دلِ صاحبِ اولاد کے لیے انصاف حاضر ہے
شیخ شفقت الرحمن مغل
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم رہتے ہوئے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں عدم عدل پر آمادہ نہ کرے، عدل ہی کرو یہی پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔[المائدة : 8]
دلِ صاحبِ اولاد کیلیے انصاف حاضر ہے،،،
6 سال میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی کسی عام امتی نے بیان نہیں کی بلکہ جس کی رخصتی ہوئی انہوں نے خود بیان کی، پھر ان سے بیان کرنے والے بھی انہیں کے بھانجے، بھتیجے، سمیت وہ ہیں جن کی انہوں نے خود پرورش فرمائی، مزید برآں اسے روایت بھی قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتب صحیح بخاری اور مسلم نے کیا ہے۔
بات امیج خراب ہونے کی نہیں یہاں عقل خراب ہونے کی بھی ہے کہ ایک معاملہ جو اجماعی طور پر مسلمہ ہے اور اس کے بر خلاف موصوف جیسے شاذ و نادر کے علاوہ کسی نے ہرزہ سرائی نہیں کی آج اسے بیان کرنے والوں کو "شرم محسوس" کروائی جا رہی ہے، تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف اجماعی مسائل بیان کرنے والوں کو "شرم" بطور "رفیقہ حیات" محض "محسوس" کروانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوں۔
اور یہ کوئی نفاق والی بات نہیں ہے بلکہ مبنی بر حقائق ہے کہ اگر "صنف نازک" شوہر کے قابل ہو تو کوئی بھی قبول کرنے میں تامل نہیں کرتا، نہیں یقین تو آزما کر دیکھ لیں، دودھ ہی دودھ اور پانی ہی پانی ہو جائے گا، ویسے بھی آپ کے زیر عتاب کے ہاں چار میں سے ایک نشست خالی ہے، غنیمت جانیں کہیں موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے!
آپ ایک راوی کی بات کرتے ہیں یہاں یہ بات بیان کرنے والے کئی ہیں! چونکہ میرے مخاطب دلیل کے بغیر ماننے والے نہیں ہیں اس لیے ہم انہیں اس مزاج پر داد کیساتھ دلیل بھی دیتے ہیں:
اس واقعہ کو انہی سے براہِ راست بیان کرنے والے اس "ایک" راوی کا نام عروہ بن زبیر رحمہ للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے]، قاسم بن محمد بن ابو بکر رحمہ للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے]، عمرہ بنت عبد الرحمن رحمہا للہ [عائشہ رضی اللہ عنہا کی پروردہ اور شاگردہ] ، اسود بن یزید رحمہ للہ [ابراہیم نخعی رحمہ للہ کے ماموں]، قاسم بن عبد الرحمن رحمہ للہ ، یحی بن عبد الرحمن حاطب رحمہ للہ ہے، یہ پورے نصف درجن راوی ہیں جنہیں ہمارے موصوف "ایک" کہہ رہے ہیں یہ سب کے سب عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں بیان کرتے ہیں۔ یہ روایات صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور سنن ابو داود وغیرہ میں موجود ہیں۔
موصوف نے آیت پیش کر کے "رشد" کو نکاح کی شرط قرار دیا ہے وہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کہاں تک درست ہے، [یہاں صرف عقد نکاح کے متعلق بات ہوگی ، ہم بستری کی نہیں]
چنانچہ آنجناب نے جو ترجمہ پیش کیا ہے اسی کو پڑھ لیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ : رشد یعنی عقل و شعور نکاح کی شرط ہے یا یتیموں کو ان کا مال واپس کرنے کی؟ پیش کردہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: (اور یتیموں کو آزماتے رھو یہانتک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ، پھر اگر تم ان میں رشد یعنی عقل و شعور پاؤ تو ان کو ان کا مال سونپ دو)
