• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار چالیس

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
محترم قارئین کرام
آج میں آپ حضرات کی خدمت میں اپنے والد جناب مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ کی سوانح حیات’’ تذکرہ دیرو حرم ‘‘ ایک مفید علمی اقتباس پیش خدمت کررہا ہوں امید ہے کہ پسند آئیگا اور اس سے استفادہ فرمائیں گے
چار چالیس

ایک قلمی کتاب کے جواہر پارے​

ایک دن میں اپنی کتاب ’’وصایا‘‘ کے لئے ورق گردانی کررہا تھا(یہ کتاب ان شاء اللہ بہت جلد طبع ہورہی ہے) کہ اپنے ایک کرم فرما کے پاس سے حکیم رحیم اللہ صاحب مرحوم ومغفور کی ایک قلمی بیاض کے چند صفحات دستیاب ہوگئے۔ یوں شمار میں تو دس بارہ ہی صفحات تھے لیکن قدر ومنزلت میں اس مضمون کے پڑھنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
حکیم صاحبؒ بجنور خاص کے باشندے اور صاحب کمال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس تعارف کے بعد کہ وہ حضرت نانوتویؒ کے شاگردِ رشید تھے اور ان کے ساتھ مناظرۂ شاہجہاں پور میں شریک ِ مناظرہ تھے، کسی لمبے چوڑے تعارف کی احتیاج باقی نہیں رہتی ہے۔ حکیم صاحب موصوف مرحوم صاحب ِ تصانیف کثیرہ ہیں۔ عربی، فارسی، اُردو میں کافی تعداد میں کتابیں آج بھی ان کی نشانی ہیں جن کے کچھ نسخے آثارِ قدیمہ کے طور پر میرے مدرسہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ موصوف کی یادگار ایک مدرسہ رحیمیہ ہے جس کی نشأۃِ ثانیہ اب مدرسہ عربیہ رحیمیہ مدینۃ العلوم بجنور کے نام سے ہوئی ہے ( لیکن اب یہ مدرسہ’’ مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بجنور‘‘ کے نام سے مشہور اور مستقل اپنی عمارت میں ہے اس سے متعلق ایک بہت کڑوی تاریخی حقیقت ہے جس کے اظہار سے گریز کررہا ہوں لوگ کتنے بڑے خائن اور غاصب ہوتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺور آخرت کا ڈر نہیں ہوتا اور عالمی سطح کے اداروں کے خادم ہوتے ہیں جب میرے والد صاحب نے ہی سکوت فرمایا تو مجھے بھی اظہار کی ضرورت نہیں ۔ یہ مضمون اس وقت کا ہے جب والد صاحب ؒ مدرسہ رحیمیہ کو کرائے پر لے رکھا تھا اور ’’مدرسہ مدینۃ العلوم ‘‘ میں چالاک لوگوں نے’’ رحیمیہ ‘‘لفظ کا اضافہ کرالیا تھا (عابد) ) اور جس کی سعادت خداوندِ قدوس نے میرے مقدر میں فرمائی تھی یہ بھی انھیں کی یادگار ہے۔
حکیم صاحب موصوفؒ کو دیکھنے کا تو اتفاق کہاں سے ہوتا ہاں آج بھی بجنور میں ان کے دیکھنے والے موجود ہیں۔ انہیں کی زباں سے موصوف کے کمالات علمی اور روحانی سننے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ کیا خوب لوگ تھے آج اس قسم کے حضرات سے دنیا تقریباً خالی سی نظر آرہی ہے۔
