• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے ابو الجوزاء والی روایت کی حقیقت

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اس حدیث کی صحت، براہ کرم ،تفصیل سے وضاحت کریں۔
« حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزا أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عاشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السما حتى لا يكون بينه وبين السما سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق » سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 92 حدیث موقوف
کہ ’’ابو جوزاء اوس بن عبداللہ بیان کرتے ہیں۔ اہل مدینہ شدیدقحط میں مبتلا ہو گئے انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ بنادو کہ آپ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ ہو راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے ایسا کیا اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھاس اگ گئی اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی کی وجہ سے وہ پھول گئے اس سال کو عام الفتق (بارش کا سال) قرار دیا گیا۔‘‘
جزاک اللہ خیر!
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک بہت اچھی تصنیف علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب و سنت پر موجود ہے جس میں قائلین وسیلہ کی ہر دلیل کا بہت اچھے انداز میں جواب دیا گیا ہے جس میں اس حدیث کے متعلق بھی تحقیق شامل ہے ہے جس کا لنک درج ذیل ہے۔

حلال اور حرام وسیلہ از علامہ البانی رحمہ اللہ

فی امان اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ ابو عمر بھائی۔
کلیم بھائی، افادہ عام کی خاطر اس حدیث کی تخریج ازراہ کرم اس کتاب سے نکال کر یہاں بھی ٹائپ کر کے لگا دیں۔ پیشگی شکریہ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ!​
اس حدیث کی صحت، براہ کرم ،تفصیل سے وضاحت کریں۔
حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزا أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عاشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السما حتى لا يكون بينه وبين السما سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق۔
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 92 حدیث موقوف

