• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی سے پاک زون

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
گذشتہ شب ایک پرائیویٹ نیوز چینل پر چند صحافیوں اور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ پر مشتمل ایک پینل کا اسی موضوع پر پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔
وہ سب بے چارے اس موضوع پر جھنجلاہٹ ،اور غصہ کا اظہار فرماتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل ،اور ملا، مولوی کے خاتمے پر زور دیتے نظر آئے ۔
اور وہ اس نکتہ پر بھی بڑے پریشان تھے کہ آخر ’’ مذہب ‘‘ اور مولوی کو ’’ خالص سماجی معاملے میں دخل اندازی کا کیا حق ہے ؟
(انکے کہنے کامطلب ہے مولوی گٹھلیوں پر مردوں کی بخشش کے ورد ،وظیفے پڑھے،معاشرہ اور زندگی کے کینوس پر رنگ بھرنے کا کام لبرلز کے کرنے کا ہے )
اور اجماعی طور پر ان کا کہنا تھا کہ :
’’کمرشل تتلیوں ‘‘ کےساتھ اپنی شاموں کو رنگین بنانے والے اراکین کی پارلیمنٹ کو ہی ایسے ’’ حساس موضوعات و مسائل ‘‘ کا قانونی حل نکالنے کا اختیار ہے ‘
بھلا پتھر کے دور کا مولوی بیچارہ کیا جانے کہ جدید دنیا کے سماجی معاملات کا ’’ ترقی پسندانہ حل کیا ہے ۔
آج دنیا ’’ ہم جنسی ‘‘ جیسے اوج کمال پر پہنچ چکی ۔۔۔۔لیکن ’’ ملا ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آئین کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیاں صرف وہی قانون سازی کر سکتی ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ کمسنی کی شادیوں کے حوالے سے بل قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات موجود ہیں۔


وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ وہ اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بل پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جائے۔

وزیراعظم نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات زیر بحث لانے کی ہدایت کی ہے۔

دریں اثناء پیپلز پارٹی کے رکن ایاز سومرو نے ضم شدہ، تقرر شدہ بذریعہ تبادلہ بل 2014ء پر حکومت کے ساتھ مزید مشاورت کرنے کے لئے واپس لے لیا۔[/hl]
وما تخفی صدورھم اکبر
ایک طرف کہ رہے ہیں کہ یہ بل قرآن و سنت کے خلاف ہے کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پہ یہی رائے دی ہے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے
مگر پھر سردار یوسف صاحب صدر کی طرح کہ رہے ہیں کہ بل پہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رایے لی جائے (یعنی اسکو صدر کی طرف سے کہا جائے کہ سود میں نہ سہی یہاں تو گنجائش پیدا کریں)
آگے وزیر اعظم صاحب نے نیا شوشہ چھوڑا کہ جو اسلامی کونسل نے قرآن و سنت کے دلائل دیکھ کر سفارشات کی ہیں ان پہ یہ پارلیمنٹ کے بڑے علماء اب بحث کریں اور انکو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے کہ آیا یہ جاہل اسلامی کونسل والے دقیانوسی علماء نے کہیں اس جدید دور میں امریکہ کی روشنی کی بجائے سچ مچ میں قرآن و سنت کی روشنی میں تو یہ رائے نہیں دے دی کہ کم عمری کی شادی غلط ہے


کوئی ہے جو اس ہیرا پھیری کو مجھے سمجھا دے

