• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ویلنٹائن ڈے اور"بیچاری مظلوم" نوجوان نسل

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

آج 12 فروری کا دن حسب توقع سورج کے گرد بادلوں کی گھنی چادر اوڑے سردی کے آخری سانسوں کی خبر دیتا طلوع ہوا۔ میں رات سونے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ ارے اف! ایک بار پھر ۱۴ فروری کا دن زندگی میں آنے والا ہے اور اس دن ویلنٹائن ڈے کے نام وقوع ہونے والے بھیانک اور حیاء سوز واقعات جن میں سے اکثر منظرعام پر نہیں آئیں گے، اور جو آئیں گے وہ قیامت کے مزید قریب ہونے کی خبر لائیں گے۔
مجھے معلوم ہے اور آپ بھی خوب واقف ہیں میری مراد کیا ہے۔ ہاں جی ! ویلینٹائن ڈے، یوم محبت ، یوم عاشقاں ، یوم حیاء سوزی وغیرہ وغیرہ ۔ ۱۳ فروری کی رات سے ہی ’’مظلوم‘‘ نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ،بے حیائی ، بے راہ روی کا نہ تھمنے والا اور نہ چھپنے والا اور نہ رکنے والاطوفان زور پکڑنے لگتا ہے۔ حالانکہ کہ یہ سلسلہ بے حیائی سارا سال چلتا ہے مگر اس دن تو جیسے عید کا اجتماع ہو۔
اور ہر جگہ ، ہر گلی اور ہر بستی میں حیاء کہ جس کو ایمان کا جز قرار دیا گیا ہے، پر خودکش حملے زور پکڑنے لگتے ہیں۔اور اس کا باعث بننے والوں کو، اس سے اجتناب کرنے والے، ہر جگہ مطعون کرتے اور تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور’’مظلوم‘‘ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس موقع پر سب حدیں پار کر جاتے ہیں جو انسانی معاشروں کو جنگلی جانوروں کے کسی جتھے سے ممتاز کرتی ہیں۔
جنسوں کے اس عظیم فرق سے پہلے بھی لوگوں نے اعراض کیا تھا اور وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ عذابوں کے ذریعے صفحہ ہستی مٹا دی گئی تھی۔ جس کی بڑی مثال قوم لوط او ر نبی رحمت ﷺ کی نبوت سے پہلے کے ادوار ہیں۔اللہ کی جانب سے عرصہ دراز سے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی خرابیوں کی اصلاح کے لئے انبیاء مبعوث ہوتے رہے اور پھر آخری امید رحمت ومغفرت، پیغمبر حیاءو اخلاقیات محمد رسول اللہ ﷺ کی صورت میں اللہ نے اس بگڑی سپیشیز(نوع انسانیت) کو ایک نعمت سے نوازا۔ جس نے انسانیت کو دنیا و آخرت کی عزت و کامرانی کے رہنماء اصول پیش کئے اور ان پر گامزن کیا۔ انھیں رہنما و فطری قوانین نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔
لیکن جب لوگوں نے ان قوانین کو ، پرانے دور کی باتیں ، موجودہ جدید دور میں ناقابل عمل ، اوردین کو محض اپنی روزمرہ مصروفیات میں صرف ایک جز سمجھنا شروع کیا تو اللہ کا غضب و عذاب جا بجا نظر آنےلگا۔
چلیں ، اب موضوع کی طرف آتے ہیں، کیونکہ سیرت کے موتی اتنے کثیر ہیں کہ ایک کے بعدایک خود بخود ابھر کر سامنے آتے چلے جاتے ہیں اور اس کا احاطہ کرنی کی کوشش کرنے والے نادم و ناکام لوٹتے ہیں۔
اب میں اس بات پر انتہائی پریشان تھا کہ بیچارے اور ’’مظلوم‘‘ نوجوانوں کے لئے یہ دن کسی معرکہ سر کرنے سے کم نہیں!

مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن میں ایک کہانی سنا کرتا تھا کہ کہیں دور قلعے میں ایک ظالم جادو گرنی ایک معصوم سی بے پناہ خوبصورت شہزادی قید کر رکھی تھی مگر مظلوم شہزادی اس قید سے نا ا ٓشنا تھی اور کئی سال سے وہ اس کے جیل نما محل میں ، ہر سہولت و آسائش میں اور اس جادوگرنی کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور مہربان سمجھ کر بیٹھی تھی۔اور کبھی بھی وہ باہر دنیا کو نہ دیکھ پائی تھی۔اور جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اور ایک دن جب اسکی نظر اپنے قید خانےکی دیوار میں ہونے والے چھید سے باہر کی دنیا پر پڑتی ہے تو اسے اپنے کمرے میں موجود تما م سہولیات و آسائشیں باعث تکلیف و کرب کا ذریعہ لگنے لگتی ہیں۔ اور پھر ایک شہزادہ، جو اپنی جان پر کھیل کر ، اس خطرناک جادوگرنی کو دھول چٹا کر اس تک پہنچتا ہے تو وہ شہزادی اس جادو گرنی کی تمام خدمات اور محنتوں اور آسائشوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ہمسفر کے ساتھ راہ فرار اختیار کرتی ہے اور بلا آخر وہ اجنبی شہزادہ جادوگرنی کی مرضی کے خلاف اسکو لے اڑتا ہے اور جادوگرنی سوائے چیخنے چلانے کہ اور بین کرنے کے اور بدعائیں دینے کے کچھ نہیں کر پاتی۔

میں جب آج اپنے معاشرے میں دیکھتا ہوں تو تقریبا ہر گھر اسی طرح کی ڈراؤنی کہانی کا منظر پیش کرتا نطر آتا ہے۔ الا ماشاء اللہ!
بیٹی تو اللہ رحمت اور بیٹا اللہ کا فضل ہوتا ہے مگر آج یہ دونوں بیچارے باعث شرمندگی و ازیت کیوں کر بن جاتے ہیں؟
گھر والے "ظالم" جادو گر و جادگرنی اوران کے حواری، اس"مظلوم"کی تمام خواہشیں تو پوری کرتے نظرآتے ہیں مگر وہ خواہش جس سے خود والدین گزر چکے ہوتے ہیں ،کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا ہوں۔ نہیں؟ چلیں انشاء اللہ ا ٓئندہ سطور اس پر وقف کیئے دیتا ہوں
پیدائش کے بعد جب والدین اپنی بھرپور توانائیاں نوخیز وں کی پرورش پر صرف کرتے ہیں اور جب'' بیچارے'' لڑکیاں اور لڑکے بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو والدین باوجود انکی ہر قسم کی خیر خواہی کرنے اور ضروریات پوری کرنے کے ، ایک ایسا پہلو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ جس سے لا تعلق رہنا اور اس کو پانے کے لئے ایک بالغ انسان کی کوشش نہ کرنا ، ایک غیر فطری سا 'لطیفہ' لگتا ہے۔
اور وہ ہے ،جنس مخا لف سے تسکین حاصل کرنا۔ یہ تو ایسا مسئلہ تھا کہ جس اللہ سبحانہ و تعالی کو خوب احاطہ تھا اور اس نے حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کے بعد دنیا میں بعد میں بھیجا مگر اس کی راحت کا سامان ایک عورت کے ذریعے پہلے ہی کردیا تھا۔
میری کم فہمی میں شاید اللہ مالک ملک یہ بات جانتے تھے کہ انسان کو تمام ضروریات زندگی کی فراہمی کے باوجود جس ضرورت کو باعث راحت و سکون سمجھا ، وہ جنس مخالف ہی ہے۔اور اس بارے قرآن و سنت میں واضح دلائل و واقعات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
مگر آج ہم نہایت بھیانک صورتحال سے دوچار ہیں اور اس وقت معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کا جو بازار گرم ہے ،اس کا ذمہ دار جہاں بیرونی تہذیبوں کی یلغار ہے ، میڈیا کی بھرمار ہے ،برائی کے مواقع عام ہیں ۔ مگر''بیچارے مظلوم''نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس گناہ کا اصل محرک اور ذمہ دار قرار دے کر ، سارا ملبہ ان ''مظلوموں''پر ڈال کر، والدین اور دینی حلقے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض و زمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ مگر افسوس!
حقیقت اس سے برعکس نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین اور دینی حلقے اس طوفان بے حیائی سے پریشان اور متفکر تو نظر آتے ہیں مگر وہ اپنے بھرپور خلوص کے باوجود اس کے حل کے لئے جو طریقہ اپنائے ہوئے ہیں وہ اپنے اثرات و نتائج اس طرح نہیں پیش کر پا رہے جیسے کہ ہونے چاہیئے تھے۔
والدین کی سختی ، اور تنبیہ اور غیر دوستانہ رویہ اور تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات اور حقائق سے آنکھیں بند رکھنا(اس میں دینی و دنیا دار گھرانے دونوں شامل ہیں)اور گھر کے ماحول کی خرابی وغیرہ ۔

