• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام حرم (الشیخ ابوعبدالکریم وابوعبدالرحمن محمد بن سلطان بن محمد اورون المعصومی )

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
پیغام حرم
(الشیخ ابوعبدالکریم وابوعبدالرحمن محمد بن سلطان بن محمد اورون المعصومی )

الشیخ ابوعبدالکریم وابوعبدالرحمن محمد بن سلطان بن محمد اورون المعصومی ماوراء لنھر کے شہر فرغانہ کے قریب ایک بستی خجندہ میں ۱۲۹۷ھ میں پیدا ہوئے ۔ان کا قبیلہ علم وفضل میں بلند مقام اور شہرت کا حامل تھا ۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اس کے بعد اپنے علاقہ کے معروف علماء الشیخ محمد بن عوض الخجندی اور شیخ عبدالرزاق المرغینانی البخاری کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا ۔اور علوم عقلیہ ونقلیہ کی تکمیل کی ۔
تحصیل علم سے فراغت پانے کے بعد مطالعہ ونظر میں وسعت پیدا ہوئی ۔مقلدین کے تعصب او ر دلائل کے سامنے سینہ زوری پر برسرعام تنقید شروع کی تو حنفی مقلدین نے سرزمین وطن میں رہنا دوبھر کردیا ۔بالآخر ۱۳۲۳ھ میں حجاز مقدس کے لیے رخصت سفر باندھا ۔مختلف ملکوں اور شہروں سے ہوتے ہوئے استنبول پہنچے جو اس وقت آل عثمان کا دارالخلافہ تھا ۔سلطان عبدالحمید سے ملاقات بھی کی ۔ترکی میں اہل سلام کی دینی زبوں حالی پر آرزدہ خاطر ہوئے۔
اسکندریہ ،سویز سے ہوتے ہوئے ۱۳۲۳ھ میں مکہ مکرمہ پہنچے فریضہ حج ادا کیا کبار علماء سے سند حدیث حاصل کی ۔ان کے مشائخ میں سے کئی متصوفانہ طریقوں پر کاربند تھے ۔انہوں نے بھی شیخ محمد بن معصوم بن عبدالرشید المجددی النقشبندی کی بیعت کی لیکن دل مضطرب گوہر مقصود کے لیے بے قرار ہی رہا ۔
اﷲکا نام لے کر انہوں نے کتب تفسیروحدیث کا براہ راست مطالعہ کرنا شروع کیا ۔مکہ مکرمہ میں تین برس مقیم رہنے کے بعد مسجد نبوی کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کا عزم کیا ۔یہاں بھی کئی علماء سے سند حدیث لی۔
وطن مالوف مراجعت کے لیے مصر پہنچے ۔اس وقت کے کبار علماء سے صحبت رہی۔یہیں پر شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اﷲاور ان کے تلمیذ حافظ ابن القیم کی تالیفات سے متعارف ہوئے ۔مصر سے انہوں نے شیخ الاسلام اور حافظ ابن القیم کی جملہ مطبوعہ تالیفات کے علاوہ ایک ہزار کتاب خریدی اور ترکی ویونان سے ہوتے ہوئے وطن پہنچے ۔اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ میں تدریس میں مشغول ہوگئے ۔دوران مطالعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں سے شغف بڑھتا چلاگیا اور گویا انہیں گوہر مقصود ہاتھ آگیا تھا۔اہل تقلید کی روش سے بیزار اور سلف صالح کے طریقہ کے مطابق توحید اور سنت کے پرجوش مبلغ بن گئے ۔ان کی یہ دعوت وتبلیغ سے اس علاقے میں اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔
اسی دوران انقلاب روس کے نام پر سرخ عفریت نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے ۔محمد سلطان معصومی کو ہزاروں دوسرے علماء کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا ۔رہا ہوکر خجندہ سے نقل مکانی کرکے مرغنیان میں سکونت اختیار کرلی ۔لیکن سکون نہیں پایا ۔کمیونسٹوں اور ملحدوں سے مناظرے کئے ۔تاشقند میں برسرعام مناظرہ کیا ۔ملحدوں اور کمیونسٹوں نے ان کے گھر پر حملہ کرکے لوٹ لیا اور انہیں گرفتار کرکے سزائے موت سنادی ۔۱۹۲۸ء میں کسی طریقہ سے قید سے فرار ہوکر چین پہنچے میں کامیاب ہوگئے ۔علماء کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا ۔رہا ہوکر خجندہ سے نقل مکانی کرکے مرغنیان میں سکونت اختیار کرلی ۔لیکن سکون نہیں پایا ۔کمیونسٹوں اور ملحدوں سے مناظرے کئے ۔تاشقند میں برسرعام مناظرہ کیا ۔ملحدوں اور کمیونسٹوں نے ان کے گھر پر حملہ کرکے لوٹ لیا اور انہیں گرفتار کرکے سزائے موت سنادی ۔۱۹۲۸ء میں کسی طریقہ سے قید سے فرار ہوکر چین پہنچے میں کامیاب ہوگئے ۔
۱۳۵۳میں حجاز مقدس پہنچے اور مکہ مکرمہ ہی کو وطن بنالیا ۔دارالحدیث میں استاد مقرر ہوئے ۔بیت اﷲمیں ترکی زبان میں درس دیتے تھے ۔کئی مفید کتابیں تالیف کیں ۔مکہ مکرمہ ہی میں ۱۳۸۰ھ میں وفات پائی ۔اور معلاء میں آسودہ خاک ہوئے
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
الحمد ﷲ الذی ھدانا الاسلام والایمان و وفقنا لمعرفۃ معانی کتابہ القرآن وفھمنا احادیث رسولہ سید الانس والجان علیہ الصلوات التسلیمات مادام الملوان ویسرنا السلوک الی ما سلک فیہ اصحابہ الکرام والتابعون لھم باحسان علی الکمال والتمام ۔

حمد وثناء اور صلوٰۃ وسلام کے بعد ! رب قدیر کی نوازشات کا محتاج بندۂ فقیر ابوعبدالکریم وابوعبدالرحمن محمد بن سلطان بن ابو عبداﷲمحمد اورون ،المعصومی الخجندی ،المکی (اﷲتعالیٰ اپنے اس بن دہ خاکسار کو اپنی کتاب پر عمل پیرا ہونے اور اپنے رسو ل کی سنت کادامن مضبوطی سے تھامنے کی توفیق ارزاں فرمائے اور خاتمہ ایمان پر نصیب کرے)عرض کرنا چاہتا ہے کہ مشرق بعید میں ٹوکیو اور اوساکا (جاپان)کے مسلمانوں کی طرف سے مجھے ایک سوالنامہ موصول ہوا ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اسلام کی حقیقت کیا ہے؟
کسی شخص کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کیا یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مروجہ چار مذہبوں میں سے کسی ایک کا حلقہ بگوش ہو؟
کیا مالکی ،حنفی ،شافعی ،حنبلی ہونا لازمی ہے ؟ یا نہیں ؟
اس سوالنامے کا پس منظر یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف نے مہیب تنازعہ کی صورت اختیار کرلی تھی ۔۔روشن ضمیر جاپانیوں کی خاصی بڑی تعداد نے جب ایمان کا شرف حاصل کرکے دین اسلام میں داخل ہونا چاہا اور ٹوکیومیں جمعیۃ المسلمین کے سامنے اس خواہش کا اظہارکیا تو ہندوستانی مسلمانوں کے ایک گروہ نے انہیں امام ابوحنیفہ کا مذہب اختیار کرنے کی ترغیب دی اور دلیل یہ دی کہ امام مذکور ’’سراج الامت‘‘ہیں (۱)
اس کے برعکس جاوا (انڈونیشیا)کی ایک جماعت کا اصرار تھا کہ نہیں شافعی ہونا لازمی ہے ۔
جاپانیوں نے یہ باتیں سنیں تو سخت متعجب ہوئے ۔حیرانی کے گرداب میں پھنس کر دولت ایمان سے محروم رہ گئے ۔مذاہب کا مسئلہ ان کے اسلام لانے میں سدِ راہ بن گیا ۔
تو اے استاذ محترم! ہم سمجھتے ہیں کہ آپ علم کا سمندر ہیں اور ہمیں امید ہے اس مہلک مرض کی شفا بھی اسی چشمہ آب حیات میں ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ازراہ کرم مسئلہ کی حقیقت کو واضح کرکے ہمارے اطمینان قلب اور شرح صدر کا سامان فرمائیں گے اور درماندگان کو منزل کی راہ دکھائیں گے ۔اﷲتعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔
ہم سب روسی مہاجرین کی نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔
والسلام علیکم وعلی کافۃ من اتبع الھدیٰ
محمد عبدالحی قربان علی
ٹوکیو ۔جاپان
محرم ۔۱۳۵۷ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) یہ لقب ایک موضوع روایت پر مبنی ہے ۔اس کے پورے الفاظ یہ ہیں ۔ یکون فی امتی رجل یقال لہ محمد بن ادریس اضر علی امتی من ابلیس ویکون فی امتی رجل یقال لہ ابوحنیفہ ھو سراج امتی ۔ میری امت میں محمد بن ادریس (شافعی)نامی شخص ہوگا جو میری امت کیلئے ابلیس سے بڑھ کر نقصان دہ ہوگا اور میری امت میں ابوحنیفہ نامی ایک شخص ہوگا وہ میری امت کا چراغ ہے۔روایت کے الفاظ اس کے من گھڑت ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔بُرا ہو تعصب کا جس کا شکار ہوکر لوگ اس قسم کی احادیث وضع کرتے رہے اور دیدہ دانستہ جہنم کے خریدار بنتے رہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ایمان و اسلام کی حقیقت

ایمان و اسلام کی
حقیقت

اﷲتعالیٰ کی عنایت وتوفیق سے جواباً عرض ہے ۔
ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ لاعلی العظیم ۔ وما توفیقی الا باﷲ وھو الموفق للصواب ۔
کتاب وسنت سے بے بہرہ عوام تو ایک طرف ،کئی علماء بھی اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان کے لئے ائمہ اربعہ یعنی ۔۔ابوحنیفہ ؒ ، مالکؒ ،شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اﷲکی جانب منسوب مذاہب میں سے کسی ایک کا پیروکار ہونا ضروری ہے ۔یہ محض غلط ہی نہیں بلکہ ایسا سمجھنے والے کی جہالت اور اسلام سے ناواقفیت کی دلیل بھی ہے ۔اس لئے کہ صحیحین کی حدیث جبرائیل علیہ السلام میں صاف طور پر وارد ہے۔
ان جبرائیل علیہ السلام سال رسول اﷲ ﷺ عن الاسلام ۔قال رسول اﷲ ﷺ فی جوابہ : ان تشھد ان لاالہ الااﷲ وان محمد ا رسول اﷲ وتقیم الصلوۃ وتوتی الزکوۃ وتصوم رمضان وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا ۔ قال ما الایمان ؟ فقال رسول اﷲ ﷺ: ان تؤمن باﷲ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ قال السائل : ما الاحسان ؟ فقال رسول اﷲﷺ : الاحسان ان تعبد اﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک ۔
’’حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سے اسلام کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲکے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اﷲکے رسول ہیں ۔نماز قائم کرنا،زکوۃ ادا کرنا ،رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو بیت اﷲکا حج کرنا ۔
اس نے سوال کیا ایمان کیا ہے؟
فرمایا : اﷲ،اس کے فرشتوں ،ا س کی کتابوں،اس کے پیغمبروں پر اعتقاد رکھنا تقدیر کے خیروشر پر ایمان رکھنا ۔
سائل نے پوچھا احسان کسے کہتے ہیں ؟
فرمایا:احسان یہ ہے کہ اﷲکی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اس لئے اگرچہ تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘
اسی طرح صحیحین ہی میں حضرت عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما سے ایک حدیث بایں الفاظ مروی ہے ۔
ان النبی ﷺ قال بنی الاسلام علی خمسٍ شھادۃ ان لاالہ الااﷲ وان محمد ا رسول اﷲ واقام الصلٰوۃ وایتاء الزکوٰۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا ۔’’نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ شہادت کا اقرار ، نماز کی پابندی ،زکوٰۃ کی ادائیگی ،رمضان کے روزے اور بیت اﷲ کا حج جسے اﷲتعالیٰ نے وہاں جانے کی استطاعت دی ہو۔‘‘
امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے :
ان رجلا اتی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقال یا رسول اﷲ : دلنی عمل اذا عملتہ دخلت الجنۃ ، فقال النبی ﷺ : تشھد ان لا الہ الااﷲ وان محمد ا رسول اﷲ وتقیم الصلوٰۃ وتوتی الزکوٰۃ وتصوم رمضان ، فقال السائل : والذی نفسی بیدہ لا أزید علی ھذ ا ولا أ نقص منہ شیئا ، قال رسول اﷲ ﷺ : افلح الاعرابی ان صدق ۔
’’ایک شخص نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا اے اﷲکے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے کرکے میں جنت میں پہنچ جاؤں ۔فرمایا کلمہ شہادت کا اقرار کرو ۔نماز قائم کرو،زکوٰۃ ادا کرو ،رمضان کے روزے رکھو۔یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس میں زیادتی کروں گا نہ کمی۔رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا : اگر یہ اعرابی سچ کہہ رہا ہے تو سمجھو کامیاب ہوا ۔‘‘
حدیث کے شارعین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں حج کا ذکر اس لئے نہیں ہوا کہ اس وقت تک حج فرض نہیں ہوا تھا۔

صحیح بخاری اور حدیث کی دیگر کتب میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی صحبت میں مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک شخص مسجد میں داخل ہوا ۔سواری سے اتر کر اونٹ کو مسجد ہی میں باندھ دیا اور پوچھنے لگا : تم میں سے محمد کون ہے؟ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم وہیں صحابہ کے درمیان تکیہ لگا کر تشریف فرماتھے ۔اسے بتایا گیا یہپی گورے چٹے تکیہ لگائے ہوئے حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم ہیں۔وہ بولا اے ابن عبدالمطلب ! آپ نے فرمایا کہو کیا کہتے ہو ۔کہنے لگا ۔میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں میرا طرز سوال درشت ہوگا آپ محسوس نے فرمائیں ، فرمایا جو چاہے پوچھو۔کہنے لگا ۔میں آپ سے آپ کے رب اور آپ کے آباء واجداد کے رب کا واسطہ دے کر پوچھنا چاہتا ہوں کیا اﷲتعالیٰ ہی نے آپ کو تما م انسانوں کاہادی بناکر مبعوث فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں‘‘اﷲ شاہد ہے ‘‘ پھر اس نے کہا میں آپ کو اﷲکا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کیا اﷲتعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں ‘‘ ! اﷲ شاہد ہے ۔‘‘ پھر اس نے کہا میں آپ کو اﷲ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا ا ﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس خاص مہینہ (رمضان)کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟فرمایا: ہاں ! اﷲشاہد ہے پھر اس نے عرض کیا اﷲکا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو یہ حکم اﷲنے دیا ہے کہ آپ ہمارے مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے غریبوں کے درمیان تقسیم کردیں ۔آپ نے فرمایا ہاں ! اﷲ شاہد ہے ۔وصول کرکے ہمارے غریبوں کے درمیان تقسیم کردیں ۔آپ نے فرمایا ہاں ! اﷲ شاہد ہے ۔
اس کے بعد اجنبی نے کہا میں آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لاتا ہوں میں اپنی قوم کا نمائندہ ہوں میرا تعلق قبیلہ بنو سعد بن بکر سے ہے اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ۔ (صحیح الامام البخاری باب القرأۃ والعرض علی المحدث)

الغرض یہ ہے وہ دین اسلام جسے اختیار کرنے کا حکم اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیا ہے اور جس کی تشریح وتوضیح کے لئے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاتھا۔

اس کے برعکس مذاہب اہل علم کی ذاتی آراء بعض مسائل میں ان کے نقطہ نظر اور ان کے اجتہادات پر مشتمل ہیں ۔ان اجتہادات ،آراء نقطہ ہائے نظر کی من وعن پیروی کا حکم اﷲتعالیٰ نے دیا ہے اور نہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی پر واجب کیا اس لئے کہ ان میں درستی وغلطی کا احتمال دوش بدوش چلتا ہے خالص درستی تو صرف ان احکام کا خلاصہ ہے جو حضور الصادق المصدوق صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہوں کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جن میں ائمہ نے ایک رائے قائم کی پھر ان پر حق کھلا کہ حق کچھ اور ہے تو انہوں نے فوراً پہلی رائے سے رجوع کرلیا ۔
مثلاً جامع ترمذی میں ابومقاتل سمرقندی کا بیان ہے کہ ’’میں امام ابوحنیفہ ؒ کے ہاں حاضر ہوا جب کہ وہ مرض الموت میں تھے ۔امام نے پانی منگوایا وضوء کیا امام نے جرابیں پہن رکھی تھیں انہیں پر مسح کیا پھر کہنے لگے آج میں نے وہ کام کیا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا ۔آج میں نے جرابوں پر مسح کرلیا ہے حالانکہ انہیں چمڑے کے تلوے نہیں لگے ہوئے ہیں (جامع الترمذی فی المسح الجوربین والنعلین) ائمہ کے ایسے مسائل ذکر کرنے کے لئے دفتروں کے دفتر درکار ہیں ۔امام ابوحنیفہ ؒ اپنے شاگرد عزیز ابویوسف سے کہا کرتے تھے : ویحک یا ابایعقوب لاتکتب کل ما تسمع منی فانی قد رأی الیوم وأ ترکہ غد ا واری الرای وأترکہ بعد غد ا ۔ ’’اے یعقوب مجھ سے سنی ہوئی ہربات نہ لکھا کرو ممکن ہے کہ جو رائے آج رکھتا ہوں کل اس سے رجوع کرلوں ۔کل کی رائے سے پرسوں رجوع کر لوں۔
اس بناپر اگر کوئی شخص دین اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے اور ایمان کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی ہے تو صرف اس کے لئے صرف کلمہ شہادت ،نماز پنجگانہ کا قیام (صاحب نصاب ہو تو)زکوٰۃ کی ادائیگی ،رمضان کے روزے اور استطاعت ہو تو زندگی بھر میںایک بار بیت اﷲکا حج کرنا ہی لازمی اور ضروری ہے ۔مذاہب اربعہ یا دیگر فقہی مذاہب کی اتباع یا التزام واجب تو کجا مستحب بھی نہیں ہے اور کسی بھی مسلمان کے لئے کسی خاص مکتب فکر کی پابندی ہرگز ضروری نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والا شخص شریعت کی نگاہ میں متعصب ،خطا کار اور اندھا مقلد تصور ہوگا اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو دین میں افتراق کا بیج بو کر گروہوں میں بٹ گئے جب کہ اﷲتعالیٰ نے دین میں گروہ بندی سے منع فرمایا ہے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِ یْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْھُمْ فِی شَیئٍ ۔ (الانعام:۱۶۰)
ان لوگوں سے آپ کا کوئی تعلق نہیں جنہوں نے اپنے دین میں الگ الگ راستے نکالے اور کئی کئی فرقے بن گئے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ مِنَ الَّذِ یْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُونَ ۔
اورمشرکوں میں سے نہ ہونا یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا اور فرقے فرقے بن گئے سب فرقے اس بات پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہیں۔ (الروم:۳۲/۳۱)

آیت بالا کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام میں مختلف مذاہب ومسالک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی ایک مسلک کی اتباع واجب ہے ہاں صرف ایک طریقہ واجب الاتباع ہے اور وہ ہے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اسوۂ حسنہ اور جادہ عمل جس کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِی أَدْعُوْا اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَسُبْحٰنَ اﷲِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن ۔
’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے میں اﷲکی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان)سمجھ بوجھ کر میں لوگوں کو اﷲکی طرف بلاتا ہوں اور میرے پیروبھی اور اﷲپاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘ (یوسف)
علاوہ ازیں ان مذاہب میں بے دلیل جھگڑوں نے مستقل تنازعات کی صورت اختیار کرلی جب کہ ا ﷲتعالیٰ کاحکم ہے ۔
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا اِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِیْن ۔ (الانفال:۴۶)
’’آپس میں جھگڑا نہ کرو ایسا کروگے تو بزدل ہوجاؤگے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کے ا ﷲصبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

اسی طرح ا ﷲ تعالیٰ نے باہمی اتھاد اور قرآنی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ۔ (آل عمران :۱۰۳)
’’سب مل کر ا ﷲکی (ہدایت کی )رسی کو مضبوط پکڑے رکھنا اور فرقے فرقے نہ بن جانا۔‘‘
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کتاب اﷲاور سُنّت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو نا

کتاب اﷲاور سُنّت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو نا

حقیقی اسلام وہی ہے جو سطور بالا میں بیان ہوا اس کی بنیاد کتاب وسُنّت ہے مسلمانوں کے مابین کسی مسئلہ پر نزاع پیدا ہوجانے کی صورت میں انہی دونوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو شخص تنازعہ کا حل ان دونوں (کتاب وسُنّت)کو چھوڑ کر کسی اور چیزمیں تلاش کرے تو ازروئے قرآن مومن نہیں رہتا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِی أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً ۔ (النساء:۶۵)
’’تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اسے خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے ۔‘‘ (۱)
(۱): نیز فرمایا: وَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَردوہ اِلَی اﷲِ والرَّسُولِ اِنْ کُنْتُم تُؤمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَومِ الْاٰخِر(النساء)
اور اگر کسی بات پر تم میں اختلاف واقع ہوتو اگر اﷲاور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اﷲاور اس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو۔
کسی بھی امام نے یہ نہیں کہا کہ میرا موقف اختیار کرو میرے مسلک کی اتباع کرو بلکہ سب ائمہ یہی فرماتے رہے : خُذُ وْا مِنْ حَیْثُ أَخَذْنَا وہاں سے لو جو ہمارے ماخذ ہیں یہ حقیقت بھی پیش نظررہنی چاہئے کہ مذاہب کے فقہی ذخیرے صرف ایک امام کے فتاویٰ پر ہی مشتمل نہیں بلکہ بعد کے زمانوں میں بہت سے اقوال کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں کثیر تعداد ایسے غلط اور فرضی مسائل کی ہے کہ اگرائمہ مذاہب ان پر مطلع ہوتے تو ان سے ان کے قائلین سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار فرماتے ۔ (۲)

وہ تمام علماء سلف جو اپنے اپنے دور میں علم ودین کا مرکز وسرچشمہ سمجھے جاتے تھے کتاب وسُنّت کے ظواہرہی کو دلیل مانتے تھے اور لوگوں کو بھی انہیں دونوں کو مضبوطی سے تھامنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتے تھے ۔یہ بات امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی، امام احمد،سفیان ثوری ،سفیان بن عینیہ ،حسن بصری ،قاضی ابویوسف،امام محمد بن حسن الشیبانی ،امام اوزاعی ،امام عبداﷲبن مبارک اور امام بکاری ومسلم رحمہم اﷲجیسے جلیل القدر علماء سے ثابت ہے۔یہ سب حضرات ،لوگوں کو دین میں بدعات کی ایجاد اور غیر معصوم کی تقلید سے باز رہنے کی تلقین کرتے تھے اور معلوم ہے کہ معصوم صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں،آپ کی ذات گرامی کے سوا کوئی بھی فرد خواہ کتنا ہی برگزیدہ کیوں نہ ہو معصوم نہیں ہے ۔لہٰذا کسی بھی عالم وامام کی صرف وہی بات قبول ہوگی جو کتاب وسنت کے موافق ہو اور جو بات ان میں سے کسی کے مخالف ہوگی رد کردی جائے گی ۔جیسا کہ امام مالک فرمایا کرتے تھے :
کل الناس یوخذ منہ ویوخذ علیہ الا صاحب ھـذ ا القبر واشار الی قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۔
’’ہر شخص کی بعض باتیں قبول کی جاتی ہیں اور بعض چھوڑی جاتی ہیں سوائے اس ہستی کے جو اس قبر میں آرام فرما ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر انور کی جانب اشارہ کرتے ۔‘‘
ائمہ اربعہ اور دیگر محققین علماء امت کا یہی مسلک رہا ۔وہ سب تقلید جامد کے برے نتائج سے ڈراتے اور اس سے باز رہنے کی تلقین کرتے تھے ۔اس لئے کہ قرآن حکیم نے کئی مقامات پر جامد تقلید کرنے والوں کی مذمت کی ہے ۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ پہلے پچھلے ادوار میں آباؤ اجداد ،علماء ،مشائخ اور مذہبی پیشواؤں کی اندھی تقلید ہی لوگوں کو کفر کے گھاٹ اتارتی رہی ہے۔
امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور دیگر آئمہ سے ثابت ہے کہ وہ سب کہتے تھے :
لا یحل لاحد ان یفتی بکلامنا او یاخذ بقولنا ما لم یعرف من این اخذنا ۔
’’جو شخص ہماری دلیل اور ماخذ کونہیں جانتا اس کے لئے روا نہیں کہ ہمارے قول پر فتویٰ دے یا اس پرعمل کرے ۔ (الانتقاء لابن عبدالبر ص ۱۴۵ ، واعلام الموقعین۲/۳۰۹)
اسی طرح ان میں سے ہر ایک نے بصراحت کہا :
اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِی ۔ یعنی جب کوئی حدیث درجہ صحت کو پہنچ جائے تو اسی کو میرا مذہب جانو۔
(یعنی اس کے خلاف میرا کوئی قول ہے تو اسے کالعدم سمجھو) (ملاحظہ ہو۔مجموعہ رسائل ابن عابدین میں رسالہ المفتی ۱/۴)
ائمہ نے یہ بھی فرمایا :
اذا قلت قولا فاعرضوہ علی الکتاب والسنۃ فان وافقھا فاقبلوہ وما خالفھما فردوہ واضربوہ بقولی عرض الحائط ۔ (المجموع للنواوی ۱/۶۳ ، اعلام الموقعین ۲/۳۶۱)
’’میرے اقوال کو کتاب وسنت کی کسوٹی پرجانچو جو ان کے موافق ہو تو اسے قبول کرو اور ان کے مخالف ہو تو رد کردو اور دیوار پر دے مارو۔‘‘
یہ ان جلیل القدر ائمہ کے اقوال ہیں ۔اﷲتعالیٰ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔
لیکن صد ہزار افسوس ! بعد میں آنے والے مقلدین اورمولفین پر جنہوں نے دفتروں کے دفتر سیاہ کرڈالے سادہ لوح عوام کو انہیں صاحب علم بلکہ غلطی سے معصوم مجتہد باور کربیٹھے اور ان کے علم کا یہ حال تھا انہوںنے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے مسلک کی تقلید کو لوگوں کے لئے لازم قرار دے دیا ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ایک مسلک اپنا لینے والے پر دوسرے امام کے قول وفتویٰ پر عمل کرنا ممنوع گردانا گویا ان کا امام کوئی نبی ہو جس کی اطاعت سے سرمو انحراف جائز نہ ہو ۔’’کاش یہ’’ علماء ‘‘ائمہ کے ان اقوال سے واقف ہوتے مگر اس کاکیا جائے کہ پیشتر علماء اپنے امام کے متعلق اس کے نام کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے ۔مزید ستم یہ ہوا کہ بعض متاخرین نے کچھ مسائل اور نظریات وضع کرکے کسی امام کی جانب منسوب کردئیے بعد کے لوگ اسے امام کا فعل سمجھ لیتے حالانکہ وہ امام مذکور کے اقوال وتصریحات کے خلاف ہوتا ہے ۔اور و ہ اس نے ناخوش وبیزار ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر بہت سے متاخرین حنفیہ بحالت تشہد انگشت شہادت کے ساتھ اشارے کی حرمت کے قائل ہیں۔ (خلاصہ کیدانی) یا کہتے ہیں کہ ’’یدا ﷲ‘‘(اﷲکے ہاتھ )مراد اس سے اس کی قدرت ہے اسی طرح یہ قول کہ اﷲتعالیٰ بذاتہٖ ہر جگہ موجود ہے اور عرش پر مستوی نہیں ہے بالآخر یہی چیزیں مسلمانوں کی وھدت کے پارہ پارہ ہونے اور قوت وشوکت کے زوال کا سبب بنیں ۔اور جمیعت کا شیرازہ نکچھ اس طرح منتشر ہوا کہ ازسر نو شیرازہ بندی کی کوشش کرنے والے درماندہ رہے ۔پھر نفرت وعداوت کی وہ آندھیاں چلیں کہ الامان والحفیظ ۔اب کوئی کسی کو بدعتی قرار دیتا ہے اور کوئی اپنے ہر مخالف پر گمراہ ہونے کا فتویٰ لگارہا ہے خواہ وہ اختلاف کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو حتیٰ کہ ایک دوسرے پر تکفیر کے تیر چلائے گئے اور نوبت بایں رسید کہ مسلمانوں کی تلواروں سے مسلمانوں کے گلے کٹنے لگے اور رفتہ رفتہ مسلمان رسول ا ﷲصلی ا ﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق بن گئے ۔
ستفترق امتی ثلاثا و ثلاثین فرقۃ کلھا فی النار الّا واحدۃ قیم من ھم یا رسول اﷲ قال الذ ین علیٰ ما أنا علیہ وأصحابی ۔
’’میری امت عنقریب تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی وہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک جماعت کے پوچھا گیا یہ جماعت کون سی ہے ۔فرمایا جو میرے اور میرے اصحاب ؓ کے طریقے پر چلے۔
حضرت عبداﷲبن عمرو رضی اﷲعنہ سے مروی یہ حدیث مذکورہ الفاظ کے ساتھ جامع ترمذی میں ہے اس کی سند ضعیف ہے لیکن شواہد کے اعتبار سے حسن کے درجہ پہنچ جاتی ہے،البتہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ابوداؤد ، ترمذی،امام احمد اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): نیز فرمایا: وَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَردوہ اِلَی اﷲِ والرَّسُولِ اِنْ کُنْتُم تُؤمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَومِ الْاٰخِر(النساء)
اور اگر کسی بات پر تم میں اختلاف واقع ہوتو اگر اﷲاور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اﷲاور اس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو۔
(۲): بلکہ ان میں ایسے مسائل کی بھی کمی نہیں ہے جو ائمہ کی نصوص کے ساتھ متصادم ہے متاخرین مالکیہ ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھتے ہیں اور امام مالک کے فعل کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ امام مالک نے موطا میں ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنے کی حدیث روایت کی ہے ملاحظہ ہو موطا امام مالک (باب وضع الیدین احداھما علی الاخری فی الصلوٰۃ)امام مالک نماز میں ہاتھ نہیں باندھ سکتے تھے کیونکہ جعفر بن سلیمان والی مدینہ کے تشدد کے سبب ا ن کے دونوں بازو اُتر گئے تھے۔ (الانتقاء لابن عبدالبر ص: ۴۴)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حتی کہ ایک شخص کی تقلید لازم کردی نتیجۃً کئی فرقے پیدا ہوئے

حتی کہ ایک شخص کی تقلید لازم کردی
نتیجۃً کئی فرقے پیدا ہوئے

رب عظیم کی قسم مسلمان جب تک صحیح معنوں میں کامل مسلمان اور اسلام کے ساتھ مخلص تھے نصرت الٰہی ان کے ہمرکاب تھی ملک پر ملک فتح کررہے تھے دین کا پرچم ان کے ہاتھوں میں بلند سے بلند تر ہورہا تھا ۔خلفائے راشدین اور تابعین بالاحسان رضی اﷲعنہم کی روشن مثالیں تاریخ اسلام کے ابوابِ اولین کی زینت ہیں لیکن جب مسلمان احکام الٰہی سے سرتابی کرنے لگے اور اطاعت کیشی کی روش کو بدل ڈالا تو اﷲتعالیٰ کی نعمت نے بھی راہ بدل لی مسلمانوں کا اقتدار چھن گیا اور سلطنت وخلافت بھی ہاتھوں سے جاتی رہی جیسا کہ بہت سی آیات اس معنی پر دلالت کناں ہیں ۔(۱)

مسلمانوں نے دین میں جو تبدیلیاں کیں ان میں سے ایک تبدیلی ،خاص مسلک کی پابندی کرنا ،اور اس کے لئے تعصب برتنا ہے۔اس امر کے ایجاد ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہر نوایجاد بدعت جسے باعث اجروثواب سمجھ لیا جائے گمراہی کے سوا کچھ نہیں سلف صالحین کا طریقہ تو یہ تھا کہ کتاب وسنت اور ان سے ثابت شدہ امور ،نیز اجماع امت کو مضبوطی سے تھامے رہتے تھے ،وہی حقیقی مسلمان تھے اﷲتعالیٰ ان پر رحمت ورضوان نازل فرمائے انہیں اجر جزیل عطافرماکر راضی کرے ہمیں بھی ان کے طریقہ پر کاربند رہنے کی توفیق عطافرمائے اور حشر میں ان کی رفاقت نصیب فرمائے ۔

لیکن جب مذاہب کی بدعت رواج پذیر ہوگئی تو اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں مسلمانوں کی آواز ایک نہ رہی ہر گروہ دوسرے کو گمراہ قرار دینے لگا ۔مقلد مفتیوں نے یہ فتویٰ دیا کہ حنفی کا شافعی مسلک کے امام کی قتداء میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲)
بعض یہ کہنے لگے کہ چار مذاہب کے اتباع ہی اہل سنت ہیں لیکن ان کا اپنا طرز عمل ان کے اس قول کا ابطال کرنے کیلئے کافی تھا ۔ایک دوسرے کو اہلسنت تسلیم کرنے کے باوصف تنگ دلی اس حد کو پہونچی کہ مسجد حرام (جو دنیا بھر کے مسلمان کی وحدت کا نشان ہے) میں چار الگ الگ مصلے وجود میں آئے ۔(۲)

ہر مذہب کی جماعت الگ ہونے لگی ایک مذہب کے لوگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کررہے ہوتے اور دوسرے مذہب کے لوگ بیٹھے اپنے فرقے کی باری کے منتظر ہوتے ۔انہی جیسی بدعات کو مسلمانوں میں رائج کرکے ابلیس اپنے گھناؤنے مقاصد میں سے ایک مقصد یعنی مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ فنعوذ باﷲمن ذلک ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): ارشاد باری تعالیٰ ہے : ذٰلِکَ بِأَنَّ اﷲَ لَمْ یَکُ مُغَیِّراً أَنْعَمْھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یَُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِھِمْ وَاَنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْم ۔’’یہ اس لئے کہ جو نعمت اﷲتعالیٰ کسی کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں اﷲتعالیٰ اس نعمت کو نہیں بدلا کرتا اور اس لئے کہ اﷲتعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔ (الانفال:۵۳)
(۲): بلکہ بعض مفتیان شرع تقلید نے تو یہ فتویٰ بھی صادر فرمادیا کہ ’’حنفی مرد شافعی عورت سے نکاح نہیں کرسکتا ۔کیوں کہ وہ ایمان میں انشاء اﷲکہنے کے سبب کافر ہے ۔البتہ ایک مفتی صاحب نے اہل کتاب پر قیاس فرماتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی ۔ملاحظہ ہو :صفۃ صلاۃ النبی ﷺص۴۴بحوالہ بحرالرائق۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کیا قبر میں فقہی مسلک اور سلسلہ طریقت کے بارے میں پوچھا جائیگا؟

کیا قبر میں فقہی مسلک اور سلسلہ طریقت کے بارے میں پوچھا جائیگا؟

اے خرد مند اور انصاف پسند مسلمان میں تمہیں عظمت والے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب کوئی انسان دارِ فانی سے عالم بقا کی طرف جاتا ہے تو قبر میں یا قیامت کے روز اس سے یہ پوچھا جائے گا؟کہ فلاں امام کا مذہب کیوں اختیار نہیں کیا ؟فلاں سلسلہ طریقت میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کی ؟اﷲکی قسم ! اس طرح کے سوالات وہاںنہیں ہوں گے بلکہ وہاں تو یہ سوال ہوگا کہ فلاں مذہب کے پابند کیوں رہے ؟فلاں سلسلہ سے کیوں منسلک ہوئے؟اس لئے کہ کتاب وسنت کی تصریحات سے آنکھیں بند کرکے مذہب وسلسلہ کا ہر مسئلہ میں پابند رہنا علماء ومشائخ کو اﷲکے سوا معبود بنالینے کے مترادف ہے اور اس لیے بھی یہ مخصوص مذاہب اور مشہور سلسلے دین میں بدعت ہیں اور ہربدعت گمراہی ہے ۔

اے انسان! تم سے صرف اس چیز کے متعلق بازپرس کی جائے گی جسے اﷲتعالیٰ نے تم پر واجب کیا ہے اور وہ ہے اﷲاور اس کے رسول پر ایمان اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل ۔کسی مخصوص مذہب کا پیروبننا ایمان کے تقاضوں میں سے نہیں بلکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ علماء کتاب وسنت کے ہوتے ہوئے بھی تم جن امور سے ناواقف ہوان کے متعلق اہل علم سے دریافت کرو ۔اور اگر کوئی اشتباہ ہو تو قرآن وسنت کی صریح روشنی میں انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔یہ ہے سیدھا سادا دین اسلام جسے لے کر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ۔

بردران اسلام ! اپنے دین کی طرف واپس لوٹوجو ظواہر قرآن وسنت اور سلف امت اور ائمہ صالحین کے اجماع کے مطابق عمل پیرا رہنے سے عبارت ہے صرف یہی شاہراہ ہے جو ہمیں ہلاکت وضلالت سے بچاکر سعادت وشادمانی کی منزل سے ہمکنار کرسکتی ہے پس تم موحد مسلمان بنو ۔صرف اﷲکی عبادت کرو ،صرف اسی سے ڈرو ،صرف اسی سے امید رکھو ۔سب مسلمانوں کا بھائی بن کر رہو ۔ان کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو ۔امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں حضرت عرباض ؓ بن ساریہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جو تمہاری رہنمائی کے لیے کافی ہوگی ۔حضرت عرباض بن ساریہ رضی اﷲعنہ کہتے ہیں۔
وعظنا رسول اﷲ ﷺ بعد صلاۃ الغداۃ موعظۃ بلیغۃ ذرفت منھا العیون ووجلت منھا القلوب فقال رجل انّ ھذ ا موعظۃ مودّع فما ذا تعھد الینا یارسول اﷲ قال اوصیکم بتقویٰ اﷲ والسمع والطاعۃ وان تامر علیکم عبد حبشی فانہ من یعش منکم فیری اختلافًا کثیرا وایاکم ومحدثات الامور فانھا ضلالۃ فمن ادرک ذٰلک منکم فعلیہ بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھد یین عضّو علیھا بالنواجذ۔
’’ایک روز نماز فجر کے بعد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا بلیغ وعظ فرمایا کہ دل لرز گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں ایک شخص کہنے لگا یہ وعظ تو ایک رخصت ہونے والے کی پندونصیحت دکھائی دیتا ہے لہٰذا ہمیں وصیت فرمائیے تو فرمایا کہ میں تمہیں تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں نیز یہ کہ سمع وطاعت تمہارا شیوہ رہے خواہ کوئی حبشی غلام ہی تمہارا امیر بن جائے۔تم میں سے جولوگ زندہ رہیں گے بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے اپنے آپ کو ان امور سے دور رکھو جو میرے زمانہ میں نہیں تھے اس لئے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے لہٰذا جو شخص اس زمانے کو پالے تو اسے چاہیے کہ میرے اور میرے خلفاء الراشدین کے طریقہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھے۔ (ابوداؤد ،ترمذی ،احمد، حاکم)
جب حقیقت یہ ہے تو ہمیں تقلید جامد سے مکمل طور پر احتراز کرنا چاہیے اس لیے جو شخص تمام مسائل میں صرف ایک ہی مسلک کا پیروکار رہے گا تو یقینا وہ بہت سی احادیث پر عمل نہیں کرپائے گا بلکہ ان کی مخالفت کربیٹھے گا اور یہ چیز بلاشبہ گمراہی ہے لہٰذا احناف اور دیگر مسالک کے بہت سے علماء محققین نے صراحت کی ہے کہ کسی ایک ہی مسلک کی تقلید لازم نہیں ہے جیسا کہ کمال ابن ھمام نے التحریر اور ابن عابدین نے ردالمختار کی ابتداء میں لکھا ہے ۔نیز یہ معین مسلک کی پیروی کے لزوم کا قول ضعیف ہے۔

ایک مذہب التزام کا فعل سیاسی مصلحت پر مبنی تھا!!
مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کو ضروری قرار دینے کا قول سیاسی ضروریات ،وقتی مصلحتوں اور نفسانی خواہشات پر مبنی تھا یہ حقیقت تاریخ کامطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے ۔ہم بھی آئندہ صفحات میں مزید وضاحت کریں گے ۔مسلمان کا فرض یہ ہے کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق عمل کرے ۔

ہرمسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ صرف نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مذہب ہی وہ مذہب حق ہے جسے ماننا اور اس کی پیروی کرنا فرض ہے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم ہی وہ امام اعظم ہیں جن کی پیروی لازم ہے ۔پھر خلفاء الراشدین کا طریقہ ہے ۔اس دنیائے رنگ وبو میں حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کے سوا کوئی ہستی نہیں جس کا نام لے کر اس کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عنْہُ فَانْتَھُوْا ۔ (الحشر:۷)
’’رسول تمہیں جو دیں اسے تھام لو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آجاؤ۔‘‘
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشد ین ۔ میری اور میرے خلفاء الراشدین کی پیروی اپنے اوپر لازم کرلو۔
امام ابو حنیفہ امام مالک یا کسی اور امام نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میرے قول پر عمل کرو یامیرا مذہب اختیار کرو حتٰی کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲعنہما نے ایسی کوئی بات نہیں کی بلکہ ایسا کرنے سے منع کیا ۔
جد اصل حقیقت یہ ہے تو مذاہب کہاں سے آگئے ؟انہیں رواج دینے میں کون سے عوامل کارفرما تھے ؟یہ کس طرح پھیلے اور مسلمانوں کی گردنوں میں یہ طوق کیوں ڈالے گئے ؟
غوروفکر سے کام لو گے تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان مذاہب کو فروغ اسی وقت ملا جب ’’خیرون القرون‘‘کا دور گزرچکا تھا ۔یہ ظالم امراء ،جاھل حکام اور گمراہ کن علماء کی کارستانی تھی کہ مسلمانوں کو مذاہب کی بیڑیوں میں جکڑکررکھ دیا گیا۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
تقلیدمذاہب کے بدعت ہونے کے متعلق علمائے امت کی تصریحات

تقلیدمذاہب کے بدعت ہونے کے متعلق علمائے امت کی تصریحات

شاہ ولی اﷲدہلوی ؒ نے اپنی عظیم تالیف ’’الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف‘‘میں لکھا ہے ۔اچھی طرح سمجھ لو پہلی اور دوسری صدی ہجری میںلوگ کسی ایک مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے ۔چنانچہ ابوطالب مکی (۱)نے قوت القلوب میں لکھا ہے کہ ’’کتابیں اور (مسائل کے)مجموعے سب نوپید ہیں۔لوگوں کی آراء بیان کرنا ایک امام کے مذہب کے مطابق فتویٰ کاالتزام کرنا اور ہر مسئلہ میں اسی کے اقوال کی اتباع کرنا اسی کے مذہب کو پڑھنا پڑھانا پہلی اور دوسری صدی کے لوگوں کا دستور نہ تھا۔

دو صدیاں گزرنے کے بعد مسائل کی تخریج (۲)ہونے لگی ۔تاہم چوتھی صدی ہجری میں بھی صرف ایک مذہب کی تقلید محض اور اسی کی تدریس وروایت پر اکتفاء پر لوگ جم نہیں گئے تھے جیسا کہ تحقیق ومراجعت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ لوگ اس وقت دو طرح پر تھے ۔
۱۔ علماء ۲۔ عوام
عوام کا طریقہ ٔ کار یہ تھا اتفاقی مسائل میں کہ جن کے متعلق مسلمانوں میں یا جمہور مجتہدین کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا بجز شارع کے کسی اور کی تقلید نہیں کرتے تھے وضو،غسل کی کیفیت ، نماز وزکوٰۃ کے احکام وغیرہ اپنے اباء واجداد یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اسی پر عمل پیر اہوتے اور جب کوئی نیا مسئلہ درپیش آجاتا توبلاامتیاز مسلک ومذہب جو مفتی بھی مل جاتا اس سے دریافت کرلیتے۔ابن ھمام اپنی کتاب ’’التحریر‘‘کے آخر میں لکھتے ہیں۔
کانوا یستفتون مرۃ واحد او مرۃ غیرہ غیر ملتزمین مفتیا واحد ا۔
کبھی ایک عالم سے پوچھ لیتے تو کبھی دوسرے سے ایک ہی مفتی کاالتزام نہ کرتے تھے۔

(۳) یہی بات شاہ ولی اﷲنے اپنی ایک اور گرانقدر تصنیف حجۃ اﷲالبالغہ ۱/۱۵۳ میں بھی لکھی ہے اس کے بعد امام ابن حزم رحمۃ اﷲ کا یہ قول بھی بطور تائید مزید کے نقل کیا ہے۔
تقلید حرام ہے ۔کسی کے لئے یہ جائز نہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی بھی انسان کا قول بلا دلیل مان لے ۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کاصریح فرمان ہے۔ ’’اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزَلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبَعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاء‘‘ پیروی اس کی کرو جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی پیروی مت کرو۔ (الاعراف:۳)

نیز فرمایا:
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اتَّبِعُوا مَا اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاءَ نَا۔جب انہیں کہا جاتا ہے پیروی کرو اس کی جو اﷲنے نازل کیا ہے کہتے ہیں ہم تو صرف اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے آباء واجداد کو پایا ہے ۔

تقلید کی راہ سے دور رہنے والوںکا ذکر جمیل اس طرح فرمایا ہے :
فَبَشِّرْ عِبَادِہُ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ اُولٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَاھُم اﷲُ وَاُوْلٰئِکَ ھُمْ اُولُوالْاَلْبَاب
۔سوآپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو اس کلام کو غور سے سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں جن کو اﷲتعالیٰ نے ہدایت سے نوازا اور یہی لوگ عقلمند ہیں (الزمر:۱۷-۱۸)

