• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

٭٭٭ نمازِ عید کے بعد "تقبل اللہ منا و منک" کہنا ٭٭٭

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
٭٭٭ نمازِ عید کے بعد "تقبل اللہ منا و منک" کہنا ٭٭٭

سوال: کیا نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے کو "تقبل اللہ منا ومنک" کہنا ثابت ہے؟ (ایک سائل)


الجواب: اس بارے میں دو مرفوع روایتیں مروی ہیں:

1: سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت:

(الکامل لابن عدی: ج۶ص۲۲۷۴، دوسرا نسخہ ۵۲۴/۷ وقال: "حذا منکر ۔ ۔ ۔" ، المجروحین لابن حبان: ۳۰۱/۲، دوسرا نسخہ: ۳۱۹/۲ ، السنن الکبریٰ للبیہقی: ۳۱۹/۳، العلل المتانیہ لابن الجوزی: ۴۷۶/۱ح۸۱۱ وقال: "ھذا حدیث لا یصح۔ ۔ ۔"، التدوین فی اخبار قزوین: ۳۴۲/۱، ابوبکر الازدی الموصلی فی حدیثہ ق: ۲/۳ بحوالہ سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة للالبانی: ۳۸۵/۱۲ - ۳۸۶ ح ۵۶۶۶)

٭ یہ روایت محمد بن ابراہیم بن العلاء الشامی کی وجہ سے موضوع ہے۔ محمد بن ابراہیم: مذکور کے بارے مین امام دارقطنی نے فرمایا: کذاب (سوالات البرقانی للدارقطنی: ۴۲۳)

حافظ ابن حبان نے کہا: وہ شامیوں پر حدیث گھڑتا تھا۔ (المجروحین : ۳۰۱/۲، دوسرا نسخہ: ۳۱۹/۲)

صاحبِ مستدرک حافظ حاکم نے کہا: اس نے ولید بن مسلم اور سوید بن عبد العزیز سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الیالصحیح : ص۲۰۸ت۱۹۱)

2:سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت:

(السنن الکبریٰ للبیہقی: ۳۱۹/۳ - ۳۲۰، امالی ابن شمعون: ۲۷۷، المجروحین لابن حبان: ۱۴۹/۲، دوسرا نسخہ: ۱۳۳/۲، العلل المتانیہ: ۵۷/۲ - ۵۸ ح۹۰۰ وقال: "ھذا حدیث لیس بصحیح"، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۶۹/۳۶)

٭ اس کےراوی عبد الخالق بن زید بن واقد کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: "منکر الحدیث" (کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیق زبیر علی زئی رحمہ اللہ: ۲۴۴)

امام بخاری نے فرمایا: میں جسے منکر الحدیث کہوں تو اُس سے روایت بیان کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ (التاریخ الاوسط: ۱۰۷/۲، دوسرا نسخہ: ہامش التاریخ الاوسط: ۵۸۲/۳)

معلوم ہوا کہ یہ روات سخت ضعیف ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مکحول اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ نہ ہونے کی وجہ منقطع بھی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس روایت کو سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری: ۴۴۶/۲ تحت ح ۹۵۲)

ان مردود روایات کے مقابلے میں بعض آثار پیش خدمت ہیں:

1:طحاوی نے کہا:

محمد بن زیاد الاہانی (ابوسفیان الحمصی:ثقہ) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع (رضی اللہ عنہما) کے پاس جاتے تو کہتے:’’ تقبل اللہ منا ومنکم‘‘ اللہ ہمارے اور تمہارے (اعمال) قبول فرمائے،پھر وہ دونوں جواب دیتے اور تمہارے بھی، اور تمہارے بھی۔(مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی ؍اختصار الجصا ص385/4،وسندہ حسن)

٭ اس سند میں یحییٰ بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد دونوں جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔

اس روایت کو ابن الترکمانی نے بغیر کسی حوالے کے نقل کرکے "حدیث جید" کہا اور امام احمد بن حنبل سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کیا۔ دیکھئے الجوہرالنقی (۳۱۹/۳ ۔ ۳۲۰)

2:قاضی حسین بن اسماعیلی المحاملی نے کہا:

’’جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ؍تابعی) سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو’’ تقبل اللہ منا ومنک ‘‘کہتے تھے۔ (الجزء الثانی من کتاب صلوۃ العیدین مخطوط مصور ص22ب وسندہ حسن) ۔

٭اس روایت کی سند حسن ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ (فتح الباری ۴۴۶/۲تحت ح۹۵۲)

3:صفوان بن عمرو ا السکسکی (ثقہ) سے روایت ہے کہ

میں نےعبد اللہ بن بسر المازنی (رضی اللہ عنہ) خالد بن معدان (رحمہ اللہ) راشد بن سعد (رحمہ اللہ) عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ )اورعبد الرحمن بن عائذ (رحمہ اللہ) وغیرہم شیوخ کو دیکھا وہ عید میں ایک دوسرے کو ’’ تقبل اللہ منا منک‘‘ کہتے تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۰۶/۲۶،ترجمہ:صفوان بن عمرو،وسندہ حسن)

4:علی بن ثابت الجزری رحمہ اللہ (صدوق حسن الحدیث) نے کہا:

میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) سے عید کے دن لوگوں کے ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینےمیں) اسی پر عمل جاری ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج۹ص۹۰وسندہ حسن)

5: امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ

مجھے عید کے دن یونس بن عبید ملے تو کہا: "تقبل اللہ منا ومنک" (کتاب الدعاء للطبرانی ج ۲ ص ۱۲۳۴ ح۹۲۹وسندہ حسن)

٭اس روایت کے راوی حسن بن علی المعمری اُن روایات میں صدوق حسن الحدیث تھے، جن میں ان پر انکار نہیں کیا گیا تھا اور اس روایت میں بھی ان پر انکار ثابت نہیں ہے۔

6:امام طحاوی نے

اپنے استاذوں اور معاصرین بکار بن قتیبہ، امام مزنی، یونس بن عبد الاعلیٰ اور ابو جعفر بن ابی عمران کے بارے میں کہا کہ جب انھیں عید کی مبارکباد دی جاتی تو وہ اسی طرح جواب دیتے تھے۔ (مختصر اختلاف العلماء : ج۴ ص ۳۸۵)
ان آثار سے معلوم ہوا کہ عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہنا (اور مبارکباد دینا) جائز ہے۔

( فتاوی علمیہ ، از: محدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ ج۲ص۱۳۱- ۳۴)
 
Top