• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چاند کی راتیں ٢٧ اور ٢٩ ویں رات کا وجود کہاں؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
چاند کی راتیں ٢٧ اور ٢٩ ویں رات کا وجود کہاں؟​

السلام علیکم

اٹینشن ایڈمن! میں اپنا ایک دھاگہ یہاں قابل ممبران کی معلومات میں اضافہ کے لئے ٹرانسفر کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت دیں تو، قصہ مختصر کسی پاکستانی امریکی بھائی نے تاریخوں کے حوالہ سے کچھ چیلنج کئے تھے جس پر پہلے اسے قرآن اور احدیث مبارکہ سے معلومات فراہم کی گئی مگر پھر وہ اپنے ایک لنک سے بضد رہا کہ اسے جواب کوئی نہیں دے سکتا، جس پر اللہ سبحان تعالی کے فضل و کرم سے سائنسی علوم کے مطابق جب جوابات پیش کئے تو پھر بھی اس کی سوئی اٹکی رہی اور راستہ نہ تھا واپسی کا مگر پھر بھی ٹھہرا نہیں۔ اس پوری لڑی کو یہاں لانے کا مٖقصد یہ ھے کہ جیسے یہاں پر کتابیں ڈاؤنلوڈ ہیں ویسے ہی وہ معلومات یہاں سیف ہونے سے طلب والوں کے علم میں مزید علم میں اضافہ ہو گا۔ اس کے مراسلات میں کچھ غیر متوازی گفتگو ھے جس سے شائد کسی کو غصہ بھی آئے مگر مجھے کسی کے مسلک یا مذھب سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جو سوال لایا ہو اس کو جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

مجھے ایڈمن یا کسی اتھریز پرسن سے اجازت کا انتظار رہے گا۔ پھر میں اسے تھوڑا تھوڑا کر کے ٹرانسفر کرتا رہوں گا شائد ٤ پیج بنیں گے مگر کوشش کروں کا کہ جن کی ضرورت ھے وہی یہاں ٹرانسفر کروں۔

والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
کنعان بھائی فورم پر کسی بھی قسم کی پوسٹنگ کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک کہ پوسٹ اخلاق کے دائرے میں ہو اور بحیثیت مجموعی محدث فورم کے قوانین کے خلاف نہ ہو۔ آپ پوسٹ شروع کر دیجئے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
عربی ماہ وسال اور اسلامی کیلنڈر

السلام علیکم

ایک بار پھر انتظامیہ سے کہ مخالف کی جانب سے ابتدائیہ مراسلوں میں کچھ الفاظ شائد غیر متوازی ہیں جیسے منکرین کی سوچ ہوتی ھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر پھر بھی انتظامیہ کو کوئی ایسی بات میرے مراسلوں اور مخالف کے مراسلوں میں نظر آئے جو فارم کے ضابطوں کے مطابق معیار پر پوری نہ اترتی ہو تو اسے ہٹا سکتی ھے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔



عربی ماہ وسال اور اسلامی کیلنڈر​

قلم نگار : کاتب

مسلمانوں کے لئے اگر عربی ماہ وسال نئی اور انوکھی بات ہوکر رہ گئ ہیں تواس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ بذات خود دین اسلام ہی ان کی نظر میں نیا ہوکر رہ گیا ہے اور یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ چنانچہ معاشرہ میں بہت کم ہی لوگ اس کا شمار رکھتے ہیں اور اسے جانتے ہیں، یا ان کا شرعی حکم انہیں معلوم ہے۔ جبکہ اس کے مقابل سارے لوگ ہی میلادی ماہ وسال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔

اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی کیلنڈر سے ناواقفیت اور غیر اسلامی کیلنڈر کے استعمال نے مسلمانوں کو بہت سے غیر شرعی امور میں مبتلا کردیا ہے خواہ وہ عجمی کیلنڈر ہو یا رومی یا میلادی ۔ انہیں کی وجہ سے مسلمان بدعتوں کے شکار ہیں اور بہت سے نیک اعمال سے محروم ہیں۔ اسی لئے نصیحت اور تذکیر کے طور پر اس کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنا ضروری ہے۔

{ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ}
(یہ ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے۔
[سورة الحج: 32].

اور موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے دنوں کے ذریعہ یاد دہانی کریں اور ان میں جو احکام اور سبق اور عبرت ہیں انہیں بیان کریں، فرمان الہٰی ہے:

{وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ}
اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ۔
[سورة إبراهيم: 5].

اور ان کا عمل ہمارے لئے بھی نمونہ ہے۔

{أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ}
یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔
[الأنعام: 90].

اور اسلامی مہینوں کی تاکید وفرضیت اللہ تعالیٰ کے تقوی وپرہیزگاری کی فرضیت میں سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اگلے اور پچھلے سب لوگوں کو حکم دیا ہے ۔

{وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّهَ}
اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان کو بھی اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو بھی ہم نے حکم تاکیدی کیا ہے کہ خدا سے ڈرتے رہو۔
[النساء: 131].

ان مہینوں کے نام بالترتیب اس طرح ہیں:
محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان ، رمضان ، شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ۔

اور فرمان الہٰی ہے:

{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ}
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔
[سورة التوبة: 36].

مفسر قرآن علامہ قرطبی نے درج بالا آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت واضح ثبوت ہے کہ تمام احکام خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات ان کی ادائیگی میں عربی اور اسلامی تقویم کا ہی اعتبار ہوگا نہ کہ اس کیلنڈر کا جس پر عجم رومی اور مسیحی لوگ عمل کرتے ہیں اگرچہ اس کے مہینے کی تعداد بارہ سے زائد نہیں ہے کیونکہ ان کی گنتی میں فرق ہے ، کوئی مہینہ ۳۰ دن کا ہوتا ہے اور کوئی زیادہ اور کوئی کم جبکہ اسلامی تقویم کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ مہینہ یا تو ۳۰ دن کا ہوتا ہے یا ۲۹ دن کا اور جو ماہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے وہ کوئی متعین نہیں ہے کہ کب ہوگا۔

اس ۳۰ دن یا ۲۹ دن کا دار ومدار چاند کے منازل کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اور عربی ماہ چاند دیکھ کر شروع ہوتا ہے یا گذشتہ ماہ ۳۰ دن پورا کرکے شروع ہوتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

«صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين»
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھو، اگر چاند نہ دیکھ سکو تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کرلو (پھر روزہ رکھو)
[رواه البخاري].

