• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیکر عفوودرگزر ﷺ

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
670
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
نبی کریم ﷺ عفو و درگزر کے پیکر تھے اور یہی مقصود الہی ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ
((خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاھلین))[الاعراف:۱۹۹]
’’آپ درگزر کو اختیار کریں،نیک کام کی تعلیم دیں،اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
((وما ارسلنٰک الّا رحمۃً لّلعالمین))[الأنبیائ:۱۰۷]
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔‘‘
تیسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
((فبما رحمۃٍ من اللّٰہ لنت لھم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنھم واستغفرلھم))[آل عمران:۱۵۹]
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں،اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔سو آپ ان سے درگزر کریں۔‘‘
مذکورہ قرآنی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺتمام جہان والوں کے لئے رحمت ،پیکر عفو ودرگزر تھے۔اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر عفو ودرگزر کا ملکہ پیدا فرما دیا تھا۔نبی کریم ﷺنے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔بلکہ عفو ودرگزر سے کام لیتے تھے،اور اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو خندہ پیشانی سے معاف فرمادیا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے مروی ہے۔
((ما ضرب رسول اللّٰہ ﷺشیئاً قطّ بیدہ ،ولا امرء ۃً ولاخادماً،الّا ان یجاھد فی سبیل اللّٰہ،وما نیل منہ شیئی قط ّ فینتقم من صاحبہ الّاان ینتھک شیئی من محارم اللّٰہ فینتقم للّٰہ تعالیٰ))[مسلم]
’’کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی چیز کو،عورت کو نہ خادم کو،ہاتھ سے نہیں مارا،ہاں اگر آپ ؐاللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔(جس میں یقیناً دشمن کو مارتے)اور ایسا بھی کبھی نہیں ہواکہ آپ ؐکو کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ہو اور آپ ؐنے تکلیف پہنچانے والے سے بدلہ لیا ہو۔ہاں اگر اللہ کے محارم میں سے کسی چیز کی ہتک کی جاتی تو آپؐ یقیناً اللہ کے لئے انتقام لیتے۔(یعنی مرتکب حرام کو سزا دیتے)‘‘
حضرت انس سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلا جارہا تھا اور آپؐ کے اوپر ایک موٹے کنارے والی یمنی چادر تھی۔راستے میں ایک دیہاتی آپ کو ملا اور آپ ؐکی چادر کو سختی کے ساتھ پکڑ کر کھینچا۔پس میں نے نبی کریم ﷺ کے کندھے کی جانب دیکھا تو چادر کے کنارے سختی کے ساتھ کھینچنے کی وجہ سے اس میں نشان پڑ گئے۔پھر اس دیہاتی نے کہا: اے محمد(ﷺ )!تیرے پاس جو اللہ کا مال ہے ، اس میں سے میرے لئے بھی حکم دے۔آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے،پھر آ پؐ نے اسے (عطیہ)دینے کا حکم فرمایا۔[بخاری ومسلم]
حضرت ابن مسعود ص سے روایت ہے کہ میں اب بھی گویا رسول اللہ ﷺ کو انبیاء میں سے کسی نبی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔کہ اس نبی کو اس کی قوم نے مار مار کر لہو لہان کر دیا تھا،وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتا تھااور کہتا تھا،اے اللہ !میری قوم کو معاف فرما دے ، کیونکہ وہ بے علم ہیں۔[بخاری ومسلم]علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد خود نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔اور یہ بھی آپؐ کا کمال اخلاق ہے کہ اپنے اوپر بیتی ہوئی بپتا کو مبہم انداز میں بیان فرمایا اور اپنی قوم کی صراحت نہیں فرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپؐ پر جنگ احد والے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی آیا؟آپ نے جواب میں فرمایا۔ہاں!میں نے تیری قوم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے،اور سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس عقبہ والے دن پہنچی جب میں نے اپنے آپ کو (اسلام کی دعوت کے لئے)ابن عبد یالیل بن کلال پر پیش کیا (جو طائف کا ایک بڑا سردار تھا)اس نے میری دعوت کو ،جو میں چاہتا تھا، قبول نہیں کیا(بلکہ آوارہ بازاری لڑکو ں کو پیچھے لگا دیا جنہوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا) تو میں وہاں سے سخت پریشان ہو کر نکلا۔