یہ آخری جملہ " اگر تم ان میں رشد یعنی عقل و شعور پاؤ تو ان کو ان کا مال سونپ دو " اس میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: شادی کر دو، بلکہ فرمایا ہے کہ ان کو ان کا مال سونپ دو، تو یہ نکاح کیلیے رشد کی دلیل کہاں سے بنتی ہے؟ اور اگر موصوف کی بات مان بھی لی جائے کہ ٹھیک ہے اس آیت میں رشد کو نکاح کی شرط بتلایا گیا ہے تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے کہ 9 سالہ عمر میں ہی کوئی خاوند کے قابل ہو جائے اور اس کی شادی کر دی جائے!؟
تیسری بات کرتے ہوئے بلوغت کی شرط "رشد" لگائی یہ جناب کی اپنی اختراع ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
چوتھی بات میں سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 کے بارے میں کہا کہ یہ عورتوں کی بات ہے، آنجناب کو یہ معلوم نہیں ہے کہ پہلے بوڑھی عورتوں کی بات کی پھر ایسی شادی شدہ صنف نازک کی بات کی جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں، انہیں بڑی عمر کی عورتوں سے تعبیر کرنا سراسر زیادتی ہے، نیز ان الفاظ کے بارے میں آپکی کوئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی بلکہ صحابہ و تابعین نے جو تفسیر بیان کی ہے وہ مانی جائے گی، چنانچہ " وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" سے کیا مراد ہے، قتادہ، سدی، اور ضحاک رحمہم اللہ جمیعا کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹی بچیاں ہیں جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں، نیز نظم قرآن بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اس آیت میں پہلے " يَئِسْنَ " فرما کر پہلے بوڑھی خواتین کا ذکر کیا، کیونکہ "يأس" عربی زبان میں بالکل نا امیدی کو کہتے ہیں، یعنی وہ خواتین جنہیں حیض کی بالکل کوئی امید نہیں رہی، پھر قرآن مجید نے " ارْتَبْتُمْ" کا ذکر کیا، اور عربی زبان میں "ریب" شک کو کہتے ہیں تو یہاں پر "ریب" سے اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ خاتون جسے حیض آنے یا نہ آنے کا حتمی علم نہیں ہے، پھر تیسرے نمبر پر " لَمْ يَحِضْنَ" کہہ کر ان کا تذکرہ فرمایا جنہیں حیض سرے سے آیا ہی نہیں ان سب کی عدت تین ماہ ہے۔ مزید کیلیے تفسیر طبری ملاحظہ فرمائیں۔
اب یہاں پر پوری ڈھٹائی کیساتھ یہ کہہ دینا کہ بچیاں زیر بحث ہی نہیں ہیں واشگاف الفاظ میں نظم قرآنی کا بھی انکار ہے، حالانکہ کہ موصوف یہ کہتے ہوئے کہ:"ہمارے بزرگوں کی ترجمانیاں دیکھیے" اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ کسی نے بھی ترجمہ میری مان مانی کے مطابق نہیں کیا، چنانچہ جب میں نے پورے گیارہ تراجم دیکھے تو وہ سب کی سب موصوف کے بالکل مخالف تھے۔ گویا کہ دنیا میں اس آیت کو صحیح سمجھنے کی توفیق موصوف کو ہی ملی ہے باقی سب "جاہل" ہی ہیں!! یا اللہ! تیری پناہ!
پھر موصوف کا کہنا ہے کہ " 8 یا 9 یا 10 سال کی بچی کو عربی میں کبھی نساء اور اردو میں کبھی عورت نہیں کہتے " جناب "نساء" عربی میں "امرأة" کی جمع ہے اگر عربی زبان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو اس سمندر میں مت کودیں، ایک عورت کو "نساء" نہیں بلکہ عربی میں "امرأة" کہا جائے گا، اب آئیں اپنی کم علمی کا مزید احساس کریں کہ جامع ترمذی (2/ 409) پڑھ کر دیکھیں آپ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات نظر آئے گی:"إِذَا بَلَغَتِ الجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ" یعنی: "جب بچی 9 سال کی ہو جائے تو وہ عورت ہے" اب ایک ہی جگہ پر عربی اور اردو دونوں میں 9 سالہ لڑکی کو "امرأة" یعنی عورت کہا گیا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کی رہنمائی فرمائے۔ آمین