• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیت کے احکام قسط5

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
[مسئلہ نمبر:٢٠]
(٣)اعتکاف کی نیت :
یہ بھی عبادت ہے اس کے لیے بھی نیت ضروری ہے ۔اس کی نیت کی صورت یہ ہے کہ جب آدمی اپنا بستر وغیرہ مسجد میں لا کر خیمہ وغیرہ بناتا ہے تو اس کی نیت تھی تو تب ہی اس نے یہ سارے کام کیے ہیںبس یہی نیت ہے کیونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے اور نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیںلیکن بعض لوگ اپنی زبان سے تلفظوں کی صورت میں مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لیے ''نویت سنۃ الاعتکاف''میں اعتکا ف کی سنت کی نیت کی ۔کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے جس سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
[مسئلہ نمبر:٢١]
(٤)نیت کر لینے سے اعتکاف واجب نہیں ہوتا۔
مثلا کوئی شخص اعتکاف کرنے کی نیت سے مسجد میں اپنا خیمہ بنا لے پھر ایسا کوئی عزر پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ اعتکا ف نہ کر سکے تو اس کے اعتکاف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ آتا ہے کہ:''رسول اللہ ؐ کے لیے مسجد میںخیمہ بنایا گیا تو آپ کی تین بیویوں سیدہ عائشہ ،سیدہ حفصہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنھن نے بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے بنا لیے جب رسول اللہ ؐ کو معلوم ہو اتو آپ نے ان خیموں کو ختم کر دینے کا حکم دیا پھر آپ نے شوال کے دس دنوں کا اعتکاف کیا ۔''(صحیح البخاری:٢٠٣٣)اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:''وفیہ ان الاعتکاف لا یجب بالنیۃ''اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نیت کر لینے سے اعتکا ف کرنا واجب نہیں ہوتا۔
(فتح الباری:٤/٣٤٩)
نیت اور طلاق
[مسئلہ نمبر٢٢]
:(١)اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ کہے خواہ طلاق کی نیت ہو یا محض مذاق مقصود ہو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ حدیث ''ثلاث جدھن جد و ھذلھن جد''اگر سھوا زبان سے طلاق کا لفظ نکل جائے اور طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہ ہو گی۔بہر حال چند حالتیں وہ ہیں جن میں طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ ان حالتوں میں نیت کو دخل نہیں ہے ۔مثلاً
(١)حالتِ نشہ میں دی گئی طلاق۔(یہ استدلال ہے کیونکہ انسان نشے کی حالت میں پاگل انسان کی طرح ہوتا ہے اور اسے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
(٢)پاگل کی طلاق۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ:''حالت نشہ میں دی گئی طلاق اور پاگل آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
(٣)شدید غصے میں دی گئی طلاق کیونکہ اس وقت بھی انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔(سنن ابی داؤد:٢١٩٣،ابن ماجہ:٢٠٤٦ وحسنہ الالبانی)
(٤)زبر دستی دلوائی گئی طلاق۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''حالت نشہ میںموجود انسان اور مجبور شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
(٥)سونے کی حالت میں طلاق۔
(٦)خواب میں دی گئی طلاق۔حدیث میں آتا ہے کہ:''... سونے والا مرفوع القلم ہے...۔ (سنن ابی داؤد:٤٤٠٣،سنن النسائی:٣٤٣٢وصححہ الالبانی) لہذا سونے کی حالت یا خواب میںاگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔
[مسئلہ نمبر:٢٣]
(٢)اگر کوئی اشارے کنائے میں طلا ق دینے کے ہم مثل کلمات استعمال کرے تو اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گانا کہ ظاہری الفاظ کا مثلاً اگر وہ کہے کہ:''تو اپنے گھر چلی جا ،یا کہے کہ تو آج کے بعد آزاد ہے ''وغیرہ۔اگر تو اس سے اس کااپنی بیوی کو طلاق دینا مقصود ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔اور اگر اس سے طلاق دینا مقصود نہیں تو طلاق واقع نہیں ہو گی۔امام زہری نے کہا کہ:''اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ تو میری بیوی نہیں ہے تو اس کی نیت معلوم کی جائے گی اگر اس نے اس سے طلاق مراد لی ہے تو واقع ہو جائے گی (ورنہ نہیں)۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
 
Top