ابو جوزاء اوس بن عبداللہ بیان کرتے ہیں۔ اہل مدینہ شدیدقحط میں مبتلا ہو گئے انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ بنادو کہ آپ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ ہو راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے ایسا کیا اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھاس اگ گئی اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی کی وجہ سے وہ پھول گئے اس سال کو عام الفتق(بارش کا سال) قرار دیا گیا۔
جزاک اللہ خیر!
سنن دارمی کی روایت
(حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق ... سنن الدارميں المقدمة، باب ما أكرم الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم بعد موته، حدیث نمبر 92)
ترجمہ: ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے، تو انہوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی قبر میں سوراخ بناؤ تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ رہے، راوی ذکر کرتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا، تو شدید بارش ہوئی، حتیٰ کہ نباتات اگ پڑیں اور اونٹ موٹے ہوگئے حتی کہ وہ (ان کی کھال) چربی (کی زیادتی) سے پھٹنے لگے، تو اس سال کا نام ہی ’عام الفتق‘ پڑ گیا۔‘‘​
حدیث پر حکم
یہ موقوف حدیث ضعیف ہے۔
یہ روایت نہ تو صحیح ہے (جیسا کہ اوپر ذکر کیا) کہ اس کو کسی عقیدے کی بنیاد بنایا جائے۔ اور نہ ہی اس سے غلط وسیلے والا موقف ثابت ہوتا ہے۔ اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اللہ سے دعا کرتے وقت اللہ کو کسی فوت شدہ شخص (نبی یا ولی) کا وسیلہ پیش کر سکتا ہے۔ اس (ضعیف) روایت میں نہ تو دعا کا ذکر ہے اور نہ ہی نبی کریمﷺ کو دعا میں وسیلہ بنایا گیا ہے۔
اگر اس روایت کو بالفرض بالفرض صحیح سمجھ بھی لیا جائے تب بھی اس سے دعا میں اپنے اور اللہ کے درمیان فوت شدگان کو وسیلہ بنانا نہ قریب سے ثابت ہوتا ہے نہ دور سے، نہ ہی اس سے نبی کریمﷺ سے مدد مانگنا ثابت ہوتا ہے، اگر کچھ ثابت ہوتا بھی ہے تو صرف یہ کہ نبی کریمﷺ کی ذات، جسدِ اطہر اور کپڑوں وغیرہ سے جس طرح آپ کی زندگی مبارک میں تبرک لینا جائز تھا، آپﷺ کی وفات کے بعد بھی آپ کے جسد اطہر سے تبرک لینا جائز ہے، اور امام دارمی﷫ نے بھی اس حدیث سے یہی استدلال کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ حدیث کیلئے یہ باب قائم کیا گیا ہے: ( باب ما أكرم الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم بعد موته)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، جس سے کسی قسم کا کوئی عقیدہ اخذ کرنا جائز نہیں۔
بلکہ صحیح وصریح روایات میں تو صحابہ کرام کا متفقہ طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ قحط وغیرہ کے موقع پر وہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں تو آپ کے پاس آکر دعا کرا لیتے، (جو وسیلے کی تیسری جائز صورت ہے) اور آپ کے اللہ کے پاس جانے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آ کر یا دور ہی سے اللہ کو آپ کا وسیلہ ڈالتے، وہ نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباس﷜ کے پاس آ کر ان سے دعا کرایا کرتے تھے:
عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال فيسقون ... صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطو، حدیث نمبر 1010)
کہ ’’جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عمر﷜ سیدنا عباس﷜ کے پاس آکر ان سے دعا کرایا کرتے کہ اے اللہ! پہلے ہم آپ کو نبی کریمﷺ کا وسیلہ ڈالا کرتے تو آپ بارش برسا دیتے اب (نبیﷺ کے فوت کے بعد) ہم آپ کو نبی کریمﷺ کے چچا کا وسیلہ ڈالتے ہیں، ہم پر بارش برسا دیجئے، تو بارش ہو جایا کرتی۔‘‘​
واللہ تعالیٰ اعلم​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کثیرا انس بھائی جان۔۔۔۔اسی حدیث سے متعلق ہمارے فیس بک کے پیج پر بھی یہاں ایک صاحب نے حال ہی میں سوال پوچھا تھا۔ امید ہے کہ اس جواب سے ان کی بھی تشفی ہو جائے گی۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ماشاء اللہ، علمائے کرام کی صحبت کا اپنا ہی مزا ہے۔ فورم ہی کے طور پر سہی لیکن علم میں اضافہ کیلئے یہ چند منٹ کی صحبت ہی بہت کافی ہے۔ جناب انس صاحب، اللہ میاں آپ کو جزا عطا فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔آمین۔۔۔۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
آپ کے جوابات کا بھت شکریہ، بھائ جان میں نے شیخ اللبانی کی وہ کتاب پڑھی ھوئ ھے، لیکن بد قسمتی سے چند بریلوی حضرات نے اس کتاب کا رد بھی لکھ دیا ھے۔ جس میں انھوں نے شیخ اللبانی کی ایک ایک بات کا رد لکھا ھوا ھے۔ اب سمجھ نھی آتی کہ اس کا جواب کیا ھو گا۔ ان بریلوی حضرات کے لکھے گئے رد میں سے، آدھے سے زیادہ کا تو میں خد ھی جواب دے سکتا ھوں۔ بس اس ھدیث کے متعلق کچھ دشواری کا سامنا ھے، اسی لیے میں آپ سے اس حدیث کی صحت پر مشورہ چاھتا ھوں۔ برائے مھربانی اس میں میری مدد فرمایں، تا کہ میں ان کی لکھی گئ کتاب کا مکمل رد لکھ سکوں۔ اور اگر آپ کو اس بارے میں کوئ اندازہ نھی ھے، تو کیا آپ میں سے کوئ صرف ایک عربی page کا English یا اردو میں ترجمہ کر دے تو وہ ھی کافی ھو گا۔ وھ پیج یھاں موجود ھے۔
Multaqa Ahl al-Hadeeth - View Single Post - Did Ayesh Leave A Hole In the Roof Of Her House?

جزاک اللہ خیر
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ماشاء اللہ، علمائے کرام کی صحبت کا اپنا ہی مزا ہے۔ فورم ہی کے طور پر سہی
اس حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ!
لیکن میں وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مي، کوئی عالم دین نہیں، ایک ادنیٰ طالب ہوں، لیکن علمائے کرام﷭ کے قدموں کی خاک بننا چاہتا ہوں! جزى الله عنا علماءنا واساتذتنا بما هم اهله
 
Top