• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ طائف کے متعلق ایک سوال

شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
کیا طائف کا یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت ہے جس میں ہے کہ اوباشوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر برسائے اور آپ کے جوتے خون سے بھر گئے،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت جو بخاری و مسلم میں بیان ہوئی ہے اس میں پتھر مارنے کا زکر نہیں ہے،،
محترم خضر حیات بھائی
محترم اسحاق سلفی بھائی حفظهما اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
کیا طائف کا یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت ہے جس میں ہے کہ اوباشوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر برسائے اور آپ کے جوتے خون سے بھر گئے،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت جو بخاری و مسلم میں بیان ہوئی ہے اس میں پتھر مارنے کا زکر نہیں ہے،،
محترم خضر حیات بھائی
محترم اسحاق سلفی بھائی حفظهما اللہ
واقعتا صحیح بخاری و صحیح مسلم میں اس کا ذکر نہیں لیکن شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے الرحیق المختوم (180تا183 ) میں اس کا ذکر کیا ہے ، اور آخر میں لکھتے ہیں :
سفر طائف کے واقعے کی تفصیلات سیرۃ ابن ہشام ، زاد المعاد ، رحمۃ للعالمین ، تاریخ اسلام از نجیب آبادی اور معروف و معتبر کتب تفاسیر سے جمع کی گئی ہیں ۔
شیخ اکر ضیاء العمری لکھتے ہیں :
’’ سائر هذه التفاصيل أوردها كتاب المغازي ، ولكن لم ترد رواية صحيحة فيها سوى أن عائشة رضي الله عنها سألت رسول الله: هل أتى عليك يوم كان ۔۔۔ ‘‘
السيرة النبوية الصحيحة محاولة لتطبيق قواعد المحدثين في نقد روايات السيرة النبوية (1/ 185)
یعنی واقعہ طائف کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے علاوہ کوئی روایت صحیح ثابت نہیں ۔
شیخ احمد الصویانی یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
حديث مرسل. رواه ابن إسحاق فقال: حدثني يزيد بن زياد عن محمَّد بن كعبي القرظي. ويزيد ثقة والقرظي تابعي ثقة، لكنه لم يذكر من شيخه هنا. لكن الحديث روي مرسلًا أيضًا عن الزهري، وعن عروة بن الزبير -وهو الحديث الذي بعده- ما عدا الدعاء في هذا الحديث، فشاهده عند الطبراني، وقد قال الهيثمي في المجمع (6/ 35) ورجاله ثقات وفيه ابن إسحاق وهو مدلس ثقة، ثم وجدت الحديث عند الطبراني في الدعاء، وعند ابن عدي في الكامل وسنده هو: ابن إسحاق عن هشام بن عروة عن .. وهذا السند ضعيف لأن ابن إسحاق مدلس وقد عنعن وإن كان هشام من أقرانه وشيوخه وقد ثبت لقاؤهما .. ولا يقوى هذا الطريق ما عند ابن إسحاق فقد رواه دون سند -أي روى الدعاء دون سند-.
السيرة النبوية كما جاءت في الأحاديث الصحيحة (1/ 181)
خلاصہ یہ کہ اس کے کچھ شواہد ہیں ، لیکن اس کے باوجود روایت ضعیف ہی رہتی ہے ۔
شیخ ابراہیم علی اس کے متعلق لکھتے ہیں :
أخرج القصة بطولها ابن هشام: 1/ 419 والطبري في التاريخ: 2/ 344 - 346 والطبراني كما في مجمع الزوائد: 6/ 35، بسند صحيح عن ابن إسحاق عن محمَّد بن كعب القرظي مرسلًا- مضافًا إليها قصة عداس وانكبابه على يدي الرسول بدون الدعاء فقد جاء بغير سند، والبيهقي في الدلائل: 2/ 415 - 417 من مرسل الزهري، فيتقوى به، وله شاهد من الحديث الذي يليه برقم: 129.
صحيح السيرة النبوية للعلي (ص: 98)
یعنی اس واقعے کی سند محمد بن کعب القرظی تک درست ہے ، اس کے آگے سند معلوم نہیں ، گویا یہ روایت مرسل ہے ، اسی طرح زہری سے بھی یہ مرسل ثابت ہے ۔
علی صلابی یہ روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ذهب الدكتور العمري إلى تضعيف الحديث في كتابه السيرة النبوية الصحيحة (1/ 186) وذهب إبراهيم العلي إلى صحته وبين أن للحديث شاهدًا يقويه ولذلك اعتبره صحيحًا وذكره في كتابه صحيح السيرة النبوية، ص136، وذهب الدكتور عبد الرحمن عبد الحميد البر مدرس الحديث وعلومه في جامعة الأزهر أن الحديث بطريقيه قوي مقبول, وخرج طرقه في كتابه الهجرة النبوية المباركة، ص38.
السيرة النبوية عرض وقائع وتحليل أحداث (ص: 214)
دکتور اکرم عمری کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے ، البتہ ابراہیم علی اس کو درست سمجھتے ہیں اسی لیے اپنی کتاب صحیح السیرۃ النبویۃ میں ذکر کیا ہے ۔ جامعہ ازہر کے ایک استاد دکتور عبد الرحمن عبد الحمید بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں ۔
خلاصہ کلام :
باعتبار سند اس روایت کا درست نہ ہونا بالکل واضح ہے ، لیکن چونکہ اس کی وجہ ضعف صرف ارسال ہے اور اسی جیسے کچھ شواہد بھی ہیں ، لہذا اس کا درست ہونا کچھ بعید بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 
Top