محترم @اسحاق سلفی بھائی آپ اپنی اوپر والی پوسٹ میں باتوں پہ پریشان نہ ہوں یہاں سب کچھ بگڑا ہوا ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

دلِ صاحبِ اولاد کے لیے انصاف حاضر ہے​

شیخ شفقت الرحمن مغل​
⁠⁠⁠{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم رہتے ہوئے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں عدم عدل پر آمادہ نہ کرے، عدل ہی کرو یہی پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔[المائدة : 8]
دلِ صاحبِ اولاد کیلیے انصاف حاضر ہے،،،
6 سال میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی کسی عام امتی نے بیان نہیں کی بلکہ جس کی رخصتی ہوئی انہوں نے خود بیان کی، پھر ان سے بیان کرنے والے بھی انہیں کے بھانجے، بھتیجے، سمیت وہ ہیں جن کی انہوں نے خود پرورش فرمائی، مزید برآں اسے روایت بھی قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتب صحیح بخاری اور مسلم نے کیا ہے۔
بات امیج خراب ہونے کی نہیں یہاں عقل خراب ہونے کی بھی ہے کہ ایک معاملہ جو اجماعی طور پر مسلمہ ہے اور اس کے بر خلاف موصوف جیسے شاذ و نادر کے علاوہ کسی نے ہرزہ سرائی نہیں کی آج اسے بیان کرنے والوں کو "شرم محسوس" کروائی جا رہی ہے، تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف اجماعی مسائل بیان کرنے والوں کو "شرم" بطور "رفیقہ حیات" محض "محسوس" کروانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوں۔
اور یہ کوئی نفاق والی بات نہیں ہے بلکہ مبنی بر حقائق ہے کہ اگر "صنف نازک" شوہر کے قابل ہو تو کوئی بھی قبول کرنے میں تامل نہیں کرتا، نہیں یقین تو آزما کر دیکھ لیں، دودھ ہی دودھ اور پانی ہی پانی ہو جائے گا، ویسے بھی آپ کے زیر عتاب کے ہاں چار میں سے ایک نشست خالی ہے، غنیمت جانیں کہیں موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے!
آپ ایک راوی کی بات کرتے ہیں یہاں یہ بات بیان کرنے والے کئی ہیں! چونکہ میرے مخاطب دلیل کے بغیر ماننے والے نہیں ہیں اس لیے ہم انہیں اس مزاج پر داد کیساتھ دلیل بھی دیتے ہیں:
اس واقعہ کو انہی سے براہِ راست بیان کرنے والے اس "ایک" راوی کا نام عروہ بن زبیر رحمہ للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے]، قاسم بن محمد بن ابو بکر رحمہ للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے]، عمرہ بنت عبد الرحمن رحمہا للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کی پروردہ اور شاگردہ] ، اسود بن یزید رحمہ للہ [ابراہیم نخعی رحمہ للہ کے ماموں]، قاسم بن عبد الرحمن رحمہ للہ ، یحی بن عبد الرحمن حاطب رحمہ للہ ہے، یہ پورے نصف درجن راوی ہیں جنہیں ہمارے موصوف "ایک" کہہ رہے ہیں یہ سب کے سب عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں بیان کرتے ہیں۔ یہ روایات صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور سنن ابو داود وغیرہ میں موجود ہیں۔
موصوف نے آیت پیش کر کے "رشد" کو نکاح کی شرط قرار دیا ہے وہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کہاں تک درست ہے، [یہاں صرف عقد نکاح کے متعلق بات ہوگی ، ہم بستری کی نہیں]
