• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نهج البلاغه خطبه (1) کا ايک حصه

شمولیت
مئی 14، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6


اَلْحَمْدُ للهِِ الَّذى لا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقائِلُونَ وَ لا یُحْصی نَعْماءَهُ الْعادُّونَ وَلا یُؤَدّی حَقَّهُ الْمُجْتَهِدُونَ. اَلَّذى لا یُدْرِکُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَ لا یَنالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ، اَلَّذى لَیْسَ لِصِفَتِهِ حَدّ مَحْدود، وَ لا نَعْت مَوْجُود، و لا وَقْت مَعْدُود، وَ لا اَجَل مَمْدود، فَطَرَ الْخَلائِقَ بِقُدْرَتِهِ وَ نَشَرَ الرِّیاحَ بِرَحْمَتِهِ وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَیَدانَ أرْضِهِ.


تمام حمد اس اللہ کيلئے ہے ، جس کي روح تک بولنے والوں کي رسائي نہيں، جس کي نعمتوں کو گننے والے گن نہيں سکتے? نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہيں? نہ بلند پرواز ہمتيں اسے پا سکتي ہيں نہ عقل و فہم کي گہرائياں اس کي تہ تک پہنچ سکتي ہيں? اس کے کمالِ ذات کي کوئي حد معين نہيں? نہ اس کے لئے توصيفي الفاظ ہيں نہ اس (کي ابتداء) کے لئے کوئي وقت ہے، جسے شمار ميں لايا جا سکے، نہ اس کي کوئي مدت ہے جو کہيں پر ختم ہو جائے ? اس نے مخلوقات کو اپني قدرت سے پيدا کيا، اپني رحمت سے ہواؤں کو چلايا، تھرتھراتي ہوئي زمين پر پہاڑوں کي ميخيں گاڑي؟


اَوَّلُ الدّینِ مَعْرِفَتُهُ وَ کَمالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدیقُ بِهِ وَ کَمالُ التَّصْدیقِ بِهِ تَوْحیدُهُ وَ کَمالُ تَوْحیدِهِ الاِخْلاصُ لَهُ وَ کَمالُ الاِخْلاصِ لَهُ نَفْیُ الصِّفاتِ عَنْهُ لِشَهادَةِ کُلِّ صِفَة أنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوفِ وَ شَهادَةِ کُلِّ مَوْصُوف أنَّهُ غَیْرُ الصِّفَةِ فَمَنْ وَصَفَ اللهُ سُبْحانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنّاهُ وَ مَنْ ثنّاهُ فَقَدْ جَزَّاهُ وَ مَنْ جَزَّاهُ فَقَدْ جَهِلَهُ وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ اَشارَ اِلَیْهِ وَ مَنْ اَشارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهُ وَ مَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ.

دين کي ابتداء ، اس کي معرفت اور شناخت ہے،کمال معرفت اس کي ذات پاک کي تصديق ہے،کمال تصديق وہي اس کي توحيد ہے، کمال توحيد اس کے لئے اخلاص اور تنزيہ ہے اور کمال تنزيہ و اخلاص يہ ہے کہ اس سے ممکنات کے صفات کي نفي کي جائے کيونکہ ہر صفت(ان صفتوں ميں سے)گواہي ديتي ہے کہ وہ اپنے موصوف کي غير ہے اور ہرموصوف(ممکنات ميں سے) گواہي ديتا ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئي اور چيز ہے، لہذا جس نے ذات الہي کے علاوہ (مخلوق کے صفات کي طرف ) اس کے صفات مانے اس نے ذات کا ايک دوسرا ساتھي مان ليااور جس نے اس کي ذات کا کوئي اور ساتھي مانا وہ دوئي(دوگانگي) کا قائل ہوگيا اور جو دوئي(دوگانگي)کا قائل ہوا اس نے وہ اس کے لئے اجزا کا قائل ہوگيا اور جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا(اس نے خدا کو نہيں پہچانا)اور جو اس کو نہيںپہچانتا وہ اس کو قابل اشارہ سمجھتا ہے اور جو اس کو قابل اشارہ سمجھتا ہے اس نے اس کي حد بندي کردي اور جو اسے محدود سمجھا اس نے اس کو شمار کرنے کے قابل سمجھ ليا(اور شرک کي وادي ميں غلطاں ہوگيا)!