نیز فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲَ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَومِ الاٰخِر پھر اگر ایسا ہوکہ کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیداہوجائے تو چاہیے کہ اﷲاور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اﷲپر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔

گویا اﷲتعالیٰ نے نزاع کی صورت میں کتاب وسنت کے سوا کسی اور چیز کی طرف رجوع کرنے کی اجازت ہی نہیں دی ۔

تمام کے تمام صحابہ ،تمام کے تمام تابعین اور تمام اتباع تابعین کا س بات پر اجماع ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا ان کے یا ان سے پہلے زمانہ کے کسی انسان کے تمام اقوال کی پیروی کے التزام نہ کیا جائے اور نہ کرنے دیا جائے۔

لہٰذا جو شخص امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ یا امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کے سب کے سب اقوال پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اپنے امام سے فتویٰ لئے بغیر کتاب وسنت میں ثابت شدہ احکام پر بھی اعتماد کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا تو اسے جا ن لینا چاہیے کہ وہ بلاشبہ یقینی طور پر تمام امت کے اجماع کے خلاف کررہا ہے ۔خیرون القرون میں اسے اپنا کوئی پیش رو نہیں مل سکتا لہٰذا اس نے وہ راہ اختیار کی ہے جو اہل ایمان کی راہ نہیں ہے۔

ایک اور نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ان تمام ائمہ نے دوسروں کی تقلید سے منع فرمایا ہے۔لہٰذا ان کے منع کرنے کے باوجود ان کی تقلید کرتا ہے تو وہ ان کی نافرمانی کامرتکب ہورہا ہے۔

یہی بات امام عزالدین بن عبدالسلام (۴) نے اپنی کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانام اور شیخ صالح الفلانی نے اپنی کتاب ایقاظ ھم اولی الابصار میں بھی ذکر کی ہے ان نو پید مروجہ مذاہب کے مقلدین اور ان کی بے جاحمایت کرنے والوں پر تعجب ہوتاہے جو اپنے مذہب کی طرف منسوب ہر قول پر کاربند رہتا ہے ہر چند کہ وہ دلیل سے کوسوں دُور ہو اور اپنے امام کو نبی مرسل سمجھتا ہے حالانکہ یہ بات حق سے جدائی اور راہ راست سے دوری کی موجب ہے ۔ہمارا مشاہدہ وتجربہ ہے کہ یہ مقلدین یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے امام سے غلطی کا صادر ہونا ناممکن اور محال ہے۔اور جو کچھ وہ کہہ گئے ہیں بہرحال درست ہے ۔انہوںنے دل میں یہ طے کیا ہوتا ہے وہ اپنے امام کی تقلید سے منہ نہیں موڑیں گے خواہ ازروئے دلیل ان کے مخالف کا قول ہی ثابت اور قوی تر ہو(۵) اس کیفیت پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ھدیث من وعن صادق آتی ہے جسے امام ترمذی وغیرہ نے حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے۔
میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو اِتَّخِذُ وْا اَحْبَارَھُمْ وَرَھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ ۔(ان لوگوں نے اﷲکوچھوڑ کر اپنے علماء ومذہبی پیشوا کو اپنے معبود بنالیا ہے)کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ۔تو عرض کی اے اﷲکے رسول وہ علماء ومشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔
فرمایا:
انھم اذا احلوا شیئا استحلوہ واذا حرموا علیھم حرموہ فذلک عبادتھم ۔
ان کے مذہبی پیشوا جب ان کے لئے کوئی چیز حلال کردیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے اور اگر ان پر کسی چیز کو حرا م کردیتے تو اسے حرام سمجھتے یہی چیز ان کی عبادت وپرستش ہے۔
رسول اﷲصلی اﷲ کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت جہالت اور گمراہی ہے
برادران اسلام ! جب ہم کسی شخص کے مذہب کے مقلد ہوں اور ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث پہنچے جو غلطی سے معصوم ہیں اور جن کی اطاعت بھی اﷲتعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے لیکن ہم حدیث رسول صلی اﷲعلیہ وسلم چھوڑ دیں اور کسی شخصیت اور مذہب کے ساتھ چمٹے رہیں تو ہم سے بڑا ظالم کون ہوگا اور جس روز تمام انسان پروردگار عالم کے دربار میں پیش ہوں گے توہم کیا عذر پیش کرسکیں گے ۔

ایسا شخص جو رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سِوا کسی کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سارے ائمہ کے اقوال میں سے صرف اس کے امام کا قول ہی برحق اور واجب الاتباع ہے ،راہ حق سے بھٹکا ہوا نرا جاہل ہے ۔بلکہ یہ بات کفر تک جاپہنچتی ہے اسے توبہ کرنے کو کہا جائے گا اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ قتل کردیاجائے ۔اس لیے کہ جب کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ تمام آئمہ میں سے صرف ایک امام کی اتباع واجب ہے تو گویا وہ شخص اپنے امام کو نبی کا درجہ دے رہا ہے ۔اس مسئلہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناخواندہ عامی شخص کے لیے زید وعمر کی تعیین کے بغیر کسی امام کی تقلید واجب یا جائز ہے ۔لیکن جس شخص کے دل میں سارے آئمہ کی محبت ہو اور اسے جس امام کا قول سنت کے موافق نظر آئے اس پر عمل کرے تو اس کا یہ عمل لائق تحسین ہے لیکن تابعین کے بعد کے طبقہ میں سے ایک عالم کیلئے تعصب رکھنے والے شخص کا طرز عمل تو رافضی ،ناصبی اور خارجی فرقوں جیسا ہے جو ایک صحابی کے متعلق غلو کرتے ہیں اور باقی تمام سے لاتعلقی اور برأت کا اظہارکرتے ہیں جو خود رأی اور اہل بدعت کے طریقے ہیں جن کے متعلق قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ لائق مذمت اور جادۂ حق سے بہت دور ہیں شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ فتاویٰ مصریہ میں فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص امام ابوحنیفہؒ ،امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمدؒ یا کسی امام کا مقلد ہو اور کسی مسئلہ میں اسے دوسرے امام کا قول دلیل کے اعتبار سے قوی تر نظر آئے اوروہ اس پر عمل کرے تو اس کا یہ فعل لائق تحسین ہے اور علماء میں اس امر کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے دین یا دیانت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ یہی طریقہ حق سے قریب تر اور اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں پسندیدہ تر ہے بہ نسبت اس شخص کے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتا ہے (جیسا کہ کئی لوگ امام ابوھنیفہ کی تقلید کرتے ہیں)اور اعتقاد رکھتا ہے کہ مختلف رائے رکھنے والے علماء کی بجائے صرف اس کے امام کا قول ہی درست اور لائق اتباع ہے تو ایسا کرنے والا نرا جاہل ہے بلکہ اس کا یہ فعل ۔معاذ اﷲ ۔کفر بھی ہوسکتا ہے
’’الاقناع ‘‘اور اس کی شرح میں ہے :
’’زیادہ معروف یہی ہے کہ ایک مذہب اختیار کرنا اور اس کا پابند رہنا لازم نہیں اور نہ ہی ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنا ممنوع ہے جمہور علماء مخصوص ومعین مذہب کی پابندی ضروری قرار نہیں دیتے اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میںکسی کی اتباع نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اﷲتعالیٰ نے ہر فرد پر ہر حال میں صرف اپنے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے ۔‘‘
’’الانصاف ‘‘کی کتاب القضاء میں ہے:
’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا جو شخص کسی معین امام کی تقلید کو واجب قرار دے اس سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے ۔کیوں کہ اس طرح تقلید کو واجب ٹھہرانا اﷲتعالیٰ کے حق تشریع میں شرک ہے اس لیے کہ تشریع (احکام مقرر کرنا)ربوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): محمد بن علی عطیہ مکی مشہور زاہد وعابد واعظ تھے ان کی تالیف قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب تصوف میں پائے کی کتاب سمجھی جاتی ہے وفات بغداد ۳۸۶ھ۔
(۲): کتاب وسنت کی بجائے کسی امام کے فتاوی کی روشنی میں مسائل کا حکم متعین کرنا تخریج کہلاتا ہے۔
(۳): الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ۶۸
(۴): امام عبدالعزیز بن عبدالسلام اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے ۔انہیں شیخ الاسلام اور سلطان العلماء کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے کلمہ حق کہنے میں ممتاز تھے قاہرہ میں ۶۶۰ہجری میں وفات پائی۔
(۵): مولانا محمود الحسن دیوبندی ایک مسئلہ میں فرماتے ہیں :الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ہذہ المسألۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ ۔حق و انصاف یہی ہے کہ اس مسألہ میں امام شافعی کا قول راحج ہے لیکن ہم چونکہ مقلد ہیں اس لیے ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے ۔ (تقریر الترمذی ص:۴۰)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کسی مخصوص مذہب کا التزام ضروری نہیں ہے