چنانچہ آنجناب نے جو ترجمہ پیش کیا ہے اسی کو پڑھ لیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ : رشد یعنی عقل و شعور نکاح کی شرط ہے یا یتیموں کو ان کا مال واپس کرنے کی؟ پیش کردہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: (اور یتیموں کو آزماتے رھو یہانتک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ، پھر اگر تم ان میں رشد یعنی عقل و شعور پاؤ تو ان کو ان کا مال سونپ دو)
یہ آخری جملہ " اگر تم ان میں رشد یعنی عقل و شعور پاؤ تو ان کو ان کا مال سونپ دو " اس میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: شادی کر دو، بلکہ فرمایا ہے کہ ان کو ان کا مال سونپ دو، تو یہ نکاح کیلیے رشد کی دلیل کہاں سے بنتی ہے؟ اور اگر موصوف کی بات مان بھی لی جائے کہ ٹھیک ہے اس آیت میں رشد کو نکاح کی شرط بتلایا گیا ہے تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے کہ 9 سالہ عمر میں ہی کوئی خاوند کے قابل ہو جائے اور اس کی شادی کر دی جائے!؟
تیسری بات کرتے ہوئے بلوغت کی شرط "رشد" لگائی یہ جناب کی اپنی اختراع ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
چوتھی بات میں سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 کے بارے میں کہا کہ یہ عورتوں کی بات ہے، آنجناب کو یہ معلوم نہیں ہے کہ پہلے بوڑھی عورتوں کی بات کی پھر ایسی شادی شدہ صنف نازک کی بات کی جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں، انہیں بڑی عمر کی عورتوں سے تعبیر کرنا سراسر زیادتی ہے، نیز ان الفاظ کے بارے میں آپکی کوئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی بلکہ صحابہ و تابعین نے جو تفسیر بیان کی ہے وہ مانی جائے گی، چنانچہ " وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" سے کیا مراد ہے، قتادہ، سدی، اور ضحاک رحمہم اللہ جمیعا کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹی بچیاں ہیں جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں، نیز نظم قرآن بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اس آیت میں پہلے " يَئِسْنَ " فرما کر پہلے بوڑھی خواتین کا ذکر کیا، کیونکہ "يأس" عربی زبان میں بالکل نا امیدی کو کہتے ہیں، یعنی وہ خواتین جنہیں حیض کی بالکل کوئی امید نہیں رہی، پھر قرآن مجید نے " ارْتَبْتُمْ" کا ذکر کیا، اور عربی زبان میں "ریب" شک کو کہتے ہیں تو یہاں پر "ریب" سے اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ خاتون جسے حیض آنے یا نہ آنے کا حتمی علم نہیں ہے، پھر تیسرے نمبر پر " لَمْ يَحِضْنَ" کہہ کر ان کا تذکرہ فرمایا جنہیں حیض سرے سے آیا ہی نہیں ان سب کی عدت تین ماہ ہے۔ مزید کیلیے تفسیر طبری ملاحظہ فرمائیں۔
اب یہاں پر پوری ڈھٹائی کیساتھ یہ کہہ دینا کہ بچیاں زیر بحث ہی نہیں ہیں واشگاف الفاظ میں نظم قرآنی کا بھی انکار ہے، حالانکہ کہ موصوف یہ کہتے ہوئے کہ:"ہمارے بزرگوں کی ترجمانیاں دیکھیے" اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ کسی نے بھی ترجمہ میری مان مانی کے مطابق نہیں کیا، چنانچہ جب میں نے پورے گیارہ تراجم دیکھے تو وہ سب کی سب موصوف کے بالکل مخالف تھے۔ گویا کہ دنیا میں اس آیت کو صحیح سمجھنے کی توفیق موصوف کو ہی ملی ہے باقی سب "جاہل" ہی ہیں!! یا اللہ! تیری پناہ!