وَ مَنْ قالَ «فیمَ»؟ فَقَدْ ضَمَّنَهُ، وَ مَنْ قالَ «عَلامَ»؟ فَقَدْ اَخْلى مِنْهُ. کائِن لا عَنْ حَدَث، مَوْجُود لا عَنْ عَدَم، مَعَ کُلِّ شَیْء لا بِمُقارَنَة، وَ غَیْرُ کُلَّ شَیْء لا بِمُزایَلَة، فاعِل لا بِمَعْنى الْحَرَکاتِ وَ الآلَةِ، بَصیر اِذْ لا مَنْظُورَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهِ، مُتَوَحِّد اِذْ لا سَکَنَ یَسْتَأنِسُ بِهِ وَ لا یَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهِ.

جس نے يہ کہا کہ وہ کس چيز ميں ہے اس نے اسے کسي شے کے ضمن ميں فرض کر ليا اور جس نے يہ کہا کہ وہ کس چيز پر ہے? اس نے اور جگہيں اس سے خالي سمجھ ليں ? وہ ہے، ہوا نہيں? موجود ہے? مگر عد م سے وجود ميں نہيں آيا? وہ ہر شے کے ساتھ ہے ، نہ جسماني اتصال کي طرح ، وہ ہر چيز سے عل?يحدہ ہے، نہ جسماني دُوري کے طور پر، وہ فاعل ہے، ليکن حرکات و آلات کا محتاج نہيں، وہ اس وقت بھي ديکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات ميں کوئي چيز دکھائي دينے والي نہ تھي? وہ يگانہ ہے ? اس لئے کہ اس کوئي ساتھي نہيں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پريشان ہوجائے؟

أنْشَأ الْخَلْقَ إنْشاءً وَ ابْتَدأهُ اِبْتِداءً بِلا رَوِیَّة أجالَها وَلا تَجْرِبَة اسْتَفادَها وَلا حَرَکَة أحْدَثَها وَلا هَمامَةِ نَفْس اضْطَرَبَ فیها أحالَ الاَشیاءَ لاَوْقاتِها وَلاَمَ بَیْنَ مُخْتَلِفاتِها وَ غَرَّزَ غَرائِزَها و ألْزَمَها أشْباحَها عالِماً بِها قَبْلَ ابْتِدائِها مُحیطاً بِحُدُودِها وَ انْتِهائِها عارِفاً بِقَرائِنِها وَ أحْنائِها.

اس نے خلق کو ايجاد کيا بغير کسي فکر کي جولاني کے اور بغير کسي تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کي اسے ضرورت پڑي ہواور بغير کسي حرکت کے جسے اس نے پيدا کيا ہو اور بغير کسي ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بيتاب ہوا، خدا وند عالم نے ہر چيز کي تخليق کو اس کے وقت کے حوالے کيا? بے جوڑ چيزوں ميں توازن و ہم آہنگي پيدا کي، ہر چيز کو جدا گانہ طبيعت و مزاج کا حامل بنايااور ان طبيعتوں کے لئے مناسب صورتيں ضروري قرار ديں، وہ ان چيزوں کو ان کے وجود ميں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کي حدود و نہايت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا؟

ثُمَّ اَنشَاَ ـ سُبْحانَهُ ـ فَتْقَ الاَجواءِ وَ شَقَّ الاَرْجاءِ وَ سَکائِکَ الْهَواءِ

ھر خداوند عالم نے فضا کے طباقت کو کھولا اور فضا کو ايجاد کيااور اس کے اطراف و اکناف کو وسيع کيا،پھر فضا اور ہوا کے طبقات کو ايجاد کيا ؟

فَاَجْرى فیها ماءً مُتلاطِماً تَیّارُهُ مُتَراکِماً زَخّارُهُ، حَمَلَهُ عَلى مَتْنِ الرّیحِ العاصِفَة وَ الزَّعْزَعِ القاصِفَة، فَاَمَرَها بِرَدِّهِ، وَ سَلَّطَهَا عَلَى شَدِّهِ، وَ قَرَنَها اِلَى حَدِّهِ، الهَواءُ مِنْ تَحْتِها فَتیق، وَ الْماءُ مِنْ فَوْقِها دَفیق.

ھر خداوند عالم نے اس (عظيم فضا)کے درميان وہ پاني بہادياجس کي لہروں ميں تلاطم تھااوراسے ايک تيز و تند ہوا کے کاندھے پر لاد ديا ، پھر ہوا کو ان امواج کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم ديا اوراس کي حدوں کو پاني کي حدوں سے اس حدتک ملاديا جس قدر اس کو ملانا ضرور ي تھا اس کے نيچے ہوا کي وسعتيں تھيں اور اوپر پاني کا تلاطم !


ثُمَّ اَنْشَأ سُبْحانَهُ ریحاً اعْتَقَمَ مَهَبَّها وَ أدامَ مُرَبَّها وَ أعْصَفَ مَجْراها وَ أبْعَدَ مَنْشَأها فَأمَرَها بِتَصْفیقِ الْماءِ الزَّخّارِ وَ إثارَةِ مَوْجِ الْبِحارِ فَمَخَضَتْهُ مَخْضَ السِّقاءِ وَ عَصَفَتْ بِهِ عَصْفَها بِالْفَضاءِ. تَرُدُّ أوَّلَهُ اِلى آخِرِهِ وَ ساجیَهُ اِلى مائِرِهِ حتّى عَبَّ عُبابُهُ وَرَمى بالزَّبَدِ رُکامُهُ فَرَفَعَهُ فی هَواء مُنْفَتِق وَجَوٍّ مُنْفَهِق فَسَوَّى مِنْهُ سَبْعَ سَموات جَعَلَ سُفْلاهُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفاً وَ عُلْیاهُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَ سَمْکاً مَرْفُوعاً بِغَیْرِ عَمَد یَدْعَمُها وَلا دِسار یَنْظِمُها ثُمَّ زَیَّنَها بِزینَةِ الْکَواکِبِ وَ ضیاءِ الثَّواقِبِ وَ أجْرى فیها سِراجاً مُسْتَطیراً وَ قَمَراً مُنیراً فی فَلَک دائِر وَ سَقْف سائِر وَ رَقیم مائِر.

اس کے بعد پاک ومنزہ پروردگارنے ايک طوفان کو پيدا کيا جس کا کام پاني کي لہروں ميں تلاطم اور اس کي موجوں کو درہم وبرہم کرنا تھا، طوفان شدّت سے جاري تھا اور ايک دور دراز مرکز سے نشا?ت پارہا تھا، پھر اُسے حکم ديا کہ اُس بحر ذخار کو الٹ پلٹ کردے اور دريا کي موجوں کو ہر طرف پھيلادے! نتيجہ ميں اُس نے پاني کو ايک مشک کي طرح متھ دالا اور اُسي شدّت کے ساتھ کہ جيسے وہ فضا ميں جاري تھا، اُن موجوں پر حملہ آور ہوا، اس کے اوّل کو آخر پرپلٹ ديتا اور ٹھہرے ہوئے پاني کو متحرک موجوں سے ملاديتا، يہاں تک کہ ايک کے اوپر ايک پاني کي تہہ جم گئيںاور پھر وہ پاني پہاڑ کي چوٹي کي طرح اُبھر کر اُوپر آگيا، موجوں نے جھاگ کو بلند کيا اور اُسے کھلي ہوا اور پھيلي ہوئي وسيع فضاء ميں منتشر کرديا اور اُس سے ساتھ آسمان پيدا کئے، نيچے کے آسمان کو ٹھہري ہوئي موج کي طرح قرار ديا اور سب سے اوپر کے آسمان کو محفوظ اور بلند چھت کے مانند بنايا، کسي ايسے ستون کے بغير جو ا س کي حفاظت کرسکے اور نہ اس ميں کيليں لگائيں جو اُسے باندھ سکے، اس کے بعد نيچے والے آسمان کو تابندہ نجوم اور درخشاں ستاروں کے نور سے مزيّن کيا، ان کے درميان ايک ضوفگن چراغ اور ايک نورفشاں مہتاب کو متحرک فلک اور گھومنے والي چھت اور جنبش کرنے والي تختي ميں رواں دواں کيا ؟

ثُمَّ فَتَقَ ما بَیْنَ السَّمواتِ الْعُلا فَمَلأهُنَّ اَطْواراً مِنْ مَلائِکَتِهِ، مِنْهُمْ سُجُود لا یَرْکَعُونَ، وَ رُکُوع لا یَنْتَصِبُونَ، وَ صافُّونَ لا یَتَزایَلُونَ، وَ مُسَبِّحُونَ لا یَسْأمُونَ، لا یَغْشاهُمْ نَوْمُ الْعُیُونِ، وَلا سَهْوُ الْعُقُولِ، وَلا فَتْرَةُ الاَبْدانِ، وَلا غَفْلَةُ النِّسْیانِ، وَ مِنْهُمْ اُمَناءُ عَلى وَحْیِهِ، وَ اَلْسِنَة اِلى رُسُلِهِ، وَ مُخْتَلِفُونَ بِقَضائِهِ وَاَمْرِهِ، وَ مِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبادِهِ وَ السَّدَنَةُ لاَبْوابِ جِنانِهِ، وَ مِنْهُمُ الثّابِتَةُ فِى الاَرَضینَ السُّفلى اَقْدامُهُمْ، وَ المارِقَةُ مِنَ السَّماءِ الْعُلْیا اَعْناقُهُمْ، وَ الْخارِجَةُ مِنَ الاَقْطارِ اَرْکانُهُمْ، وَالْمُناسِبَةُ لِقَوائِمِ الْعَرْش اَکْتافُهُمْ ناکِسَة دُونَهُ اَبْصارُهُمْ مُتَلَفِّعُونَ تَحْتَهُ بِاَجْنِحَتِهِمْ، مَضْرُوبَة بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَنْ دُونَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ وَ اَسْتارُ الْقُدْرَةِ، لا یَتَوَهَّمُونَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْویرِ، وَلا یُجْرُونَ عَلَیْهِ صِفَاتِ الْمَصْنُوعینَ، وَلا یَحُدُّونَهُ بِالاَماکِنِ، وَلا یُشیرُونَ اِلَیْهِ بِالنَّظائِرِ.

