تقلیدمذاہب کے بدعت ہونے کے متعلق علمائے امت کی تصریحات
تقلیدمذاہب کے بدعت ہونے کے متعلق علمائے امت کی تصریحات
شاہ ولی اﷲدہلوی ؒ نے اپنی عظیم تالیف ’’الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف‘‘میں لکھا ہے ۔اچھی طرح سمجھ لو پہلی اور دوسری صدی ہجری میںلوگ کسی ایک مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے ۔چنانچہ ابوطالب مکی (۱)نے قوت القلوب میں لکھا ہے کہ ’’کتابیں اور (مسائل کے)مجموعے سب نوپید ہیں۔لوگوں کی آراء بیان کرنا ایک امام کے مذہب کے مطابق فتویٰ کاالتزام کرنا اور ہر مسئلہ میں اسی کے اقوال کی اتباع کرنا اسی کے مذہب کو پڑھنا پڑھانا پہلی اور دوسری صدی کے لوگوں کا دستور نہ تھا۔
دو صدیاں گزرنے کے بعد مسائل کی تخریج (۲)ہونے لگی ۔تاہم چوتھی صدی ہجری میں بھی صرف ایک مذہب کی تقلید محض اور اسی کی تدریس وروایت پر اکتفاء پر لوگ جم نہیں گئے تھے جیسا کہ تحقیق ومراجعت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ لوگ اس وقت دو طرح پر تھے ۔
۱۔ علماء ۲۔ عوام
عوام کا طریقہ ٔ کار یہ تھا اتفاقی مسائل میں کہ جن کے متعلق مسلمانوں میں یا جمہور مجتہدین کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا بجز شارع کے کسی اور کی تقلید نہیں کرتے تھے وضو،غسل کی کیفیت ، نماز وزکوٰۃ کے احکام وغیرہ اپنے اباء واجداد یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اسی پر عمل پیر اہوتے اور جب کوئی نیا مسئلہ درپیش آجاتا توبلاامتیاز مسلک ومذہب جو مفتی بھی مل جاتا اس سے دریافت کرلیتے۔ابن ھمام اپنی کتاب ’’التحریر‘‘کے آخر میں لکھتے ہیں۔
کانوا یستفتون مرۃ واحد او مرۃ غیرہ غیر ملتزمین مفتیا واحد ا۔
کبھی ایک عالم سے پوچھ لیتے تو کبھی دوسرے سے ایک ہی مفتی کاالتزام نہ کرتے تھے۔
(۳) یہی بات شاہ ولی اﷲنے اپنی ایک اور گرانقدر تصنیف حجۃ اﷲالبالغہ ۱/۱۵۳ میں بھی لکھی ہے اس کے بعد امام ابن حزم رحمۃ اﷲ کا یہ قول بھی بطور تائید مزید کے نقل کیا ہے۔
تقلید حرام ہے ۔کسی کے لئے یہ جائز نہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی بھی انسان کا قول بلا دلیل مان لے ۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کاصریح فرمان ہے۔ ’
’اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزَلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبَعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاء‘‘ پیروی اس کی کرو جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی پیروی مت کرو۔ (الاعراف:۳)
نیز فرمایا:
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اتَّبِعُوا مَا اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاءَ نَا۔جب انہیں کہا جاتا ہے پیروی کرو اس کی جو اﷲنے نازل کیا ہے کہتے ہیں ہم تو صرف اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے آباء واجداد کو پایا ہے ۔
تقلید کی راہ سے دور رہنے والوںکا ذکر جمیل اس طرح فرمایا ہے :
فَبَشِّرْ عِبَادِہُ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ اُولٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَاھُم اﷲُ وَاُوْلٰئِکَ ھُمْ اُولُوالْاَلْبَاب۔سوآپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو اس کلام کو غور سے سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں جن کو اﷲتعالیٰ نے ہدایت سے نوازا اور یہی لوگ عقلمند ہیں (الزمر:۱۷-۱۸)
نیز فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲَ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَومِ الاٰخِر پھر اگر ایسا ہوکہ کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیداہوجائے تو چاہیے کہ اﷲاور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اﷲپر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔
گویا اﷲتعالیٰ نے نزاع کی صورت میں کتاب وسنت کے سوا کسی اور چیز کی طرف رجوع کرنے کی اجازت ہی نہیں دی ۔
