• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پتھروں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دینا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ کی صحت درکار ہے

حضرت علیؓ فرماتے ہیں ایک دن حضور اکرمﷺ اور میں جنگل میں جا رہے ہیں جنگل کے درختوں نے جب حضورﷺ کو دیکھا تو جھک کر آپﷺ پر درود و سلام پڑھنا شروع کر دیا یہ تو جانداروں کی حالت ہے بے جان پتھروں سے نبیﷺ کی رحمت کے بارے میں پوچھتے ہیں اے پتھرو بتاؤ محمدﷺ کون ہیں؟ یہ ابوجہل آ گیا مٹھی میں پتھر لئے ابوجہل کہتا ہے کہ اے حضرت محمدﷺ اگر یہ بتاؤ دو کہ میری مٹھی میں کیا ہے ؟ تو میں کلمہ پڑھ لوں گا حضورﷺ نے پتھروں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا بتاؤ میں کون ہوں تو پتھروں نے نبی و رحمت کی گواہی دی کہ آپ ﷺ ﷲ کے نبی ورسول ہیں اور آپ کا مشن پروگرام سچا اور لاریب ہے اس کھجور کی ٹہنی سے پوچھو نبیﷺ کی رحمت کا کیا عالم ہے جو وصال پیغمبر ﷺکے بعد اس قدر روئی کہ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ نے اس کی بلند رونے کی آواز سنی اس وقت تک روتی رہی جب تک پیغمبر دو جہاں کے ساتھ والی جگہ میں دفن نہیں ہوئی اس گدھے سے پوچھو جو نبیﷺ رحمت کو نہ پا کہ اس غم میں مر گیا ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کافی تلاش کے باوجود مجھے نہیں مل سکی. کوئی بھائی رہنمائی کریں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
نظر کرم فرمائیں...... بہت شدت سے منتظر ہوں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کافی تلاش کے بعد یہ ملا، لیکن یہ وہ روایت نہیں ہے:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا الْكُدَيْمِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، وَأَنْبَأَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ رَجُلٍ، يُقَالُ لَهُ سُوَيْدُ بْنُ يَزِيدَ السُّلَمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: لَا أَذْكُرُ عُثْمَانَ إِلَّا بِخَيْرٍ بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ، كُنْتُ رَجُلًا أَتَتَبَّعُ خَلَوَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُهُ يَوْمًا جَالِسًا وَحْدَهُ، فَاغْتَنَمْتُ خَلْوَتَهُ فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ أَبِي بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ عَنْ يَمِينِ عُمَرَ، وَبَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعُ حَصَيَاتٍ، أَوْ قَالَ: تِسْعُ حَصَيَاتٍ، فَأَخَذَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي كَفِّهِ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتَ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ ثُمَّ أَخَذَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ أَبِي بَكْرٍ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ [ص: 65] عُمَرَ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ عُثْمَانَ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ» . وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ قُرَيْشِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، وَصَالِحٌ لَمْ يَكُنْ حَافِظًا وَالْمَحْفُوظُ رِوَايَةُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. قَالَ ذَكَرَ الْوَلِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ كَبِيرِ السِّنِّ كَانَ مِمَّنْ أَدْرَكَ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ ذَكَرَ لَهُ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پتھروں کی گواہی والی روایت فی الحال نہیں مل سکی ، جبکہ بقیہ دیگر باتیں جو سامنے آئیں ، پیش خدمت ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ، فَذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِهِ، فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِئِ الْوَادِي، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى إِحْدَاهُمَا، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا ، فَقَالَ: «انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ» فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ، الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ، حَتَّى أَتَى الشَّجَرَةَ الْأُخْرَى، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، فَقَالَ: «انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ» فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا، لَأَمَ بَيْنَهُمَا - يَعْنِي جَمَعَهُمَا - فَقَالَ: «الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ» فَالْتَأَمَتَا، قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ يُحِسَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُرْبِي فَيَبْتَعِدَ - وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ - فَيَتَبَعَّدَ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي، فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَةٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا، وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا، فَقَامَتْ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَى سَاقٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ وَقْفَةً، فَقَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا - وَأَشَارَ أَبُو إِسْمَاعِيلَ بِرَأْسِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا - ثُمَّ أَقْبَلَ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيَّ قَالَ: «يَا جَابِرُ هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟» قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «فَانْطَلِقْ إِلَى الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، فَأَقْبِلْ بِهِمَا، حَتَّى إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِينِكَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِكَ»، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَكَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ، فَانْذَلَقَ لِي، فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتَّى قُمْتُ مَقَامَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِينِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ، يَا رَسُولَ اللهِ فَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: «إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ، بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا، مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ»
صحيح مسلم باب حديث جابر الطويل برقم
(3012)