پھر موصوف کا کہنا ہے کہ " 8 یا 9 یا 10 سال کی بچی کو عربی میں کبھی نساء اور اردو میں کبھی عورت نہیں کہتے " جناب "نساء" عربی میں "امرأة" کی جمع ہے اگر عربی زبان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو اس سمندر میں مت کودیں، ایک عورت کو "نساء" نہیں بلکہ عربی میں "امرأة" کہا جائے گا، اب آئیں اپنی کم علمی کا مزید احساس کریں کہ جامع ترمذی (2/ 409) پڑھ کر دیکھیں آپ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات نظر آئے گی:"إِذَا بَلَغَتِ الجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ" یعنی: "جب بچی 9 سال کی ہو جائے تو وہ عورت ہے" اب ایک ہی جگہ پر عربی اور اردو دونوں میں 9 سالہ لڑکی کو "امرأة" یعنی عورت کہا گیا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کی رہنمائی فرمائے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964


حامد کمال الدین
چند دن پہلے برطانیہ سے آنے والی ایک خبر نے پوری دنیا کو چونکا دیا: ایک بارہ سالہ لڑکی اور تیرہ سالہ لڑکے کے جنسی تعلقات نے کم سنی میں ’والدین‘ بننے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کروا دیا! یہ خبر انٹرنیٹ پر جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہے، پھر بھی قارئین کی آسانی کےلیے ہم یہاں ایک برطانوی سائٹ کا لنک دے رہے ہیں:​
http://t.co/St9wynYAkL
ظاہر ہے اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کو مغربی قانون ’’شادی‘‘ کی اجازت تو نہیں دیتا۔ جس کا مطلب ہے کم سنی کا یہ ریکارڈ برطانیہ کی اس ’ہونہار‘ لڑکی نے اپنے ’بوائےفرینڈ‘ کے ساتھ ناجائز مراسم کے ذریعے قائم کیا۔ مگر یہ وہ ’ناجائز‘ ہے جس کےلیے برطانیہ کی لغت میں فی الوقت کوئی لفظ نہیں پایا جاتا! کیونکہ ’ناجائز‘ کےلیے آپ وہاں illegal کا لفظ بولیں گے یا prohibited یا اسی طرح کا کوئی اور لفظ۔ ایسے کسی بھی لفظ سے برطانیہ میں رہنے والے ایک شخص کے ذہن میں اس کا ’قانونی‘ حوالہ ہی آئےگا، کیونکہ عرصہ ہوا ان الفاظ کا ’مذہبی‘ حوالہ لوگوں کے سننے اور بولنے میں نہیں آتا۔ جبکہ اِس رائجِ عام حوالہ سے، اس لڑکے اور لڑکی نے کوئی illegal یا prohibited کام نہیں کیا!
یعنی پیمانے سرتاپیر بدل گئے!
چنانچہ یہ معاملہ بظاہر جتنا دلچسپ دکھائی دیتا ہے حقیقت میں اس سے زیادہ شرمناک ہے۔ یہ بارہ سالہ بچی اگر ’’شادی‘‘ کے نتیجے میں ماں بنتی تو برطانویوں کے ہاں یہ ’’ناجائز‘‘ ہوتا! حمل کے وقت یہ بچی ظاہر ہے صرف گیارہ برس چند ماہ کی تھی اور اس کا بوائےفرینڈ بارہ برس کا۔ یہ کمسن مرد اور عورت کسی ’’نکاح‘‘ کے نتیجے میں جنسی تعلقات قائم کرتے تو یقینی طور پر قانون اور سماج کی زد میں آتے اور ان کا یہ تعلق قطعی ’’ناجائز‘‘ قرار پاتا؛ جس پر ’جدید اقدار‘ پر ایمان رکھنے والا برطانوی معاشرہ بلاتاخیر حرکت میں آ جاتا اور اس گھر کے بزرگوں کو جیل میں کردیتا! لیکن چونکہ انہوں نے ’’نکاح‘‘ ایسا کوئی گناہ نہیں کیا، اس لیے گیارہ سال کی اِس بچی اور بارہ سال کے اِس بچے کا تعلق جائز ٹھہرا اور اس کے نتیجے میں اولاد کا پیدا ہونا بھی قطعی ناقابل اعتراض۔ رپورٹ کا کہنا ہے ننھے والدین اپنی اس کارگزاری پر بےحد خوش ہیں اور مل کر اپنی بچی کی پرورش کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کو تعجب ہے تو ان کی کمسنی پر نہ کہ کسی ’اور‘ بات پر!
