• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وراثت

عمران ہانی

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
17
السلام علیکم ورحمۃ اللہ،
محترم گزارش عرض یہ ہیکہ ایک شخص نے اپنے پراویڈینٹ فنڈ، انشورنس، اور ہاوس بلڈنگ سے قرض لیکر جس میں سود بھی شامل ہوتا ہے اپنا مکان تعمیر کیا اب جبکہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے تو اسکی اولاد کیلئے اس کے ترکہ کا کیا حکم ہے کیا اولاد لے سکتی ہے یا نہیں؟ کہیں یہ سودی معاملات میں شامل ہونیکے مترادف تو نہیں؟براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,554
پوائنٹ
641
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
سوال :كيا مسلمان كےليے سودي قرضے سےخريدي گئي جائداد كا وارث بننا جائز ہے ؟
جواب :جس نے بھي سودي قرض ليا اورپھر اس قرضے سے جائداد خريدي تو اس كے فوت ہونے كےبعد يہ جائداد بھی اس كے تركہ ميں شامل ہوگی۔ اور وہ وراثت بنے گي ، اور مرنے والے شخص كوسودي لين دين كرنے كي بنا پر گناہ ہوگا ۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالی كہتے ہيں:
( حرام كمائي كامال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے مثلا سود ، لھذا جب سودي لين دين كرنے والا شخص فوت ہوجائے تو ورثاء كے ليے اس كا مال حلال ہے ، ليكن جواشياء بعينہ حرام ہيں مثلا شراب وغيرہ تو يہ نقل كرنے والے اور جس كي طرف منتقل ہو اس پر بھي حرام ہے ، اور اسي طرح جوچيز حرام ہو اور اس ميں حرمت باقي رہے مثلا غصب اور چوري كردہ اشياء ، تو اگر كسي انسان نے كوئي چيز چوري كي اور مرگيا تووہ چيز وارثوں كے ليے حلال نہيں ہوگي اور پھر اگر اس كے مالك كا علم ہو تووہ چيز اسے واپس كي جائے گي وگرنہ مالك كي جانب سے صدقہ كردي جائے گي ) انتھي ۔ لقاءات الباب المفتوح سے ليا گيا ( 1 / 304 )
اور مستقل فتوي كميٹي نے سودي قرضہ سے گھربنانے والے شخص كےبارہ ميں فتوي ديا كہ اس پر توبہ واستغفار كرنا لازم ہے ، ليكن عمارت منہدم كرنا لازم نہيں بلكہ رہائش وغيرہ كركے نفع حاصل كرنا جائز ہے۔ديكھيں فتاوي اللجنة الدائمة [/RB]( 13 / 411 )

واللہ اعلم ۔
الاسلام سوال وجواب
اسی بارے شیخ صالح المنجد ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوءے لکھتے ہیں:
بلا شبہ موجودہ وقت اور خاص كرآپ كے ملك ميں سياحت كے شعبہ ميں كام كرنا بہت سي شرعي مخالفات كولازم كرتا ہے جس ميں مرد وعورت كے اختلاط اور بے پردگي كي ديكھ بھال اور بعض اوقات تو شراب اور دوسري حرام اشياء بھي اس ميں شامل ہوتي ہيں ، اگرتومعاملہ ايسا ہے توپھر آپ كےوالد كا مال حرام ہے اور علماء كرام اسے مال مختلط كانام ديتے ہيں ۔
اور علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، ليکن اس سے بچنا اولي اورافضل ہے۔
اور آپ كےوالد كا ضروريات ممنوعات كومباح كرديتي ہيں، والے قاعدہ سے دليل لينا صحيح نہيں ، كيونكہ حلال كمانے كے بہت ذرائع اور وسائل ہيں اور فرمان باري تعالي ہے:
{اور جوكوئي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرے اللہ تعالي اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھي نہيں ہوتا}
اور اگرانسان اپنے ليے يہ دروازہ كھول لے توضرورت كودليل بنا كر حرام كے ہردروازے ميں داخل ہوجائے گا ۔
آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ حرام خوري كا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر كچھ بھي نہ ہو پھر بھي حرام كھانے والےشخص كي دعا كبھي قبول نہيں ہوتي جيسا كہ صحيح مسلم ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي حديث ہے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
بلاشبہ اللہ تعالي پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہي قبول فرماتا ہے ... ايك ايسے شخص كا ذكر كيا گيا جس نے بہت طويل اور لمبا سفر طے كيا اس كے بال بكھرے ہوئے اور پراگندہ حالت ميں وہ آسمان كي جانب ہاتھ بلند كيے يارب يارب كہے اور اس كا كھانا حرام كا اس كا پينا حرام كا اور اس كا لباس بھي حرام كا اوراس كي غذا ہي حرام خوري ہے تواس كي دعا كہاں قبول ہو ۔ صحيح مسلم ( 1015 )
اور آپ كے والد كا اس حرام ملازمت سے مال كمانے كوعلماء كرام حرام كمائی( مالامحرمالكسبہ ) كا نام ديتےہيں يعني اس نے حرام طريقے سے مال كمايا ہے ، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ مال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے ۔
ليكن جوشخص يہ مال كسي مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں ۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالی كہتے ہيں :
بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائي كا گناہ صرف كمائي كرنے والے پرہے نہ كہ كمائي كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائي والے شخص سے حاصل كيا، بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ ۔
يہ قول قوي اور وجيہ ہے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودي سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودي عورت كي جانب سے ہديہ كردہ بكري كا گوشت كھايا ، اور يہودي كي دعوت قبول كي ۔
يہ معلوم ہونا چاہيے كي اكثر يہودي سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كي تقويت رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھي ہوتي ہے :
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضي اللہ تعالي عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كي جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے )۔ديكھيں القول المفيد علي كتاب التوحيد ( 3 / 112 )
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھي كہنا ہے :
جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسي اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائي والے سے اصل كيا ہو . اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كي دليل ہے كہ كمائي كرنے والے كےعلاوہ كسي اورپر يہ حرام نہيں۔تفسير سورۃ البقرة ( 1 / 198 )
تواس بنا پر آپ اپنے والد كي وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كي استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولي اور بہتر اور اسي ميں ورع وتقوي ہے۔
واللہ تعالي اعلم ،مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں۔ احكام القرآن لابن العربي ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوي الفقھية الكبري للھيتمي ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 )
واللہ اعلم ۔
الاسلام سوال وجواب
درج بالا فتاوی سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ
۱۔ حرام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حرام بنفسہ ہے یعنی جو اپنی ذات میں حرام ہو تو یہ مال وراثت کے طور پر منتقل نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کسی کے والد کی شراب کی فیکڑی تھی یادوسروں کی غصب کردہ زمین تھی یا چور ی وڈاکے کا مال تھاتو یہ مال وراثت نہیں بنے گا بلکہ اصل مالکان کو لوٹا یا جاے گا۔
۲۔ حرام کی دوسری قسم حرام لغیرہ ہے یعنی جو شیء بنفسہ حرام نہ ہو لیکن فاعل کے فعل کی وجہ سے حرام قرار پاے جیسا کہ مال تجارت یا بیع و شراء میں جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر یا سود یا انشورنس وغیرہ سے مال کمانا ۔
واللہ اعلم بالصواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
الله جزائے خیر عطا کریں عمران ہانی بھائی اور علوی بھائی کو، اور ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں کہ اس سوال وجواب سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔
 
Top