محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۱۷۷
بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے دل میں شریعت کا پورا پورا احترام ہو۔ظاہر کے ساتھ باطن کی باریکیوں پر بھی تمھاری نظرہو۔ جذبۂ عمل پورے جوش کے ساتھ کارفرما ہو۔ جہاں دل کی گہرائیاں ایمان باللہ کی روشنی سے روشن ہوں، وہاں اس کے نتائج بھی عیاں ہونے چاہییں۔تم ادعائے پاک باطنی کے ساتھ بظاہر بھی پاک بننے کی کوشش کرو۔
(۱)ایمان باللہ: یعنی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ۔ اس سے پوری پوری محبت۔ یہ احساس اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے بے نیازی قطعاً صحیح اخلاق پیدا کرنے میں ممدومعاون نہیں ہوسکتی۔
(۲) ایمان بالاٰخرۃ:یعنی مکافات عمل کے نظام پر محکم ایمان۔ظاہر ہے جب تک اعمال کے اثمار ونتائج کو قطعی نہ مانا جائے نیکی کے لیے دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ برائی سے کوئی خوف پیدا ہوسکتا ہے۔
(۳)ایمان بالملا ئکہ: یعنی فرشتوں کے وجود وظائف پرایمان ہو۔ یہ ایمان بالکتب کی تمہید ہے
(۴)ایمان بالکتب:یعنی خدا کے نوشتوں پر ایمان۔ کہیں ہوں، کسی زبان میں ہوں۔ اللہ کا کوئی رسول لے کر آیا ہو۔
(۵) ایمان بالنبیین: یعنی سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کی تمام کڑیوں کو ماننا۔ تمام فرستادوں کا بلا تخصیص احدے احترام کرنا کہ تعصب پیدا نہ ہو اور سارے انسان متحد ومتفق ہوکر رہ سکیں
(۶)خدا کی راہ میں دینا۔ یعنی بخل وامساک کی عادت نہ ہو ۔فیاضی وسیرچشمی پیدا کرے۔ اپنے اقربا کی حتی الوسع مدد کرے۔ مسکینوں اور یتیموں کی ضروریات کو پورا کرے۔مسافر اور دیگر سائلین کی حاجات کا مداوا بننے اور غلاموں کی آزادی میں ساعی ہو
(۷)اقامت الصلوٰۃ: یعنی پابندی اور شرائط ولوازم کے ساتھ نماز پڑھے، تاکہ اس میں سچے معنوں میں روحانیت پیدا ہو
(۸) اداء زکوٰۃ
(۹) ایفائے عہد
(۱۰) صبرواستقامت۔
ظاہرہے کہ جس میں یہ دس صفات ہوں گی وہ خدا کا محبوب ہوگا۔نہ وہ جو صرف ظواہر ورسوم پرمغرور ہو۔ خطاب یہود سے ہے کہ دیکھو یہ چیزیں مسلمانوں میں موجود ہیں یا نہیں۔ اگرموجود ہیں تومعلوم ہوا تحویل قبلہ نے ان کے اعمال اور ان کی خدا پرستی میں کوئی مضرت پیدا نہیں کی۔
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرولیکن نیکی اس کی ہے، جوخدا پر اور آخری دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پرایمان لائے اورمال باوجود محبوب ہونے کے قرابتیوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور منگتوں کو دے اور گردنیں چھڑانے میں خرچ کرے اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے اور قول واقرار کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے اور جوسختیوں اور تکلیفوں اور لڑائی کے وقت صابر۱؎ ہیں۔ وہی لوگ سچے اور پرہیز گار ہیں۔(۱۷۷)
۱؎ عام لوگ رسوم ظاہری تک ہی تقویٰ کا مفہوم محدود رکھتے ہیں اور دیگرحالات پرغور نہیں کرتے اوریہ اس وقت ہوتا ہے جب دین کی روح باقی نہ رہے اور قشہ وظاہر پر سختی سے عمل ہو۔ جب کسی قوم کی یہ حالت ہوتو سمجھ لیجئے وہ حقائق دین سے قطعاً محروم اور برائے نام مسائل پر محض رکھ رکھاؤ کے لیے عامل ہے۔ نزول قرآن مجید کے وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی۔ فسق وفجور میں ہروقت سرشاری کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کہتے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے۔معمولی اختلافات ڈالتے یا اختلاف عمل ان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا لیکن عملی زندگی میں بڑی سے بڑی بدمعاشی ان کے لیے نہ صرف گوارا ہوتی بلکہ راحت جان ۔ تحویل قبلہ کے موقع پر ان لوگوں نے شور مچادیا کہ دیکھیے مسلمان بدل گیے۔ انبیاء کے مسلمہ قبلہ سے روگردان ہو گئے اور الحاد وزندقہ میں مبتلا ہوگیے۔ قرآن حکیم نے اس اعتراض کے متعدد جواب دیے اور آخری جواب وہ دیا جو ان آیات میں مذکور ہے کہ مدارِ مذاہب ظاہر شعائر ورسوم نہیں۔ ان کا مغزاصل ہے ۔ بیت المقدس یا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ ان کے لیے ضروری ہے ۔ لوازم کا بھی خیال رہے ۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بیت المقدس کو قبلہ مان کر تم شریعت کی ہرذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہو؟ کیا اس کے بعد تمہارے لیے ہربرائی جائز ودرست ہوجاتی ہے ؟کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تک مشرق ومغرب کی تعیین نہ ہو نیکی کا مفہوم ہی غلط رہتا ہے ؟ نہیں۔ کعبہ ہو یا بیت المقدس ، ان کوقبلہ بنانے کامقصد یہ نہیں جو تم سمجھتے ہو کہ ظواہر پر اکتفا کردیاجائے اور{الرقاب} جمع رقبۃ۔ گردن یعنی وہ جس کی گردن میں غلامی کا جؤا ہوا۔نیکی کا مفہوم
بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے دل میں شریعت کا پورا پورا احترام ہو۔ظاہر کے ساتھ باطن کی باریکیوں پر بھی تمھاری نظرہو۔ جذبۂ عمل پورے جوش کے ساتھ کارفرما ہو۔ جہاں دل کی گہرائیاں ایمان باللہ کی روشنی سے روشن ہوں، وہاں اس کے نتائج بھی عیاں ہونے چاہییں۔تم ادعائے پاک باطنی کے ساتھ بظاہر بھی پاک بننے کی کوشش کرو۔
اس توضیح کے بعد وہ دس چیزیں بتائیں جو اساس الدین ہیں اور جو حقیقی معنوں میں صلاح وتقویٰ کا معیار ہیں اور جن سے صدق وصفا کو واقعی طورپرپرکھا جاسکتا ہے۔دس احکام
(۱)ایمان باللہ: یعنی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ۔ اس سے پوری پوری محبت۔ یہ احساس اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے بے نیازی قطعاً صحیح اخلاق پیدا کرنے میں ممدومعاون نہیں ہوسکتی۔
(۲) ایمان بالاٰخرۃ:یعنی مکافات عمل کے نظام پر محکم ایمان۔ظاہر ہے جب تک اعمال کے اثمار ونتائج کو قطعی نہ مانا جائے نیکی کے لیے دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ برائی سے کوئی خوف پیدا ہوسکتا ہے۔
(۳)ایمان بالملا ئکہ: یعنی فرشتوں کے وجود وظائف پرایمان ہو۔ یہ ایمان بالکتب کی تمہید ہے
(۴)ایمان بالکتب:یعنی خدا کے نوشتوں پر ایمان۔ کہیں ہوں، کسی زبان میں ہوں۔ اللہ کا کوئی رسول لے کر آیا ہو۔
(۵) ایمان بالنبیین: یعنی سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کی تمام کڑیوں کو ماننا۔ تمام فرستادوں کا بلا تخصیص احدے احترام کرنا کہ تعصب پیدا نہ ہو اور سارے انسان متحد ومتفق ہوکر رہ سکیں
(۶)خدا کی راہ میں دینا۔ یعنی بخل وامساک کی عادت نہ ہو ۔فیاضی وسیرچشمی پیدا کرے۔ اپنے اقربا کی حتی الوسع مدد کرے۔ مسکینوں اور یتیموں کی ضروریات کو پورا کرے۔مسافر اور دیگر سائلین کی حاجات کا مداوا بننے اور غلاموں کی آزادی میں ساعی ہو
(۷)اقامت الصلوٰۃ: یعنی پابندی اور شرائط ولوازم کے ساتھ نماز پڑھے، تاکہ اس میں سچے معنوں میں روحانیت پیدا ہو
(۸) اداء زکوٰۃ
(۹) ایفائے عہد
(۱۰) صبرواستقامت۔
ظاہرہے کہ جس میں یہ دس صفات ہوں گی وہ خدا کا محبوب ہوگا۔نہ وہ جو صرف ظواہر ورسوم پرمغرور ہو۔ خطاب یہود سے ہے کہ دیکھو یہ چیزیں مسلمانوں میں موجود ہیں یا نہیں۔ اگرموجود ہیں تومعلوم ہوا تحویل قبلہ نے ان کے اعمال اور ان کی خدا پرستی میں کوئی مضرت پیدا نہیں کی۔
{الرقاب} جمع رقبۃ۔ گردن یعنی وہ جس کی گردن میں غلامی کا جؤا ہوا۔حل لغات