اس طرح حل کی بجائے بے حیائی کی بیماری کو مزید گھمبیر اور پیچیدہ کر تی جارہی ہے۔ اور دینی حلقے باوجود اپنی موثر کردار کے اور اثر رسوخ کے اس مسئلے پر بھرپور کوشش تو کرتے ہیں مگر یک طرفہ جہد اورروک تھام سے مسئلہ حل ہوتا نظرنہیں آتاہے اور تو اور ''مظلوم'' نوجوانوں میں دینی حلقوں بارے نظریات بھی دھندلاتے جا رہے ہیں۔ اور نوجوان علماء کے اس یک طرفہ رویے کی وجہ سے ان سے لاپروہ ہوتے جارہے ہیں او ر اس مسئلے پر بجا شکایت رکھتے ہیں ۔
آخر مسئلہ کیا ہے، کیوں یہ ویلنٹائن ڈے کی پلید غیر اسلامی رسم ہمارے معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے، اور باوجود لاکوششوں کے معاشرہ کی نبض ڈوبتی جارہی ہے؟
بات آسان ہے۔ جب ایک''بیچارا'' لڑکا یہ لڑکی جوان ہوتی ہے تو اسکو پڑھائی اور مستقبل کی فکر ایسی ڈالی جاتی ہے اور اپنی جنسی خواہش (نکاح) کا اظہار کرنا ایک گناہ شمار کروایا جاتا ہے۔ بیٹا تمہیں پتا نہیں ہے، تم ابھی بچے ہو، تم پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاؤ، پہلے فلاں رہتا ہے پھر فلاں کی اور اسکے بعد پھر تماری، کر دیں مگر کھلاؤ گے کہاں سے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ'' مظلوم'' نوجوان ایسے ذریعے اور راستے تلاش کرتے ہیں۔ اور جس کا سالانہ نتیجہ ہمارے سامنے اس ''یوم پلید'' ویلنٹائن ڈے کے موقع پر سامنے آتا ہے۔اور جب بیچارے'' مظلوم'' نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین سے مایوس ہوتے ہیں تو خود چوری چھپے یا پھر والدین کی عدم دلچسپی پر کھلم کھلا کاروبار شیطان کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس وقت میں والدین اور دینی حلقوں نے باوجود اپنی پر خلوص تگ و دو کے بھی، ا س مسئلے کو اس کی بنیادوں سے حل کرنے کی بجائے، اس کو مزید الجھاؤں میں ڈال دیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ علماء جہاں ایک طرف ''مظلوم ''لڑکوں اور لڑکیوں کو نصیحت اور تنبیہ کرتے ، تو دوسری طرف والدین کو بھی انکی ذمہ داری کا احساس دلوانے کے لئے میدان میں آتے اور انکو نوجوانوں کی جنسی ضروریات کو جائز طریقہ سے پورے کرنے بارے آگاہ کرتے اور ان )والدین(کے نکاح بارے موجود ابہام کو دور کرتے اور اس مسئلہ کی حساسیت کو اجاگر کرتے اور اس سے اعراض کرنے پر جو معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں ان سے ڈراتے۔ مگر یک طرفہ رویہ یہاں باعث نقصان بنتا نظر آرہا ہے۔

امید ہے اس مسئلہ میں، میں نے جس نقطہ پر توجہ دلوائی ہے ، ا س پر سب اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کریں گے اور ہم سب مل کر اس مسئلہ پر غور اور اصلاح کی کوشش کریں گے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔​

 
Top