حکیم صاحب موصوفؒ نے تمام عمر تجرد کی حالت میں گزار دی۔ بڑے باوضع اور پابند اوقات بزرگ تھے۔ فن طب میں کمال حاصل تھا، اس کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے میں صاحب حکمت حضرات کے ساتھ کسی منصب پر فائز تھے، جس کے متعلق بہت سے عجیب وغریب واقعات سننے میں آتے ہیں۔
بہرحال یہ چند اوراق میرے نزدیک اس قدر قیمتی اور محبوب ہوں گے اس کا اندازہ مضمون سے ہوگا ان اوراق کے بیشتر حصے کو میں نے اپنی تالیف کی زینت بنادیا ہے۔ حکیم صاحبؒ نے یہ جواہر پارے کہاں سے حاصل کئے تھے؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ البتہ ابتداکی چند سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی کہیں سے ان کو حاصل کیا تھا فرماتے ہیں۔
’’ بداں کہ ایں رسالہ ایست مشتمل بر آں کہ حکمااز کتب قدما اختیار کر دندوفوائد بسیار در ضمن ہر حرفے مرقوم میشوداز ہر امرے کنزے وازہر اشارتے بشارتے مستفاد است وایں رسالہ موسوم است بہ تحفت الملوک ومنسوب بہ چہل باب وہر باب چہار نصیحت‘‘
لہٰذا اب ان چالیس ابواب کو کہ جس کے ہر باب میں چار جواہر پارے ہیں۔ہدیۂ قارئین کیا جارہاہے ۔امید ہے کہ فائدہ بسیار ہوگا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے ۔حکمت ودانائی کی بات گمشدہ جواہر پارے کی دستیابی سے زیادہ قیمتی ہے ،او کما قال)بس اسی نیت سے ان گم شدہ اوراق کو کہ جن پر نہ معلوم کتنے زمانہ گزر گئے ہیں آج پھر اخبار مدینہ کے کالموں کے سپرد کررہا ہوںتاکہ ان کلمات کے احیاء اور مؤمنین کے فائدہ میں میرا بھی کچھ حصہ ہوجائے۔
(۱)بادشاہ کو یہ چار چیزیں لازم ہیں۔ ۱- دین کی رعایت اور محافظت۔ ۲-وزیر امین باتمکین۔ ۳-ارادے کی حفاظت۔ ۴-ہر امر میں احتیاط کا پہلو۔
(۲)یہ چار چیزیں بغیر چار چیزوں کے حاصل نہیں ہو سکتیں ۔(۱)حکومت بغیر عدالت کے(۲)محبت بغیر تواضع کے (۳)دشمن ہلاک نہیںکرسکتا مگر دوستی سے (۴)مراد بلا صبر کے۔
(۳) ان چار چیزوںکیلئے چارچیزیںلازم ہیں ۔(۱)بادشاہی کے لئے سیاست (۲)وزیر کے لئے امانت (۳)رعیت کے لئے رعایت (۴)لشکر کے لئے تربیت ۔
(۴) ان چار چیزوں کو چار چیزوں کی ضرورت ہے۔(۱)بادشاہ کو وزیر دانا کی (۲)بہادر کے لئے ہتھیار کی(۳)علم کے لئے عمل کی (۴)وعدے کیلئے وفا کی۔
(۵) ہر آدمی کو ان چار چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے (۱)عقلمند دوست (۲)بھائیوں کے ساتھ نیکی (۳)بستیوں کی آباد کاری کے لئے کوشش،(۴)خلق خدا کے ساتھ بخشش۔
