• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیت کے احکام قسط 1

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
انتہائی اختصار کے ساتھ ''نیت کے احکام'' پیش خدمت ہے۔
اسلام میں نیت کی اہمیت
(مسئلہ نمبر:١ )
(١)عمل کی مقبولیت میں اخلاص شرط ہے اگر یہ مفقود ہے تو عمل رائیگاں ہے۔
اس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ
اللہ تعالی نے فرمایا:''وما امروا الا لیعبدواللہ مخلصین لہ الدین۔''انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔(البینۃ:٥)
اور رسول اللہ ؐ نے فرمایا:'انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ ما نوی''تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزاء ملے گی۔(صحیح البخاری:١،صحیح مسلم:١٩٠٧) یاد رہے کہ عمل خواہ کتنا ہی اچھا او ر افضل ہو لیکن اگر نیت خالص نہیں تو وہ عمل ضائع ہو جائے گا۔کیونکہ اللہ تعالی کو اپنے بندوںسے تمام اعمال میں اخلاص مطلوب ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:''لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم''اللہ تعالی کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔(الحج:٣٧)یہاں تقوی سے مراد اخلاص ِ نیت ہے۔
رسول اللہؐ نے فرمایا :''ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ،ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم۔''بے شک اللہ تعالی تمہاری شکل و صورت اور مال ودولت کو نہیں دیکھتاوہ تو تمھارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔(صحیح مسلم:٢٥٦٤)
مشہور حدیث جس میں تین آدمیوں (قاری،مجاہد اور سخی)کو عذاب ملنے کا ذکر ہے وجہ صرف اخلاص نیت کا مفقود ہونا ہے(صحیح مسلم:١٩٠٥) اور ان اعمال کے بڑا ہونے میں کوئی شک نہیں۔
قیامت کے دن لوگوں کو ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا،رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ:''ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرنے کی نیت سے نکلے گا ،جب وہ بیداء میں پہنچے گا تو اس کے اول و آخر(تمام کے تمام لوگ )زمین میں دھنسا دئےے جائیں گے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ،میں نے پوچھا ،یا رسول اللہ !ان کے آخر کو کیسے دھنسا دیا جائے گا جب کہ ان میں بازاری (منڈیوں وغیرہ میں رہنے والے جو جنگ جو نہیں ہوتے )اور وہ بھی ہوں گے جو ان میں سے نہیں ؟آپ نے فرمایا:''ان کے اول اور آخر سب دھنسا دیے جائیں گے پھر وہ اپنی نیتوں پر اٹھائیں جائیں گے(یعنی قیامت والے دن ان کا حساب وکتاب ان کی نیتوں کے مطابق ہو گا)۔''(صحیح البخاری:٢١١٨،صحیح مسلم:٢٨٨٤)
[مسئلہ نمبر :٢]
(٢)نیت اچھی ہو توثواب ملے گا آدمی وہ نفلی عمل خواہ نہ کر سکے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ:''جو شخص رات کو سوتے وقت تہجد کی نیت کر لے لیکن وہ بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی اور وہ نیند اس پر اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے۔''(سنن النسائی:١٧٨٨)
[مسئلہ نمبر:٣]
اخلاص نیت سے کیا مراد ہے؟
اس سے مراد ہے کہ ہر اچھا کا م محض اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھتے ہوئے کیا جائے اور اس سے مقصود صرف اللہ تعالی کو خوش کرنا ہو۔اور کسی دنیاوی لالچ وطمع کی خاطر وہ عمل نہ کیا جائے کہ لوگ اسے اچھا سمجھنا شروع کر دیں۔
[مسئلہ نمبر:٤]
نیت دل سے ہوتی ہے نہ کہ زبان سے۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ:''نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں۔''(الفتاوی الکبری:١/١)
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ:''زبان سے نیت کرنا نہ نبی ؐ سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ تابعی اور نہ آئمہ اربعہ سے۔''(زادالمعاد:١/٢٠١)
یہ قول ذکرکرنے کے بعد استاد محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیںکہ:''لہذا زبان سے نیت کی ادائگی بے اصل ہے یہ کس قدر افسوس ناک عجوبہ ہے کہ دل سے نیت کرنا واجب ہے ،مگر اس کا درجہ کم کر کے اسے محض سنت قرار دیا گیاجبکہ زبان سے نیت بے اصل ہے مگر اسے ایسا ''مستحب'' بنا دیا گیاجس پر امر واجب کی طرح،پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے ۔نیز حاشیہ میں لکھتے ہیںکہ:''امام شافعی نماز میں داخل ہونے سے پہلے زبان سے کہا کرتے تھے :''بسم اللہ موجھا لبیت اللہ مؤدیالفرض اللہ عزوجل اللہ اکبر''(المعجم لابن المقرئی:ص١٢١ح٣٣٦ وسندہ صحیح،قال اخبرناخزیمۃ:ثنا الربیع قال:کان الشافعی اذا اراد ان یدخل فی الصلاۃــ...''الخ)معلوم ہوا کہ یہ نیت ائمہ ثلاثہ(ابو حنیفہ،مالک اور احمد)سے ثابت نہیں ہے لہذا اس سے اجتناب ہی ضروری۔''(ہدیۃ المسلمین:ص١)
حافظ عبد المنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ زبان سے نیت کرنا نہ لغت ہے نہ شریعت۔کیونکہ نیت کی گئی ہے:''الارادۃ المتوجھۃنحو الفعل لابتغاء مرضاۃ اللہ وامتثال حکمہ''(فتح الباری)اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اور اس کی رضا تلاش کرنے کے لیے کسی کام کی طرف توجہ کا مرکوز ہونا۔''اور معلوم ہے کہ ارادہ دل کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ زبان کے ساتھ۔''(احکام و مسائل:٢/١٨٠)
لطیفہ:
بعض لوگوں سے جب آمین بالجہر کے متعلق بات کرتے ہیں کہ یہ سنت اونچی آواز سے کہنا ہے تو وہ کہتے ہیں کیا اللہ تعالی دل کی بات کو نہیں جانتا،یعنی آہستہ نہیں سنتا۔ہم کہتے ہیں آمین بالجہر کے مسئلہ میں تمہارا یہ جواب ہے تو نیت تم اونچی آواز سے کرتے ہو یہاں کیا اللہ تعالی تمہارے دل کی بات کو نہیں جانتا حالانکہ زبان سے نیت کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔
[مسئلہ نمبر:٥]
کئی علماء نے زبان سے نیت کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔
مثلاً:(١)ابن تیمیہ(الفتاو ی الکبری:١/٢١٤)
(٢)ابن قیم(زاد المعاد:١/٦٩)
(٣)ابن عابدین حنفی(رد المختار:١/٢٧٩)
(٤)ملا علی قاری حنفی(مرقاۃ المفاتیح:١/٤١)
[مسئلہ نمبر:٦]
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
امام بخاری فرماتے ہیں :''باب ماجاء :ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ،ولکل امرئی ما نوی ،فدخل فیہالایمان،والوضوئ،والصلاۃ،والزکاۃ،والحج،والصوم،والاحکام،وقال اللہ تعالی:''قل کل یعمل علی شاکلتہ)(الاسرائ:٨٤)علی نیتہ،ونفقۃ الرجل علی اہلہ یحتسبھا ،صدقۃ ،وقال النبی ؐ''ولکن جھاد ونیۃ''اس چیز کا بیان کہ تمام اعمال کا دارو مدار نیت اور خلوص پر ہے ،اور ہر کسی کے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ،اس میں ایمان ،وضو ،نماز ،زکوۃ، حج ، روزہ اور تمام احکام (نکاح ،طلاق اور بیع وشرا ء وغیرہ )داخل ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
 
Top