آئمہ كو صفات الہيہ سے متصف کرنا :
اہل اسلام کا عقيدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم ’’ما کان وما يکون کا علم‘‘ اﷲتعالی کے سوا کسی کو حاصل نہيں اور اس کا علم ساری کائنات کو محيط ہے:
’’ وانّ ﷲ قد احاط بکل ش ء علما‘‘ (الطلاق:12)
يہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ''غلو عقيدت ''کے نظريہ کو فروغ دينے کے ليے پہلے رسول ﷲﷺکے ليے ’’ ماکان وما يکون‘‘ کے علم کا پروپيگنڈا کيا اور پھر آپﷺ کے بعد شيعہ حضرات کے خود ساختہ ''ائمہ معصومين ''اس علم کے وارث اور امين ٹھہرائے گئے ،شدہ شدہ یہ مشرکانہ نظريہ عقيدت رسول کے بھيس ميں عامۃ المسلمين کے ايک خاص طبقہ يعنی ''اہل بدعت ''کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گيا۔
ملاحظہ کيجئے شيعی روايت :امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ايک محفل ميں ارشاد فرمايا :
’’ لو کنت بين موسي والخضر لأخبرتھما اني اعلم منھما ولانباتھما ما ليس في ايد يھما لأن موسيٰ والخضر عليھما السلام اعطيا علم ما کان ولم يعطيا علم ما يکون وما ھو کائن حتي تقوم الساعة وقد ورثناہ من رسول ﷲ صلي ﷲ عليہ السلام وآلہ وراثة ‘‘
''اگر ميں موسی اور خضر کے درميان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زيادہ علم رکھتا ہوں ،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم ميں نہيں تھا ۔کيونکہ موسی وخضر عليہما السلام کو صر ف ''ماکان'' کا علم حاصل ہوا تھا اور ''ما يکون ''اور جو کچھ قيامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہيں ديا گيا تھا ۔اور ہم کو وہ علم رسول ﷲﷺ اور آپ کی آل سے وراثت ميں حاصل ہوا ہے '' (اصول کافي :ص:160)
اہل تشيع کا يہ عقيدہ ہے کہ دنيا کبھی امام سے خالی نہيں رہ سکتی ،
اصول کافی ميں ابوحمزہ سے روايت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دريافت کيا کہ يہ زمين بغير امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب ديا کہ اگر زمين پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہيں رہے سکے گی۔ (اصول کافي ،ص:104)
اسی طرح اما م باقر سے روايت ہے انہوں نے فرمايا کہ اگر
امام کو ايک گھڑی کے لئے بھی زمين سے اٹھاليا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ايسے ڈولے گی جيسے سمندرميں موجيں آتی ہيں۔
اہل کتاب (يہود ونصاری) کا دعوی ہے کہ يہود ونصاری کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت ميں داخل نہيں ہوپائے گا ۔اہل تشيع کے يہاں بھی يہ دعوی اسی کروفر کے ساتھ پايا جاتا ہے ان کے نزديک ائمہ معصومين کو ماننے والے (يعنی شيعہ حضرات )اگر ظالم اور فاسق بھی ہيں تب بھی جنت ہی ميں جائيں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہيز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ ميں ڈاليں جائيں گے ۔اصول کافی ميں امام باقر سے روايت کی گئی ہے آپ نے فرمايا:
’’ ان ﷲ لا يستحي ان يعذب امة آمنت بامام ليس من ﷲ ، وان کانت في اعمالھا برئية تقية وانّ ﷲ ليستحي ان يعذب امة آمنت بامام من ﷲ وان کانت في اعمالھا ظالمة مسيئة ‘‘ (اصول کافی :ص،238)
ﷲتعالی ايسی امت کو عذاب دينے سے نہيں شرمائے گا جو ايسے امام کو مانتی ہو جو اﷲ تعالی کی طرف سے نامزد نہيں کيا گيا ہے ،اگرچہ يہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نيکو کار اور متقی وپرہيز گار ہو،اور ايسے لوگوں کو عذاب دينے سے اﷲتعالی احتراز فرمائے گا جو اﷲتعالی کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں ۔اگرچہ يہ لوگ اپنی عملی زندگی ميں ظالم و بدکردار ہوں''
واضح رہے کہ اسی قسم کی شيعی ذہنيت يا دوسرے لفظوں ميں
''يہودی اندازِ فکر '' بعد کے دور ميں رفتہ رفتہ مسلمانوں ميں بھی رچ بس گيا اور نوبت بہ ايں جارسيد کہ چند فقہی يا فروعی اختلافات کی بنياد پر امت مسلمہ ميں موجود بدعت پسند گروہ کے
''شيخ الشيوخ'' احمد رضا خاں بريلوی نے جو برصغير ميں مشہور ومعروف ہيں اپنے مخالف توحيد مسلم افراد جماعتوں کے خلاف يہ بھپتی تصنيف کرڈالی کہ :
تجھ سے اور جنت سے کيا نسبت وہابی دور ر ہو
ہم رسول ﷲ کے، جنت رسول ا ﷲ کی !