اور زمانہ اول سے چاند پر ہی عمل ہوتا آرہا ہے اور شرعی احکام کا دارومدار اسی پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ}
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔
[البقرة: 189]

اللہ تعالیٰ نے چاند کے نظام کو لوگوں کے کاموں کی میعاد قرار دیا، تاہم حج کو امتیازی طور پر بیان کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حج کے دنوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز حج سال کے اخیر میں آتا ہے، جس طرح ہلال مہینے کی نشانی ہے ۔بہرحال سورج سے ہمارے مہینوں اور سالوں کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ شمسی مہینے حالت اضطرار کے وقت قمری مہینوں پر معلق ہوتے ہیں، چاند کے دیکھنے پر یا اس کے علم پر یہ دعا پڑھنا سنت ہے:

«اللهم أهله علينا باليمن والإيمان، والسلامة و الإسلام، ربي وربك الله»
اے اللہ اس چاند کو ہم پر امن وسلامتی اور ایمان واسلام کے ساتھ ظاہر فرما، اے چاند تیرا بھی رب اللہ ہے اور میرا بھی رب اللہ تعالیٰ ہے۔
[صححه الألباني].

دن کا آغاز طلوع فجر صادق سے ہوگا اور اختتام غروب شمس پر،اور رات کا آغاز غروب شمس سے اور انتہا طلوع فجر پر، تاہم امت نے مہینے کے دخول اور خروج اسی طرح دن اور رات کی تحدید کے سلسلے میں یا پھر فجر وغیرہ کے وقت کی معرفت کے سلسلے میں فلکی حساب سے عمل نہیں کیا، بلکہ ہر وقت کی تحدید کے سلسلے میں شرعی نصوص وارد ہوئے ہیں جس کی دلیل مسلم کی یہ روایت ہے:

«لا يغرنكم من سحوركم آذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتَّى يستطير هكذا»
صبح کی نمازوں کے بارے میں بلال کی اذانیں اور افق کی سفیدی تمہیں دھوکہ نہ دے یہان تک کہ وہ اس طرح پھیل جائے۔

پھیلنے سے مراد سفیدی کی روشنی پورے افق میں چھا جانا ہے۔

علماء نے بیان کیا کہ رمضان ، حج اورعدت وغیرہ یعنی چاند سے متعلق احکام کے سلسلے میں اندازوں پر بھروسہ صحیح نہیں ہے، یہ بات نص اور اجماع سے ثابت ہے اور اسی پر قرون اولی میں عمل تھا، بعد کے زمانوں میں متاخرین نے چاند کے چھپ جانے کے سبب اندازوں اور تخمینوں پر عمل کو جائز قرار دیا لیکن اس عمل کا عموم جائز نہیں ہے۔

ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: چاند کے سلسلے میں اندازے پر بھروسہ کرنا شریعت میں گمراہی اور دین میں بدعت عمل ہے، چونکہ علم حساب میں انسان غلطی سے دوچار ہوسکتا ہے، اسی لئے علماء ہلال کمیٹی رویت ہلال کے سلسلے میں تخمینوں پراعتماد نہیں کرتی ہے۔ حساب کے ماہرین کے درمیان رویت کے سلسلے میں ایک تنازعہ ہے، اور ماہرین حساب جیسے Ptolemy وغیرہ اس موضوع پر کلام کرنے سے عاجز ہیں۔

اورشرعی احکام کی وضاحت ، نصیحت وخیرخواہی اور دینی واخلاقی ذمہ داری وجوابدہی کے طور پر میں نے یہ بتانا دینا ضروری سمجھا ہے اورشیخ نے مزید فرمایا کہ چاند اور شرعی احکام کا اعتبار چاند دیکھ کر ہوگا یا مہینے کی گنتی (30 دن) پورا کرکے ہوگا اور یہیں سے یہ بات غلط ثابت ہوجاتی ہے جو لوگ شرعی احکام کے لئے فلکی حساب فضاء میں چاند کی پیدائش، ٹیلسکوپ کے ایجاد اور سٹیلاٹ کو بنیاد بناتے ہیں کیونکہ شریعت نے احکام کے لئے آنکھ سے دیکھنے کو ہی بنیاد بنایا ہے، علمائے کرام ؒ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ آج کا دن رمضان مبارک کا پہلا دن ہے تو ایسی صورت میں بھی یہ ناقابل عمل ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں اس بنیاد پر عمل ہوگا جس کا ذکر اوپر گذرچکا ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اسلام کی پیروی کریں، اس لئے علماء کرام حساب جدول اور تقویم پر عمل کرنے کو مبتدعانہ عمل شمار کرتے ہیں اور اس کی سختی سے نکیر کرتے ہیں اور ہمارے لئے وہ ہدایت ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔

دشمنان اسلام نے مسلمانوں کو دین اور اس کے لوازمات ومتعلقات سے متنفر کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی ہے بلکہ عربی زبان اور اسلامی تقویم سے متنفر کردیا، اور اس کے لئے انہوں نے نظریاتی وفکری جنگ کے ہر حربہ کو استعمال کیا، حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم ان کی تقلید اور مغرب پرستی میں ان کے بنائے ہوئے کیلنڈر کو ہی استعمال کرتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی شریعتوں میں بھی چاند پر ہی عمل ہوتا رہا ہے ، لیکن پچھلی شریعتوں کے پیرووں نے اس میں تبدیلی پیدا کردیا جیسا کہ یہود اپنی بعض عیدیں شمسی کیلنڈر کے حساب سے مناتے ہیں اور نصاری نے بھی اپنے روزے اور اپنی عید میں اسی طرح تبدیلی پیدا کرلی ہے، ہمارے لئے شریعت کا راستہ ہی بہتر اور کامل راستہ ہے، اس لئے ہمیں بہتر راستہ چھوڑ کر برے راستے کو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اب اگر کوئی شخص کسی عربی ماہ کو دوسرے عربی ماہ سے تبدیل کرتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا جیسا کہ صفر کو رجب سے بدل دینا وغیرہ ، اس سے بھی آگے بڑھ کر اگر کوئی عربی واسلامی تقویم کی بجائے میلادی اور انگریزی کیلنڈر استعمال کرتا ہے تو بڑا گنہگار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُحِلِّونَهُ عَاماً وَيُحَرِّمُونَهُ عَاماً لِّيُوَاطِؤُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ اللّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ}
امن کے کس مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرتا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام۔ تاکہ ادب کے مہینوں کو جو خدا نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں۔ اور جو خدا نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے برے اعمال ان کے بھلے دکھائی دیتے ہیں۔ اور خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
[التوبة: 37].

ابن کثیر ؒ رقم طراز ہیں: اللہ تعالیٰ نے آیت بالا میں مشرکین کی قانون الہٰی میں اپنے فاسد خیالات کے ذریعے تصرف اور اپنی خواہشات کے سبب اللہ تعالیٰ کے احکام کی تغییر اور حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے پر مذمت فرمائی، اور مذموم نسی کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین حملے کرنے کی ضرورت کے پیش نظر ماہ محرم پر صفر کو مقدم کرتے تھے نیز ابن اسحاق کے بقول وہ یہ عمل بدلہ کے مطالبہ کے لئے بھی کیا کرتے تھے یا پھر مشرکین حج کو اپنے وقت سے مؤخر کردیتے تھے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ماہ ذی الحجہ میں کیا، اور اپنے مشہور خطبہ میں ارشاد فرمایا: بے شک زمانہ گھوم گھما کر اپنی پہلی اسی حالت پر آچکا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ایک سال بارہ مہینوں کا ہے۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ۔ تین تو لگاتار ہیں: (۱) ذوالقعدہ (۲) ذوالحجہ (۳) محرم اور چوتھا قبیلہ مضر کا مہینہ رجب ہے۔ جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔
[بخاری]

امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: اور جو شخص یہ جان لے کہ اہل کتاب، صائبین اور مجوس وغیرہ کی عیدوں ، ان کی عبادتوں اور ان کی تواریخ میں جو اضطراب اور فساد پیدا ہوگیا ہے تو اس کا اسلام کی نعمت پر شکر میں اضافہ ہوجائے گا، بالاتفاق انبیاء علہیم السلام نے ان اقوام کی عیدوں اور عبادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی ، بلکہ یہ چیزیں ان میں صائب فلسفیوں نے داخل کی تھیں اور انھوں نے دین میں ایسے ایسے قوانین وضع کردیئے تھے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی تھی، ہم نے جو بھی بیان کیا وہ اس دین کی مفسدین سے حفاظت کےلئے بیان کیا، کیونکہ اس کے بدلے جانے کا بھی خدشہ ہے، عربوں نے زمانہ جاہلیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کو بدل دیا تھا۔

علماء نے کہا ہے کہ کافروں سے ان کی تاریخ کے خصوصا ایسی تاریخوں جو ان کی عیدوں وغیرہ کے بارے میں ہے سمجھوتہ کرنا، جسے کافروں نے اپنے طرف سے مقرر کرلیا ہے، جو حقیقتاً ان کے دین میں بھی نہیں ہے جیسے میلاد مسیح وغیرہ تو یہ عمل کافروں کے شعار اور ان کے تہوار کے احیاء میں حصہ لینے اور شرکت کرنے کے مترادف عمل ہے، اور ملت ابراہیمی مومنین سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ مشرکین کے تمام اعمال کی مخالفت کریں، جس کی دلیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«من تشبَّه بقوم فهو منهم»
''جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے''
[رواه أبو داود وصححه الألباني] 

ظاہری مشابہت باطنی مشابہت پر آمادہ کرتی ہے، لہٰذا عربی مہینوں کو نظر انداز کرنے اور انگریزی مہینوں کو اختیار کرنے میں عظیم خطرہ ہے۔

حضرت عمر ؓ نے ہجری تاریخ کا آغاز کیا تھا، اور یہ تمام صحابہ کے اتفاق سے اس روز سے کیا گیا تھا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تھی، اور ماہ محرم سے آغاز کا راز یہ ہے کہ صحابہ اہل فارس اور روم کی تاریخوں سے بخوبی واقف تھے تو انھوں نے عمدا ان کی مخالفت میں محرم سے ہجری سال کا آغاز کیا، اور ہر قسم کا خیر اسلاف کی اتباع میں ہے اور ہر قسم کا شر برے لوگوں کی پیروی میں ہے، اگر اس دن کوئی دین نہ ہوتا تو آج بھی کوئی دین نہیں ہوتا ، اس امت کے آخری طبقے کی صلاح وبہبودی اسی میں ہے جس میں اس امت کے اولین طبقے کی اصلاح وبہبودی رکھی ہوئی تھی، جیساکہ امام مالکؒ کہتے ہیں:علماء نےعجمی ارقام اور تاریخوں نیز شرکیہ اور بے معنی کلمات کے ذریعے علاج کرنے سے خبردار کیا ہے۔ یہی کچھ حال انگریزی مہینوں کا ہے، اپریل کا مہینہ (نیسان) یہ انگریزی سال کا چوتھا مہینہ ہے، یہ مہینہ ربیع یعنی بہار کے آغاز میں آتا ہے، اوراہل روم اس مہینے کے پہلے دن فینوز کی تقریبات مناتے تھے، فینوز محبت وجمال اور خوشی اور سعادت مندی کی جانب منسوب اہل روم کا ایک معبود تھا، دوسری جانب سیکسن نامی قبائل اس ماہ میں اپنے معبود ''ایسٹر'' کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے، یہ ان کا قدیم معبود تھا، آج کل اس دن کو مسیحیوں کے پاس '' ایسٹر ڈے'' کے نام سے منایا جاتا ہے، نیز اپریل فول بھی اسی مہینہ کی جانب منسوب ہے۔

اکثر میلادی مہینے اپریل کے مہینے کی طرح فساد سے بھرے ہوئے ہیں، لہٰذا جو شخص مارچ اور اپریل کے مہینوں کی بات کرے تو اسے رجب اور ذی القعدہ کے مہینوں کو بھولنا یا نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ انگریزی مہینوں کے فاسد معنوں اور مطالب سے خود بھی خبردار رہنا اور دیگر لوگوں کو بھی خبردار کرنا چاہئے۔

امام احمد ؒ سے دریافت کیا گیا: اہل فارس کے پاس دنوں اور مہینوں کے نام عجیب ہے، جو معروف بھی نہیں، اس پر امام احمد نے سختی سے کراہت کا اظہار فرمایا، مجاہد سے روایت ہے کہ امام احمد اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ ان کے سامنے :آذار ماہ کہا جائے، اسی طرح کتابوں میں آتا ہے: جوشخص عربی زبان کو اچھا بولتا ہو وہ عجمی زبان میں بات نہ کرے، کیونکہ یہ عمل نفاق کو دعوت دیتا ہے''، اور حضرت عمر اجنبی زبان بولنے سے مطلقا منع فرماتے تھے، اسی طرح حضرت امام شافعیؒ نے عربی زبان کے علاوہ میں بات کرنے سے منع فرمایا۔

لہٰذا عربی مہینوں پر عمل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور داعی حضرات پر تو دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام الناس میں ہدایت کے مفاہیم ومطالب کو اجاگر کریں، حدیث میں آتا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

«ومن دلَّ على خير فله مثل أجر فاعله»
''جس نے بھلائی کی رہنمائی کیا تو اس کے لئے عمل کرنے والے کی طرح اجر ہے''
[رواه مسلم].

ہاں کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہ دعوت فضول ولایعنی باتوں کی دعوت ہے، بلکہ ہم کسی بھی بے معنی طریقے کی وضاحت کرنے سے اکتانے والے نہیں ہے ، یہانتک کہ وہ مستحب ہو، آج ہم دیکھتے ہیں کہ مستحبات میں سستی اور غفلت کے اثرات واجبات پر پڑنے لگے ہیں، جو بلند عزائم والے ہوتے ہیں ان کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ علم ، عمل اور دعوت الی اللہ میں واجبات سمیت مستحبات کا بھی اہتمام کرتے ہیں، ہم دین کی تقسیم چھلکے اور مغز سے نہیں کرسکتے۔

{ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ}
(یہ ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے۔
[سورة الحج: 32].

پھل کی حفاظت کے لئے چھلکوں کا ہونا بے حد ضروری ہے، سیب کو دیکھئے، جب ہم اس کا چھلکا نکال دیتے ہیں تو وہ خراب ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا فضلیت والے موسموں کا فائدہ اٹھانا چاہئے، اور فضیلت کے موسم کون سے ہیں، فضیلت کے موسم اشہر حرم یعنی محرم، شعبان، رمضان، اور دنوں میں عرفہ، عاشوراء، عیدین اور ایام تشریق یہ سب فضیلت والے موسم ہیں، ان ایام میں اللہ کو پسند ہر عمل سے قربت الہٰی کو حاصل کرسکتے ہیں، تاہم ان مبارک ایام میں عیدمیلاد نبی، اسراء اور معراج کے جشن وجلوس جیسی بدعات وخرافات سےخبردار رہئے۔

یاد رکھیئے ۔۔

سال ایک درخت ہے ، مہینے اس کی شاخیں ہیں، دن اس کی ٹہنیاں ہیں، گھنٹے اور ساعت اس کے پتے ہیں، سانسیں اس کے پھل ہیں۔

اب جس کی سانسیں اطاعت وفرمانبرادی میں گزری ہونگی، تو اس کے درخت کے پھول خوشگوار اور قیمتی ہونگے اور جس کی سانسیں معصیت ونافرمانی میں ضائع ہوئی ہونگی تو اس کے پھل حنظل کے کڑوے پھل ہونگے،اور نتیجہ قیامت کے دن ہوگا، اس دن پھلوں کی مٹھاس اور کڑواہٹ کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔۔

امام ابن قیم کے بقول: اس دنیا میں ہر کوئی مسافر اپنے رب تعالیٰ کی جانب مسافر ہے، اور مدت سفر عمر ہے، دن اور رات سفر کے مرحلے ہیں، عقلمند اور دانشور تو وہ ہے جو مرحلوں کے طئے کرنے میں اللہ تعالیٰ کی قربت کے بارے میں کوشش میں لگارہے ، لہٰذا آپ ہی یہ آدمی بن جایئے، اور اگر آپ کو توفیق مل جائے اور آپ راہ مستقیم پالے تو کہئے

{وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ}
( میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔)
[سورة هود: 88].
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
[SUP]بھائی جان میں آپ کے اس جذبے کی بہت قدر کرتا ہوں کہ آپ اسلامی شعائر کی حرمت اور تقدس کو برقرار رکھنے کے خواہشمند ہیں اور یقیناً ہر سچے مسلمان کی دلی خواہش یہی ہو گی کہ اسلامی نظام زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی مکمل شکل میں نافذ ہو سکے اور ہم اللہ تعالیِ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں۔

قمری یا ہلالی تقویم یا کیلنڈر کے نفاذ کے سلسلے میں کچھ پیچیدگیاں ہیں جو اس کو قابل عمل ثابت نہیں کرتیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پر اسلامی اور سائنسی پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے غوروفکر کریں اور میں تمام ممبران کو اخلاقی حدود میں اس بحث میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں

سب سے پہلے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمیں اپنی زندگی کے روزمرہ معاملات میں تقویم یا کیلنڈر کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ جب ہم اس پر غور کریں گے تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ کسی بھی تقویم یا کیلینڈر سسٹم کے تین بنیادی تقاضے ہوتے ہیں جن کو پورا کیے بغیر وہ تقویم یا کیلینڈر سسٹم کا درجہ پا ہی نہیں سکتی اور وہ تقاضے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں:

۱۔ پہلا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ درست تفصیلات کے ساتھ تاریخ وار مرتب کر سکیں
۲۔ دوسرا لازمہ یہ ہے کہ ہم گذشتہ تاریخ کی روشنی میں اہمیت والے ایام کی یادگاریں منا سکیں خواہ وہ دنیاوی نوعیت کی ہوں یا کہ مذہبی اہمیت کی حامل ہوں۔
۳۔ تیسری خصوصیت جو اس تقویم میں ہونی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آئندہ کے پروگرام ترتیب دے سکیں مکمل یقین کے ساتھ کہ فلاں دن اور فلاں تاریخ کو ہم یہ کام انجام دیں گے۔

اب جب ہم اپنی اس تقویمِ ہلالی یا قمری کو اس معیار کے سانچے پر پرکھتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ اس تقویم میں ان تینوں میں سے کسی بھی مقصد کو پورا کرنے کی کوئی صلاحیت موجودنہیں ہے۔ چنانچہ اس بات کا تصور کرتے ہوئے کہ دنیا میں اور کوئی کیلنڈر سسٹم موجود نہیں ہے اور ساری دنیا میں صرف قمری کیلنڈر ہی نافذ ہے ، ہم الگ الگ ان تینوں بنیادی تقاضوں پر غور کرتے ہیں۔

قمری نظام کی بنیاد کیونکہ رویت ہلال پر موقوف ہے اور یہ بات بہرحال تسلیم شدہ ہے کہ کسی بھی صورت میں پوری دنیا میں ایک ساتھ ہلال کی رویت ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی موافق کیوں نہ ہوں اور ساری دنیا میں مطلع بالکل ہی صاف کیوں نہ ہو اور تمام دنیا کے تمام لوگ چاند کے دیکھنے میں کسی قسم کی کوئی غلطی بھی نہ کریں تب بھی ساری دنیا میں ایک تاریخ کا ہونا ناممکنات ہی میں سے ہے۔ تو اب اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ کو مرتب کرنے کی کوشش کریں اور انصاف سے بتائیں کیا یہ ممکن ہے، اور اب مزیداس میں زمینی حقائق کا تڑکہ لگائیں کہ دنیا میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں ہفتوں آفتاب کی بھی رویت ممکن نہیں ہو پاتی ایسی صورت میں قمرکی وہ بھی بشکل ہلال رویت کس طرح کی جاسکتی ہے۔ اور تاریخی واقعات تو وہاں بھی رونما ہوتے ہی ہوں گے چنانچہ تاریخ وہاں کی بھی مرتب ہونی ضروری قرار پائے گی۔

اب آئیں اہمیت والے ایام کی یادگارمنانے کے مسئلے کی طرف توجب ہم پوری دنیا میں ایک ساتھ ایک تاریخ پر اپنی پوری دیانتداری اور خلوص کے باوجود متفق نہیں ہو سکتے تو ہم ان تاریخوں کی یادگاریں کیسے ایک ساتھ منا سکتے ہیں اور یہ محض دنیاوی اعتبار سے اہمیت رکھنے والی یادگاروں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ انتہائی اہم مذہبی ہادگاروں میں بھی یہی دشواری درپیش ہے جس پر آئے دن ہم اختلاف کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور کسی صورت یہ مسئلہ حل نہیں ہو پاتا اور اس پر ظلم یہ کہ اس اختلاف کے نتائج کی تمامتر ذمہ داری ہم اللہ تعالی پر ڈال دیتے ہیں۔ پوری دنیا کی تو بات چھوڑ دیں ایک ملک میں بلکہ ایک ہی شہر میں دو دو اور کبھی تو تین تین تاریخیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ہر مہینے ہم رویت پر جھگڑے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔اور اگر ہم رویت کے اختلاف کو بھی الگ رکھ دیں تو بھی بہت سی یادگاریں ایسی ہیں کہ انھیں ان کی صحیح تاریخ پر نہ منانے سے ان کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔

مثال کے طور پر سورہ قدر میں شب قدر کا تذکرہ ہے اور یہ بتایا گیا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس میں ملائکہ اور الروح علیہم السلام نازل ہوتے ہیں ۔ اب اگر رویت کا اختلاف جو کہ انسانی غلطی کی بنا پر ہوتا ہے اس کو بھی چھوڑ دیا جائے تب بھی قدرتی اختلاف جو کہ افقی حالات کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں جس کے سبب سے دنیا میں کم ازکم ایک دن اور عام طور پر دو دن کا تاریخ کا فرق رہتا ہے ۔ اب ایسی صورت میں وہی شب قدر جو کہ درحقیقت ایک رات ہے دنیا میں دو دو اور تین تین مرتبہ ایک ہی سال میں وارد ہو رہی ہوتی ہے اور حضرات ملائکہ اور الروح علیہم السلام کا نزول ایک کی بجائے دودو اور تین تین مرتبہ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ اختلاف اس اختلاف کے علاوہ ہے جو کو شب قدرکی صحیح تاریخ میں پایا جاتا ہے۔ اکیسویں، تیئیسویں ، پچیسویں یا ستائیسویں تاریخ والا مسئلہ الگ ہے۔ یعنی شب قدر کی جو بھی تاریخ صحیح ہے وہ بھی تو پوری دنیا میں ایک ساتھ نہیں آ پاتی اور دودو اور تین تین مرتبہ آتی رہتی ہے۔

اسی طرح دوسری دینی اہمیت کی تاریخیں جن کی یادگاریں منانے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کو ایام اللہ یاد دلائیں، تو ایام اللہ یاد رکھنے کے لیے ہیں مگر ہم کیسے ان کی یاد منائیں وہ تو اختلاف رویت میں گم ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج ۲۷ رجب کو ہوئی۔ اس دن مکہ میں ۲۷ رجب تھی مگر دنیا کے دوسرے مقامات کے مطابق تو معراج کی صحیح تاریخ وہ ہے جو وہاں پر اس دن تھی ۔ مثلاً پاکستان میں اگراس دن ۲۶رجب تھی تو پاکستان کے حساب سے معراج کی صحیح تاریخ ۲۶ رجب قرار پائے گی۔