__________

جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم ایک وسیع وادی میں اترے اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت کے لئے چلے گئے اور میں ایک ڈول میں پانی لے کر چلا تو آپ نے کوئی آڑ نہ دیکھی جس کی وجہ سے آپ پردہ کرسکیں اس وادی کے کناروں پر دو درخت تھے رسول اللہ ان دونوں درختوں میں سے ایک درخت کی طرف گئے اور اس درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا اللہ کے حکم سے میرے تابع ہوجا تو وہ شاخ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہوگئی جس طرح کہ وہ اونٹ اپنے کھینچنے والے کے تابع ہوجاتا ہے جس کے نکیل پڑی ہوئی ہو پھر آپ نے دوسرے درخت کی طرف آئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا اللہ کے حکم سے میرے تابع ہوجا تو وہ شاخ بھی اسی طرح آپ کے تابع ہوگئی یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں درختوں کے درمیان ہوئے تو دونوں کو ملا کر فرمایا تم دونوں اللہ کے حکم سے آپس میں ایک دوسرے سے جڑ جاؤ تو وہ دونوں جڑ گئے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس ڈر سے نکلا کہ کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے قریب دیکھ کر دور نہ تشریف لے جائیں میں اپنے آپ سے (یعنی دل میں) بیٹھے بیٹھے باتیں کرنے لگا تو اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرہے ہیں (اور پھر اس کے بعد) وہ دونوں درخت اپنی اپنی جگہ پر جا کر کھڑے ہوگئے اور ہر ایک درخت اپنے تنے پر کھڑا ہوا علیحدہ ہو رہا ہے (حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں) کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیر ٹھہرے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ فرمایا ابواسمعیل نے اپنے سر سے دائیں اور بائیں اشارہ کر کے بتایا پھر آپ سامنے آئے اور جب آپ میری طرف پہنچے تو فرمایا اے جابر کیا تو نے دیکھا جس جگہ میں کھڑا تھا میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان دونوں درختوں میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ آجاؤ جس جگہ میں کھڑا ہوں تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف اور ایک شاخ اپنی بائیں طرف ڈال دینا حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر کو پکڑا اور اسے توڑا اور اسے تیز کیا وہ تیز ہوگیا تو پھر میں ان دونوں درختوں کے پاس آیا تو میں نے ان دونوں درختوں میں سے ہر ایک سے ایک ایک شاخ کاٹی پھر میں ان شاخوں کو کھینچتے ہوئے اس جگہ پر لے آیا جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے تھے۔ پھر میں نے ایک شاخ دائیں طرف ڈالی اور دوسری شاخ بائیں طرف ڈالی پھر میں جا کر آپ سے ملا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جس طرح آپ نے مجھے حکم فرمایا تھا میں نے اسی طرح کردیا ہے کہ لیکن اس کی وجہ کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دو قبروں کے پاس سے گزرا مجھے وحی الٰہی کے ذریعہ پتہ چلا کہ ان قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے تو میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں ان کی شفاعت کروں شاید کہ ان سے عذاب ہلکا کردیا جائے جب تک کہ یہ دونوں شاخیں تر رہیں گی۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ تُرِيدُ؟» ، قَالَ: إِلَى أَهْلِي، قَالَ: «هَلْ لَكَ إِلَى خَيْرٍ؟» ، قَالَ: مَا هُوَ؟ قَالَ: «تَشَهَّدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» ، قَالَ: هَلْ مِنْ شَاهِدٍ عَلَى مَا تَقُولُ؟ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ السَّمُرَةُ» ، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِشَاطِئِ الْوَادِي، فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ خَدًّا حَتَّى كَانَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَاسْتَشْهَدَهَا ثَلَاثًا، فَشَهِدَتْ أَنَّهُ كَمَا قَالَ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَنْبَتِهَا، وَرَجَعَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى قَوْمِهِ، وَقَالَ: إِنْ يَتَّبِعُونِي أَتَيْتُكَ بِهِمْ، وَإِلَّا رَجَعْتُ إِلَيْكَ فَكُنْتُ مَعَكَ (1) .
[الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان]