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے:
تصور کیجئے، خبر یہ آتی کہ: پاکستان کے کسی پسماندہ سے شہر میں ’کمسنی‘ کی شادی کے نتیجے میں ایک لڑکی 12 سال کی عمر میں ماں بن گئی جس کا شوہر ابھی صرف 13 سال کا ہے… تو کیا خیال ہے یہاں ’انسانیت‘ کے ہمدرد کیسےکیسے مروڑ کا شکار ہوتے! یہ واقعہ اگر کسی ’’نکاح‘‘ کے نتیجے میں پیش آگیا ہوتا تو لبرل میڈیا کی چیخ سے دنیا کیسے لرزتی!لیکن حالیہ واقعہ پر ظاہر ہے کوئی ایسا شور نہیں اٹھا۔ ’جدید انسان‘ کو دنیابھر میں اس سے جس قدر غش پڑے وہ ہم نے دیکھ لیے، ظاہر ہے یہ کوئی ایسی خبر نہیں جس پر واویلا کیا جائے! اس واقعہ پر تعجب ہونا چاہئے تو محض ’بیالوجی‘ کی نظر سے؛ ’’سماجیات‘‘ اور ’’اخلاقیات‘‘ کی نظر سے بھلا اس میں کیا انہونی بات ہے؟!
تو کیا کسی کو اندازہ ہوا کہ ’کمسنی کی شادی‘ پر پچھلے دنوں ہمارے ہاں جو درد پھوٹ پھوٹ کر آرہا تھا وہ صرف اور صرف حلال کے دروازے بند کروانے کیلئے تھا… جی ہاں حلال کے دروازے بند ہوں گے تو حرام کے دروازے خودبخود کھلیں گے؛ کیونکہ انسانی خواہش اور ہارمونز کو آپ رسے اور بیڑیاں ڈال کر نہیں رکھ سکتے۔ جب آپ ’’حلال‘‘ پر قانونی یا ’اخلاقی‘ بیڑیاں ڈالیں گے تو وہ ہارمونز حرام ذریعے سے خودبخود اپنا راستہ بنالیں گے اور کمسنی کی حرامکاری کے واقعات بکثرت ہوں گے۔
طرفہ یہ کہ خود مغرب پرستوں کا یہ کہنا ہے کہ ہارمونز پر اپنا طبعی عمل کرنے کے معاملے میں پابندی لگانا غلط ہے، مگر وہ یہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے ہاں حرام کا راستہ کھلا ہے۔ اپنے ان ’علمائےکرام‘ کو بھی کاش کوئی جا کر بتائے کہ جس کمسنی کی شادی کے خلاف پچھلے دنوں دلائل کے ڈھیر لگائے جارہے تھے، دراصل وہ آپ کے یہاں ایک حرام راستہ کھولنے کا انتظام تھا۔
شاید برطانیہ کا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے ہوا ہو کہ ’کمسنی کی شادی‘ ممنوع ٹھہرانا… درحقیقت کس قسم کے معاشرے کی تشکیل کرنے جارہا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ہمارے معاشروں کی تشکیل ایک مخصوص ڈھب پر بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اور گلوبلائزیشن کا عفریت یہاں مسلسل اپنے مہرے ہلا رہا ہے۔ ہمارے علمائے کرام کی ایک تعداد ایسی ہے جو ایک مسئلے کا مالہٗ وماعلیہ جانے بغیر، خصوصاً اس جانب توجہ کیے بغیر کہ ایک مسئلہ کو خاص اِس موقعہ پر ہلانے جلانے کے پیچھے فی الحقیقت کونسے سماجی محرکات ہیں اور مجموعی طور پر معاشرہ کس رخ پر کھینچا اور دھکیلا جا رہا ہے… یہ سب کچھ دیکھے بغیر ہمارے یہ علمائے کرام ایک مسئلہ پر بحث و مباحثہ شروع کرلیتے ہیں۔ معاشرے کی لبرل تشکیل کرنے والا ’سمجھدار‘ ایجنڈا ہمارے مولویوں کی اس سادہ لوحی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر، یوں اپنے حق میں کچھ نہ کچھ تائید کا بندوبست کرلیتا ہے اور اس طریقے سے بڑی تیزی کے ساتھ وہ ہمارے معاشرے میں اپنا راستہ بناتا چلا جارہا ہے۔ کم از کم بھی اس ایجنڈا کو وہ مزاحمت نہیں ملتی جو معاشرے کے نظریاتی محافظوں سے اُس کو ملنی چاہئے تھی۔