اسی طرح جب ہم دنیاوی معاملات پر غور کریں ۔ اس وقت جبکہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور لوگ ایک جگہ ہوتے ہوئے بھی ہر وقت دنیا کے دوسرے حصوں سے اپنی دنیاوی ضروریات اور کاروباری معاملات کے سلسلے میں رابطے میں رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک کمپنی کی دنیا میں مختلف مقامات پر برانچیں بھی ہیں اور کاروباری اداروں سے روابط بھی ہیں اب بتائیں وہ دوسرے تمام کیلنڈروں کی غیرموجودگی میں قمری کیلنڈر کے حساب سے اپنی خط وکتابت میں کسطرح تاریخ کا رکارڈ رکھیں گے۔ ان کے مشترکہ معاہدوں میں کس جگہ کی تاریخ رقم کی جائے گی۔ پاکستان سے ایک تاجر سعودی عرب کی ایک کمپنی سے معاہدہ کرتا ہے کہ وہ مثلاً 10 شوال 1433 ھ کو سعودی عرب 5000 ریال online transfer کرے گا۔ چنانچہ جب وہ وعدہ کے مطابق رقم ٹرانسفر کرے تو سعودی عرب کی کمپنی اس پر late payment کا الزام لگا کر اس کے خلاف قانونی کاروائی شروع کر دے گی کیونکہ وہاں تو اس دن 12 شوال چل رہی ہو گی۔اسی طرح مثلاً آپ نے ایک کمپنی سے قرض لیا ہے اور اس کی واپسی کے لئے ماہانہ شڈول ترتیب دیا جس کے مطابق ہر مہینے کی آخری تاریخ کو آپ اس کی ایک قسط ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اب آپ مہینے کی آخری تاریخ کا تعین کیسے کریں گےکیونکہ آپ کو تو مہینے کی آخری تاریخ کا پتہ ہی نہیں کہ کونسی ہو گی کیونکہ قمری کیلنڈر میں تو مہینہ تمام ہونے سے پہلے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ مہینہ ۲۹ دن کا ہو گا یا ۳۰ دن کا۔اور پھر کہیں تو ایک مہینہ ۲۹ ہی دن پر تمام ہوجا تا ہے اور وہی مہینہ دوسرے مقام پر۳۰ کا ہوتا ہے۔ سوچتے جائیے اور آپ کو مسائل کا ایک کبھی نہ حل ہونے والا انبار نظر آئے گا۔

اب آپ مستقبل کے معاملات پر غور کریں تو اس پر تو کچھ بھی بہت زیادو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب ہمیں اگلے ہی دن کی تاریخ کا پتہ نہ ہو کہ کیا ہو گی تو مہینوں اور سالوں بعد کے پروگرام کسطرح مکمل یقین کے ساتھ مرتب کر سکتے ہیں، کسطرح کاروباری معاہدوں پر عمل کیا جا سکتا ہے اور کسطرح دنیاوی معاملات منظم کیے جاسکتے ہیں اس کا تصور کچھ بہت زیادہ مشکل نہیں ہے خصوصیت سے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کے دنیا میں کوئی دوسرا کیلنڈر سسٹم رائج نہیں ہے۔ یہ تو در حقیقت شمسی کیلنڈر کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں اپنی اپنائی ہوئی تقویم کی خامیاں اتنی واضح طور پر نظر نہیں آئیں ورنہ قمری تقویم کی وکالت کرنے والے خود کب کا اس سے پیچھا چھڑا چکے ہوتے۔[/SUP]
[SUP]قمری نظام کی کچھ دیگر خصوصیات:

اب ہم قمری یا ہلالی کیلنڈر کے کچھ دوسرے پہلوئوں پر غور کرتے ہیں۔ قمری تقویم کے دعویداروں کا کہنا یہ ہے کہ قمری تقویم اللہ کی مقرر کی ہوئی تقویم ہے اور اسلام کیونکہ دین فطرت ہے چنانچہ قمری تقویم بھی فطرت پر مبنی ہے اور لوگ آسانی کے ساتھ مہینہ کی ابتداء کا معلوم کرسکتے ہیں اور اپنے دینی اور دنیاوی امور کا حساب رکھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ یہ دعوی تو بہت خوشنما ہے اور اس میں خوش عقیدگی کے جذبات موجزن نظر آتے ہیں مگر بغور دیکھنے پر نہ صرف یہ کہ بالکل بے دلیل اور بے جان نظر آتا ہے بلکہ بالکل فطرت کے بالکل برخلاف نظر آتا ہے جس کی کچھ توضیح ذیل میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے اس دنیا کو جس نظام شمسی کا حصہ قرار دیا ہے اس پر [جیسا کہ نام سے بھی ظاہر ہو رہا ہے] شمس کا ہی تسلط مانا گیا ہے اور اس نظام شمسی میں موجود تمام سیارےسورج کے تابع اوراسکی کشش میں جکڑے ہوئے ہیں اور قمر کا حال یہ ہے کہ وہ براہ راست سورج سے بھی متعلق نہیں ہے بلکہ زمین کےایک طفیلی سیارے کی حیثیت سے سورج کے گردچکر لگا رہا ہے۔ چنانچہ سورج کے گرد طواف کرنے کی مانی ہوئی ترتیب کے مطابق سورج سے نزدیک ترین سیارہ عطارد ہے جس کا ایک دور 88 دن میں تمام ہوتا ہے اس کے بعد زہرہ ہے جس کا ایک دور 225 دن میں تمام ہو تا ہے۔

اسکے بعد زمین کا نمبر آتا ہے جو اپنے قیدی یعنی قمر کو لئے ہوے 4/1-365 دن میں ایک دور تمام کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے زمین کے ساتھ ساتھ چاند کا بھی ایک دور اسی مدت میں تمام ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر چاند کا بھی فطری سال 4/1-365 دن میں ہی تمام ہوتا ہے۔اسکے بعد مریخ،مشتری، زحل،یورینس اور نیپچون بالترتیب 687دن، 4332دن، 10832دن، 30799دن اور 60190دن میں اپنا اپنا ایک دور مکمل کرتے ہیں اور یہ مدت جس میں وہ سورج کے گرد بارہ برجوں کا دور مکمل کرتے ہیں بلا اختلاف ان سب کا ایک سال قرار پاتا ہے۔ چنانچہ ان کے سال کا قمر سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

قمر یعنی چاند جو زمین کے گرد چکر لگارہا ہے اور جس کی گردش کومسلمان خصوصیت سے ایک مہینہ سے تعبیر کرتے ہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ چاند زمین کے گرد اپنے دور اصلی میں27 دن 7 گھنٹے 42 منٹ اور 11 سیکنڈ میں اپنا ایک دور مکمل کرتا ہےجسے [SUP]sidereal revolution[/SUP] بھی کہا جاتا ہے لیکن اس عرصے میں کیونکہ زمین سورج کے گرد اپنے مانے ہوئےدور کے تقریباً 28 درجے طے کر چکی ہوتی ہے چنانچہ اس زائد فاصلے کو جسے [SUP]synodic revolution[/SUP] بھی کہا جاتا ہے طے کرنے میں اور بالفاظِ دیگرچاند کوحدِ رویت پر آنے کے لئے مزید دودن درکار ہوتے ہیں چنانچہ وہ 29 دن 12 گھنٹے اور 44 منٹ اور 3 سیکنڈ میں دوبارہ حدِ رویت پر آجاتا ہے۔اس کے معنی یہ ہوے کہ چاند زمین کے گرد حقیقتاًتو 322۔27 دن میں اپنا دور مکمل کرلیتا ہے مگر اس کے اس دور کو نہ کوئی مہینہ ہی تسلیم کرتا ہے اور نہ سال مگر اس کے زائد طے کیے ہوئے دور کو مسلمان مہینہ تسلیم کرتے ہیں چنانچہ چاند کے اس حقیقی دور کی مدت کو اگر 355 دن پر تقسیم کیا جائے تو993۔12 یعنی 13 دور بنتے ہیں یعنی جن 354 یا 355 دن میں چاند ہم اہل زمین کو اپنے 12 چکر مکمل کرتا نظر آتا ہے اسی مدت میں درحقیقت اپنے پورے 13 چکر مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ جس نظام میں 13 چکروں سے 12 مہینے برامد ہوتے ہوں اس کو فطری نظام کہنا اور پھر اس نظام کو اللہ کی ذات سے منسوب کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے

جس طرح زمین اس نظام شمسی کا ایک حصہ ہے اسی طرح مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون بھی نظام شمسی کے ممبر سیارے ہیں۔ زمین کے گرد تو ایک ہی چاند گردش کر رہا ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے قمری نظام کا ووٹ پاس کر لیا ہے مگر مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کے گرد تو ایک ایک نہیں بلکہ متعدد چاند بیک وقت گردش کر رہے ہیں مثلاً مریخ کے گرد دو چاند ہیں، مشتری کے گرد ابتک 66 چاند دریافت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح زحل کے گرد 62، یورینس کے گرد 27 اور نیپچون کے گرد 13 چاند ابتک دریافت کیے جا چکے ہیں۔ قمری نظام کے ماننے والے ذرا ان سیاروں کے لئے بھی قمری نظام کا نقشہ تجویز کردیں۔ ان سیاروں کے مکین ابھی تک اپنا کیلنڈر نہیں بنا سکے ہیں۔[/SUP]
[SUP]چاند کے دورہِ اصلی اور دورِ اضافی کو سمجھنے کے لئے نیچے دئے ہوے لنک پر سیر کریں[/SUP]

[SUP]کیا واقعی کسی کے پاس اس موضوع پر کہنے کو کچھ نہیں ہے؟
یا سیپ کہاں ہے، یہ کیا ہے اور ایک بچی کا سوال اس سے بہت زیادہ اہم موضوعات ہیں[/SUP]
[SUP]کیا کسی بھی ممبر کے پاس اس موضوع پر کہنے کے لیے واقعی کچھ نہیں ہے؟ کنعان نے اس موضوع کو شروع کرتے وقت خاصی طویل تحریر (جو اب محسوس ہو رہا ہے کہ نری کاپی پیسٹنگ ہی تھی) پوسٹ کی تھی پھر انھون نے میرے جواب پر شکریہ بھی ادا کیا، کیا واقعی ان کی سمجھ میں میرا جواب آگیا تھا؟ شاید وہ اس پوسٹ پر بھی شکریہ ادا کر دیں گے

بحرحال اندازہ ہو رہا ہے کہ سب کھوکھلے برتن ہی ہیں جو بجتے زیادہ ہیں۔[/SUP]
[SUP]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/SUP]
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
تقویم - ماہ و سال

تقویم کے لغوی معنی کیلنڈر کے ہیں، نظام جس کے ذریعے وقت کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تقویم (Calender) کہلاتا ہے، گویا تقویم کے ذریعے دن، ہفتہ، ماہ اور سال وغیرہ کا حساب لگایا جاتا ہے۔

مگر اصطلاح میں کواکب کی حرکات اور دائرۃ البروج میں مقام کی جدولیں پر مشتمل رسالے کو تقوم (Ephemeris) کہتے ہیں۔

کواکب کی بروج میں پوزیشن کے علاوہ تقویم میں نیرین (شمس و قمر) کے اوقات طلوع و غروب، منازل قمر، کوکبی وقت (سڈرل ٹائم) اور نظرات کی تفصیل بھی دی ہوتی ہے۔

امریکہ اور یورپ میں تقویم کی ترتیب و طباعت کا کام نہایت سائنسی بنیادوں پر ہوتا ہے۔
ہندوستان میں بھی تقویم سازی کے کئی تحقیقی مراکز قائم ہیں۔
پاکستان میں چونکہ نجوم نہ تو سائنسی بنیادوں پر استوار ہے اور نہ اسکے قارئین تعلیم یافتہ ہیں، لہٰذا یہ تاحال "Ephemeris" کا ہی ضعیف حصہ ہے۔

جنتری۔ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں مرتب کرنا۔ تقویم گویا تاریخ اور ہفتے کے دنوں کی تعین کے جدول کا نام ہے۔

سال شمسی ہوتا ہے یا قمری۔ شمسی سال اس عرصے کے برابر ہوتا ہے جس میں زمین اپنے مدار کو پوری طرح طے کر لیتی ہے۔ یعنی پوری طرح سورج کے گرد چکر کاٹ لیتی ہے۔ یہ عرصہ 365 دن 5 گھنٹے، 40 منٹ اور 4624 اعشاریہ 47 سیکنڈ کے برابر ہوتا ہے۔

ہم چونکہ سال کو صرف پورے 365 دنوں کا شمار کرتے ہیں اس لیے ہمارا سال اصل سال سے چھوٹا ہوتا ہے اور یہ کمی سال بہ سال زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سال بِسال وہی مہینے مختلف موسموں میں آنے شروع ہو جائیں گے۔ جس سے ہمارے نظام زندگی میں گڑ بڑ پڑ جائے گی۔ اور وقت کا بھی کوئی صحیح اندازہ نہیں ہوسکے گا۔

