامر أو أبوه فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت كلها باطلة "
یعنی یہ روایت جناب پیغمبر اکرم ﷺ سے ثابت و صحیح نہیں ، اس کی ذمہ داری تمام تر عبداللہ بن احمد ۔۔یا۔۔ اسکے باپ احمد بن عامر پر ہے ، یہ دونوں باپ ،بیٹا اہل بیت کے حوالے سے ایک کتاب کے ناقل ہیں ، جو پوری کی پوری باطل ہے "
مصر کے مشہور محقق اور علامہ البانی نامور شاگرد أبو إسحاق الحويني لکھتے ہیں :
وهذا إسنادٌ ساقطٌ، مسلسلٌ بالمجروحين،فشيخ الحارث بن أبي أسامة، قال الخطيب في «تاريخه» (11/85): «في حديثه مناكير، لأنها عن ضعفاء ومجاهيل»، وقد يفهم من هذا القول أن العهدة على من فوقه، وحماد بن عمرو النصيبي كذبه الجوزجاني، وقال ابن حبان: «كان يضع الحديث وضعًا». ووهاه أبو زرعة. وتركه النسائي. وقال البخاريُّ: «منكرُ الحديث». والسُّري بنُ خالد قال الأزدي: «لا يحتج به». وقال الذهبي في «الميزان» (2/117): «لا يعرفُ»، وترجمه ابنُ أبي حاتم (2/1/284) ولم يذكر فيه جرحًا ولا تعديلاً، وكأن هذا إسناد نسخه إلى جعفر الصادق، فقد روى الحارث بن أبي أسامة بهذا الإسناد عن جعفر بن محمد جملة من الأحاديث. وقد أورد ابن الجوزي في «الموضوعات» (2/289) من وجهٍ آخر بعض هذا الحديث ثم قال: «هذا حديث لا يصح عن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم، والمتهمُ به عبد الله بن أحمد بن عامر أو أبوه، فإنهما يرويان نسخةً عن أهل البيت كلُّها موضوعة».
(الفتاوى الحديثية للحوينی )
یعنی اس کی پوری اسناد ہی ساقط و ناکارہ ہے ، اس کے راوی مسلسل (یعنی اول تا آخر ) مجروح ہیں ،
امام خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں :
علامہ حارث (یعنی مصنف کتاب ) کے شیخ ابراہیم بن واقد منکر روایات نقل کرتا ہے "
اور دوسرے راوی ۔۔حماد بن عمرو ۔۔ کو جوزجانی نے جھوٹا کہا ہے ، اور ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑتا تھا "
اور امام نسائی کے نزدیک متروک راوی تھا ، امام بخاری اسے منکرالحدیث راوی بتلاتے ہیں "
اور اس روایت کا تیسرا راوی ۔۔السري بن خالد ۔۔ بقول ذہبی مجہول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