ھر اس نے بلندترين آسمانوں کو شگافتہ کيا اور انھيں طرح طرح کے فرشتوں سے بھرديا، ان ميں سے بعض فرشتے ہميشہ سجدے ميں رہتے ہيں، رکوع نہيں کرتے اور بعض رکوع ميں ہيں، قيام نہيں کرتے، بعض صف باندھے کھڑے ہيں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوتے، ہميشہ تسبيح ال?ہي کرتے رہتے ہيں اور کبھي تھکتے نہيں ?

ان کي آنکھوں پر کبھي بھي نيند غالب نہيں آتي اور عقلوں پر سہو ونسيان طاري نہيں ہوتا، نہ اُن کے بدن ميں سستي پيدا ہوتي ہے اور نہ نسيان کي غفلت کا شکار ہوتے ہيں ?

ان ميں بعض فرشتے وحي کے امين اور پيغمبروں کي طرف اس کي زبان ہيں، ہميشہ اس کے حکم اور فرمان کو پہنچانے کے لئے رفت وآمد ميں مصروف رہتے ہيں، ان ميں سے بعض فرشتے اس کے بندوں کے محافظ اور اس کي بہشت کے دربان ہيں، اُن ميں سے بعض وہ ہيں جن کے قدم زمين کے آخري طبقہ ميں ثابت اور گردنيں بلند ترين آسمانوں سے باہر نکلي ہوئي ہيں، ان کے اعضاء بدن، اقطار عالَم سے باہر نکلے ہوئے ہيں، ان کے شانے عرش ال?ہي کے ستونوں کو اٹھانے کے لئے آمادہ ہيں، وہ عرش ال?ہي کے سامنے نگاہيں جھکائے ہوئے اور اس کے نيچے اپنے پروں کو سميٹے ہوئے ہيں، ان کے اور اس مخلوق کے درميان، جن کا مرتبہ ان سے کمتر ہے، عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہيں (وہ معرفت ال?ہي ميں اس قدر غرق ہيں کہ) اپنے ذہن ميں اپنے پروردگار کے شکل وشمائل کا بھي تصور نہيں کرتے، اس کے حق ميں مخلوق کي صفات کے قائل نہيں ہوتے، اس کو کبھي بھي کسي جگہ ميں محدود نہيں کرتے اور اشباہ ونظائر سے اس کي طرف اشارہ نہيں کرتے ہيں ؟

ثُمَّ جَمَعَ سُبْحانَهُ مِنْ حَزْنِ الاَرْضِ وَ سَهْلِها، و عَذْبِها وَ سَبَخِها، تُرْبَةً سَنَّها بِالْماءِ حتّى خَلَصَتْ، وَ لاطَها بَالْبَلَّةِ حَتّى لَزَبَتْ، فَجَبَلَ مِنْها صُورَةً ذاتَ اَحْناء وَ وُصُول، وَ اَعْضاء وَ فُصُول، اَجْمَدَها حَتَّى اسْتَمْسَکَتْ، وَ اَصْلَدها حَتّى صَلْصَلَتْ لِوَقْت مَعْدُود، وَ اَجَل مَعْلُوم، ثُمَّ نَفَخَ فیها مِنْ رُوحِهِ، فَمَثُلَتْ اِنْساناً ذا اَذْهان یُجیلُها، وَ فِکَر یَتَصَرَّفُ بِها، وَ جَوارِحَ یَخْتَدِمُها وَ اَدَوات یُقَلِّبُها وَ مَعْرِفَة یَفْرُقُ بِها بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْباطِلِ وَ الاَذْواقِ وَ الْمَشامِّ وَ الاَلْوان وَ الاَجْناسِ، مَعْجُوناً بِطینَةِ الاَلْوانِ الْمُخْتَلِفَةِ، وَ الاَشْباهِ الْمُؤتَلِفَةِ وَ الاَضْدادِ الْمُتَعادِیَةِ، وَ الاَخْلاطِ المُتَبایِنَةِ مِنَ الحَرِّ وَ الْبَرْدِ وَ الْبَلَّةِ وَ الْجُمُودِ.