بےشک یہ بات مغرب کے ملحدوں نے کہی ہو مگر یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ: انسانی ہارمونز کو قانون اور اخلاق کی بیڑیاں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام نے کمسنی کی شادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی اور نہ صرف قرونِ اولیٰ بلکہ طویل صدیوں تک اسلامی معاشروں میں یہ بات ہمیں عام نظر آتی ہے۔ اسلام اس پر پابندی عائد کردیتا تو یہ انسانی خلیوں پر اپنا طبعی انجام دینے پر ایک طرح کی پابندی ہوتی۔ اسلام کبھی ایسا نہیں کرتا۔ یہ ’انسانی ہارمونز‘ خدائی تخلیق میں وہ چیز ہیں جو نہ کسی عدالت سے پوچھ کر اپنا عمل کرتے ہیں اور نہ کسی نظریاتی کونسل سے اجازت لےکر۔ شریعت نیچر کو صرف راہ دکھاتی ہے اس کو دبانے کی کوشش ہرگز نہیں کرتی؛ کیونکہ ایسا کرنا ابنارمل رویوں کو جنم دیتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے یہ بات انسان کی اپنی مرضی اور آسانی پر چھوڑ دی ہے کہ اپنی جنسی خواہش کی تسکین وہ کب اور کس عمر میں کرنا چاہتا ہے البتہ شرط صرف یہ عائد کی ہے کہ وہ بدکاری اور خدا کی نافرمانی کی راہ سے نہ ہو بلکہ خدا کی فرماں برداری کی راہ سے ہو۔ مغرب کے طرزِ عمل کو آپ جتنا بھی شرمناک اور حیاباختہ کہہ لیں، لیکن مغرب کا وہ شرمناک دستور پھر بھی ہماری نظر میں آپ کے اس نام نہاد بل کی نسبت جو ’کمسنی کی شادی پر پابندی‘ عائد کروانے کےلیے پیش کیاجارہا تھا کہیں زیادہ عملی اور واقعاتی ہے۔ مغرب نے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے تو کم سنی کی بدکاری کو جائز رکھا ہے۔ اس لحاظ سے مغرب نے انسانی جسم اور انسانی ہارمونز کے ساتھ جنگ کی حماقت بہرحال نہیں کی ہے۔ اسلام نے تو انسانی خواہش اور فطرت کے ساتھ ظاہر ہے کبھی کوئی ایسی کوئی جنگ چھیڑی ہی نہیں، صرف اس کا تزکیہ کیا اور اس کو پاکیزگی سکھائی ہے۔ البتہ آپ کے نابغوں نے واقعی کمال کردیا۔ حلال راستہ بھی بند، حرام راستہ بھی بند! لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ محض کم فہمی نہیں، اس کے پیچھے ایک نہایت خرانٹ ایجنڈا بھی کارفرما ہے۔ واقفانِ حال خوب جانتے ہیں، پاکستان میں ’کنڈوم کلچر‘ جس تیزی کے ساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ’سیکس ایجوکیشن‘ کی دہائی پڑگئی ہے، ان تمام اشیاء کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو یہ آپ کو پورا ایک ’پیکیج‘ نظر آئے گا۔ معاشرے میں جنسی محرکات بہت زیادہ بڑھا دو بلکہ معاشرے کو جنسی بخار میں مبتلا کردو۔ ہزارہا مؤثرات کو کام میں لاکر شہوت انگیزی آسمان پر پہنچا دو… پھر جب ایسا کرلو تو تسکینِ خواہش کے ’’حلال‘‘ راستوں پر ’قانون‘ کے پہرے بٹھادو! تب ’’حرام‘‘ راستے اپنے کھلنے کےلیے کسی سے اجازت لینے نہیں آئیں گے اور معاشروں میں صالحین کے باندھے ہوئے وہ دیرینہ بند خودبخود ٹوٹتے چلے جائیں گے!
