• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی کا معنی و مفہوم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
انسان اپنے بدن کی ضرورت کو زمینی غذا سے پورا کرتاہے مگر روح کی غذا زمیں سے نہیں آسمان سے اسے ملتی ہے۔ صحت مندجسم کے لئے ضروری ہے کہ اس کی روح بھی صحت مند ہو اس لئے دونوں کا چیک اپ ضروری ہے۔ڈاکٹر سے تعلق کے بعد وحی سے انسانی تعلق انتہائی ضروری ہے تاکہ اس کی روح کو غذا ملے۔روح، کی غذارب کریم نے وحی کی صورت میںاپنے پاس رکھی ہے اور جسے وہ جبریل امین کے ذریعے انبیاء کرام پر نازل فرماتا ہے پھر وہ بندگان خدا میںاسے بانٹ دیتے ہیں۔ جو اسے قبول کرے وہ خوش قسمت ورنہ بدبخت ٹھہرتا ہے۔ ہمارے جسم وروح کی غذا ئیں اللہ تعالی نے خود تیار کی ہیں۔اگر غذاؤں کے بغیر روح وجسم میں نہ طاقت نہ جان نہ خوشی۔ ہدایت تو بڑی دور کی بات ہے۔یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ اس کے بغیر ہدایت مل سکتی ہے یہ ہدایت نہیں بلکہ بہت سے فساد کا موجب بن سکتی ہے۔روح کو علوی(آسمانی) غذا چاہئے جو خود سے حاصل نہیں ہوتی۔ جسم کو بھی سفلی(ارضی) غذا کی ضرورت ہے۔جو جسمانی غذا کا بندو بست زمین سے کرسکتا ہے وہ روح کی غذا کا بند وبست آسمان سے اتار کر کیوں نہیں کرسکتا؟ اس لئے یہ دونوں رحمت الٰہی ہیں۔ دونوں کی بقاء میں انسان کی بقاء ہے ان میں سے کسی ایک کی موت انسان کی ہلاکت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی کا معنی و مفہوم :

عربی میں وحی کا معنی لطیف (swift) اشارہ کرنایا مخفی طور پر(secretly) انتہائی سرعت کے ساتھ کسی کو کوئی بات یا پیغام بھیجنا یا دل میں کوئی بات ڈال دینا کے ہیں۔(تاج العروس ۱۰؍۳۸۵) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سونے وجاگنے کی قید بھی لگائی ہے۔(مجموع فتاوی۱۲؍۳۹۸) امام راغب اصفہانی نے وحی کے چار معانی اورطریقے بیان کئے ہیں:
۱۔ از راہ رمز وتعریض کوئی بات کرنا۔ ۲۔ محض آواز کا ہونا جس میں کوئی ترکیب نہ ہو۔
۳۔ کسی انسانی عضو سے اشارہ کرنا۔ ۴۔ کتابت۔
شرعی اعتبار سے بھی وحی کے متعدد معانی ہیں۔ کیفیت کے اعتبار سے دونوں میں معنوی اشتراک ہوجاتا ہے مگر اعتبار کے لحاظ سے مختلف ہوجاتے ہیں۔وحی کے مزید لغوی معنی یہ ہیں:
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی بمعنی فطری الہام :

وحی بمعنی فطری الہام : یہ وہ الہام ہے جو اللہ تعالی پاکیزہ روحوں میں ڈالتا ہے جیسے ام موسی علیہ السلام کے دل میں اللہ تعالی نے بات ڈالی: {وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى} (القصص:۷ ) ہم نے موسی علیہ السلام کی والدہ کو الہام کیا۔
وحی بمعنی جبلت: شہد کی مکھی کو بھی اللہ تعالی الہام کرتا ہے: {وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ} (النحل:۶۸) اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی۔یہ جبلت کی وحی ہے جو جانور اور انسان دونوں کو حاصل ہوتی ہے۔
وحی بمعنی اشارہ کی زبان: کسی عضو سے اشارہ کرنابھی وحی کہلاتا ہے: جیسے: {فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ} (مریم:۱۱) محراب سے نکل کر انہوں (زکریا ؑ)نے اپنی قوم کو اشارہ کیا۔کیونکہ بولنے سے منع کر دیے گئے تھے اس لئے اَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ کا معنی ہے: ان کی طرف اشارہ کیا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر لکھ کر بات کی تھی اس لئے وحی کا لفظ لکھنے کے معنی میں بھی ہے۔
وحی بمعنی کونی امر : اللہ تعالی کی طرف سے جامد چیزوں کو حکم ہوتا ہے۔یہ بھی وحی ہے۔ جیسے: {يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا۝۴ۙ بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَہَا۝۵ۭ} (الزلزلۃ : ۵،۴) جس دن زمین اپنے اندر کی خبریں بیان کرے گی کیونکہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا‘‘ اسی طرح یہ فرمانا: {وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاءٍ اَمْرَہَا} (فصلت: ۱۲)اور (تیرے رب نے) آسمان کی طرف وحی کی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی بمعنی پیغام الٰہی:

اللہ تعالی فرشتوں کوکوئی حکم دیں کہ یہ بجالاؤ۔ {اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ} (الانفال: ۱۲) جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اطلاع دیتے تھے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔اسی طرح یہ فرمانا: {فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى} (النجم :۱۰) پھر اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنی تھی۔یہی علم کا حقیقی سرچشمہ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
فرشتوں پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرشتوں پروحی کرنے کا ذکر بھی کیا ہے۔
{اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۔۔} جب تمہارے رب نے فرشتوں کو وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو اہل ایمان کو ذرا ثابت قدم رکھو۔
{وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً} جب تمہارے رب نے فر شتوں سے فرمایا میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
مگر یہ وحی فرشتوں کو کیسے ہوتی ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إذا قَضَی اللہ الأَمْرَ فِی السَّمائِ ضَرَبتَِ الْمَلائِکۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خَضْعاناً لِقَولِہِ، کَأَنَّہُ سِلْسِلَۃٌ عَلَی صَفْوَانٍ، فَإذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِم قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّکُم؟ قَالُوا لِلَّذِی قَالَ: اَلْحَقَّ۔ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ۔ (صحیح البخاری ،تفسیر سورۃ سباء) جب اللہ تعالی آسمان میں کوئی حکم نافذ کرتے ہیں فرشتے اپنے پروں کو یہ حکم سنتے ہی جھکادیتے ہیںگویا کہ یہ آواز زنجیر کی ہوتی ہے جو کسی چٹان پر پڑ رہی ہو۔پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہوتا ہے وہ پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ اسے وہ کہتے ہیں: حق کہا ہے وہ بالا وبرتر ہے۔((صحیح بخاری ۶؍۲۸) تفسیر سورہ سباء)
امام ابن شہاب زہری ؒ کا قول ہے کہ اس حدیث میں وحی کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ (الفتاوی الکبری: ۶؍۵۹۳)
اس کی مزید وضاحت سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا تَکَلَّمَ اللہُ سَمِعَ أَہْلُ السَّمَائِ صَلْصَلَۃً کَجَرِّ السِّلْسِلَۃِ عَلَی الصَّفَا، قَالَ: فَیَصْعَقُوْنَ فَلاَ یَزَالُوْنَ کَذَلِکَ حَتّٰی یَأتِیَہُمْ جَبْرِیْلُ، فَإِذَا أَتَاہُمْ جِبْرِیْلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ ، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا جِبْرِیْلُ: مَاذَ قَالَ رَبُّکَ؟ قَالَ : یَقُوْلُ الحَقَّ۔ قَالَ: فَیُنَادُوْنَ: الحَقَّ الحَقَّ۔(سنن ابی داود: ۲؍۵۳۶، صحیح بخاری تعلیق وموقوف علی ابن مسعود ۸؍۱۹۴) جب اللہ تعالی کلام فرماتے ہیں تو آسمان والے ایک ایسی آوازسنتے ہیں جوچٹان پر زنجیر کو کھینچنے سے آتی ہے۔ پھروہ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہیں حتی کہ جبریل امین ان کے پاس آجاتے ہیں۔ جب جبریل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کے دلوں سے خوف جاتا رہتا ہے پھر وہ پوچھتے ہیں جبریل! آپ کے رب نے کیا کہا؟ وہ فرماتے ہیں: وہ حق ہی فرماتے ہیں۔ تو سب فرشتے پکارتے ہیں: حق فرمایا اللہ تعالی نے، حق فرمایا اللہ تعالی نے۔
وحی کی یہ تمام انواع اللہ تعالی کے جلال وعظمت کو بیان کرتی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی بمعنی وسوسہ:

شیطانی وسوسہ اور برا خیال جو رگوں میں خون کی طرح تیز دوڑے۔ {وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۝۰ۭ }(الأنعام :۱۱۲)اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جن و انس کے شیطانوں کو اس کا دشمن بنایا جو ایک دوسرے کو برے خیالات تلقین کرتے ہیں۔
یہ وحی بھی اللہ تعالی کے باریک و لطیف علم کو ظاہر کرتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شرعاً وحی کا معنی:

وہ وحی جو پیغام الٰہی ہے اس کے لئے قرآن میں دو انداز ہیں۔
۱۔ ایحاء : مصدری معنی میں ۔ وحی کرنا جیسے: {إنا أوحینا} ’’ہم نے وحی کی‘‘ (مفردات القرآن: وحی)۔ اپنے نبی کو کسی حکم شرعی کے بارے میں آگاہ کرنا۔
۲۔ وحی : اسم مفعول (المُوحٰی) کے معنی میں۔وہ کلام جو وحی کیا گیا جیسے:{ وَوَحْیِنَا}’’ اور ہماری وحی کی مطابق‘‘ اس اس وحی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نبی پر اپنا کلام نازل فرما کر اسے اخبار غیب اور شریعت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔
یہ شرعی معنی بظاہر لغوی معنی سے مختلف نہیں بلکہ ان میں عام وخاص ہونے کا فرق ہے ۔ لغوی معنی میں وحی عام ہے جو ہر مخفی چیز کی اطلاع کو کہتے ہیں۔ اور شرعی معنی میں وحی اللہ تعالی کی انبیاء کرام کواطلاع دینے سے خاص ہے۔ ان دونوں حیثیتوں سے شرعی وحی کی متعدد صورتیں ہیں جو قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں درج ذیل ہیں:
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شرعی وحی کی اقسام:

انبیاء ورسل کی طرف وحی کی چند صورتیں ہیں۔جن کی وضاحت قرآن مجید میں یوں کی گئی ہے:
{وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ۝۵۱ } (الشوری : ۵۱ )کسی بشر کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے سوائے وحی کے یا حجاب کے پیچھے سے یا کسی فرستادہ کو بھیجے پھر جو چاہے اسی کے حکم سے وہ وحی کرے۔بلاشبہ وہ بلند تر ہے اور حکمت والا ہے۔
{لَـقَدْصَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ ۔۔} (الفتح: ۲۷) اللہ تعالی نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم سب ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے۔
ان آیات کی رو سے وحی کی تین سے زائد صورتیں واضح ہوتی ہیں:
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عالم خواب میں:

یہ وحی کے ابتدائی مراحل تھے جیسا کا حدیث ام المؤمنین میں مذکور ہے: اَوَّلَ مَا بُدِیَ بِالوَحیِ الرُّؤیَا الصَّالِحَۃُ۔ اولاً وحی کی ابتداء رؤیائے صالحہ سے ہوئی۔جو بھی آپﷺ خواب دیکھتے وہ صبح دن کی طرح روشن ہوتا۔ ان سچے خوابوں کو علماء رؤیائے صادقہ کا نام بھی دیتے ہیں۔یا بقول بعض انہیں إرہاص کہتے ہیں۔ جن کا ذکر ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں کرتی ہیں:
اَوَّلُ مَا بُدِئَ مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ وَعِنْدَ مُسْلِمٍ: الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔ وحی کی ابتداء اولاً نیند میںنیک یعنی سچے خوابوں(صحیح مسلم کی روایت کے مطابق) سے ہوئی ۔آپ کوئی خواب ایسا نہ دیکھتے جو صبح کی روشنی کی طرح آپ کے سامنے واضح نہ ہوتا۔
خواب میں وحی کی یہ صورت بعد میں بھی برقرار رہی جو وحی خفی کی حیثیت اختیار کرگئے۔اور اللہ تعالی نے بھی ان کی تائید فرمائی جیسا کہ اوپر مذکورسورہ فتح کی آیت نمبر ۲۷ میںبیان ہوا ہے۔ابتداء میںیہ خواب اس لئے آتے تاکہ انبیاء کے دل مانوس ہوجائیں۔ ام المؤمنین کی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے علقمہ بن قیس جو سیدنا ابنؓ مسعود کے شاگرد ہیں۔ فرماتے ہیں:
إنَّ أَوَّلَ مَا یُؤْتٰی بِہِ الْأنْبِیَائُ فِی الْمَنَامِ حَتّٰی تَہْدَأَ قُلُوْبُہُمْ ، ثُمَّ یَنْزِلُ الْوَحْیُ بَعْدُ فِی الْیَقْظَۃِ۔انبیاء کرام سب سے پہلے خواب میں وحی دئے جاتے تھے حتی کہ ان کے دل تسکین میں آجاتے۔ پھر جاگتی حالت میں ان پر وحی نازل ہونے لگتی۔
اللہ تعالی نبی کے دل میں اپنا پیغام القاء کرتا جو یقین اور پختہ خیال کی صورت میںاس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔مثلاً: لیٹ کربھی اگر آپ اٹھتے تو فرماتے: میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک فوجـــ۔۔۔۔ یہ وحی ہوتی اور صحابہ اسے تسلیم کرتے۔ اسی لئے نبیﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ایسی خوابی وحی ابراہیم علیہ السلام کو بھی آئی تھی۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ۔۔} ظاہر ہے خواب اگر وحی نہ ہوتا تو والد اپنے بیٹے کو اتنی بڑی بات نہ کہتے اور اگر بیٹے کے علم میں یہ ہوتا کہ والد صاحب کا خواب کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو وہ فوراً یہی کہتے : اباجان! خواب کی بنیاد میں آپ مجھے ذبح کرنے چلے ہیں؟ مگر بیٹے کے علم میں تھا کہ میرے والد محترم اللہ کے رسول ہیں۔ ان کا خواب اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اس لئے جواب بھی فوراً دیا اور خوب دیا: {يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ} اباجان آپ وہ کرڈالئے جس کا حکم آپ کو دیا گیا ہے۔میں تیار ہوں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۔: پس پردہ وحی :یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے خاص بندوںسے مکالمہ ہوتا ہے {أَومِنْ وَّرَائِ حِجَاب} جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پس پردہ اللہ تعالیٰ ہمکلام ہوئے۔
{وَكَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا۝۱۶۴ۚ} (النساء: ۱۶۴) اور اللہ تعالی موسی سے ہم کلام ہوئے۔ یا
{وَنَادَيْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ وَقَرَّبْنٰہُ نَجِيًّا۝۵۲} (مریم:۵۲) اور ہم نے اسے طور کے دائیں جانب سے پکارا اور اسے سرگوشی میں قربت عطا کی۔
اس وحی میں براہ راست گفتگو ہوتی ہے جس کی صوتی لذت کا سرور رسول ہی جان سکتا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو بے ساختہ پکار اٹھے:
{رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ۝۰ۭ} (الاعراف:۱۴۳) اے میرے رب! مجھے دکھاکہ میں تجھے ایک نظر دیکھ سکوں۔
اسی طرح آپ ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالی آپﷺ سے بھی ہم کلام ہوئے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا: فأَوْحَی اللہُ إِلَیَّ فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ’’اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی اور پچاس نمازیں دن رات میں فرض کردیں۔‘‘(صحیح مسلم ۱؍۱۴۶ کتاب الایمان) اس وحی میں نبی، اللہ کا کلام سنتا ہے مگر اسے دیکھ نہیں پاتا۔یہ پس پردہ وحی ہوتی ہے۔ {أوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ} (الشوری: ۵۱) یہ وحی کلام الٰہی کہلاتی ہے
 
Top