• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم وفود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وفود

اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کررہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔ قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر چہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبویﷺ میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آچکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کررہے ہیں۔
۱۔ وفد عبد القیس :
اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت کے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبیﷺ کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اور نبیﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبیﷺ سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دوراندیشی اور (۲)بُردباری۔
دوسری باراس قبیلے کا وفد جیساکہ بتایا گیا وفود والے سال میںآیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا ، جو نصرانی تھا ، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔1
۲۔وفددَوس :
یہ وفد ۷ ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسیؓ اس وقت بگوش ِ اسلام ہوئے تھے ، جب رسول اللہﷺ مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی دعوت وتبلیغ کاکام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر بددعا کردیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 شرح صحیح مسلم للنووی۱/۳۳، فتح الباری ۸/۸۵، ۸۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے آگے بڑھ کر خیبر میں آپ کا ساتھ پکڑ لیا۔
۳۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں :
حضرت فَرْوَہ ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن ) تھا اور عملداری گرد وپیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ ( ۸ ھ ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی ، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہﷺ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہوجائیں یاموت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر ان کی گردن مار دی گئی۔1
۴۔ وفد صَدَاء :
یہ وفد ۸ ھ میں جعِرّانہ سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ نے چار سو مسلمانوں کی ایک مہم تیار کرکے اسے حکم دیا کہ یمن کا وہ گوشہ روند آویں جس میں قبیلہ صَدَاء رہتا ہے۔ یہ مہم ابھی وادیٔ قناۃ کے سرے پر خیمہ زن تھی کہ حضرت زیاد بن حارثؓ صدائی کو اس کا علم ہوگیا۔ وہ بھاگم بھاگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ میرے پیچھے جولوگ ہیں میں ان کے نمائندہ کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں۔ لہٰذا آپ لشکر واپس بلالیں۔ اور میں آپ کے لیے اپنی قوم کا ضامن ہوں۔ آپ نے وادیٔ قناۃ ہی سے لشکر واپس بلالیا۔ اس کے بعد حضرت زیاد نے اپنی قوم میں واپس جاکر انہیں ترغیب دی کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ان کی ترغیب پر پندرہ آدمی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور قبول اسلام پر بیعت کی۔ پھر اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی تبلیغ کی۔ اور ان میں اسلام پھیل گیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کے ایک سو آدمیوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کیا۔
۵۔ کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ کی آمد :
یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا ، اور نبیﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگروہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہﷺ غزوہ طائف ( ۸ ھ ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادالمعاد ۳/۴۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نے لکھا کہ رسول اللہﷺ نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرادیا ہے جو آپﷺ کی ہجو کرتے اور آپﷺ کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔ قریش کے بچے کھچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگرتمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہﷺ کے پاس اُڑکر آجاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آجائے تو آپﷺ اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط وکتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کوزمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکاروہ مدینہ آگیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہﷺ کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کردوں تو آپﷺ اس کی ان چیزوں کو قبول فرمالیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو ، یہ شخص تائب ہوکر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہوکر آیا ہے۔
اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے :


بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول


''سعاد دور ہوگئی تو میرا دل بے قرارہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیںدیا گیا۔ ''
اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے :


نـبـئت أن رسـول اللہ أوعــدنــی والـعـفــو عـند رسول اللہ مأمول
مـہـلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ الـ ـقـرآن فـیـہا مـواعیـظ وتفصیــل
لا تأخذن بأقوال الـــوشـاۃ ولــم أذنـب ولـو کـثـرت فـي الأقاویل
لـقــد أقـوم مقامـاً لـــو یقـوم بـہ أرای وأسمـع مـا لـو یسـمع الفیل
لـظـل یـرعـــد إلا أن یـکون لـــہ مـن الـرسول بـإذن اللہ تـنـویــل
حتی وضعت یمینی ما أنــازعـــہ فـی کـف ذی نـقـمات قیلہ القیـل
فـلہـو أخـوف عـنـدی إذ أکلمــہ وقیل: إنـک منســـوب ومسئــول
من ضیغم بضراء الأرض مخـدرۃ فـی بطــن عـثـر غیــل دونـہ غیل
إن الرســول لنـور یستضــاء بـــہ مـہنــد من سیـوف اللہ مسـلـول


''مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں - وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے- اگر چہ میر ے بارے میں باتیںبہت کہی گئی ہیں ، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہاہو ں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہواور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے ، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں - درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں ) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی - تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ یقینا رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں۔''
اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمدپر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :
یمشون مشی الجمال الزہر یعصمہم
ضـــرب إذا عـرد السود التنابیل
''وہ (قریش ) خوبصورت ، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ''
لیکن جب وہ مسلمان ہوگیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آگئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہوگئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا :
من سرہ کــرم الحیاۃ فلا یـزل في مـقـنب من صالحی الأنصار
ورثـوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیــار ہــم بنو الأخیــــار
''جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ داد ا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۶۔ وفد عذرہ :
یہ وفد صفر ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ تو ان کے نمائندے نے کہا : ہم بنوعذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبیﷺ نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کا ہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں ) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔
۷۔ وفد بلی :
یہ ربیع الاول ۹ ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابوالضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیا فت میں بھی اجر ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہاں ! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کروگے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا : کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یاپھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا : تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پاجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۸۔ وفد ِ ثقیف :
یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ ذی قعدہ ۸ ھ میں جب غزوہ ٔطائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی ، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے ، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہرطرف سے تیروں کی بوچھاڑ کردی اور اسے جان سے ماڑ ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد وپیش کا علاقہ جو مسلمان ہوچکا ہے ، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کرکے طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی ، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیاجائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیاجاچکاہے۔ اس لیے اس نے کہا : میں یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دوآدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگادیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہوگیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔
جب یہ لوگ خدمت نبویﷺ میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آتے جاتے رہے اور آپﷺ انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ ٔ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری ، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود''لات '' کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہﷺ کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ''لات'' کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہﷺ خود فرمادیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپﷺ نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنادیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین وقرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمانؓ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آکر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمانؓ بن ابی العاص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپﷺ کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے مخاطب کر کے کہا :''ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہوؤ۔''یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔
بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آکر اصل حقیقت کوچھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن وغم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دوتین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے ، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس واپس جائے اور آپﷺ کے مطالبات تسلیم کرلے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہوچکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
ادھر رسول اللہﷺ نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں چند صحابہؓ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے کھڑے ہوکر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرزمار کر خود ہی گرپڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔ یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہوگیا۔ کہنے لگے : اللہ مغیرہ کو ہلا ک کرے ، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہؓ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کردیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالدؓ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرمادیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔1
۹۔ شاہانِ یمن کا خط:
تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال ، نعیم بن عبدکلال اور رعین ، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ام کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک واہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہل ِ ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا ، بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ اداکریں۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔
۱۰۔ وفد ِ ہمدان :
یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ِ خدمت ہوا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر ، جو کچھ انہوں نے مانگاتھا عطا فرمادیا اور مالک بن نمطؓ کو ان کا امیر مقرر کیا ، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپﷺ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۳/۲۶، ۲۷، ۲۸، ابن ہشام ۲/۵۳۷ تا ۵۴۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالدؓ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علیؓ نے قبیلہ ٔ ہمدان کے پاس جاکر رسول اللہﷺ کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کو ان کے حلقہ بگوش ِ اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گرگئے۔ پھر سر اٹھاکر فرمایا؛ ہمدان پر سلام ، ہمدان پر سلام۔
۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ :
یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لاچکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لے گئے۔ اور دونو ں ہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکی۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر ، اپنی رحمت پھیلا ، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کردے ، راحت پہنچادے ، خوشگوار ہو ، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو ، جلد آئے ، دیر نہ کرے ، نفع بخش ہو ، نقصان رساں نہ ہو ، اے اللہ ! رحمت کی بارش ، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی ، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب کر ، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔1
۱۲۔وفد نجران :
( ن کو زبر ، ج ساکن۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتمل تھا۔ تیز رفتار سوار ایک دن میں پورا علاقہ طے کر سکتا تھا۔2اس علاقہ میں ایک لاکھ مردان جنگی تھے، جو سب کے سب عیسائی مذہب کے پیرو کار تھے)
نجران کا وفد ۹ ھ میں آیا۔ یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ۲۴ آدمی اشراف سے تھے۔ جن میں سے تین آدمیوں کو اہل نجران کی سربراہی و سرکردگی حاصل تھی۔ ایک عاقب جس کے ذمہ امارت و حکومت کا کام تھا۔ اور اس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا سید جو ثقافی اور سیاسی امور کا نگراں تھا۔ اور اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا۔ تیسرا اسقف ( لاٹ پادری) جو دینی سربراہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا۔
وفد نے مدینہ پہنچ کر نبیﷺ سے ملاقات کی، پھر آپ نے ان کچھ سوالات کیے ، اور انہوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ اور قرآن حکیم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اور دریافت کیا کہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے اس روز دن بھر توقف کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۳/۴۸
