- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,114
- ری ایکشن اسکور
- 4,478
- پوائنٹ
- 376
امام نووی فرماتے ہیں:''تمام ظاہری اور باطنی اعمال ، اقوال اور احوال میں اخلاص اور حسن نیت ضروری ہے۔''(ریاض الصالحین :قبل ح١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :''ابن المنیر نے ایک ضابطہ لکھا ہے کہ جن چیزوں میں نیت کرنا شرط ہے اور جن چیزوں میں نیت کرنا شرط نہیں ہے ۔انھو ں نے کہاکہ:''ہر وہ عمل جس کا فائدہ جلدی ظاہر ہونے والا نہ ہوبلکہ اس سے صر ف ثواب مقصود ہوتو اس میں نیت شرط ہے۔اور ہر وہ عمل جس کا فائدہ ظاہر ہو اور طبعی کام ہو شریعت سے پہلے تو اس میں نیت شرط نہیں ہے۔''
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے ایک اہم اصول پر عمل ہو جائے گا ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
(١):''کیونکہ نیت خالص اللہ کے لیے عمل کرنے کو ممیز کرتی ہے ا س عمل سے جو غیر اللہ کے لیے کیا جائے ۔
(٢)اعمال کے مرتبو ں میں تمیز کرتے ہے یعنی فرض کو نفل سے ۔
(٣)عبادت کو عادت سے تمیز کرتی ہے جیسے روزے ہیں ۔''(فتح الباری:١/١٨٠)
نیت اور طہارت
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا تفصیلی رد کیا ہے جو وضو میں نیت کو ضروری نہیں سمجھتے ،اور ثابت کیا ہے کہ وضو میں نیت ضروری ہے۔(اعلام المؤقعین:٣/١١١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیںکہ:''جمہور نے نیت کو وضو میں شرط قرار دیا ہے صحیح اور واضح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اور اس پر ثواب ملنے کی وجہ سے''(فتح الباری:١/١٨٠)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:''نبی ؐ وضو کے شروع میں ''میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے یا نماز پڑھنے کے لیے''وغیرہ الفاظ قطعا نہیں کہتے تھے اور نہ آپ ؐ کے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)سے یہ ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں،نہ صحیح سند سے اور نہ ضعیف سند سے۔''(زاد المعاد:١/١٩٦)
شیخ عمرو بن عبدالمنعم لکھتے ہیںکہ:''بدعتی کہتا ہے:''میں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں۔''یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیںاور نہ یہ عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست ،بیمار ذہن اور پاگل شخص ہی ہوتاہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیںکہ میں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیںتو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کی نیت کرتا ہوں؟۔
یا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلانہ بنت فلانہ سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کی نیت کرتا ہوں۔
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اورر مجنوں ہی ہو سکتا ہے
تما م عقل مند انسانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے زبان نہیں ،کسی چیز کے بارے میں آپ کے ارادہ کو نیت کہتے ہیں،جسس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیںاور نہ ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو واضح کریںـ....یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے ۔عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی صحیح شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی۔
زبان سے نیت کرنے والاشخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتاتو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کر دے اور اگر وہ یہ رٹے رٹائے الفاظ بطورِ عبادت کہتا ہے تواس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل نہیں۔'' (عبادات میں بدعات:ص٤٦۔٤٨)
غسل بھی ایک عمل ہے اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ'' تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔''امام ابن خزیمہ نے وضو اور غسل کے لیے نیت کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٤٢)
اس میں بھی نیت ضروری ہے ۔کیونکہ یہ بھی ''اعمال ''کے تحت آتا ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل ہم نے ہدایہ کے حاشیہ میں لکھی ہے یسر اللہ لنا طبعہ
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :''ابن المنیر نے ایک ضابطہ لکھا ہے کہ جن چیزوں میں نیت کرنا شرط ہے اور جن چیزوں میں نیت کرنا شرط نہیں ہے ۔انھو ں نے کہاکہ:''ہر وہ عمل جس کا فائدہ جلدی ظاہر ہونے والا نہ ہوبلکہ اس سے صر ف ثواب مقصود ہوتو اس میں نیت شرط ہے۔اور ہر وہ عمل جس کا فائدہ ظاہر ہو اور طبعی کام ہو شریعت سے پہلے تو اس میں نیت شرط نہیں ہے۔''
[مسئلہ نمبر:٧]
نیت کے فوائدسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے ایک اہم اصول پر عمل ہو جائے گا ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
(١):''کیونکہ نیت خالص اللہ کے لیے عمل کرنے کو ممیز کرتی ہے ا س عمل سے جو غیر اللہ کے لیے کیا جائے ۔
(٢)اعمال کے مرتبو ں میں تمیز کرتے ہے یعنی فرض کو نفل سے ۔
(٣)عبادت کو عادت سے تمیز کرتی ہے جیسے روزے ہیں ۔''(فتح الباری:١/١٨٠)
نیت اور طہارت
[مسئلہ نمبر:٨]
نیت اور وضو:امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا تفصیلی رد کیا ہے جو وضو میں نیت کو ضروری نہیں سمجھتے ،اور ثابت کیا ہے کہ وضو میں نیت ضروری ہے۔(اعلام المؤقعین:٣/١١١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیںکہ:''جمہور نے نیت کو وضو میں شرط قرار دیا ہے صحیح اور واضح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اور اس پر ثواب ملنے کی وجہ سے''(فتح الباری:١/١٨٠)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:''نبی ؐ وضو کے شروع میں ''میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے یا نماز پڑھنے کے لیے''وغیرہ الفاظ قطعا نہیں کہتے تھے اور نہ آپ ؐ کے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)سے یہ ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں،نہ صحیح سند سے اور نہ ضعیف سند سے۔''(زاد المعاد:١/١٩٦)
شیخ عمرو بن عبدالمنعم لکھتے ہیںکہ:''بدعتی کہتا ہے:''میں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں۔''یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیںاور نہ یہ عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست ،بیمار ذہن اور پاگل شخص ہی ہوتاہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیںکہ میں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیںتو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کی نیت کرتا ہوں؟۔
یا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلانہ بنت فلانہ سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کی نیت کرتا ہوں۔
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اورر مجنوں ہی ہو سکتا ہے
تما م عقل مند انسانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے زبان نہیں ،کسی چیز کے بارے میں آپ کے ارادہ کو نیت کہتے ہیں،جسس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیںاور نہ ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو واضح کریںـ....یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے ۔عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی صحیح شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی۔
زبان سے نیت کرنے والاشخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتاتو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کر دے اور اگر وہ یہ رٹے رٹائے الفاظ بطورِ عبادت کہتا ہے تواس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل نہیں۔'' (عبادات میں بدعات:ص٤٦۔٤٨)
[مسئلہ نمبر:٩]
نیت اور غسلغسل بھی ایک عمل ہے اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ'' تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔''امام ابن خزیمہ نے وضو اور غسل کے لیے نیت کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٤٢)
[مسئلہ نمبر:١٠]
نیت اور تیمماس میں بھی نیت ضروری ہے ۔کیونکہ یہ بھی ''اعمال ''کے تحت آتا ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل ہم نے ہدایہ کے حاشیہ میں لکھی ہے یسر اللہ لنا طبعہ