• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: پندرہویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۶۔جنتی ،سونے کے کنگن، اورریشمی لباس
رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں ،تو یقینا ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اوراطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں پر تکیے لگاکر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!(سورۃ الکھف…۳۱)

۳۷۔انگور کے باغ پر گھمنڈ کرنے والے کا حشر
اے نبی ﷺ، ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ دو شخص تھے۔ ان میں سے کو ہم نے انگور کے دو باغ دیئے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بارآور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کردی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پاکر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ’’میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں ‘‘۔ پھر وہ اپنی جنت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی، اورمجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا‘‘۔ اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ’’کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بناکھڑا کیا؟ رہا میں ، تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہورہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ، لاقوۃ الاباللہ؟ اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرمادے اورتیری جنت پرآسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اترجائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے‘‘ آخرکار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ ماراگیا اور وہ اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیّوں پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ’’کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا‘‘ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھاّ کہ اس کی مدد کرتا ، اور نہ کرسکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ اس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔ (سورۃ الکھف…۴۴)

۳۸۔مال و اولاد محض دنیوی ہنگامی آرائش ہیں
اور اے نبی ﷺ، انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسادیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بُھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں ۔ فکر اس دن کی ہونی چاہیے جبکہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے ، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چُھوٹے گا، اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں گے …لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کوپہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے…اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اورکہہ رہے ہوں گے کہ ’’ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو‘‘۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ (سورۃ الکھف…۴۹)

۳۹۔ ابلیس انسان کا دشمن ہے
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذُریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کررہے ہیں ۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت ان کو نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔ میراکام یہ نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنایا کروں ۔ پھرکیاکریں گے یہ لوگ اس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کردیں گے۔ سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ (الکھف…۵۳)

۴۰۔انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ ان کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر ان کو کس چیز نے روک دیا؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہوچکا ہے،یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں ! (سورۃ الکھف…۵۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۴۱۔رسولوں کا کام بشارت و تنبیہ دینا ہے
رسولوں کو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دے دیں ۔ مگر کافروں کا یہ حال ہے کہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور انہوں نے میری آیات کو اور ان تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنالیا ہے۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سُناکرنصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیئے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے اور ان کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کردی ہے۔ تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا، اوران میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کررکھا تھا۔(سورۃ الکھف…۵۹)

۴۲۔ سفرِ موسٰیؑ اور مچھلی کا دریا میں گرنا
(ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسٰیؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسٰیؑ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہوگئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسٰیؑ نے اپنے خادم سے کہا ’’ لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں ‘‘۔ خادم نے کہا ’’آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا، ’’اسی کی توہمیں تلاش تھی‘‘۔ (سورۃ الکھف…۶۴)
۴۳۔صاحبِ دانش سے موسٰیؑ کی ملاقات
چنانچہ و ہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔موسٰیؑ نے اس سے کہا ’’کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے، اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ؟‘‘ موسٰیؑ نے کہا ’’انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا‘‘۔ اس نے کہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں ۔(سورۃ الکھف…۷۰)

۴۴۔کشتی میں شگاف اور لڑکے کا قتل
اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اُس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسٰیؑ نے کہا ’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں ؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کرڈالی‘‘۔ اس نے کہا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے؟‘‘ موسٰیؑ نے کہا ’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں ‘‘۔پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسٰیؑ نے کہا ’’آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ کیا تھا؟یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘۔ (سورۃ الکھف…۷۴)

----------------------------------٭----------------------------------
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top