سرفراز بھائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۔۔۔
مَوْلیٰ ’وَلی‘ سے ہے، اس کا مادہ (حروفِ اصلی) و، ل، ی ہیں، جس کا معنیٰ تعلّق ہے، جو ادنی واعلیٰ میں بھی دونوں اطراف سے ہو سکتا ہے، اور برابر کے لوگوں میں بھی۔
جیسے آقا کو بھی مولیٰ کہہ دیتے ہیں، غلام کو بھی اور دوست کو بھی۔
ان تمام معنوں میں یہ مخلوق کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔
مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ٧٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وه اپنے
مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وه کوئی بھلائی نہیں لاتا۔ کیا یہ اور وه جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راه پر، برابر ہوسکتے ہیں؟ (
76)
یہاں مولیٰ آقا کے معنوں میں ہے، اور مخلوق کیلئے استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح ایک معروف صحابی سیدنا سالم
مولیٰ ابی حذیفہ، معروف تابعی امام نافع
مولیٰ ابن عمر ہیں، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« مولى القوم من أنفسهم » ۔۔۔ صحيح البخاري: 6380
کسی قوم کا (آزاد کردہ)
غلام انہی میں سے ہوتا ہے (یعنی انہی کی طرف منسوب ہوتا ہے)
یہاں مولیٰ غلام کے معنوں میں ہے۔
اسی طرح دوست کو بھی مولیٰ کہہ دیتے ہیں، فرمانِ باری ہے:
﴿ يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ٤١ ﴾ ۔۔۔ سورة الدخان
اس دن کوئی
دوست کسی
دوست کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کی امداد کی جائے گی (
41)
اور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی
ولی اور مددگار نہیں (
107)
یہ ممکن ہے کہ ایک ہی جملہ میں، ایک ہی آیت مبارکہ میں یہ لفظ خالق اور مخلوق دونوں کیلئے استعمال ہو رہا ہو۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ٥٥ وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ٥٦ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں (
55) اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وه یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی (
56)
﴿ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ٤ ﴾ ۔۔۔ سورة التحريم
اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں (
4)
خلاصہ یہ کہ لفظ مولیٰ کا اطلاق غیر اللہ کیلئے اسی وقت نا جائز ہوگا، جب اس سے مراد حقیقی خالق ومالک اور مددگار لیا جائے۔
وگرنہ اس کا اطلاق بزرگوں اور علمائے کرام کیلئے جائز ہے۔ اصل معاملہ نیت کا ہے۔ نبی کریمﷺ کا صحيح فرمان ہے:
إنما الأعمال بالنيات
واللہ تعالیٰ اعلم!