سیدنا عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم نبی کریم ﷺ کے جارہے تھے کہ راستے میں ایک اعرابی ملا ، جب وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا تو آپ نے اس سے فرمایا : کہاں کا ارادہ ہے ؟
اس نے کہا اپنے گھر جارہا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا خیر و بھلائی کی طلب ہے ؟
اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،اور محمدﷺ اس بندے اور رسول ﷺ ہیں ،
اس نے کہا جو آپ کہہ رہے ہیں اس کا کوئی گواہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ (سامنے والا ) درخت گواہی دے گا ،
پھر آپ نے اس درخت کو اپنے پاس بلایا ، جبکہ وہ وادی کے ایک کنارے پر تھا ،
اس پر وہ درخت زمین چیرتا آپ ﷺ کے پاس آکھڑا ہوا ، آپ ﷺ نے اس سے تین مرتبہ گواہی طلب کی ، اس نے حسب ارشاد گواہی دی ، پھر اپنی جڑ والی جگہ واپس چلاگیا ،
اور اعرابی اپنی قوم کے پاس چلا گیا ، اور جاتے جاتے کہہ گیا کہ اگر میری قوم نے میری بات مانی تو میں ان کے ساتھ آپ کے پاس آؤں گا ، بصورت دیگر خود اکیلا آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا ۔
__________
(1) رجاله ثقات رجال الشيخين، غير عبد الله بن عمر الجعفي، فمن رجال مسلم، وهو حسن الحديث. ابْنُ فُضَيْلٍ: هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ بْنِ غزوان، وأبو حيان: هو يحيى بن سعيد التيمي.
وقد أعله أبو حاتم فيما نقله عنه ابنه في " العلل " 1/293 بأن أبا حيان لم يسمع من عطاء ولم يرو عنه، وليس هذا الحديث من حديث عطاء.
وأخرجه البيهقي في " دلائل النبوة " 6/14-15 عن أبي عبد الله الحاكم، أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله الوراق، أخبرنا الحسن بن سفيان، بهذا الإسناد.


عن جابر بن سمرة ـ رضي الله عنهما ـ قال: قال رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ـ ( إني لأعرف حجرا بمكة، كان يسلم علىَّ قبل أن أُبعث، إني لأعرفه الآن ) ( مسلم ).
حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں کہ جو مکہ مکرمہ میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے مجھ پر سلام کیا کرتا تھا۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ": «هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ» وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، وَقَالَ: عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، مِنْهُمْ فَرْوَةُ بْنُ أَبِي المَغْرَاءِ (سنن الترمذي 3626 )

علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم اس کے بعض اطراف میں نکلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتے سبھی السلام علیک یا رسول اللہکہتے۔”السلام علیک یا رسول اللہ "“ کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- کئی لوگوں نے یہ حدیث ولید بن ابی ثور سے روایت کی ہے اور ان سب نے
«عن عباد أبي يزيد» کہا ہے، اور انہیں میں سے فروہ بن ابی المغراء بھی ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ۱۰۱۵۹) (ضعیف) (سند میں عباد بن یزید مجہول، اور ولید بن ابی ثور ضعیف اور سدی متکلم فیہ راوی ہیں)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ، فَلَمَّا اتَّخَذَ المِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الجِذْعُ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ "صحیح بخاری 3583
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بن گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے اس پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس لکڑی نے باریک آواز سے رونا شروع کر دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لائے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا "

اور فتح الباری میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :

وَوَقَعَ فِي حَدِيثِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسٍ كَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ الْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَوْقًا إِلَى لِقَائِهِ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوا إِلَيْهِ "
یعنی سیدنا حسن بصریؒ یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اورفرماتے ’’اے اللہ کے بندو! لکڑی ہجرِ رسولﷺ میں روتی اور آپﷺ کے دیدار کا اشتیاق رکھتی ہے۔ تو تم اس سے زیادہ حق رکھتا ہو کہ فراق رسولﷺ میں بے قرار رہو۔‘‘

فسبحان من أنطق لنبيه ـ صلى الله عليه وسلم ـ الجماد، فسلم عليه الحجر، وانقاد إليه الشجر، وحنَّ له
الجذع، وجعل ذلك معجزة من معجزاته، ودليلا من دلائل نبوته وصدقه، وآية على علو شأنه ومنزلته ـ
صلى الله عليه وسلم

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
 
Top