(۶)کسی کو ان چا ر چیزوں کا ارتکاب نہ کرنا چاہئے (۱)نا اہلوں کو کام سپرد کرنا (۲)نا اہلوں کے ساتھ نیکی(۳)نیکوں کے ساتھ بدی (۴)گناہ میں جلدی۔
(۷) یہ چار چیزیں ہر آدمی کو اختیار کرنی چاہئے۔(۱) تمام مخلوق کے ساتھ نیکی (۲)عدالت وراستی(۳)عقل وخرد (۴)صبروسکون ،شرم وحیا ۔
(۸) ان چار چیزوں سے پرہیز کرنا چا ہئے تا کہ مخلوق محبت کرنے لگے (۱)بغض وحسد(۲)عجب ونخوت(۳)خشم وغضب(۴)نماز کے لئے سستی۔
(۹) یہ چار چیزیں آفت ہیں(۱)بادشاہ کے لئے غفلت (۲) امیروں کے لئے خیانت (۳) منشیوں(اہل دفتر)کے لئے گستاخ ہونا (۴)حقیر کے لئے اعلیٰ مرتبہ۔
(۱۰) چار آدمیوں کیلئے چار چیزیں لازم ہیں(۱)بادشاہ کے لئے مظلوم کی حمایت (۲)جماعتوں کے لئے ہشیاری(۳)انسانوں کے لئے پیار(۴)دوستوں کے لئے نیکی۔
(۱۱) ان چار چیزوں سے قیام حکومت ہوتاہے(۱)عدالت وشجاعت(۲)مروت ورعب(۳)سخاوت وعطایا(۴)شفقت بر رعیت۔
(۱۲) یہ چار چیزیں نیک بختی کی موجب ہیں(۱)اصل پاک۔ (۲)دل پاک۔ (۳)ہاتھ پاک (۴)رائے مستقیم۔
(۱۳) یہ چارچیزیںموجب جمعیت ہیں(۱) امینت (۲) نعمت (۳) مراجعت (۴) استقامت۔
(۱۴) یہ چار چیزیں دولت کا باعث ہیں: (۱)عقلمند بیوی۔ (۲)تائید خداوندی۔ (۳) احکام پسندیدہ۔ (۴) امام برگزیدہ۔
(۱۵) یہ چار چیزیں موجب بدبختی ہیں’۱‘کاہلی’۲‘جاہلی’۳‘ ناکسی ’۴‘بے کسی۔
(۱۶) یہ چار چیزیںہر آدمی کے لئے شرط ہیں۔’۱‘اطاعت’۲‘نصیحت ’۳‘ شفقت’۴‘ امانت۔
(۱۷) یہ چار چیزیںموجب شاد مانی ہیں ’۱‘شاہی عنایت’۲‘دعائے زاہد ’۳‘بیان بزرگاں’۴‘زیارت دوستاں۔
(۱۸) جس کو یہ چار چیزیںحاصل ہوںاس کو مغرور نہ ہونا چاہئے’۱‘قرب سلطاں’۲‘زہد زندہ داراں’۳‘حاسدوںکی نصیحت’۴‘دنیا کی دوستی۔
(۱۹) جس کو یہ چار چیزیںحاصل ہیں اس کے تمام کام پورے ہوں گے۔ ’۱‘ بزرگوں سے ملاقات’۲‘دوستوں کی نصیحت’۳‘واقعات میں غور و فکر ’۴‘راست بازوں کی پرورش۔
(۲۰) یہ چار چیزیں بیوقوفی کی علامت ہیں’۱‘عجب وتکبر’۲‘عیب ڈھونڈنا ’۳‘ بخل کرنا۔ ’۴‘ بیوقوف سے امید خیر رکھنا۔
(۲۱) یہ چار چیزیں نیکی کی علامت ہیں’۱‘قول راست ’۲‘عہد درست’۳‘تواضع ہمہ حال’۴‘کمال پیدا کرنے میں کوشش ۔
(۲۲)یہ چار چیزیں شقاوت کی علامت ہیں’۱‘ جاہلوں کے ساتھ صحبت’۲‘بدوں کے ساتھ نیکی’۳‘جاہلوں سے نصیحت حاصل کرنااور بکواس سننا’۴‘عورتوں کی باتوں پر عمل کرنا۔
(۲۳)ان چارچیزوں سےپرہیزکرناچاہئے’۱‘ عجب وکبر ’۲‘ خشم وغضب ’۳‘ بخل وامساک ’۴‘ شتاب وتعجیل۔
(۲۴) یہ چار چیزیں موجب ہلاکت ہیں’۱‘خبث وغیبت’۲‘تکبرونخوت ’۳‘حسد وحماقت’۴‘طمع وشہوت۔
(۲۵) یہ چار چیزیں موجب ترقی ہیں’۱‘وہم وآسائش’۲‘ترک ہواوہوس۔ ’۳‘اختیار لطف’۴‘تحمل در قضااور شکر بر عطا۔