تمام کے تمام صحابہ ،تمام کے تمام تابعین اور تمام اتباع تابعین کا س بات پر اجماع ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا ان کے یا ان سے پہلے زمانہ کے کسی انسان کے تمام اقوال کی پیروی کے التزام نہ کیا جائے اور نہ کرنے دیا جائے۔
لہٰذا جو شخص امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ یا امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کے سب کے سب اقوال پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اپنے امام سے فتویٰ لئے بغیر کتاب وسنت میں ثابت شدہ احکام پر بھی اعتماد کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا تو اسے جا ن لینا چاہیے کہ وہ بلاشبہ یقینی طور پر تمام امت کے اجماع کے خلاف کررہا ہے ۔خیرون القرون میں اسے اپنا کوئی پیش رو نہیں مل سکتا لہٰذا اس نے وہ راہ اختیار کی ہے جو اہل ایمان کی راہ نہیں ہے۔
ایک اور نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ان تمام ائمہ نے دوسروں کی تقلید سے منع فرمایا ہے۔لہٰذا ان کے منع کرنے کے باوجود ان کی تقلید کرتا ہے تو وہ ان کی نافرمانی کامرتکب ہورہا ہے۔
یہی بات امام عزالدین بن عبدالسلام (۴) نے اپنی کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانام اور شیخ صالح الفلانی نے اپنی کتاب ایقاظ ھم اولی الابصار میں بھی ذکر کی ہے ان نو پید مروجہ مذاہب کے مقلدین اور ان کی بے جاحمایت کرنے والوں پر تعجب ہوتاہے جو اپنے مذہب کی طرف منسوب ہر قول پر کاربند رہتا ہے ہر چند کہ وہ دلیل سے کوسوں دُور ہو اور اپنے امام کو نبی مرسل سمجھتا ہے حالانکہ یہ بات حق سے جدائی اور راہ راست سے دوری کی موجب ہے ۔ہمارا مشاہدہ وتجربہ ہے کہ یہ مقلدین یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے امام سے غلطی کا صادر ہونا ناممکن اور محال ہے۔اور جو کچھ وہ کہہ گئے ہیں بہرحال درست ہے ۔انہوںنے دل میں یہ طے کیا ہوتا ہے وہ اپنے امام کی تقلید سے منہ نہیں موڑیں گے خواہ ازروئے دلیل ان کے مخالف کا قول ہی ثابت اور قوی تر ہو(۵) اس کیفیت پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ھدیث من وعن صادق آتی ہے جسے امام ترمذی وغیرہ نے حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے۔
میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو اِتَّخِذُ وْا اَحْبَارَھُمْ وَرَھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ ۔(ان لوگوں نے اﷲکوچھوڑ کر اپنے علماء ومذہبی پیشوا کو اپنے معبود بنالیا ہے)کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ۔تو عرض کی اے اﷲکے رسول وہ علماء ومشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔
فرمایا:
انھم اذا احلوا شیئا استحلوہ واذا حرموا علیھم حرموہ فذلک عبادتھم ۔
ان کے مذہبی پیشوا جب ان کے لئے کوئی چیز حلال کردیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے اور اگر ان پر کسی چیز کو حرا م کردیتے تو اسے حرام سمجھتے یہی چیز ان کی عبادت وپرستش ہے۔
رسول اﷲصلی اﷲ کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت جہالت اور گمراہی ہے
برادران اسلام ! جب ہم کسی شخص کے مذہب کے مقلد ہوں اور ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث پہنچے جو غلطی سے معصوم ہیں اور جن کی اطاعت بھی اﷲتعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے لیکن ہم حدیث رسول صلی اﷲعلیہ وسلم چھوڑ دیں اور کسی شخصیت اور مذہب کے ساتھ چمٹے رہیں تو ہم سے بڑا ظالم کون ہوگا اور جس روز تمام انسان پروردگار عالم کے دربار میں پیش ہوں گے توہم کیا عذر پیش کرسکیں گے ۔