قرن ثعالب (نامی جگہ )پر پہنچ کر مجھے کچھ افاقہ ہوا تو میں نے سر اٹھایا تو میں نے ایک بدلی دیکھی جس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا۔میں نے غور سے دیکھا تو اس میں جبریل ںتھے۔انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا،اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ بات سن لی ہے جو انہوں نے آپ سے کہا ہے۔اور وہ بھی جو انہوں نے آپ کو جواب دیاہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں پر مقرر فرشتہ بھیجا ہے تا کہ آپ ؐاسے ان لوگوں کی بابت جو چاہیں حکم دیں۔پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کیا اور کہا ۔اے محمد(ﷺ)!بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی گفتگو جوانہوں نے آپ کے ساتھ کی ہے،سن لی ہے۔مجھے میرے رب نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ؐ مجھے اپنے معاملے میں حکم دیں،پس آپ کیا چاہتے ہیں؟اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ (ایسا نہ کرو)بلکہ مجھے امید ہے کی اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔[بخاری ومسلم]
حضرت ابو ہریرہ صسے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا،پس لوگ اس کی طرف اٹھے تاکہ اسے زدکوب کریں،تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اس کو چھوڑ دواور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دو،اس لئے کہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ،سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔[بخاری]
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص صسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺعام طور پر اور نہ ہی تکلف سے بدزبانی کرنے والے تھے اور آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو تم میں اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔[بخاری ومسلم]
حضرت انس صسے روایت ہے کہ میں نے دس سال تک نبی کریم ﷺکی خدمت کی ۔اس دوران آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا۔اور نہ ہی یہ کہا کہ ’’تم نے یہ کیوں کیا یا یہ کیوں نہیں کیا؟‘‘[بخاری ومسلم]
حضرت جابرصسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کبھی ایسا نہیں ہواکہ آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہو اور آپ نے ’’نہیں‘‘ کہا ہو (بلکہ جو کچھ آپ کے پاس ہوتا عطا کر دیتے تھے)[بخاری ومسلم]
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص صسے روایت ہے کہ ان سے عطاء بن یسار صنے توراۃ میں موجود نبی کریم ﷺ کی صفات کے بارے میں سوال کیا۔تو انہوں نے کہا ’’ہاں‘‘ اللہ کی قسم !توراۃ میں بھی نبی کریم ﷺ کی بعض وہ صفات موجود ہیں جو قرآن میں ہیں۔توراۃ میں ہے کہ ’’اے نبی ہم نے آپ کو شاہد ،خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا،اور ان پڑھوں کا قائد بنا کر بھیجا ہے۔آپ میرے بندے اور رسول ہیں۔میں نے آپ کا نام متوکل(اللہ پر بھروسہ کر نیوالا)رکھا ہے۔آپ نہ تو بد زبان ہیں اورنہ ہی سخت دل اور بازاروں میں جھگڑا کرنے والے ہیں۔جو برائی کا بدلہ برائی سے نہیںدیتے،بلکہ عفو ودرگزر سے کام لیتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ اس نبی کو اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک اس کے ذریعہ سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کر دے۔اور وہ ’’لا الٰہ الّا اللّٰہ ‘‘کا اقرار نہ کر لیں۔اور اللہ تعالیٰ ان کے بہرے کانوں،اندھی آنکھوںاور بند دلوں کو کھول نہ دے۔‘‘[بخاری]اس حدیث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ توراۃ کے اندر بھی نبی کریم ﷺ کی صفت عفوودرگزر کو بیان کیا گیا ہے۔کہ وہ نبی برائی کا بدلہ برائی سے نہیںدیں گے بلکہ پیکر عفوودرگزر بن کر معاف کر دیا کریں گے۔