اس کے بعد خداوندعالم نے زمين کے سخت ونرم اور شور وشيرين حصّوں سے کچھ خاک کو جمع کيا، اس ميں پاني ملاديا اور رطوبت کے ساتھ اُسے اس قدر گوندھا کہ لسدار چيز کي صورت بن گئي اور اُس سے ايسي صورت بنائي جس ميں خم بھي تھے اور جوڑ بھي، اعضاء بھي تھے اور جوڑ بند بھي پھر اسے خشک اور مضبوط کرديا تاکہ خود کو سنبھال سکے، اس کو صاف، مستحکم اور خشک بنايا، يہ صورتحال ايک وقت معيّن اور معلوم مدت تک برقرار رہي، اس کے بعد اُس ميں اپني روح پھونک دي تب اس نے ايک ايسي انساني صورت اختيار کرلي، جس ميں ذہن کي جوليانياں بھي تھيں جو اُسے مختلف جہتوں اور سمت ميں چلنے پر مجبور کرتي تھيں اور فکر بھي تھي جس کے ذريعہ (طرح طرح کے موجودات ميں) تصّرف کيا جاتا ہے اور اعضاء بھي تھے جنھيں اپنے استعمال ميں ليا جاتا ہے اور ايسے ادوات ووسائل بھي تھے جنھيں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے زير وزبر کيا جاتا ہے، ايسي معرفت بھي تھي جس کے ذريعہ حق کو باطل سے جدا کيا جاتا ہے اور مختلف ذائقوں، خوشبوو?ں، رنگوں اور طرح طرح کي جنس کو عليحدہ عليحدہ پہچانا جاتا ہے، جبکہ اُسے مختلف رنگ، موافق اجزاء اور متضاد عناصر سے مرکب کيا اور سردي، تري اور خشکي جيسي مختلف چيزوں کا معجون قرار ديا؟


وَ أسْتَادَى اللهُ سُبْحانَهُ الْمَلائِکَةَ وَدیعَتَهُ لَدَیْهِم وَعَهْدَ وَ صِیَّتِهِ اِلَیْهِمْ فِى الاِذْعانِ بِالسُّجُودِ لَهُ وَ الْخُنُوعِ لِتَکْرِمَتِهِ فَقالَ سُبْحانَهُ اُسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا اِلا اِبْلیسَ اعْتَرَتْهُ الْحَمیَّةُ وَ غَلَبَتْ عَلَیْهِ الشِّقْوَةُ وَ تَعَزَّزَ بِخِلْقَةِ النّارِ وَاسْتَوهَنَ خَلْقَ الصَلْصالِ فَاَعْطاهُ اللهُ النَّظِرَةَ اسْتِحْقاقاً لِلسُّخْطَةِ وَ اسْتِتْماماً لِلْبَلِیَّةِ وَ اِنْجازاً لِلْعِدَةِ فَقال اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرینَ اِلى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ.

الله سبحانہ تبارک وتعالي? نے فرشتوں سے اس امانت کے ا دا کرنے کا مطالبہ کيا جو اُن کے پاس رکھي گئي تھي اور چاہا کہ اس عہد پر عمل کريں جو انھوں نے الله سے آدم(عليه السلام) کے لئے سجدہ اور ان کي عظمت کے سامنے خشوع وخضوع کے سلسلے ميں کيا تھا اور فرمايا: آدم کے لئے سجدہ کريں، سب نے سجدہ کيا سوائے ابليس کے جس پر غضب، حميّت، غرور اور تکبّر نے قابو پاليا تھا، شقاوت اور بدبختي اس پر غالب آگئي تھي، اس نے اپني خلقت پر فخر کيا اور سوکھے ہوئے گارے سے آدم کي تخليق کو سبک شمار کيا ? خداوندعالم نے اس کے مطالبہ کو قبول کيا چونکہ وہ غضب ال?ہي کا مستحق تھا، نيز خداوندعالم بندوں پر امتحان کو مکمل اور ان کو ديئے گئے وعدے کو پورا کرنا چاہتا تھا ، فرمايا: تجھے (قيامت تک نہيں بلکہ) معين دن اور وقتِ معلوم کي مہلت ديدي گئي ؟
 
Top