• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پھر ایک تھپڑ کھا کر مظلوم بن گئی۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
”میں اس برادری ازم سے بری ہوں“ –

سبوخ سید

سبوخ سید اس طرح تو محلے کی ماسیاں بھی نہیں کرتیں جس طرح یہ محترمہ جرنلزم کر رہی ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک رویہ ہے۔ چینل مالکان جو ”دِکھتی ہے وہ بکتی ہے“ کے اصول پر جرنلزم نہیں، بلکہ دھندے بازی میں مصروف ہیں ۔

موصوفہ جن کا نام صائمہ کنول بتایا جاتا ہے، کراچی21 نامی چینل پر ”کراچی کی آواز“ کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔ اس پروگرام کا موضوع بہت اچھا اور وہ ایک اہم مسئلہ کی جانب نشاندہی کر رہی تھیں۔

آپ نے اگر ویڈیو نہیں دیکھی تو یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔

http://daleel.pk/2016/10/21/12358

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے یہ عورتوں کی بے عزتی کر رہا تھا، جس کی وجہ سے انہیں غصہ آگیا۔ جس وقت انہیں غصہ آیا، اس وقت وہ صحافی نہیں بلکہ فریق بن گئیں۔ انہوں نے اپنی فیس بک وال پر اپنے دفاع میں لکھا کہ

”وہ حلال زادی ہیں۔ مائوں بہنوں کی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتی۔“

میری گزارش ہے کہ یہ محترمہ کشمیر و فلسطین نکل جائیں، ونی، سوارا، کاروکاری، جبری تبدیلی مذہب، کم عمری اور جبری شادیوں کے مسئلے پر آواز اٹھائیں۔ اس موضوع پر ایک تنظیم بنائیں اور تحریک شروع کریں۔ میں بھی آپ کا ساتھ دوں گا لیکن جو کچھ آپ کر رہی ہیں یہ ایکٹوازم تو ہے جرنلزم نہیں۔

انہیں چاہیے تھا کہ وہ عورتوں کی بےعزتی کرنے کا منظر ریکارڈ کر کے اپنے چینل پر دکھاتیں۔ اس شخص کا مؤقف لینے کی کوشش کرتیں۔ اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو اس کی فوٹیج بنا تیں۔ جن عورتوں سے بدتمیزی کی، ان کا مؤقف لیتیں اور نشر کردیتیں۔

موصوفہ ایکٹر نما اینکر کی غصے سے لرزتی آواز، ان کا اشتعال پیدا کرنے والا انداز، ان کا سپاہی کی وردی کھینچنا، اس پر ہاتھ اور مائیک سے حملہ آور ہوجانا صحافت نہیں، ان کی ذاتی لڑائی بن چکا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں۔ بالکل ٹھیک کہا لیکن یہ عورت سپاہی کی وردی پر ہاتھ اٹھانے کے بعد صحافت اور احترام کا حق کھوچکی تھیں۔ ہاتھ اٹھائوگے تو ہاتھ اٹھایا جائے گا۔

تاہم دو غلط مل کر ایک ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہاں اس عورت نے چار غلطیاں کیں۔

(1) جرنلزم کے بجائے ایکٹوازم شروع کردیا۔
(2)ایکٹوازم کے بعد مدعی بن گئیں۔
(3) مدعی بننے کے بعد جج بن کر فیصلہ کردیا۔
(4) جج بننے کے بعد سزا دینے کے لیے انتظامیہ بن گئی۔

پھر ایک تھپڑ کھا کر مظلوم بن گئی۔

جو لوگ اس خاتون اینکر کو سپورٹ کر رہے ہیں، انہیں جرنلزم کا ککھ پتا نہیں۔ وہ بھی چھاتہ بردار ہوں گے۔ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانے کی میں مذمت کرتا ہوں، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ سپاہی غریب ہے، ملازم ہے، اپنی مزدوری کر رہا ہے، جو حکم ہے اسے پورا کر رہا ہے۔ اَن پڑھ ہے لیکن دوسری جانب پڑھی لکھی، قوم کی اصلاح کرنے والی، ایران توران سے لے کر کاغان ناران تک، ہر موضوع مملکت کی سرخیل کھڑی ہے۔ بات مذمت کی ہوگی تو پہلی مذمت اینکر کی اور پھر دور کہیں جاکر سپاہی کی ہوگی۔

فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ نام نہاد ایکٹرز نما اینکرز آئے روز مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بندر کے ہاتھ میں استرے والی بات ہے۔ اس موقع پر صحافتی حقوق کی تنظیموں کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہوتا ہے کہ وہ غلط کو غلط کہنے کے بجائے برادری کے ساتھ کھڑے ہونا شروع کردیتی ہیں۔ میں اس برادری ازم سے بری ہوں۔ جو غلط ہے، وہ غلط ہے۔ چاہے میرے والد محترم کریں، میرا بھائی کرے، میرا دوست کرے یا میری اولاد کرے۔ صرف یہ رویہ ہی ہمیں ایک اچھا شہری بناسکتا ہے اور ہم ایک اس رویے سے ایک اچھا معاشرہ تخلیق کرسکتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

سرکاری اداروں میں پولیس ادارہ کی طرف سے سیکورٹی کے لئے طلب کی جاتی ہے جس پر مجاز ادارہ کا ہیڈ کی جانب سے بھی انہیں کچھ بریفنگ دی جاتی ہے۔

اینکر پرسن ہو یا اس کے علاوہ بھی کوئی اور، سرکاری ادارہ میں کسٹمر سروس تک انہیں رسائی دی جاتی ہے، اس سے آگے اندر جانے کے لئے انہیں اجازت کی ضرورتی ہوتی ہے، ایسا نہیں کہ اگر کوئی اینکر پرسن ہے تو وہ سیدھا بغیر اجازت کے اندر داخل ہونے کی قوت رکھتا ہے۔

مرد ہو یا عورت منہ سے بات کر سکتا ہے کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی کھینچ سکتا ہے اگر ایسا ہو تو پھر سامنے سے جو رد علم ہو گا اس پر قصور وار وہی کہلائے گا جو پہل میں دوسرے کو چھوتا ہے۔

خاتون اینکر نے جس طرح رپورٹنگ شروع کی اور کیمرہ مین کو اندر داخل ہونے پر زبردستی کر رہی ہے اور پھر ایسی زبان بھی استعمال کر رہی ہے جس کا اس سے کوئی تعلق بھی نہیں اور آن ڈیوٹی وردی میں آفیسر کی طرف انگلیاں اٹھا کے اسے برا بھلا بھی کہہ رہی ہے اور پھر اس کو بازو سے کھینچنے کی کوشش بھی اس نے کی جو قانونی طور پر جرم ہے، آپ منہ سے تو بول سکتے ہیں مگر کسی کو ٹچ نہیں کر سکتے، ہو سکتا ہے وہ پولیس والا جس علاقہ کے رہنے والا ہو وہ کسی غیر عورت کا خود کو ہاتھ لگانا پسند نہ کرتا ہو جس پر اس نے لیڈی اینکر کو تھپڑ مار دیا، اگر یہ وجہ نہ بھی رہی ہو تو خاتون اینکر کا اس کے ساتھ اس وقت جو رویہ تھا اس پر ایسا انسیڈنٹ ہونا ممکن سی بات ہے۔

خاتون اینکر ہر طرح سے غلط تھی۔

والسلام
 
Top