2 فتح الباری ۸/۹۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (۳: ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ )
''بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ پھر تمہارے پاس علم آجانے کے بعد کوئی تم سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں حجت کرے تو اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو پھر مباہلہ کریں (اللہ سے گِڑ گڑا کر دعاکریں ) پس اللہ کی لعنت ٹھہرائیں جھوٹوں پر۔''
صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے انہی آیات کریمہ کی روشنی میں انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے قول سے آگاہ کیا۔ اور اس کے بعد دن بھر انہیں غور وفکر کے لیے آزاد چھوڑ دیا لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر اگلی صبح ہوئی - درآنحالیکہ وفد کے ارکان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات تسلیم کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر چکے تھے -- تو رسول اللہﷺ نے انہیں مباہلے کی دعوت دی۔ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما سمیت ایک چادر میں لپٹے ہوئے تشریف لائے۔ پیچھے پیچھے حضرت فاطمہ ؓ چل رہی تھیں۔ جب وفد نے دیکھا کہ آپ واقعی بالکل تیار ہیں تو تنہائی میں جاکر مشورہ کیا۔ عاقب اور سید دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : دیکھو مباہلہ نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہے ، اور ہم نے اس سے ملاعنت کرلی تو ہم اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہرگز کامیاب نہ ہوگی۔ روئے زمین پر ہمارا ایک بال اور ناخن بھی تباہی سے نہ بچ سکے گا۔ آخر کی رائے یہ ٹھہری کہ رسول اللہﷺ ہی کو اپنے بارے میں حکم بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا جو مطالبہ ہو ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش پر رسول اللہﷺ نے ان سے جزیہ لینا منظور کیا۔ اور دو ہزار جوڑے کپڑوں پر مصالحت فرمائی۔ ایک ہزار ماہ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں۔ اور طے کیا کہ ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ ( ایک سو باون گرام چاندی ) بھی ادا کرنی ہوگی۔ اس کے عوض آپ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ عطا فرمایا۔ اور دین کے بارے میں مکمل آزادی مرحمت فرمائی۔ اس سلسلے میں آپ نے انہیں ایک باقاعدہ نوشتہ لکھ دیا۔ ان لوگوں نے آپ سے گزارش کی ، آپ ان کے ہاں ایک امین ( امانت دار ) آدمی روانہ فرمائیں۔ اس پر آپ نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو روانہ فرمایا۔
اس کے بعد ان کے اندر اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ سید اور عاقب پلٹنے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ پھر نبیﷺ نے ان سے صدقات اور جزیے لانے کے لیے حضرت علیؓ کو روانہ فرمایا اور معلوم ہے کہ صدقہ مسلمانوں ہی سے لیا جاتا ہے۔1
۱۳۔وفد بنی حنیفہ :
یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔2مسیلمہ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے ، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث - یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبیﷺ نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتائو کے ذریعہ اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتائو کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپﷺ نے اپنی فراست سے تاڑ لیا کہ اس کے اندر شر ہے۔
اس سے قبل نبیﷺ یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپﷺ کے پاس روئے زمین کے خزانے لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دوکنگن آپ کے ہاتھ میں آپڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنج دہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپﷺ کو وحی کی گئی کہ ان دونوںکو پھونک دیجیے۔ آپﷺ نے پھونک دیا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر آپﷺ نے فرمائی کہ آپﷺ کے بعد دوکذاب (پر لے درجے کے جھوٹے ) نکلیں گے۔ چنانچہ جب مسیلمہ کذاب نے اکڑ اور انکار کا اظہار کیا ۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد نے کاروبارِ حکومت کو اپنے بعد میرے حوالے کرنا طے کیا ، تو میں ان کی پیروی کروں گا ۔تو رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ، اور آپﷺ کے ہمراہ آپ کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے۔ مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے درمیان موجود تھا۔ آپ ا س کے سر پر جاکر کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔ اس نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم حکومت کے معاملے میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اپنے بعد اس کو ہمارے لیے طے فرمادیں۔ آپﷺ نے (کھجور کی شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )فرمایا : اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑ ا چاہو گے تو تمہیں یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تم اپنے بارے میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے۔ اور اگر تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تمہیں توڑ کررکھ دے گا۔ اللہ کی قسم ! میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے وہ (خواب) دکھلایا گیا ہے جو دکھلایا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۸/ ۹۴،۹۵ زادا لمعاد ۳/۳۸ تا ۴۱۔ وفد نجران کی تفصیلات میں روایا ت کے اندر خاصا اضطراب ہے اور اسی وجہ سے بعض محققین کا رجحان ہے کہ نجران کا وفد دوبار مدینے آیا۔ لیکن ہمارے نزدیک وہی بات راجح ہے جسے ہم نے اُوپر مختصراً بیان کیا ہے۔
2 فتح الباری ۸/ ۸۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
گیاہے۔ اور یہ ثابت بن قیس ہیں جو تمہیں میری طرف سے جواب دیں گے۔ اس کے بعد آپ واپس چلے آئے۔1
بالآخر وہی ہوا جس کا اندازہ رسول اللہﷺ نے اپنی فراست سے کرلیا تھا، یعنی مسیلمہ کذاب یمامہ واپس جاکر پہلے تو اپنے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ کارِ نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور سجع گھڑ نے لگا۔ اپنی قوم کے لیے زنااور شراب حلال کردی۔ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ شہادت بھی دیتا رہا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے ا س کی قوم فتنے میں پڑ کر اس کی پیروکار وہم آواز بن گئی۔ نتیجتاً اس کا معاملہ نہایت سنگین ہوگیا۔ اس کی اتنی قدر ومنزلت ہوئی کہ اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ اور اب اس نے رسول اللہﷺ کو ایک خط لکھا کہ مجھے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک کردیا گیا ہے۔ آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ رسول اللہﷺ نے جوا ب میں لکھا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقیوں کے لیے ہے۔ 2
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبیﷺ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں شہادت دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا۔ 3
مسیلمہ کذاب نے ۱۰ ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور ربیع الاول ۱۲ ھ میں بہ عہد خلافتِ صدیقی یمامہ کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کا قاتل وحشی تھا ، جس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔
ایک مدعی نبوت تو یہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہو ا۔ ایک دوسرا مدعی نبوت اَسْوَد عنسی تھا۔ جس نے یمن میںفساد برپا کر رکھا تھا۔ اسے نبیﷺ کی وفات سے صرف ایک دن اور ایک رات پہلے حضرت فیروزؓ نے قتل کیا۔ پھر آپ کے پاس اس کے متعلق وحی آئی، اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس واقعہ سے باخبر کیا۔ اس کے بعد یمن سے حضرت ابو بکرؓ کے پاس باقاعدہ خبر آئی۔4
۱۴۔ وفد بنی عامر بن صعصعہ :
اس وفد میں اللہ کا دشمن عامر بن طفیل ، حضرت لبید کا اخیافی بھائی اربد بن قیس ، خالد بن جعفر اور جبار بن اسلم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح بخاری باب وفد بنی حنیفہ اور باب قصۃ الاسود العنسی ۲/۶۲۷، ۶۲۸ اور فتح الباری ۸/۸۷تا۹۳
2 زاد المعاد ۳/۱۳ ، ۳۲ 3 مسند احمد مشکوٰۃ ۲/۳۴۷
4 فتح الباری ۸/۹۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شامل تھے۔ یہ سب اپنی قوم کے سربرآوردہ اور شیطان تھے۔ عامر بن طفیل وہی شخص ہے جس نے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرایاتھا۔ ان لوگو ں نے جب مدینہ آنے کا ارادہ کیا تو عامر اور اربد نے باہم سازش کی کہ نبیﷺ کو دھوکادے کر اچانک قتل کردیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے نبیﷺ سے گفتگو شروع کی اور اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچا، اور ایک بالشت تلوار میان سے باہر نکالی ، لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اور وہ تلوار بے نیام نہ کر سکا۔ اوراللہ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا۔ نبیﷺ نے ان دونوں پر بد دعا کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واپسی پر اللہ نے اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گرادی۔ جس سے اربد جل مرا۔ اور ادھر عامر ایک سلولیہ عورت کے ہاں اترا ، اور اسی دوران اس کی گردن میں گلٹی نکل آئی۔ اس کے بعد وہ یہ کہتا ہوا مرگیا کہ آہ ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ، اور ایک سلولیہ عورت کے گھر میں موت ؟
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عامر نے نبیﷺ کے پاس آکرکہا : میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں: (۱)آپ کے لیے وادی کے باشندے ہوں اور میرے لیے آبادی کے (۲) یا میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہوؤں (۳)ورنہ میں غطفان کو ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھالاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا (جس پر اس نے فرطِ غم سے ) کہا : کیا اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ؟ اوروہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں؟ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ سوار ہوا ، اور اپنے گھوڑے ہی پر مر گیا۔
۱۵۔ وفد تجیب:
یہ وفد اپنی قوم کے صدقات کو ، جو فقراء سے فاضل بچ گئے تھے ، لے کر مدینہ آیا۔ وفد میں تیرہ آدمی تھے۔ جوقرآن وسنن پوچھتے اور سیکھتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کچھ باتیں دریافت کیں تو آپ نے وہ باتیں انہیں لکھ دیں۔ وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے۔ جب رسول اللہﷺ نے انہیں تحائف سے نوازا تو انہوں نے اپنے ایک نوجوان کو بھی بھیجا۔ جو ڈیرے پر پیچھے رہ گیا تھا۔ نوجوان نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کی : حضور ! اللہ کی قسم ! مجھے میرے علاقے سے اس کے سوا کوئی چیز نہیں لائی ہے کہ آپ اللہ عزوجل سے میر ے لیے یہ دعا فرمادیں کہ وہ مجھے اپنی بخشش ورحمت سے نوازے اور میری مالداری میرے دل میں رکھ دے۔ آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص سب سے زیادہ قناعت پسند ہوگیا۔ اور جب ارتداد کی لہر چلی تو صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہا بلکہ اپنی قوم کو وعظ ونصیحت کی تو وہ بھی اسلام پر ثابت قدم رہی پھر اہل وفد نے حجۃ الوداع ۱۰ ھ میں نبیﷺ سے دوبارہ ملاقات کی۔
۱۶۔ وفد طَی ٔ:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔
-----------​
اس طرح ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن ، اَزْد، قَضَاعہ کے بنی سعد ہذیْم ، بنی عامر بن قیس ، بنی اسد ، بہرا ، خولان ، محارب، بنی حارث بن کعب ، غامد ، بنی منتفق ، سلامان ، بنی عبس ، مزینہ، مراد، زبید،کندہ ، ذی مرہ ، غسان ، بنی عیش اور نخع کے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ نخع کا وفد آخری وفد تھا محرم ۱۱ ھ کے وسط میں آیا تھا او ر دوسو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ باقی بیشتر وفود کی آمد ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں ہوئی تھی۔ صرف بعض وفود ۱۱ ھ تک متاخر ہوئے تھے۔
ان وفود کے پے بہ پے آمد سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت اسلامی دعوت کو کس قدر فروغ اور قبولِ عام حاصل ہوچکا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ عرب مدینہ کو کتنی قدر اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت مدینہ جزیرۃ العرب کا دار الحکومت بن چکا تھا۔ اور کسی کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں دین اسلام اثر کر چکا تھا۔ کیونکہ ان میں ابھی بہت سے ایسے اکھڑ بدو تھے جو محض اپنے سرداروں کی متابعت میں مسلمان ہوگئے تھے ورنہ ان میں قتل وغارت گری کا جو رجحان جڑ پکڑ چکا تھا اس سے وہ پاک صاف نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی اسلامی تعلیمات نے انہیں پورے طور پر مہذب نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم ، سورۂ توبہ میں ان کے بعض افراد کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں :
الْأَعْرَ‌ابُ أَشَدُّ كُفْرً‌ا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ‌ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَ‌مًا وَيَتَرَ‌بَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ‌ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَ‌ةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾ (۹: ۹۷، ۹۸)
''اعراب (بدّو ) کفرونفاق میں زیادہ سخت ہیں۔ اور اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے حدود کو نہ جانیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور بعض اعراب جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ اور تم پر گردشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی پر بُری گردش ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔''
جبکہ کچھ دوسرے افراد کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے :
وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّ‌سُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۹: ۹۹)
''اور بعض اعراب اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ ''
جہاں تک مکہ ، مدینہ ، ثقیف ، یمن اور بحرین کے بہت سے شہری باشندوں کا تعلق ہے ، تو ان کے اندر اسلام پختہ تھا۔ اور انہی میں سے کبارصحابہ اور سادات مسلمین ہوئے۔1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ بات خضری نے محاضرات ۱/۱۴۴ میں کہی ہے۔ اور جن وفود کا ذکر کیا گیا یا جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے : صحیح بخاری ۱/۱۳، ۲/۶۲۶ تا ۶۳۰ ابن ہشام ۲/۵۰۱ تا ۵۰۳ ، ۵۱۰ تا ۵۱۴ ، ۵۳۷تا ۵۴۲، ۵۶۰ تا ۵۶۱ زاد المعاد ۳/۲۶تا ۶۰ ، فتح الباری ۸/۸۳تا ۱۰۳۔
 
شمولیت
جون 13، 2015
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
40
۱۶۔ وفد طَی ٔ:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔
شیخ نعیم حفظہ اللہ
کیا وفد طئ میں اس طرح سے کوئی واقعہ پیش آیا تھا کہ ان میں سے کسی عورت کا بچہ گم ہو گیا تھا اور وہ اس کو تلاش کر رہی تھی تو بد ہواسی کی صورت میں اسکا ڈوپٹہ سر سے گر گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چادر ایک صحابی کو دیکر بھیجا تو وہ صحابی کہنے لگے اے اللہ کے رسول کیا آپ اسکو چادر دے رہے ہیں جب کہ وہ اسلام نہیں قبول کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا ہوا وہ انسان تو ہے
کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ ؟؟؟؟؟؟
 
Top