• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وراثت کے مسئلہ پر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قظع کلامی کا صحیح مفہوم

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97



اعتراض:-

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہم نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔
جواب:-
دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نی ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت طلب دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاں نہیں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔
 

سچا مسلمان

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2013
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
0



اعتراض:-

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہم نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔
جواب:-
دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نی ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت طلب دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاں نہیں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔
یہ میرا جواب نہیں ہے بلکہ ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے میں خود آپ کی تحریر سے جو میرے دماغ میں سوال پیدا ہوئے ہیں انکا جواب چاہتا ہوں۔ اور میں یہ بھی واضع کردوں کہ میرا تعلق خدا نا خواستہ منکر حدیث سے نہیں ہے۔
وہ آنحضرت (ص) جو اپنی مدبرانہ سوچ میں علم میں عقل میں اللہ کے بعد تمام کائنات میں سب سے افضل ہیں انہوں نے وراثت سے متعلق جو حدیث صادر فرمائی اس سے
بی بی فاطمہ کو کیوں محروم رکھا ۔ جبکہ میرے جیسا کم عقل اور جاہل آدمی بھی اتنا سمجھتا ہے کہ اگر میں کسی کو اپنی وراثت نہ دینا چاہوں خیر میں تو نبی نہیں جو میری وراثت نہ ہو پر فرض کرلیںکوئی شرعی عذر ہو کہ جسکی وجہ سے میں اپنی بیٹی کو وراثت نہ دےسکوں گا تو میں اسکا ذکر اپنی بیٹی سے ضرور کروں گا تاکہ بعد میں جس کو وہ وراثت ملنی ہو اس سے میری بیٹی کا جھگڑا نہ ہو۔ حضرت ابوبکر (ر)کا تو وراثت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا انکو تو یہ بات بتادی اور جن کو ضروری تھی یہ بات بتانا جن سے آپ اتنی محبت کرتے تھے کہ جب کہیں جاتے تو سب سے آخر میں بی بی فاطمہ سے ملاقات کرتے تھے اور جب واپس لوٹتے تو سب سے پہلے ان سے ہی ملتے تھے دونوں باپ بیٹی کی روز ہی ملاقات ہوتی تھی اچھا چلیں اگر بی بی فاطمہ کواسلئے نہیں بتایا کہ کہیں آپ رنجیدہ نہ ہوجائیں اسلئے نہیں بتایا تو حضرت علی کو بتادیتے تاکہ وہ یہ بات بی بی فاطمہ تک یہ بات پہنچادیں۔ آپ(ص) کی وراثت میں حضرات حسن و حسین کا بھی حصہ تھا تو چلیں انکو ہی بتادیتے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
بھائی اللہ کے رسول نے انکو بتانا مقصود نہیں سمجھا ہوگا اور دوسری بات بھائی ابوبکر رضی اللہ سنہ انکے سب سے قریبی دوست اور ہر معملے میں انکے ساتھ رہنے والے تھے عمر کے حوالے سے بھی برابر تھے جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی عمر ان سے کہیں چھوٹی تھی ۔۔۔۔۔بھائی میرے ابوبکر کو انہوں نے خلیفہ بنانا تھا اور اپ جن سب کا زکر کر رہے ہیں وہ سب ابوبکر سے کہیں چھوٹے تھے ۔ اور ابوبکر صدیق کا لقب انکو ایسے ہی نہیں پڑا ۔۔۔۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ اپ کے سب سے قریبی تھے اپنے سب رشتہ داروں سے سب سے زیادہ عزیز ۔۔۔۔جب حجرت کی تو ساتھ تھے کوئی لمحہ ایسا نا تھا کہ زندگی کے تمام معملات میں انکی رائے نہ لی ہو اور اپکی رائے کافی معانی رکھی جاتی تھی اور یاد رہے ۔۔۔ اگر وراثت کا حصہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی تھیں ،،،،اور انکا بھی حصہ ہوتا اور ان ازواج میں انکی خود کی بیٹی بھی تھیں۔۔۔وہ پھر ایسا کرتے ہی کیوں ۔۔۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
یہ میرا جواب نہیں ہے بلکہ ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے میں خود آپ کی تحریر سے جو میرے دماغ میں سوال پیدا ہوئے ہیں انکا جواب چاہتا ہوں۔ اور میں یہ بھی واضع کردوں کہ میرا تعلق خدا نا خواستہ منکر حدیث سے نہیں ہے۔
وہ آنحضرت (ص) جو اپنی مدبرانہ سوچ میں علم میں عقل میں اللہ کے بعد تمام کائنات میں سب سے افضل ہیں انہوں نے وراثت سے متعلق جو حدیث صادر فرمائی اس سے
بی بی فاطمہ کو کیوں محروم رکھا۔ جبکہ میرے جیسا کم عقل اور جاہل آدمی بھی اتنا سمجھتا ہے کہ اگر میں کسی کو اپنی وراثت نہ دینا چاہوں
خیر میں تو نبی نہیں جو میری وراثت نہ ہو پر فرض کرلیںکوئی شرعی عذر ہو کہ جسکی وجہ سے میں اپنی بیٹی کو وراثت نہ دےسکوں گا تو میں اسکا ذکر اپنی بیٹی سے ضرور کروں گا تاکہ بعد میں جس کو وہ وراثت ملنی ہو اس سے میری بیٹی کا جھگڑا نہ ہو۔ حضرت ابوبکر (ر)کا تو وراثت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا انکو تو یہ بات بتادی اور جن کو ضروری تھی یہ بات بتانا جن سے آپ اتنی محبت کرتے تھے کہ جب کہیں جاتے تو سب سے آخر میں بی بی فاطمہ سے ملاقات کرتے تھے اور جب واپس لوٹتے تو سب سے پہلے ان سے ہی ملتے تھے دونوں باپ بیٹی کی روز ہی ملاقات ہوتی تھی
1۔ نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہرگز ہرگز محروم نہ کیا بلکہ یہ اللہ کا حکم اور تمام نبیوں میں اللہ کی سنت مبارکہ تھی جسے نبی کریمﷺ نے اللہ کے رسول ہونے کے ناطے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے سامنے واضح فرما دیا تھا: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ما تركنا صدقة ۔۔۔ متفق عليه

