بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ!
اس حدیث کی صحت، براہ کرم ،تفصیل سے وضاحت کریں۔
حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزا أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عاشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السما حتى لا يكون بينه وبين السما سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق۔
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 92 حدیث موقوف
ابو جوزاء اوس بن عبداللہ بیان کرتے ہیں۔ اہل مدینہ شدیدقحط میں مبتلا ہو گئے انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ بنادو کہ آپ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ ہو راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے ایسا کیا اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھاس اگ گئی اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی کی وجہ سے وہ پھول گئے اس سال کو عام الفتق(بارش کا سال) قرار دیا گیا۔
جزاک اللہ خیر!
سنن دارمی کی روایت
(حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق ... سنن الدارميں المقدمة، باب ما أكرم الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم بعد موته، حدیث نمبر 92)
ترجمہ: ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے، تو انہوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی قبر میں سوراخ بناؤ تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ رہے، راوی ذکر کرتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا، تو شدید بارش ہوئی، حتیٰ کہ نباتات اگ پڑیں اور اونٹ موٹے ہوگئے حتی کہ وہ (ان کی کھال) چربی (کی زیادتی) سے پھٹنے لگے، تو اس سال کا نام ہی ’عام الفتق‘ پڑ گیا۔‘‘
حدیث پر حکم
یہ موقوف حدیث ضعیف ہے۔
یہ روایت نہ تو صحیح ہے (جیسا کہ اوپر ذکر کیا) کہ اس کو کسی عقیدے کی بنیاد بنایا جائے۔ اور نہ ہی اس سے غلط وسیلے والا موقف ثابت ہوتا ہے۔ اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اللہ سے دعا کرتے وقت اللہ کو کسی فوت شدہ شخص (نبی یا ولی) کا وسیلہ پیش کر سکتا ہے۔ اس (ضعیف) روایت میں نہ تو دعا کا ذکر ہے اور نہ ہی نبی کریمﷺ کو دعا میں وسیلہ بنایا گیا ہے۔
اگر اس روایت کو بالفرض بالفرض صحیح سمجھ بھی لیا جائے تب بھی اس سے دعا میں اپنے اور اللہ کے درمیان فوت شدگان کو وسیلہ بنانا نہ قریب سے ثابت ہوتا ہے نہ دور سے، نہ ہی اس سے نبی کریمﷺ سے مدد مانگنا ثابت ہوتا ہے، اگر کچھ ثابت ہوتا بھی ہے تو صرف یہ کہ نبی کریمﷺ کی ذات، جسدِ اطہر اور کپڑوں وغیرہ سے جس طرح آپ کی زندگی مبارک میں تبرک لینا جائز تھا، آپﷺ کی وفات کے بعد بھی آپ کے جسد اطہر سے تبرک لینا جائز ہے، اور امام دارمی نے بھی اس حدیث سے یہی استدلال کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ حدیث کیلئے یہ باب قائم کیا گیا ہے:
( باب ما أكرم الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم بعد موته)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، جس سے کسی قسم کا کوئی عقیدہ اخذ کرنا جائز نہیں۔
بلکہ صحیح وصریح روایات میں تو صحابہ کرام کا متفقہ طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ قحط وغیرہ کے موقع پر وہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں تو آپ کے پاس آکر دعا کرا لیتے، (جو وسیلے کی تیسری جائز صورت ہے) اور آپ کے اللہ کے پاس جانے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آ کر یا دور ہی سے اللہ کو آپ کا وسیلہ ڈالتے، وہ نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباس کے پاس آ کر ان سے دعا کرایا کرتے تھے:
عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال فيسقون ... صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطو، حدیث نمبر 1010)
کہ ’’جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عمر سیدنا عباس کے پاس آکر ان سے دعا کرایا کرتے کہ اے اللہ! پہلے ہم آپ کو نبی کریمﷺ کا وسیلہ ڈالا کرتے تو آپ بارش برسا دیتے اب (نبیﷺ کے فوت کے بعد) ہم آپ کو نبی کریمﷺ کے چچا کا وسیلہ ڈالتے ہیں، ہم پر بارش برسا دیجئے، تو بارش ہو جایا کرتی۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم