• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

يہودی اور شيعہ بھائی بھائی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
يہودی اور شيعہ بھائی بھائی

نمبر1: دين ميں غلو يا مبالغہ آرائی:
مذہبی پيشواؤں اور دينی رہنماؤں کے مرتبہ ميں حد سے زيادہ مبالغہ آرائی اہل کتاب خصوصاً قوم يہود کی نماياں صفت ہے ،قرآن مجيد ميں متعدد جگہوں پر اس عيب کی نشان دہی کی گئی ہے ،مثلاً:
’’ يا اھل الکتاب لا تغلوا فی د ينکم ولا تقولوا علی ﷲ الا الحق‘‘
''اے اہل کتاب !(يہود ونصاری) کی طرح اپنے دين ميں غلو اختيار نہ کرو اور ﷲ تعالی سے منسوب کرکے غلط باتيں نہ کہو ''۔ (النساء:71)
’’ وقالت اليھود عزير ابن ﷲ وقالت النصاری المسيح ابن ﷲ ‘‘
''يہود نے عزير کے بارے ميں دعوی کيا کہ وہ ﷲ کے بيٹے ہيں اور نصاری مسيح کو اﷲ کا بيٹا بتاتے ہيں''۔ (التوبة:30)
’’ وقالوا لن يدخل الجنة الا من کان ھود ا او نصاريٰ تلک امانيھم قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقين ‘‘
''يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہود ونصاری کے علاوہ کوئی دوسرا جنت ميں داخل نہ ہونے پائے گا ۔يہ ان لوگوں کی دل بہلاوے کی باتيں ہيں ،آپ ان سے پوچھئے کہ اپنے اس دعوی کی کوئی دليل ہو تو لاؤ اگر تم سچے ہو''۔ (البقرة:111)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر2:اپنے دينی رہنماؤں کو اﷲکے اختيارات سے متصف کرنا :
’’ اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون ﷲ ‘‘ (التوبة:31)
''انہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر اپنے دينی پيشواؤں اور علماء ومشائخ کو اپنا رب بناليا ہے ''
’’ قل يا اھل الکتاب تعالوا الي کلمة سواء بينا وبينکم الا نعبد الا ﷲ ولا نشرک بہ شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون ﷲ ‘‘ (آل عمران:64)
''(اے نبیﷺ !) آپ اہل کتاب سے کہہ ديجئے کہ آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درميان مشترک ہے و ہ يہ کہ ﷲکے علاوہ ہم ميں سے کوئی کسی کو اپنا رب قرار نہ دے''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:التباس وکتمانِ حق:
’’ ان الذ ين يکتمون ما انزلنا من البينات والھديٰ من بعد ما بيناہ للناس في الکتاب اولئک يلعنھم ﷲ ويلعنھم اللاعنون ‘‘
''جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانيوں اور فرمان ہدايت کو چھپاتے ہيں حالانکہ ہم نے اسے اپنی کتاب(توريت وانجيل)ميں لوگوں کے ليے واضح طور پر بيان کردياتھا ۔ايسے ہی لوگوں پر اﷲتعالی لعنت فرماتا ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتيں بھی ان پر پڑ تی ہيں'' (البقرة:159)
’’ يا اھل الکتاب لم تکفرون بايات ﷲ وانتم تشھدون ، يا اھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون ‘‘
''اے اہل کتاب !(يہود ونصاری )تم جان بوجھ کر کس لئے اﷲ کی آيات کاانکا ر کرتے ہو؟ اور اے اہل کتاب!تم کس ليے حق پر باطل کا غلاف چڑھا کر اسے پوشيدہ کرتے ہو ۔حالانکہ تم ديدہ دانستہ حق کو نظر انداز کررہے ہو''۔ (آل عمران:70ـ71)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر4: مسلمانوں سے شديد عداوت ودشمنی:
’’ لتجدن اشد الناس عد اوة للذ ين آ منوا اليھود والذ ين اشرکوا ‘‘
''تمام لوگوں ميں سب سے زيادہ عداوت رکھنے والے تم قوم يہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہيں''۔ (المائدة:82)
يہ ہے قرآن کی گواہی اہل کتاب خصوصاً يہود کے بارے ميں اﷲتعالی سے زيادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتي ہے؟؟
آئيے اب ہم يہود کی ان خصوصيات کی شيعی لٹريچر ميں تلاش کرتے ہيں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سب سے پہلے دين ميں غُلو يا مبالغہ آرائی کو ليجئے:
امت مسلمہ کے نزديک جس طرح تمام نبی ورسول اﷲتعالی کی طرف سے مقرر اور نامزد ہوتے ہيں ،امت يا قوم اسے منتخب نہيں کرتی ہے
ٹھيک اسی طرح شيعہ حضرات کے يہاں نبی کے بعد ان کے جانشين وخليفہ اور امام بھی ﷲتعالی ہی کی طرف سے نامزد کيے جاتے ہيں ۔
ان کے عقيدے کے مطابق ان کے يہ تمام
''امام''ايک ''نبی''کی طرح معصوم ہی ہوتے ہيں ،انبياء ورسل ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے ۔مرتبہ کے لحاظ سے يہ''ائمہ ''تمام انبياء ورسولوں سے افضل اور رسول اکرمﷺ کے برابر ہوتے ہيں(نعوذباللہ)۔
ان کے خيال ميں خاتم النبيينﷺ کی وفات کے بعد اس دنيا کے خاتمہ تک اﷲتعالی کی طرف سے بارہ امام نامزد ہيں ۔جو امام اول حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے شروع ہوکر علی الترتيب حسن عسکری تک دنيا ميں آکر کاروبار امامت انجام دينے کے بعد وفات پاگئے
مگر بارہويں اور آخری امام بغداد کے پاس ''سرمن رای ''کے غار ميں روپوش ہيں اور وہی قرب قيامت ميں مہدی بن کر نمودار ہوں گے اور دنيا پر بلا شرکت غيرحکومت کريں گے وغيرہ وغيرہ۔
ايران کے مقتدر شيعی رہنما اور ايرانی انقلاب کے بانی آنجہانی آيت ﷲ خمينی اپنی کتاب ''الحکومة الاسلاميہ ''ميں ''الولاية التکوينيہ ''کے عنوان کے تحت رقم طراز ہيں :
’’ وان من ضروريات مذ ھبنا ان لأئمتنا مقاماً لا يبلغہ ملک مقرب ولا نبي مرسل‘‘ (الحکومة الاسلاميہ ،آيت ﷲ خميني ص:52)
''اور ہمارے مذہب (اثنا عشريہ )کے ضروری اور بنيادی عقائد ميں سے يہ عقيدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام ومرتبہ حاصل ہے ،جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہيں پہنچ سکتا''۔
جمہور امت مسلمہ کے نزديک کائنات کے ذرہ ذرہ پر حکومت وفرماروائی صرف اﷲ تعالی کی ہے اور ساری مخلوق اس کے تکوينی حکم کے سامنے سرنگوں اور تابع وفرمان ہے يہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہيں ۔قرآن مجيد کي بے شمار آيتيں اس بات کا واضح طور پر اعلان کرتی ہيں مگر اہل تشيع کا عقيدہ ہے کہ :
’’ فان للامام مقاماً محمود اً ودرجة ساميةً وخلافةً تکوينية تخضع لولايتھا وسيطرتھا جميع ذرات الکون ‘‘
''امام کو وہ مقام اور بلند درجہ اور ايسی تکوينی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم واقتدار کے آگے سرنگوں اور تابع فرمان ہوتا ہے '' (الحکومة الاسلاميہ ،آيت ﷲخميني :52)
اثنا عشری مذہب کی روسے شيعہ حضرات کے ائمہ کو انبياء عليہم السلام کے تمام خصائص اور کمالات ومعجزات تک حاصل تھے اور ان کا درجہ ا نبياء سابقين ،يہاں تک کہ اولوالعزم انبياء نوح ،ابراہيم ،موسی اور عيسيٰ عليہم السلام سے بھی بلند وبرتر ہے ۔
شيعہ حضرات کي مستند ترين کتاب ''الجامع الکافي ''جو ابوجعفر يعقوب کليني راوزی (المتوفی 328ھ)کی تصنيف ہے ،صحت واستناد کے لحاظ سے اہل تشيع کے نزديک اس کا وہی درجہ ہے جو امت مسلمہ کے نزديک صحيح بخاری کا ہے ،بلکہ اس سے بھی زيادہ کيونکہ ان کے عقيدے کے مطابق ''الجامع الکافي''بارہويں غائب امام کی تصديق شدہ ہے شيعہ مذہب کا سارا دارومدار اسی کتاب پر ہے
''اصول کافي ''ميں کتاب الحجہ باب ’’ان الارض کلھا للامام ‘‘کے تحت ابوبصير سے روايت ہے کہ ان کے ايک سوال کے جواب ميں امام جعفرصادق نے فرمايا :
’’اما علمت انّ الد ينا والاخرة للامام يضعھا حيث يشاء ويدفعھا الي من يشاء ‘‘
''کيا تم کو يہ بات معلوم نہيں کہ دنيا اور آخرت سب امام کی ملکيت ہے ۔وہ جس کو چاہيں دے ديں اور جو چاہيں کريں '' (اصول کافی :ص 259)
شيعوں کے کثير التصانيف بزرگ اورمجتہد مُلّا باقر مجلسی اپنی تصنيف ''حياة القلوب''ميں تحرير فرماتے ہيں:
''امامت بالاتر از رتبہ پيغمبری ''امامت کا درجہ نبوت و پيغمبری سے بالا تر ہے ''۔ (حيات القلوب :ملا باقر مجلسی ج3 ص10)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آئمہ كو صفات الہيہ سے متصف کرنا :
اہل اسلام کا عقيدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم ’’ما کان وما يکون کا علم‘‘ اﷲتعالی کے سوا کسی کو حاصل نہيں اور اس کا علم ساری کائنات کو محيط ہے: ’’ وانّ ﷲ قد احاط بکل ش ء علما‘‘ (الطلاق:12)
يہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ''غلو عقيدت ''کے نظريہ کو فروغ دينے کے ليے پہلے رسول ﷲﷺکے ليے ’’ ماکان وما يکون‘‘ کے علم کا پروپيگنڈا کيا اور پھر آپﷺ کے بعد شيعہ حضرات کے خود ساختہ ''ائمہ معصومين ''اس علم کے وارث اور امين ٹھہرائے گئے ،شدہ شدہ یہ مشرکانہ نظريہ عقيدت رسول کے بھيس ميں عامۃ المسلمين کے ايک خاص طبقہ يعنی ''اہل بدعت ''کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گيا۔
ملاحظہ کيجئے شيعی روايت :امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ايک محفل ميں ارشاد فرمايا :
’’ لو کنت بين موسي والخضر لأخبرتھما اني اعلم منھما ولانباتھما ما ليس في ايد يھما لأن موسيٰ والخضر عليھما السلام اعطيا علم ما کان ولم يعطيا علم ما يکون وما ھو کائن حتي تقوم الساعة وقد ورثناہ من رسول ﷲ صلي ﷲ عليہ السلام وآلہ وراثة ‘‘
''اگر ميں موسی اور خضر کے درميان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زيادہ علم رکھتا ہوں ،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم ميں نہيں تھا ۔کيونکہ موسی وخضر عليہما السلام کو صر ف ''ماکان'' کا علم حاصل ہوا تھا اور ''ما يکون ''اور جو کچھ قيامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہيں ديا گيا تھا ۔اور ہم کو وہ علم رسول ﷲﷺ اور آپ کی آل سے وراثت ميں حاصل ہوا ہے '' (اصول کافي :ص:160)
اہل تشيع کا يہ عقيدہ ہے کہ دنيا کبھی امام سے خالی نہيں رہ سکتی ،
اصول کافی ميں ابوحمزہ سے روايت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دريافت کيا کہ يہ زمين بغير امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب ديا کہ اگر زمين پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہيں رہے سکے گی۔ (اصول کافي ،ص:104)
اسی طرح اما م باقر سے روايت ہے انہوں نے فرمايا کہ اگر
امام کو ايک گھڑی کے لئے بھی زمين سے اٹھاليا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ايسے ڈولے گی جيسے سمندرميں موجيں آتی ہيں۔
اہل کتاب (يہود ونصاری) کا دعوی ہے کہ يہود ونصاری کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت ميں داخل نہيں ہوپائے گا ۔اہل تشيع کے يہاں بھی يہ دعوی اسی کروفر کے ساتھ پايا جاتا ہے ان کے نزديک ائمہ معصومين کو ماننے والے (يعنی شيعہ حضرات )اگر ظالم اور فاسق بھی ہيں تب بھی جنت ہی ميں جائيں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہيز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ ميں ڈاليں جائيں گے ۔اصول کافی ميں امام باقر سے روايت کی گئی ہے آپ نے فرمايا:
’’ ان ﷲ لا يستحي ان يعذب امة آمنت بامام ليس من ﷲ ، وان کانت في اعمالھا برئية تقية وانّ ﷲ ليستحي ان يعذب امة آمنت بامام من ﷲ وان کانت في اعمالھا ظالمة مسيئة ‘‘ (اصول کافی :ص،238)
ﷲتعالی ايسی امت کو عذاب دينے سے نہيں شرمائے گا جو ايسے امام کو مانتی ہو جو اﷲ تعالی کی طرف سے نامزد نہيں کيا گيا ہے ،اگرچہ يہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نيکو کار اور متقی وپرہيز گار ہو،اور ايسے لوگوں کو عذاب دينے سے اﷲتعالی احتراز فرمائے گا جو اﷲتعالی کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں ۔اگرچہ يہ لوگ اپنی عملی زندگی ميں ظالم و بدکردار ہوں''
واضح رہے کہ اسی قسم کی شيعی ذہنيت يا دوسرے لفظوں ميں ''يہودی اندازِ فکر '' بعد کے دور ميں رفتہ رفتہ مسلمانوں ميں بھی رچ بس گيا اور نوبت بہ ايں جارسيد کہ چند فقہی يا فروعی اختلافات کی بنياد پر امت مسلمہ ميں موجود بدعت پسند گروہ کے ''شيخ الشيوخ'' احمد رضا خاں بريلوی نے جو برصغير ميں مشہور ومعروف ہيں اپنے مخالف توحيد مسلم افراد جماعتوں کے خلاف يہ بھپتی تصنيف کرڈالی کہ :

تجھ سے اور جنت سے کيا نسبت وہابی دور ر ہو
ہم رسول ﷲ کے، جنت رسول ا ﷲ کی !
قطع نظر اس کے کے ان کے اپنے گروہ کے افراد کی اکثريت دين وشريعت کی کتنی پيروکار اور نماز ،روزہ ،زکاة ،حج وغيرہ ارکانِ اسلام پر کس حد تک عمل پيرا ہے ؟؟
صريح مشرکانہ اعمال اور بدعتی رسوم ميں دن رات مبتلا ہونے اور اسلام کے صاف وشفاف اور پاکيزہ دامن ميں فسق وفجور اور ہر طرح کی معصيت کے داغ ودھبے لگاتے رہنے کے باوجود يہ لوگ خود کو جنت کا ٹھيکيدار سمجھ بيٹھے ہيں ۔
اہل کتاب (يہود ونصاری )کی دوسری صفت جو قرآن مجيد ميں بيان کی گئی ہے وہ ان کا اپنے دينی پيشواؤں ،اور راہبوں اور درويشوں کو اﷲکے صفات سے متصف کرنا ہے ۔يہ مذموم اور مشرکانہ نظريہ بھی ''شيعی مذہب'' ميں پورے آب وتاب کے ساتھ جلودہ گر ہے ان کی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصول کافی کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ ميں محمد بن سنان سے روايت ہے کہ انہوں نے ابوجعفر ثانی (محمد بن علی نقی) سے (جو نويں امام ہيں) حرام وحلال کے بارے ميں دريافت کيا تو آپ نے فرمايا :
’’ يا محمد !ْ ان ﷲ تبارک وتعاليٰ لم يزل منفرداً بواحدنيتہ ثم خلق محمد اً وعلياً وفاطمة فمکثوا الف دھرٍ ثم خلق جميع الأشياء فأشھد ھم خلقا واجري طاعتھم عليھا وفوّض امورھا اليھم فھم يحلون مايشاؤن ويحرمون ما يشاؤن ولن يشاؤا الا ان يشاء ﷲ تبارک وتعاليٰ ‘‘۔ (اصول کافي :ص:278)
اے محمد! اﷲتعالی ازل سے اپنی وحدانيت میں منفرد رہا ،پھر اس نے محمد،علی ،اور فاطمہ کو پيدا کيا ،پھر يہ لوگ ہزاروں قرن ٹھہرے رہے ۔اس کے بعد اﷲنے دنيا کی تمام چيزوں کو پيدا کيا ،پھر ان مخلوقات کی تخليق پر ان کو شاہد بنايا اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان کے سپرد کئے ۔يہ تو حضرات جس چيز کو چاہتے ہيں حلال کرديتے ہيں اور جس چيز کو چاہتے ہيں حرام کرديتے ہيں۔اور يہ نہيں چاہتے مگر جو اﷲ تبارک تعاليٰ چاہے ''۔
علامہ قزوينی نے اس ''روايت'' کی شرح ميں يہ تصريح کردی ہے کہ
يہاں محمد ،علی اور فاطمہ سے مراد يہ تينوں حضرات اور ان کی نسل سے پيدا ہونے والے تمام ائمہ ہيں ۔ (الصافي شرح اصول کافي جزء :3 جلد 2 ص:149)
اصول کافی ہی ميں امام جعفر صادق سے روايت ہے :
’’ قال ولا يتنا ولاية ﷲ التي لم يبعث نبي قط الا بھا‘‘ (اصول کافی :ص276)
''ہماری ولايت (يعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکميت ) بعينہ اﷲتعالی کی ولايت وحاکميت جيسی ہے جو نبی بھی اﷲکی طرف سے بھيجا گيا وہ اس کی تبليغ کا حکم لے کر بھيجا گيا''۔
شيعي لٹريچر کے مطابق ان کے ائمہ تمام الوہی صفات کے حامل ہيں ۔ان کی شان يہ ہے کہ عالم ماکان وما يکون ميں کوئی چيز ان سے مخفی اور غيب نہيں ،انسانوں کے نامۂ اعمال روزانہ ان کے سامنے پيش کئے جاتے ہيں ،ان کے بارے ميں غفلت سہو اور نسيان کا تصور بھی نہيں کيا جاسکتا اورکائنات کے ذرہ ذرہ پر اُن کی تکوينی حکومت ہے ،وہ دنيا وآخرت کے مالک ہيں ،جس کو چاہيں ديں اور جسے چاہيں محروم رکھيں وغيرہ وغيرہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
كتمان وتقیہ
قرآن مجيد کے مطالعہ سے اہل کتاب يعنی يہود ونصاری کی ايک اور کمينہ صفت اور ذليل حرکت جو ہميں معلوم ہوتی ہے وہ ان کی حق کو چھپانے اور دين کی اصليت پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کی مجرمانہ عادت اور ذليل فطرت ہے۔جب ہم شيعہ لٹريچر کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہميں التباس اور کتمان حق کی يہ دونوں قبيح عادتيں تقيہ او ر''کتمان''کے عنوان کے تحت اس ميں نماياں نظر آتی ہيں ۔
اگر فرق ہے تو صرف اس قدر کہ يہود دُنيوی مفاد کے لئے حق کے بيان سے گريز کرنے اور اﷲکی تعليمات کو پوشيدہ رکھنے کے مجرم تھے ،مگر ان کے يہ معنوی سپوت شيعہ حضرات اﷲکی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے باطل نظريات وفکار کو حق کے لبادے ميں چھپا کر پيش کرنے ميں مہارت رکھتے ہيں:
''کتمان'' اور ''تقيہ' 'شيعہ مذہب کی اصولی تعليمات ميں سے ہے۔
''کتمان''کا مطلب ہے اپنے اصل عقيدہ اور مذہب ومسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دينا ،اسی طرح ''تقيہ''کہتے ہيں اپنے قول يا عمل سے نفس واقعہ يا حقيقت کے خلاف يا اپنے عقيدہ وضمير اورمذہب ومسلک کے برعکس ظاہر کرنا اور اس طريقہ سے دوسروں کو دھوکہ اور فريب ميں مبتلا کرنا۔
شيعہ مذہب کی معتبر ترين کتاب''اصول کافی'' ميں امام جعفر صادق کا يہ ارشاد نقل کيا گيا ہے:
’’ انکم علي د ين من کتمہ اعزّہ ﷲ ومن اذ اعہ اذ لہ ﷲ ‘‘ ''تم ايسے دين پر ہو ،جو اس کو چھپائے گا اﷲتعالی اسے عزت عطافرمائے گا اور جو کوئی اسے شائع وظاہر کرے گا ۔اﷲاس کو ذليل اور رسوا کردے گا '' (اصول کافی :ص:485)
''تقيہ''کے ايک مستقل باب کے تحت اصول کافی ميں روايت ہے :
’’ عن ابي عمير الأعجمي قال قال لہ ابو عبد ﷲ عليہ السلام يا ابا عمير تسعة اعشار الد ين في التقية ولا دين لمن لا تقية لہ ‘‘
''ابو عمير اعجمی روايت کرتے ہيں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمايا کہ اے ابوعمير !دين کے دس حصوں ميں سے نو حصے تقيہ ميں ہيں جو تقيہ نہيں کرتا وہ بے دين ہے ''۔ (اصول کافي ،ص:482)
امام باقر سے بھی تقيہ کے سلسلے ميں ايک روايت اسی ''اصول کافی'' ميں درج ہے :
’’ قال ابوجعفر عليہ السلام : التقية من ديني ود ين آباء ي ولا ايمان لمن لا تقية لہ ‘‘
''امام باقر نے فرمايا تقيہ ميرا دين ہے اور ميرے آباء اجداد کا دين ہے ،جو شخص تقيہ نہيں کرتا اس ميں ايمان ہی نہيں'' (اصول کافی ،ص:484)
''من لا يحضرہ الفقيہ'' نامی کتاب ميں جو شيعہ حضرات کے اصولِ اربعہ ميں سے ہے ،تقيہ کے بارے ميں ايک روايت درج کی گئی ہے :
’’ لو قلت ان تارک التقية کتارک الصلاة لکنت صادقاً،وقال عليہ السلام: لا د ين لمن لا تقية لہ‘‘ (من لايحضرہ الفقيہ بحوالہ الباقيات الصالحات ص:216)
امام جعفر نے فرمايا اگر ميں کہوں کہ تقيہ ترک کرنے والا ايسا ہی گناہ گار ہے جيسا کہ نماز ترک کرنے والاتو ميری بات صحيح اور سچ ہوگی ۔اور آپ نے يہ بھی فرمايا کہ جو تقيہ نہيں کرتا وہ بے دين ہے''
حقيقت يہ ہے کہ تقيہ اورکتمان کے اس خطرناک عقيدے کے ذريعے يہودی عناصر کو امت مسلمہ ميں نفوذ کرنے اور ان ميں نفاق وتفرقہ ڈالنے ميں جس قدر کاميابی ہوئی ہے وہ کسی اور طريقے سے ممکن نہ تھي ۔
اس طرح يہ لوگ عامۃ المسلمين ميں گھل مل گئے اور اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ،ان کے عقائد ميں فساد اور انہيں دين اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں ميں مصروف ہوگئے ۔
ظاہر ہے کہ يہوديت براہ راست اور کھل کر تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اثر انداز ہو نہ سکتی تھی ۔اس نے شيعيت کے روپ ميں جن لوگوں کو اپنے دام فريب ميں گرفتار کرليا تھا وہ بھی بہرحال ايک محدود طبقہ تھا جس کے بل بوتے پر يہوديت کے خطرناک عزائم کی تکميل ممکن نہ تھي ،اس لئے عام مسلمانوں ميں اثر ونفوذ کے لئے ''کتمان''اور ''تقيہ''سے بہتر کوئی اور تدبير ممکن نہ تھي ۔
اس غير محسوس طريقہ پر يہ لوگ مسلمانوں ميں گھل مل گئے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد فلسفہ اور علم کلام کی مدد سے انہوں نے مسلمانوں کے مختلف عقائد اور دين کے مسلمات ميں شکوک وشبہات پيدا کرنے شروع کردئيے ۔رفتہ رفتہ مسلمان ان شاطر اور گھاک يہوديوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے ،کچھ عرصے بعد چشم فلک نے يہ عبرت منظر بھی ديکھ ليا کہ
ہمارے يہ عيار دشمن ''يہودی ''دنيا کے مختلف مقامات پر خاص طور سے برصغير ہندوپاک ميں اسی تقيہ اور کتمان کے پرفريب ہتھکنڈوں کے سہارے صوفيوں کے بھيس ميں مسلمانوں کے مذہبی پيشوا اور مقتدی بن بيٹھے ہيں اور کھلے عام اپنے معتقدين پر ''شيعيت ''يا دوسرے لفظوں ميں ''يہوديت ''کی تعليم وتبليغ کرنے ميں مصروف ہيں ،
حالانکہ ان کی شيعيت وضلالت ان کے خيالات وافکار کتابوں سے عياں اور صاف ظاہر تھی ،مگر بھولے بھالے مسلمان عقيدت کے نشہ ميں چُور انہيں اپنا ''روحانی پيشوا''ہی نہيں بلکہ مطاع اور ''حاجت روا ''تک سمجھے بيٹھے ہيں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عدوات مسلمين :
جہاں تک مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھنے کا سوال ہے تو قرآن مجيد اس بات کی گواہی ديتا ہے کہ ''يہودی'' مسلمانوں کے شديد دشمن ہيں اور ان کی دشمنی ودلی عداوت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اس کی تمنا اور تگ ودو کرتے رہيں کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے ،اس مقصد کے ليے انہوں نے پہلا کام يہ کيا کہ شيعيت کے روپ ميں مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت اور تبّرا کا محاذ کھول ديا ،اور صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم وخيرالقرون کے مسلمانوں سے لوگوں کو بدظن کرنے کے ليے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کيا جو ان کے امکان ميں تھا ۔
رسول ﷲﷺ کی وفات کے بعد اسلام کے عروج وترقی کا سنہرا دور خلفاء ثلاثہ يعنی حضرت ابوبکر ،حضرت عمرفاروق ،اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہم کی خلافت کا عہد زريں تھا ،جس ميں مسلمانوں نے مختصر عرصے کے اندر قيصر وکسری کی حکومتوں کو روند ڈالا اور اسلام کا پيغام سرزمين عرب سے نکل کر مصر وشام ،ايران وعراق ،ماوراء النہر ،آزربائيجان اور افغانستان تک جا پہنچا ،
ظاہر ہے کہ اسلام کی يہ ترقی اور کاميابی کمينہ فطرت قوم يہود آسانی سے کس طرح برداشت کرسکتی تھی ؟ اسلام کا يہ سيل عظيم روکنا ان بدبختوں کے بس کا روگ تو نہ تھا مگر انہوں نے اپنے دلی بغض وعداوت سے جوانہيں اسلام اور مسلمانوں سے تھی ،اس بات کی کوشش کرنے ميں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ امت مسلمہ کو خلفاء ثلاثہ اور تقريبا تمام صحابہ کرام سے بدظن کردياجائے ۔
يہ حقيقت ہے کہ مسلمانوں کی تاريخ کا قابل فخر سرمايہ رسول ﷲﷺ کے بعد دور خلفاء راشدين اور صحابہ کرام کا اُسوہ ہی ہے ۔دين اور اس کی تمام جزئيات ہم تک صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے ذريعہ ہی پہنچی ہيں ۔يہ لوگ اسلام کا مرکز عقيدت ہی نہيں ،منبع رشد وہدايت اور مسلمانوں کے ليے سرمايہ افتخار ہيں ۔دين وملت کے پاسبان ہيں ۔ان سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد اسلام کا کوئی تصور ہی باقی نہيں رہ سکتا۔کيونکہ قرآن مجيد جو دين کی اساس ہے اور ذخيرہ احاديث جو ہمارے اعمال کی بنياد ہے ۔دونوں ہی ناقابل اعتبار اور بے وقعت ہوجاتے ہيں اگر حاملين قرآن وحديث گروہ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم ،خاص طور پر خلفاء ثلاثہ کو کافر ومرتد سمجھنے اور اسلام سے پھر جانے کا تصور عام ہوجائے ۔
کيونکہ قرآن کے جامع ابوبکر وعثمان رضی اﷲعنہما اور احاديث کے حافظ اجل صحابہ رضی اﷲعنہم ہی جب رسول اﷲﷺ کی وفات کے فوراً بعد اسلام سے پھر جائيں ،تو ان کے جمع کئے ہوئے قرآن اور ذخيرہ احاديث کا کيا اعتبار رہے گا ؟اور جب قرآن وحديث سے ہی اعتبار اٹھ گيا تواسلام کہاں باقی رہ جائے گا؟
يہی وجہ ہے کہ شيعہ حضرات ظاہر دعوی ايمان کے باوجود نہ صرف موجودہ قرآن کو تحريف شدہ اور ناقابل اعتبار کہتے ہيں بلکہ ان کا عقيدہ ہے کہ اصل قرآن جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جمع کيا تھا ،مسلمانوں کے قرآن سے تقريباً ڈھائی گناہ زيادہ ضخيم تھا ،وہ ان سے حضرت حسن وحسين رضی اﷲ عنہما اور ديگر ائمہ معصومين کے ہاتھوں منتقل ہوتا ہوا
دسويں غائب امام تک پہنچا اور وہ اسے اور ديگر انبياء کي نشانيوں کو لے کر ''سرمن راي''کيغار ميں روپوش ہوگئے اور قرب قيامت ميں اس قرآن کو لے کر ظاہر ہوں گے ۔ (اصول کافي ،ص:139،671)
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ قرون اولی ميں مختلف سياسی عوامل اور ناگزير حالات کے تحت امت مسلمہ ميں ''يہودي لابی'' کے قيام،اثر ونفوذ اور اسلام ميں انہيں اندر سے نقصان پہنچانے اور تارپيڈو کرنے کا موقع مل گيا اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ان دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے باخبر نہ ہوسکے ۔يا پھر کچھ طالع آزما حکمرانوں کی چشم پوشی اور سياسی مفاد کے ليے ان خطرناک عناصر کی درپردہ ہمت افزائی سے يہوديت کے جراثيم اسلام کے جسد صالح ميں تيزی سے سرايت کرگئے !
وجہ کچھ بھی ہو ،ان خبيث دشمنوں کی جراء ت کی داد دينی پڑے گی جنہوں نے عين اسلامی حکومتوں کے زير سايہ اور ''سرپرستی ميں ''اسلام کی بنياد کھودنے اور ملت اسلاميہ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی خطرناک سازشيں کيں اورکامياب ہوئے ۔آج بھی وہ علی الاعلان اسلام کے مشاہير اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی توہين کرنے اور غلوئے عقيدت کے بھيس ميں مسلمانوں کی برگزيدہ شخصيات کو ''ارباباً من دون ﷲ''بناکر توحيد کے قلعہ کو زمين بوس کرنے ميں مصروف عمل ہيں ۔
اور مسلمان آنکھ بند کرکے ان يہود کی پيروی کررہے ہيں اور يہود صفت دشمنان اسلام کو اپنا مقتدی وپيشوا بنائے ہوئے ہيں۔ فاعتبروا يا اولي الابصار!!
 
Top