’’حلال‘‘ کے راستے میں سماجی بند تو یہاں بڑی دیر سے باندھے جارہے تھے جس کی وجہ سے شادی بڑی عمر میں جاکر کرنے کا رجحان پچھلے کچھ عشروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا ہے اور جوکہ حیا اور عفت کا گراف نیچے لےجانے کا ایک طبعی سبب بنا ہے… لیکن اس کو ناکافی جانتے ہوئے اب البتہ ’’حلال‘‘ کے راستے میں باقاعدہ قانونی بند بھی باندھے جانے لگے ہیں۔
یہودی منصوبہ ساز خوب جانتا ہے ہے، مسلم معاشروں میں ’’حرام‘‘ کو جائز کرنے کا بل پیش کرنا تو فی الحال ممکن نہیں۔ یہ مقصد اُس کی نظر میں فی الوقت اس طرح پورا کرلیا جائے گا کہ ’’حلال‘‘ ہی ناجائز اور گھناؤنا بنا دیا جائے! جانتا ہے، پانی اپنے راستے خود بنا لیتا ہے!
 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75
اس بارے میں کچھ وضاحت درکار ہے
حضرت عائشہؓ کی شادی سن 10 نبوی میں ہوئی۔ اب چھ سال کے حساب سے تاریخ پیدائش سن 4 نبوی بن رہی ہے
بخاری میں حضرت عائشہؓ سے ہجرت حبشہ کے بارے میں روایت بھی موجود ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب (مکہ میں) مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کر کے نکلے۔ جب آپ مقام برک غماد پر پہنچے تو آپ کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ملک ملک کی سیاحت کروں (اور آزادی کے ساتھ)اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا لیکن ابوبکر! تم جیسے انسان کو اپنے وطن سے نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے۔ تم محتاجوں کی مدد کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور حق پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتے ہو، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ وہ واپس آ گئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اس کے بعد ابن الدغنہ قریش کے تمام سرداروں کے یہاں شام کے وقت گیا اور سب سے اس نے کہا کہ ابوبکر جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ نکالا جانا چاہیے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکال دو گے جو محتاجوں کی امداد کرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور حق کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ الخ
ہجرت حبشہ سن 4 نبوی سے 5 نبوی تک ہوئی یا 6 نبوی بھی کہہ سکتے ہیں
اب دو سال تک کی عمر کے واقعات اتنی تفصیل سے یاد رہ سکتے ہیں؟؟؟
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
کم عمری میں شادی کرنے سے عورت اور بچے کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اور شدید پیچیدگیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس لیے عام طور پر اس سے منع کیا جاتا ہے۔ کم عمری میں شادی ایک طبعی مسلہ ہے اور طبعیات کا ماہر ہی بتا سکتا ہے کہ آج کے زمانے میں کس عمر میں شادی زیادہ مناسب ہے۔
پچھلے دنوں ایک خبر پڑھ کر پتا چلا کہ مصر میں سیاح محدود مدت کے لیے اپنے سے کہیں چھوٹی لڑکیوں سے نکاح کرلیتے ہیں اور جب گھوم پہر کر اپنے ملک واپس جانے لگتے ہیں تو لڑکی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ کچھ اس سے ملتا جُلتا پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔
ایسے مسلے میں بار بار انبیاء اور ازواج مطہرات کا ذکر مناسب بھی نہیں لگتا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس بارے میں کچھ وضاحت درکار ہے
یہاں پہلی بات یہ ملحوظ رکھیں کہ ہجرت حبشہ دو دفعہ ہوئی ۔ (دیکھئے الرحیق المختوم )
دوسری بات یہ کہ یہ ہجرت ۔۔مدینہ والی ہجرت تک منقطع نہیں ہوئی ۔۔۔
اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ مذکورہ ہجرت ۔۔ہجرت مدینہ کے قریب ہوئی ،اس کی دلیل یہ کہ
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کو کہتے ہیں :
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ.