قطع نظر اس کے کے ان کے اپنے گروہ کے افراد کی اکثريت دين وشريعت کی کتنی پيروکار اور نماز ،روزہ ،زکاة ،حج وغيرہ ارکانِ اسلام پر کس حد تک عمل پيرا ہے ؟؟
صريح مشرکانہ اعمال اور بدعتی رسوم ميں دن رات مبتلا ہونے اور اسلام کے صاف وشفاف اور پاکيزہ دامن ميں فسق وفجور اور ہر طرح کی معصيت کے داغ ودھبے لگاتے رہنے کے باوجود يہ لوگ خود کو جنت کا ٹھيکيدار سمجھ بيٹھے ہيں ۔
اہل کتاب (يہود ونصاری )کی دوسری صفت جو قرآن مجيد ميں بيان کی گئی ہے وہ ان کا اپنے دينی پيشواؤں ،اور راہبوں اور درويشوں کو اﷲکے صفات سے متصف کرنا ہے ۔يہ مذموم اور مشرکانہ نظريہ بھی ''شيعی مذہب'' ميں پورے آب وتاب کے ساتھ جلودہ گر ہے ان کی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصول کافی کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ ميں محمد بن سنان سے روايت ہے کہ انہوں نے ابوجعفر ثانی (محمد بن علی نقی) سے (جو نويں امام ہيں) حرام وحلال کے بارے ميں دريافت کيا تو آپ نے فرمايا :
’’ يا محمد !ْ ان ﷲ تبارک وتعاليٰ لم يزل منفرداً بواحدنيتہ ثم خلق محمد اً وعلياً وفاطمة فمکثوا الف دھرٍ ثم خلق جميع الأشياء فأشھد ھم خلقا واجري طاعتھم عليھا وفوّض امورھا اليھم فھم يحلون مايشاؤن ويحرمون ما يشاؤن ولن يشاؤا الا ان يشاء ﷲ تبارک وتعاليٰ ‘‘۔ (اصول کافي :ص:278)
اے محمد! اﷲتعالی ازل سے اپنی وحدانيت میں منفرد رہا ،پھر اس نے محمد،علی ،اور فاطمہ کو پيدا کيا ،پھر يہ لوگ ہزاروں قرن ٹھہرے رہے ۔اس کے بعد اﷲنے دنيا کی تمام چيزوں کو پيدا کيا ،پھر ان مخلوقات کی تخليق پر ان کو شاہد بنايا اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان کے سپرد کئے ۔يہ تو حضرات جس چيز کو چاہتے ہيں حلال کرديتے ہيں اور جس چيز کو چاہتے ہيں حرام کرديتے ہيں۔اور يہ نہيں چاہتے مگر جو اﷲ تبارک تعاليٰ چاہے ''۔
علامہ قزوينی نے اس ''روايت'' کی شرح ميں يہ تصريح کردی ہے کہ
يہاں محمد ،علی اور فاطمہ سے مراد يہ تينوں حضرات اور ان کی نسل سے پيدا ہونے والے تمام ائمہ ہيں ۔ (الصافي شرح اصول کافي جزء :3 جلد 2 ص:149)
اصول کافی ہی ميں امام جعفر صادق سے روايت ہے :
’’ قال ولا يتنا ولاية ﷲ التي لم يبعث نبي قط الا بھا‘‘ (اصول کافی :ص276)
''ہماری ولايت (يعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکميت ) بعينہ اﷲتعالی کی ولايت وحاکميت جيسی ہے جو نبی بھی اﷲکی طرف سے بھيجا گيا وہ اس کی تبليغ کا حکم لے کر بھيجا گيا''۔
شيعي لٹريچر کے مطابق ان کے ائمہ تمام الوہی صفات کے حامل ہيں ۔ان کی شان يہ ہے کہ عالم ماکان وما يکون ميں کوئی چيز ان سے مخفی اور غيب نہيں ،انسانوں کے نامۂ اعمال روزانہ ان کے سامنے پيش کئے جاتے ہيں ،ان کے بارے ميں غفلت سہو اور نسيان کا تصور بھی نہيں کيا جاسکتا اورکائنات کے ذرہ ذرہ پر اُن کی تکوينی حکومت ہے ،وہ دنيا وآخرت کے مالک ہيں ،جس کو چاہيں ديں اور جسے چاہيں محروم رکھيں وغيرہ وغيرہ۔