حضرت اسامہ بن زیدص سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ گدھے پر سوار ہو کرحضرت سعد بن عبادہص کی عیادت کرنے بنو خزرج کی طرف جارہے تھے۔اور اسامہؓ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔(یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے)کہ آپ کا گزر ایسی جماعت کے پاس سے ہوا جس میں مسلمان ،مشرکین اور یہود تمام مل کر بیٹھے ہوئے تھے۔جن میں عبد اللہ بن أبی (منافق) بھی تھا۔اور عبداللہ بن رواحہ صبھی تھے۔جب گدھے کے چلنے سے اڑنے والی گرد وغبار بیٹھے ہوئے لوگوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے ناک ڈھانپتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو کہاکہ’’ہم پر گرد وغبار مت اڑاؤ’’نبی کریم ﷺ نے مجلس والوں کو سلام کہا اور نیچے اتر کر ٹھہر گئے۔موجود لوگوںکو اللہ کا پیغام سنایااور قرآن کی تلاوت فرمائی۔یہ سب دیکھ کر عبد اللہ بن ابی پھر کہنے لگا!اے شخص ؟کیا تیرے پاس اس سے اچھا کچھ نہیں ہے؟اگر تو واقعی اپنے دعوے میں سچا ہے تو مجالس میں آآکر ہمیں تنگ نہ کیا کر ،بلکہ اپنے گھر چلا جا اور ہم میں سے جو شخص چل کر تیرے پاس آجا ئے اس کو اپنے قصے کہانیاں سنایا کر ‘‘عبد اللہ بن ابی کی اس گستاخی کو دیکھ کر مسلمان غضبناک ہو گئے ۔یہود اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی ،قریب تھا کہ معاملہ مزید بگڑتا نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو سمجھایااور صبر کی تلقین کی۔اور اس منافق کی اس گستاخی کو معاف فرما دیا۔[بخاری]
حضرت جابر صسے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میںنبی کریم ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف نکلے۔جب نبی کریم ﷺ اور صحابہ واپس لوٹ رہے تھے تو ایسی وادی میں قیلولہ (دوپہر کی نیند)نے آلیا جو کانٹے دار درختوں والی تھی۔چنانچہ تمام لوگ پھیل گئے تاکہ درختوں کا سایہ حاصل کر سکیں۔نبی کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے اتر گئے اور اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی۔اور ہم سب سو گئے۔اچانک نبی کریمﷺ نے ہمیں آواز دی اور آپ کے پاس ایک دیہاتی آدمی بھی موجودکھڑا تھا۔اللہ کے نبیﷺ نے ہمیں بتایا کہ اس دیہاتی نے میری تلوار میرے اوپر سونت لی اور میں سویا ہوا تھا ۔جب میں جاگا تو تلوار اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی اور اس نے للکار کر مجھے کہا :کہ اب کون تجھے میرے ہاتھ سے بچائے گا؟تو میں نے جواب میں تین مرتبہ کہا’’اللہ‘‘اب تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور میں نے پکڑ لی۔میں نے کہا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ تو اس نے معافی مانگنا شروع کر دی ۔اس کے بعد نبی رحمت ،پیکر عفوودرگزرنے اس کو معاف فرما دیا اور اس کو جانے کی اجازت دے دی [بخاری]
فتح مکہ کے موقعہ پر جب قریش کے تمام لوگ نبی کریم ﷺ کے سامنے ندامت سے سر جھکائے کھڑے تھے،اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیؐ کو فتح سے ہمکنار کیا تھا ،تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اے قریش کی جماعت !تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟انہوں نے فرمایا:ہم آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیں،کیونکہ آپ معزز بھائی ،اور معزز بھائی کے بیٹے ،ہیں۔تو نبی کریمﷺ نے ان کے سابقہ تمام مظالم کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا:آج میں بھی تمہیں وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف ںنے اپنے بھائیوں کو کہا تھا((لا تثریب علیکم الیوم))[یوسف:۹۲]’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں‘‘جاؤ تم سب آزاد ہو۔[الرحیق المختوم]
ہجرت کے واقعات اور قریش کے مظالم (جن کو اس چھوٹے سے ورق پر بیا ن کرنا محال ہے)کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہی قریش جو آپ کے جانی دشمن تھے جنہوں نے (نعوذ باللہ )آپ ؐکے قتل کرنیوالوں کے لئے ایک بھاری انعام مقرر کیا،زبر دستی ہجرت پر مجبور کیا،آپ کو اذیّت پہنچانے میں کسی بھی قسم کی کسر باقی نہ چھوڑی۔اس سب کچھ کے باوجود پیکر عفوودرگزر نے انہیں معاف فرما دیا۔
عزیز دوستو!ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی نبی ﷺ کے اس اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے محب رسول ہونے کا ثبوت دیں ۔اور غیر مسلموں کو اسلام کے اس عظیم الشان اخلاق سے متاثر کریں۔ واللہ الموفق۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 
Top