ایسا شخص جو رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سِوا کسی کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سارے ائمہ کے اقوال میں سے صرف اس کے امام کا قول ہی برحق اور واجب الاتباع ہے ،راہ حق سے بھٹکا ہوا نرا جاہل ہے ۔بلکہ یہ بات کفر تک جاپہنچتی ہے اسے توبہ کرنے کو کہا جائے گا اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ قتل کردیاجائے ۔اس لیے کہ جب کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ تمام آئمہ میں سے صرف ایک امام کی اتباع واجب ہے تو گویا وہ شخص اپنے امام کو نبی کا درجہ دے رہا ہے ۔اس مسئلہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناخواندہ عامی شخص کے لیے زید وعمر کی تعیین کے بغیر کسی امام کی تقلید واجب یا جائز ہے ۔لیکن جس شخص کے دل میں سارے آئمہ کی محبت ہو اور اسے جس امام کا قول سنت کے موافق نظر آئے اس پر عمل کرے تو اس کا یہ عمل لائق تحسین ہے لیکن تابعین کے بعد کے طبقہ میں سے ایک عالم کیلئے تعصب رکھنے والے شخص کا طرز عمل تو رافضی ،ناصبی اور خارجی فرقوں جیسا ہے جو ایک صحابی کے متعلق غلو کرتے ہیں اور باقی تمام سے لاتعلقی اور برأت کا اظہارکرتے ہیں جو خود رأی اور اہل بدعت کے طریقے ہیں جن کے متعلق قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ لائق مذمت اور جادۂ حق سے بہت دور ہیں شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ فتاویٰ مصریہ میں فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص امام ابوحنیفہؒ ،امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمدؒ یا کسی امام کا مقلد ہو اور کسی مسئلہ میں اسے دوسرے امام کا قول دلیل کے اعتبار سے قوی تر نظر آئے اوروہ اس پر عمل کرے تو اس کا یہ فعل لائق تحسین ہے اور علماء میں اس امر کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے دین یا دیانت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ یہی طریقہ حق سے قریب تر اور اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں پسندیدہ تر ہے بہ نسبت اس شخص کے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتا ہے (جیسا کہ کئی لوگ امام ابوھنیفہ کی تقلید کرتے ہیں)اور اعتقاد رکھتا ہے کہ مختلف رائے رکھنے والے علماء کی بجائے صرف اس کے امام کا قول ہی درست اور لائق اتباع ہے تو ایسا کرنے والا نرا جاہل ہے بلکہ اس کا یہ فعل ۔معاذ اﷲ ۔کفر بھی ہوسکتا ہے
’’الاقناع ‘‘اور اس کی شرح میں ہے :
’’زیادہ معروف یہی ہے کہ ایک مذہب اختیار کرنا اور اس کا پابند رہنا لازم نہیں اور نہ ہی ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنا ممنوع ہے جمہور علماء مخصوص ومعین مذہب کی پابندی ضروری قرار نہیں دیتے اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میںکسی کی اتباع نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اﷲتعالیٰ نے ہر فرد پر ہر حال میں صرف اپنے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے ۔‘‘
’’الانصاف ‘‘کی کتاب القضاء میں ہے:
’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا جو شخص کسی معین امام کی تقلید کو واجب قرار دے اس سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے ۔کیوں کہ اس طرح تقلید کو واجب ٹھہرانا اﷲتعالیٰ کے حق تشریع میں شرک ہے اس لیے کہ تشریع (احکام مقرر کرنا)ربوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): محمد بن علی عطیہ مکی مشہور زاہد وعابد واعظ تھے ان کی تالیف قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب تصوف میں پائے کی کتاب سمجھی جاتی ہے وفات بغداد ۳۸۶ھ۔
(۲): کتاب وسنت کی بجائے کسی امام کے فتاوی کی روشنی میں مسائل کا حکم متعین کرنا تخریج کہلاتا ہے۔
(۳): الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ۶۸
(۴): امام عبدالعزیز بن عبدالسلام اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے ۔انہیں شیخ الاسلام اور سلطان العلماء کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے کلمہ حق کہنے میں ممتاز تھے قاہرہ میں ۶۶۰ہجری میں وفات پائی۔
(۵): مولانا محمود الحسن دیوبندی ایک مسئلہ میں فرماتے ہیں :الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ہذہ المسألۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ ۔حق و انصاف یہی ہے کہ اس مسألہ میں امام شافعی کا قول راحج ہے لیکن ہم چونکہ مقلد ہیں اس لیے ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے ۔ (تقریر الترمذی ص:۴۰)