2۔ نبی کا فرض ہے کہ جو اس پر وحی ہو اسے وہ لوگوں تک پہنچا دے: ﴿ يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك ﴾ ۔۔۔ المائدة لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ہر شخص کو نبی کریمﷺ بذاتِ خود بتائیں یہ محال اور تکلیف ما لا یطاق ہے۔ بلکہ آپﷺ اللہ کے احکام کبھی کسی صحابی کو اکیلے میں، کبھی زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجمع میں بیان فرما دیتے اور ساتھ ہی ان حکم دیتے کہ وہ ان احکامات کو دوسروں تک پہنچا دیں: « نضَّر اللهُ امرءًا سمع منا حديثًا فحفِظه حتى يُبلِّغَه غيرَه ، فإنه رُبَّ حاملِ فقهٍ ليس بفقيهٍ ، و رُبَّ حاملِ فقهٍ إلى من هو أفْقَهُ منه »

اچھا چلیں اگر بی بی فاطمہ کواسلئے نہیں بتایا کہ کہیں آپ رنجیدہ نہ ہوجائیں اسلئے نہیں بتایا تو حضرت علی کو بتادیتے تاکہ وہ یہ بات بی بی فاطمہ تک یہ بات پہنچادیں۔
اس بات کا سیدنا علی وعباس رضی اللہ عنہما ودیگر بہت سے صحابہ کرام مثلاً سادات ابو بکر، عمر، عثمان، عبد الرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین ودیگر کو علم تھا، انہوں نے اس حدیث مبارکہ کو نبی کریمﷺ سے سن رکھا تھا۔ اس کی وضاحت صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ میں موجود ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان، عبد الرحمن، زبیر، سعد، علی اور عباس رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا تھا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے نبی کریمﷺ کا فرمانِ مبارک « نحن معاشر الأنبياء لا نورث ما تركنا صدقة » نہیں سن رکھا۔ سب نے جواب دیا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

آپ(ص) کی وراثت میں حضرات حسن و حسین کا بھی حصہ تھا تو چلیں انکو ہی بتادیتے ۔
نبی کریمﷺ کی وراثت اگر عام لوگوں کی طرح تقسیم ہونی ہوتی تو اس میں سیدنا علی اور حضرت حسنین رضی اللہ عنہم کا کوئی حصہ نہ ہوتا کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ کے داماد اور چچا زاد بھائی تھے۔ داماد کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور وہ چچازاد بھائی کے طور پر بھی وارث نہ بنتے کیونکہ نبی کریمﷺ کے چچا عباس موجود تھے۔ اور چچا کی موجودگی میں چچا زاد وارث نہیں ہوتا۔ اسی طرح حضرات حسنین رضی اللہ عنہما نبی کریمﷺ کے نواسے اور چچازاد بھائی کے بیٹے تھے۔ نواسے اولو الارحام میں شمار ہوتے ہیں اور اصحاب الفرائض اور عصبہ کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے جبکہ سیدنا عباس کی وجہ سے وہ چچازاد کے اولاد کے طور پر بھی وارث نہیں بن سکتے تھے۔
اگر نبی کریمﷺ کی وراثت عام لوگوں کی طرح تقسیم ہونی ہوتی تو اس میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حصہ نصف، ازواج مطہرات (امہات المؤمنین) رضی اللہ عنہن کا مشترکہ حصہ آٹھواں اور باقی مال بطور عصبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا ہوتا۔ لیکن جیسا کہ پہلے وضاحت ہوچکی ہے کہ اللہ کی تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں یہ سنت مبارکہ رہی ہے کہ انبیاء کی وراثت عام لوگوں کی طرح تقسیم نہیں کی جاتی۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top