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِينَ: قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، أُرِيتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ. هُمَا الْحَرَّتَانِ [5] ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ (تاریخ اسلام للذہبی ۔ ج۱ ص۳۱۹ )

ــــــــــــــ
اور اگر پانچ ، چھ سن نبوی کو بھی اس واقعہ کا وقوع مان لیا جائے ۔تو یہ روایت سیدہ عائشہ ؓ کی ان روایات میں شمار ہوگی جو انہوں نے دوسرے صحابہ و صحابیات سے سن کر بیان کیں ۔اور مراسیل صحابہ کی حجیت و صحت اتفاقی ہے (جیسا کہ اصول حدیث کی کتب میں موجود ہے )
(( في الباعث الحثيث في إختصار علوم الحديث .قال ابن الصلاح: وأما مراسيل الصحابة، كابن عباس وأمثاله، ففي حكم الموصول، لأنهم إنما يروون عن الصحابة، كلهم عدول، فجهالتهم لا تضر. والله أعلم."))
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ويقول الذهبي رحمه الله :" عائشة ممن ولد في الإسلام ، وهي أصغر من فاطمة بثماني سنين ، وكانت تقول : لم أعقل أبوي إلا وهما يدينان الدين " انتهى ." سير أعلام النبلاء " (2/139(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہؓ کی شادی سن 10 نبوی میں ہوئی۔ اب چھ سال کے حساب سے تاریخ پیدائش سن 4 نبوی بن رہی ہے
جی یہی بات حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
ويقول الحافظ ابن حجر رحمه الله :" ولدت – يعني عائشة – بعد المبعث بأربع سنين أو خمس " انتهى ." الإصابة " (8/16) .
وعليه يكون عمرها عام الهجرة ثماني سنين أو تسع سنين ، وهذا ما يتفق مع حديثها السابق عن نفسها .

وقت کی قلت کے سبب یہ سطور عجلت میں پیش خدمت ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کم عمری میں شادی کرنے سے عورت اور بچے کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اور شدید پیچیدگیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس لیے عام طور پر اس سے منع کیا جاتا ہے۔ کم عمری میں شادی ایک طبعی مسلہ ہے اور طبعیات کا ماہر ہی بتا سکتا ہے کہ آج کے زمانے میں کس عمر میں شادی زیادہ مناسب ہے۔
پچھلے دنوں ایک خبر پڑھ کر پتا چلا کہ مصر میں سیاح محدود مدت کے لیے اپنے سے کہیں چھوٹی لڑکیوں سے نکاح کرلیتے ہیں اور جب گھوم پہر کر اپنے ملک واپس جانے لگتے ہیں تو لڑکی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ کچھ اس سے ملتا جُلتا پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔
ایسے مسلے میں بار بار انبیاء اور ازواج مطہرات کا ذکر مناسب بھی نہیں لگتا
’’اسلام میں شادی کے لیے عمر کی کوئی حد بندی نہیں ‘‘ یہ بالکل واضح بات ہے کہ نہ تو کسی خاص عمر میں شادی کو حرام قرار دیا نہ کسی خاص عمر میں شادی کو واجب ۔
اگر کوئی مرد یا عورت شادی اور اس کے لوازمات کے قابل نہیں ، وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں ، اسلام ان پر شادی کو واجب قرار نہیں دیتا ۔
انبیاء اور ازواج مطہرات کا تذکرہ اس وجہ سے آتا ہے ، کہ منکرین حدیث حضور کی سچی و ثابت سیرت کے بعض افعال کو ’’ شرمناک فعل ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ یعنی یہ فعل شرمناک ہے لہذا حضور اس کا ارتکاب نہیں کرسکتے ۔
اس سے بڑی بدتمیزی اور کیا ہوگی کہ اپنی عقل کے زور پر سیرت کے جس مرضی پہلو کو غیر ثابت قرار دے دیا جائے ۔
 
Top