(۲۶) ان چار چیزوں میںتغیر کر ناممکن نہیں ہے’۱‘حکم وقضا کو نا بود کرنا’۲‘باطل کو حق کرنا’۳‘بد خو کو نیک خو کرنا’۴‘خلق کو خوش کرنا۔
(۲۷)کسی کو ان چار چیزوں پر فخر نہ کرنا چاہئے’۱‘دشمن ’۲‘آگ’۳‘تیل ’۴‘نوکری۔
(۲۸)یہ چار چیزیں رکاوٹ ہیں’۱‘ظلم امیر’۲‘خیانت دفتری’۳‘غفلت وزیر ’۴‘ستم بر فقیر۔
(۲۹)ان چار چیزوں کو بقا نہیں ہے’۱‘حاکم ظالم ’۲‘بے عقل وزیر’۳‘مال حرام ’۴‘گردش ایام۔
(۳۰) جس میں یہ چار چیزیں ہیں انعام باری ہیں’۱‘ عقل تام ’۲‘سمجھ کے ساتھ طاعت’۳‘ عمل میں صدق ’۴‘نعمت میں شکر۔
(۳۱)ان چار چیزوںکا انجام یہ چار چیزیں ہیں’۱‘غصہ کا انجام شرمندگی’۲‘لجاجت کا انجام رسوائی’۳‘ بد گوئی کا انجام دشمنی’۴‘کا ہلی کا انجام ذلت وخواری۔
(۳۲) آدمی کو یہ چار چیزیں کمزور کرتی ہیں’۱‘بے شمار دشمن’۲‘قرض کثیر ’۳‘کثرت عیال’۴‘خیال محال۔
(۳۳) ان چار چیزوں سے چار چیزیں حاصل ہوتی ہیں’۱‘خاموشی سے راحت’۲‘فضولی سے ملا مت’۳‘سخاوت سے سرداری’۴‘شکرسے زیادتی۔
(۳۴) یہ چار چیزیں چار چیزون کو لے بیٹھتی ہیں’۱‘شہوت قوت کو ’۲‘بسالت دولت کو ’۳‘نا شکری نعمت کو ’۴‘تکبر مروت کو ۔
(۳۵)یہ چار چیزیں حاصل نہیں ہو سکتی ’۱‘ کہی ہوئی بات ’۲‘پھینکا ہوا تیر ’۳‘قضائے رفتہ’۴‘عمر گذشتہ۔
(۳۶) ان چار چیزوں کو چار چیزیں لازم ہیں’۱‘ سوال کو ذلت ’۲‘انجام کار نہ سوچنے کو شرمندگی’۳‘بیہودہ بکنے کو سبکی’۴‘بادشاہوں کے ساتھ دلیری کرنے کو ہلاکت۔
(۳۷) یہ چار چیزیںنادانی کی علامت ہیں’۱‘ نا تجربہ کارکے ساتھ دلیری ’۲‘ عورتوں سے چشم وفا رکھنا’۳‘لڑکوں کے ساتھ صحبت رکھنا ’۴‘بے وقف پر اعتماد کرنا۔
(۳۸)ان چار چیزوں میں نقصان عمر ہے’۱‘کھانا کھا کر مجامعت کرنا’۲‘کثرت نوم ’۳‘زیادہ پھل کھانا’۴‘عورتوں کے ساتھ صحبت کرنا۔
(۳۹)یہ چار چیزیں چار آدمیوں میں نہ ہوںگی’۱‘جھو ٹے میں مروت ’۲‘بخیل کو سعادت’۳‘حاسد کو راحت ’۴‘بد اخلاق کو سرداری۔
(۴۰)یہ چار چیزیں اصل سعادت ہیں’۱‘اطاعت باری تعالیٰ ومتابعت رسولؐ ’۲‘خوشنودی مادر وپدر’۳‘علماء وصلحا کو خوش رکھنا’۴‘فقراء پر شفقت اور خدا کی مخلوق پر رحم کرنا۔
(مدینہ -۲۱؍ مارچ - ۱۹۶۲؁ء)
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
مرحوم ومغفور کی ایک قلمی بیاض کے چند صفحات دستیاب ہوگئے
میں نے ایک فتوٰی میں پڑھا تھا کے مرحوم و مغفور نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ نے اس مرے ہوئے شخص کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے اس پے رحم کیا گیا کہ نہیں اسے بخش دیا گیا کہ نہیں ۔ عبدالرحمن بھائی کی پوسٹ میں بھی اوپر لکھا ہے ۔۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ مرحوم و مغفور کہنا چاہیئے کہ نہیں؟
 
Top