• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وتر کی دعا بھول جانے کا حکم

aamirrafiq

رکن
شمولیت
ستمبر 28، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
46
السلام علیکم
اگر انسان نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنا بھول گیا اور سجدے میں چلا گیا تو کیا اس پر سجدہ سہو ہے یا اسکو اپنی نماز وتر دھرانا پڑے گی۔
والسلام

Sent from my SM-G925F using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
اگر انسان نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنا بھول گیا اور سجدے میں چلا گیا تو کیا اس پر سجدہ سہو ہے یا اسکو اپنی نماز وتر دھرانا پڑے گی۔
والسلام
Sent from my SM-G925F using Tapatalk
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر وتر میں دعائے قنوت بھول جائے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر وتر میں دعائے قنوت بھول جائے اور تشہد پڑھنے کےوقت یاد آئے تو اس حال میں کیا کرے۔ ؟​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعائے قنوت محدثین کے نزدیک فرض واجب یا سنت موکدہ نہیں اس لئے اس کے ترک پر کوئی مواخذہ نہیں واللہ اعلم (19 مئی 33ء؁)
تشریح

دعائے قنوت وتر میں پڑھنی ضروری نہیں ہے۔ نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں اس کے وجوب پر کوئی شرعی دلیل قائم نہیں ہے۔ اور ا یجاب کا حق اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ البتہ قصدا اس کا ترک کردینا ٹھیک نہیں ہے۔ وتر ادا ہوجائے گا لیکن وہ بات نہیں حاصل ہوگی جو دعا کے ساتھ ادا کرنے میں ہوگی۔ حنفیہ وجوب دعا قنوت وتر کے قائل ہیں۔ صاحب ہدایہ نے ایک بے سند و بے ثبوت و بے اصل روایت پیش کردی ہے۔ (حضرت مولانا عبید اللہ صاحب۔ شیخ الحدیث مبارکپوری۔ مرسلہ مولانا عبد الروف صاحب جھنڈے نگری۔ )


جلد 01 ص555​

محدث فتویٰ​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ
کا بھی یہی فتوی ہے کہ دعاءِ قنوت پڑھنا واجب ،فرض نہیں ، بلکہ مستحب ہے اسلئے اسکے بھولنے پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، بلکہ اگر کسی وقت عمداً بھی ترک کردے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
سوال :
ما حكم من نسي دعاء القنوت في صلاة الوتر وسجد قبل أن يدعو به، وهل يجبره سجود السهو؟
__________________
جواب :
ليس عليه شيء من نسي قنوت الوتر فلا شيء عليه ولا يلزمه سجود السهو فإن سجد فلا بأس، ولكن لا يلزمه؛ لأن قنوت الوتر مستحب وليس بواجب، وإذا تركه بعض الأحيان عمداً فلا بأس كما فعله الصحابة - رضي الله عنهم - فالأمر في هذا واسع والحمد لله.

http://www.binbaz.org.sa/noor/11145
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
معروف مستند مفتی شیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ اسی سوال کے جواب فتویٰ دیتے ہیں کہ :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭وتروں میں دعائے قنوت پڑھنا مسنون ہے اگر رہ جائے تو وتر ہوجاتے ہیں انہیں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ،جیسا کہ حضرت ابن عمر،حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عروہ بن زبیرؓ ،امام مالکؒ سے ایسی روایات ملتی ہیں ،کہ وہ وتروں میں دعائے قنوت نہیں کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل،ص:۲۲۷)
حضرت امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ قنوت چھوڑدینا ایک سنت کا ترک ہے ، جس پر سجدہ سہو ضروری نہیں ہے،البتہ حضرت حسن بصری،ابن ابی لیلیٰ،حماد اور سفیانؒ فرماتےہیں کہ اگر وتروں میں دعائے قنوت رہ جائے تو سجدہ سہو سے تلافی ہوسکےگی۔ (مختصر قیام اللیل ،ص:۲۴۲)
صحابہ کرامؓ کےتعامل کے پیش نظر ہمارا یہ رحجان ہے کہ وتروں میں قنوت کرنا مستحب اور بہتر ہے اگر رہ جائے تو وتر ہوجائیں گے سجدہ سہوکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭وتروں کے بعد دورکعت پڑھنا مسنون ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا عمل مبارک ہے۔حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر کے بعد دورکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد،ص:۹۸،ج۶)
حضرت عائشہ ؓ کی روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر ادا کرتے اور جب رکوع کرناہوتا تو کھڑے ہوجاتے۔ (ابن ماجہ،الصلوٰۃ:۱۱۹۶)
رسول اللہﷺ نے امت کو ان کے ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ ‘‘یہ سفر گرانی اور مشقت کا باعث ہے،اس لئے وتر کے بعد دورکعت پڑھ لی جائیں ،اگر صبح کی نماز تہجد کےلئے بیدار ہوجائے تو بہتر بصورت دیگر اس کےلئے یہی دورکعات کافی ہیں۔’’(صحیح ابن خزیمہ،ص:۱۵۹،ج۲)
اگرچہ بعض روایات میں وتر کو رات کی آخری نماز قرار دیا گیا ہے،جیسا کہ حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘وتر کو تم اپنی رات کی آخری نما ز بناؤ۔’’(صحیح بخاری،الوتر:۹۹۸)
لیکن مندرجہ بالا آپ کا عمل مبارک اور حکم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حکم محض استحباب کےلئے ہے وجوب کےلیے نہیں ۔ اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ وتر کے بعد دورکعت پڑھناامت کےلئے استحباب کے درجہ میں ہے ،البتہ انہیں بیٹھ کر ادا کرنا رسول اللہﷺ کا خاصہ ہے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ انہیں رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا علم ہوا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی نسبت نصف ثواب ملتا ہے،چنانچہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے،ا س پر انہوں نے تعجب کیا ہے اور عرض کیا کہ مجھے تو آپ کی فلاں بات پہنچی ہے اس پر آپ نے فرمایا :‘‘میں آپ کی طرح نہیں ہوں۔’’(صحیح مسلم،المسافرین:۷۳۵)
اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھنے سےبھی پورا ثواب ملتا ہے، اس کے باوجود آپ صرف قراءت بیٹھ کر کرتے تھے رکوع کرنے سے پہلے کھڑے ہوجاتے تھے جو حضرات وتروں کے بعد مکمل دورکعت بیٹھ کر ادا کرتے ہیں ان کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج2ص176

محدث فتویٰ
 
Top