کسی مخصوص مذہب کا التزام ضروری نہیں ہے

مشہور حنفی محقق کمال بن ھمام (۱) حنفی فقہ کے اصولوں کے موضوع پر اپنی تالیف التحریر میں رقمطرازہیں ۔
’’کسی معین مذہب کی پابندی لازم نہیں ہے یہی قول صحیح ہے کیوں کہ اس کے لازم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔واجب صرف وہی چیز ہوتی ہے جسے اﷲاور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم واجب کریں اور معلوم ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اور نہ ہی رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں میں سے کسی پر ائمہ میں سے کسی امام کا مذہب اس طرح اختیار کرنا واجب نہیں کیا کہ دوسرے ائمہ کو چھوڑ کر دین کے ہر معاملہ میں بس اسی کی تقلید کرے ۔خیرون القرون کا پورا دور گزرگیا اور اس دور میں کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ایک معین مذہب اختیار کرنا ضروری ہے ۔بیشتر مقلدین کہتے ہیں ’’میں حنفی ہوں‘‘ ’’میں شافعی ہوں ‘‘ حالانکہ اسے اپنے امام کے مسلک کی خبر تک نہیں ہوتی۔محض زبان سے کہہ دینے سے کوئی حنفی یا شافعی نہیں ہوسکتا۔
شیخ صالح الفلانی نے اپنی کتاب ’’ایقاظ لھم اولی الابصار‘‘ میں مقلد اور مُتبع کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مقلد اﷲاور اس کے رسول کا فرمان نہیں بلکہ اپنے امام کا مذہب دریافت کرتا ہے اور اگر اسے معلوم بھی ہوجائے کہ اس کے امام مسلک کتاب اﷲوسنت رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کے مخالف ہے تو پھر بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع نہیں کرتا اور اپنے امام کے مسلک پر اڑا رہتا ۔جب کہ متبع صرف اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کے متعلق سوال کرتا ہے اور کسی خاص شخص کے مسلک اور رائے کا نہیں پوچھتا ۔پھر اگر اسے دوبارہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کے متعلق بھی اسی عالم سے فتویٰ دریافت کرے جس سے پہلے کے متعلق پوچھا تھا ۔بلکہ جو بھی عالم دین اسے مل جاتا ہے اس سے دریافت کرلیتا ہے اور وہ پہلی رائے پر اس طرح عمل نہیں کرتا کہ کسی دوسری رائے پر کان ہی نہ دھرے اور پہلی رائے کی اس قدر متعصبانہ حمایت نہیں کرتا کہ اس کے کتاب وسنت کے صریح احکام کے خلاف ہونے کا علم رکھتے ہوئے بھی دوسرے قول کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے ۔یہ ہے فرق متاخرین میں مروج تقلید اور اس اتباع کے درمیان جس پر سلف صالحین کاربند تھے
دینی لٹریچرمیں تقلید کا معنی ہے :
الرجوع الی قول لاحجۃ لقائلہ علیہ ۔
ایسے قول کی جانب رجوع کرنا جس کے ثبوت پر اس کے قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو ۔
شرعًا یہ چیز بالکل ممنوع ہے شرعی دلیل سے ثابت چیز کی طرف رجوع کو اتباع کہا جاتا ہے اﷲکے دین میں تقلید ناجائز اور اتباع واجب ہے۔مفتی کے فتوی میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے اس کے باوجود عامی کیلئے اس کے دئیے ہوئے فتویٰ پر عمل کرنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہوتا ہے تو اس کے لیے حدیث نبوی پر عمل کرنا کیوں روا نہیں ہوگا اس لئے اگر کہا جائے کہ صحیح ثابت ہوجانے کے باوجود حدیث وسنت پر اس وقت تک عمل کرنا جائز نہیں جب تک کہ اس پر فلاں فلاں امام عمل نہ کریں تو یہ حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کو مشروط کرنے کے مترادف ہوا ۔اور یہ بالکل باطل ہے اﷲتعالیٰ نے لوگوں پر اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ حجت قائم کی ہے کسی اور انسان کے ذریعہ نہیں ۔جو شخص حدیث کا معنی ومفہوم سمجھنے کی اہلیت سے بہرہ مند ہو اور وہ اس کے مطابق عمل کرے یا اس کے مطابق فتویٰ دے تو محض غلطی کے امکان کے مفروضے کی بناپر اسے روکنے کاکوئی جواز نہیں ہے (یہ فیصلہ تو ان لوگوں کے متعلق ہوا جو کسی حد تک فہم دین کی صلاحیت رکھتے ہوں)۔البتہ جولوگ اس اہلیت سے بے بہرہ ہوں تو ان کا فریضہ ارشاد ربانی :
فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِن کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو۔ (الانبیاء:۴۷)
میں بیان کردیا گیا ہے ۔جب ایک سائل اپنے لئے لکھے گئے فتویٰ میں مفتی صاحب یا ان کے استاذ یا استاذ الاستاذ کت کلام پر اعتماد کرسکتا ہے تو ثقہ راویوں کی وساطت سے لکھے گئے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرامین پر اعتماد تو بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہئے۔اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ حدیث کو کما حقہ سمجھ نہیں پائے گا تو یہ احتما ل تو مفتی کے فتویٰ میں بھی موجود ہے جس طرح فتویٰ سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں کسی سے پوچھ لیتا ہے اسی طرح اگرحدیث سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو کسی عالم سے اس کا مفہوم دریافت کرے ۔اور یہ تو علماء کہہ چکے ہیں کہ حجت ہونے میں حدیث کو قیاس واجتہاد پر فوقیت حاصل ہے حدیث نبوی پر عمل کرنا کسی اور سے منقول رائے پر عمل کرنے سے بدرجہا بہتر ہے (۳)

علامہ ابن نجیم (۴) البحرالرائق میں لکھتے ہیں :
ان العمل بنص صریح اولیٰ من العمل بالقیاس وان ظاھر الحد یث واجب العمل ۔
نص صریح پر عمل کرنا قیاس پر عمل کرنے سے کہیں بہتر ہے اور حدیث (۵)کے ظاہر پر عمل کرنا واجب ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عقل سلیم اور دینی امور میں فہم مستقیم سے بہرہ ور شخص کو حدیث کاجو مفہوم سمجھ میں آئے اس کے مطابق عمل کرنا ہی تمام علماء کا اصل مسلک ہے۔

یہ دیکھئے امام ابوحنیفہ جب فتویٰ صادر فرماتے تو ساتھ ہی کہتے:
ھٰذ ا ما قدرنا علیہ فی العلم فمن وجد أوضح منہ فھو اولیٰ بالصواب ۔
یہاں تک ہمارے علم کی رسائی ہے اگر کسی کو اس سے واضح چیز مل جائے تو اس پر عمل کرنا زیادہ درست ہوگا۔
ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں :
اس امت کے کسی فرد پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ حنفی ،شافعی ،مالکی،یاحنبلی بنے اس کے برعکس ہرایک پر واجب یہ ہے کہ اگر عالم نہ ہو تو کسی عالم سے مسئلہ دریافت کرے اور علمائے دین میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہیں اس لیے یہ مقولہ مشہور ہے ۔ من تبع عالما لقی اﷲ سالما ۔ جو کسی عالم کی پیروی کرے گا اﷲکے حضور صحیح سالم پہنچے گا ہر مکلف کو نبی اکرم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے ۔
واجب الاتباع امام ومقتدیٰ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں
شیخ عبدالحق محدث دہلوی الصراط المستقیم کی شرح میں لکھتے ہیں :
ان الامام المتبوع والمقتدی بہ حقا ھو النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فاالمتابعۃ لغیرہ غیر معقولۃ وھذ ا ھو طریقۃ السلف الصالحین جعلنا اﷲ منھم ۔
درحقیقت واجب الاطاعت امام ومقتدیٰ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں آپ کے سوا کسی اور ہستی کی اتباع کرنا معقول بات نہیں ہے سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا ۔اﷲتعالیٰ ہمیں حشر وجنت میں ان کی معیت نصیب فرمائے۔
امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا:
اجمع المسلمون علی ان من استبان لہ سنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لم یحل لہ ان یدعھا لقول احد ۔
اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حدیث رسول معلوم ہوجانے کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں کہ کسی (امام)کے قول کو بہانہ بناکرحدیث پر عمل نہ کرے ۔ (۶)
اس امر میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حق پر وہی ہیں جو رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے آپ کے قول وعمل کولائحہ عمل بناتے ہیں اگر کئی طرح سے ثابت ہو تو کبھی ایک صورت پر عمل کرتے ہیں کبھی دوسری پر ۔اسی طرح آپ کے بعد خلفاء راشدین اور رشد وہدایت کے پیکر صحابہ کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعین کے طرز عمل کو نشان راہ بناتے ہیں۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا حکم ہے ۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اﷲ ۔ (آل عمران:۳۱)
کہہ دواگر تم اﷲسے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اﷲتم سے محبت کرے گا۔

نیز فرمایا:
وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عنْہُ فَانْتَھُوْا ۔ (الحشر:۷)
’’رسول تمہیں جو دیں اسے تھام لو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آجاؤ۔‘‘
اسی مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): نویں صدی ہجری کے مشہور حنفی عالم محمد بن عبدالواحد بن عبدالحمید ۔کمال الدین ابن ھمام کے لقب سے مشہور ہیں ۔فتح القدیر کے نام سے ہدایۃ کی شرح لکھی ۸۶۱ ھ میں قاہرہ میں وفات پائی۔
(۲): ایقاظ لھم ص ۴۱۔
(۳): اعلام الموقعین
(۴): دسویں صدی ہجری کے ممتاز حنفی عالم زین الدین بن ابراہیم ۹۷۰ ھجری میں وفات پائی ۔البحرالرائق شرح کنزالدقائق کے علاوہ الاشباہ والنظائر الفوائد الزینیتہ فی فقہ الحنفیہ ۔ الرسائل الزینیتہ اور فتح الغفار شرح المنار ان کی تالیفات میں سے ہیں ۔
(۵): تحریف وتاویل کئے بغیر نصوص کامفہوم ظاہر کہلاتا ہے ۔
(۶): اعلام الموقعین ۱/۷۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
فرقہ بندی اور اختلافات مختلف مذاہب کی پابندی کرنے کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئے

فرقہ بندی اور اختلافات مختلف مذاہب کی پابندی کرنے کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئے

جب کسی مسئلہ پر رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے ایک سے زائد روایات مروی ہوں اور یہ بھی معلوم نہ ہوسکے کہ ان میں سے کون سا حکم پہلے کا ہے اور کون سا بعد کا ہے اور تاریخ اس امر میں ساکت ہو ان تمام صورتوں پر عمل کرلیا کرو ۔کبھی ایک پر کبھی دوسری پر تاکہ تمہارا عمل نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے عمل کے مطابق ہو ۔اس کے برعکس اگر ان صورتوں میں سے صرف ایک پر عمل کروگے اور باقی کا انکار کروگے تو یہ امر تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے یا نص کے ہوتے ہوئے کوئی علت اپنی طرف سے بیان کروگے تو بہت ممکن ہے کہ دائرہ حق سے ہی باہر نکل جاؤ اور تمہیں خبر تک نہ ہو ۔کسی مسلمان کو کیسے زیب دیتا ہے کہ اس کی نبی کی ثابت شدہ حدیث کا انکار کردے جس کے متعلق قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ :
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ ۔ (النجم)
آپ اپنی خواہش سے کوئی بات زبان پر نہیں لاتے یہ تو حکم الٰہی ہے جو آپ پر نازل کیا جاتا ہے۔

جب بعض لوگ نصوص پر عمل کرنے اور بعض کو ترک کرنے کی بدعات کا شکار ہوئے تو اس کے نتیجے میں انتشار کا بیج بونے والے مذاہب وجود میں آئے اور ہر طرف سے ’’ہمارے نزدیک‘‘ ، ’’تمہارے نزدیک ‘‘، ’’ہماریی کتابیں‘‘ ، ’’تمہاری کتابیں‘‘ ، ’’ہمارا مذہب‘‘، ’’تمہارا مذہب‘‘ ، ’’ہمارا امام ‘‘، ’’تمہارا مام‘‘ کی صدائیں آنے لگیں (۱)

اوراس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مابین بغض ،حسد ،عداوت ،احساس برتری ،اور دوسروں کی تحقیر نے لے لی ۔انجام کار مسلمانوں کی شان وشوکت جاتی رہی ان کی جمیعت منتشر ہوکر بدنظمی کا شکار ہوگئی ۔بالآخر مسلمان فرنگی استعمار اور دیگر جابر قوتوں کے لیے لقمہ تر بن گئے ۔

کیا اہل سنت کا ہر امام ہم سب کا امام نہیں ،اﷲان سب پر راضی ہو اور ہمارا حشر بھی ان کی جماعت کے ساتھ ہو ۔متعصب مقلدوں کا یہ رویہ کس قدر افسوس ناک ہے اﷲتعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔

جب اس مسئلہ کی کماحقہ تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان مذاہب کی ترقیج واشاعت اور تقلید مذاہب کے تصور کو خوشنما بناکر پیش کرنے میں اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ تھا اس کے پس منظر میں مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے اور باہمی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا مذموم مقسد کارفرما تھا یاکچھ جاہلوں نے یہود ونصاریٰ کی متابعت کرتے ہوئے اور ان سے مشابہت پیدا کرنے کے شوق میں ان مذاہب کو اختیار کیا تھا جیسا کہ وہ دیگر امور میں کرتے رہتے ہیں اور معلوم ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں متعصب جاہلوں کی اکثریت رہی ہے جو عدل وانصاف سے بے بہرہ اور حق وباطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔‘‘

علامہ ابن عبداﷲاور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہمااﷲتعالیٰ فرماتے ہیں
حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحیح ثابت ہوجانے کے بعد کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ مقام صرف حدیث کا ہے اور اسے اختیار کرکے اس پر عمل کیا جائے ہر مسلمان کا شیوہ یہی ہونا چاہیے اور نہ ہی کتاب وسنت کی نصوص کا عقلی احتمالات یا نفسانی خیالات سے معارضہ کرنا چاہیے جیسا کہ کہا جاتا ہے ممکن ہے اس حدیث کا مجتہد صاحب کو علم ہو لیکن اس میں انہیں کوئی قادح علت نظر آتی ہو یا ان کے پاس ضرور کوئی اور دلیل ہوگی دیگر جس قسم کی باتیں تمام فرقہ پرست ’’فقہائ‘‘کرتے ہیں اور جاہل مقلدین ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں:
السنۃ ما سنۃ اﷲ ورسولہ صلی اﷲ علیہ وسلم لا تجعلوا خطأ الرای سنۃ للامۃ ۔
سنت وہ ہے جسے اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے اپنے فہم کی لغزش کو امت لیے سنت قرار نہ دو۔
اﷲتعالیٰ حضرت عمر رضی اﷲعنہ پر رحمتیں نازل فرمائے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایسا وقوع پذیر ہونے کے متعلق بذریعہ الہام بتایا گیا (۲) اور انہوں نے اس پر امت کو متنبہ فرمایا ۔چنانچہ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں کہ کتنی ہی کتاب اﷲکے بالکل متصادم اور سنت کی یکسر مخالفراء کو سنت کا مقام دے دیا گیا ہے بلکہ انہیں کو اصل دین سمجھتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسے مسلک کا نام دیتے ہیں ۔

اﷲکی قسم یہ زبردست فتنہ اور مصیبت ہے تعصب اور ضد کی بیماری جس میں مسلمان مبتلا ہوکر رہ گئے ہیں ۔اناﷲوانا الیہ راجعون۔

امام اوزاعی رحمہ اﷲتعالیٰ کا قول ہے ۔
علیک باثار من السلف وان رفضک الناس و ایاک واٰراء الرجال وان زخرفوا لک القول۔
سلف کے آثار پر کاربند رہو خواہ لوگ تمہارا ساتھ بھی چھوڑ دیں ۔لوگوں کی آراء سے دور رہو خواہ کتنی بھی مزین اور خوشنما بنا کر پیش کی جارہی ہوں ۔
حضرت عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما کے بیٹے بلال ؒ بیان کرتے ہیں کہ :
ان کے والد حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲ عنہما نے کہا رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے۔لا تمنعوا النسائء حظوظھن من المساجد اذا استاذنکم ۔ (۳)
عورتیں تم سے اجازت طلب کریں تو انہیں مسجد میں جانے کے حق سے محروم نہ کرو ۔
(بلال کہتے ہیں ) میں نے کہا ،میں تو اپنی اہلیہ کو منع کروں گا جس کا جی چاہے جانے دے ‘‘میرا یہ جملہ سن کر وہ (عبداﷲبن عمرؓ)میری جانب متوجہ ہوکر کہنے لگے : لعنک اﷲ لعنک اﷲ لعنک اﷲ تسمعنی اقول ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم امر ان لا یمنعن وقام مغضبًا ۔ تجھ پر اﷲکی لعنت ہو،تجھ پر اﷲکی لعنت ہو،تجھ پر اﷲکی لعنت ہو۔تم مجھ سے سن رہے ہو کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کا حکم ہے کہ عورتوں کو (مسجد جانے سے )نہ روکا جائے (اور تم پھر بھی کہتے ہو کہ میں نہیں جانے دوں گا) یہ کہتے ہوئے غصے سے اٹھ کر چل دئیے (۴)
رضی اﷲ عنہم اجمعین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ احادیث کوبھی تقسیم کرلیا گیا ۔حافظ زیلعیؒ جیسا منصف مزاج حنفی بھی ان احادیث کو جن پر حنفی علماء عمل نہیں کرتے ۔احادیث الخصوم (مخالفین کی احادیث)سے تعبیر کرتے ہیں کوئی صاحب ِذوق اس تعبیر کی قساوت محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
(۲): حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد کان فیمن کان قبلکم من الامم ناس محدثون میں غیر ان یکونوا انبیاء فان یکن فی امتی احدنا فانہ عمر ۔تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ہوئے ہیں جو نبی تو نہیں لیکن محدث تھے (یعنی انہیں الہام کیا جاتا تھا)اگر میری امت میں کوئی نبی ہے تو وہ عمر ہے (محدث کی تفسیر حدیث ہی میں وارد ہے)
(۳): متفق علیہ ۔مذکورہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔
(۴): صحیح مسلم میں ہے کہ عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما نے آخری دم تک اپنے اس بیٹے سے کلام نہیں کیا ،لیکن مذہبیت کے زیر اثر فقہاء کی جسارت دیکھئے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’ہدایہ‘‘میں ہے ویکرہ لھن حضور الجماعات یعنی عورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے جانا مکروہ ہے ۔العنایہ شرح الھدایہ میں متاخرین کے اجماع کو اس کی دلیل بنیایا گیا ہے جو عذر بدتراز گناہ کی بہترین مثال ہے ۔
 
Top