اس وقت کو رفع کرنے کے لیے لیے جولیس سیزر شاہنشاہ روم نے ہر چوتھے سال میں ایک دن کا اضافہ کر کے ہر چوتھا سال 366 دن کا استعمال کیا۔ یعنی فی سال 4/1 دن کی مزید زیادتی ہوگئی۔ باالفاظ دیگر اس قسم کا سال صحیح سال سے بقدر 11منٹ 14 سیکنڈ اوسطاً بڑھ جاتا ہے۔ یعنی 4/1 دن فی سال زیادہ کرنے سے ہم اصل سال سے 11 منٹ 14 سیکنڈ بڑھا دیتے تھے۔ چونکہ یہ زیادتی 100 سال میں جمع ہو کر ایک دن کے قریب ہو جاتی تھی۔ اس لیے ہر صدی کا لیپ سال سادہ سال شمار کر کے زیادتی کے برابر کر دیا گیا۔ یعنی 100ء اگرچہ لیپ کا سال ہے: تاہم اس کے 365 دن ہی شمار ہوں گے۔ اسی طرح 200 ء، 300ء لیپ کے سال شمار نہیں ہوں گے۔ اس طرح چار سو سال کے بعد پھر ایک دن کی کمی واقع ہوجاتی تھی۔ اس لیے 400 اور ہر ایک صدی کے سال کو جو 4 پر تقسیم ہو جائے، لیپ کا سال شمار کر لیا گیا ہے۔

عملی طور پر جو سال 4 پر تقسیم ہوجائے لیپ کا سال ہے اور اس میں سال کا سب سے چھوٹا مہینہ فروری بجائے 28 کے 29 دن کا ہوتا ہے۔ جو صدی 400 پر منقسم ہو جائے وہ بھی لیپ کا سال ہے۔ باقی تمام سال سادہ ہیں۔ اس طرح سے موسم و تاریخ کا ربط کم و بیش صحیح طور پر قائم رہتا ہے۔ یہ تمام کیفیت شمسی سال یعنی عیسوی سال کی ہے۔

قمری تقویم:
اس تقویم کی بنیاد چاند کے سائز اور اس کے طلوع و غروب ہونے پر ہے تقویم کا یہ طریقہ سب سے پرانا اور سب سے آسان ہے چنانچہ پہلے زمانے کے لوگ چاند کو دیکھ کر دن گنا کرتے تھے اور چونکہ چاند کا سائز ہر روز بدلتا رہتا ہے اس لیے اس کے ذریعے حساب لگانا بھی آسان ہے۔

اس تقویم کے مطابق مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا، ہر پہلی رات کے چاند سے مہینے(مہینہ کی جمع) کا آغاز ہوتا ہے، جب انتیس دنوں (دن کی جمع) کے بعد نظر آئے تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے ورنہ تیس دن کا۔ اسلامی یا ہجری تقویم داراصل ایک قمری تقویم ہے جو اسلام سے پہلے بھی عرب میں رائج تھی۔ بعد میں اس میں مناسب تبدیلیاں کر کے اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے شروع کیا گیا۔

اسلامی تقویم :
ہجری تقویم کو اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ یہ ایک قمری تقویم ہے یعنی مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع کیا جاتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔

تکنیکی معلومات:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے کیا گیا۔ اس طریقہ سے یکم محرم ایک ہجری 16 جولائی 622 کو ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔ ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازہ ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔

ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔

0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پر تقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔

اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔

یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔

(نقل مراسلہ)
[SUP]تمہید
مجھے افسوس ہے کہ بقول عبید اللہ عبید میری بیصبری کے سبب ایک اہم موضوع جس پر میری خواہش تھی کہ کچھ علمی اور تحقیقی گفتگو کی جانی چاہیے تھی کیونکہ اہل اسلام کے درمیان دنیا بھر میں عظیم الشان اختلاف ہمارے مانے ہوئے قمری نظام کے نقائص کی وجہ سے تقریباً ہر مہینہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور ہمارے اس اختلاف کا سارا الزام ذات باری تعالی پر عائد ہو جاتا ہے کیونکہ ہلال کی رویت کا دارومدار افقی حالات اور موسمی تغیرات پر ہے جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔

چنانچہ بایں سبب اگر مختلف علاقوں کے لوگ افقی حالات اور موسمی تغیرات کے وجہ سے رویت ہلال میں مغالطہ میں مبتلا ہو جائیں تو انصاف سے بتائیں اس میں کون قصوروار ٹھہرتا ہے۔ کیا اس کا الزام معاذاللہ ذات باری تعالیٰ پر نہیں عائد ہوتا کہ وہ انسانوں سے اس امر کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں ان کو خوداس نےکچھ بھی اختیار نہیں دیا ہے؟ میں ایک مثال دے کر اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جہاں رمضان کے تمام دنوں کے روزے فرض ہیں وہاں عید کے دن کا روزہ حرامِ قطعی ہے۔ چنانچہ رمضان کی تیس تاریخ کا روزہ تو واجب اور فرض ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اب 29 رمضان کی شام کو موسم ابرآلود/ گردآلود ہونے کی وجہ سے ہلال کی رویت ممکن ہی نہیں ہو سکی اب آپ انصاف کیجیے کہ اگر چاند ہو گیا تھا چاہے نظر نہیں آیا تھا تو مسلمان تو اگلا دن 30 رمضان سمجھ کر روزہ رکھ رہے ہیں جبکہ وہ دن عید کا دن ہو چکا ہے اس دن روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے حرام فعل سرانجام دیا اس کا الزام کس کے سر جائے گا؟

پھر اس مہینے تو آپ نے 30 کا مہینہ قرار دے لیا اگلے مہینہ پھر حالات اسی طرح تھے اور 29 تاریخ کو پھر موسمی حالات کے سبب رویت ممکن نہیں ہو سکی آپ کو تو اپنے مانے ہوئے اصول کے تحت 30 کا مہینہ تمام کرنا پڑے گا کیونکہ رویت ہونے کی صورت میں 29 کا مہینہ مانا جاتا ہے اور رویت نہ ہونے کی صورت میں خواہ 30 کو رویت ہو یا نہ ہو مہینہ 30 کا تصور کیا جاتا ہے۔ تو کیا اسی دنیا میں ایسے ممالک نہیں ہیں جہاں مہینوں چاند تو کیا سورج بھی کم ہی نظر آتا ہے؟ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ نے تو رمضان 30 کا مان کر اس سے اگلے دن سے شوال شروع کیا مگر شوال کے اختتام پر ہلال کی رویت 28 ویں دن ہی ہو گئی یعنی اُدھر تو رمضان 29 کا تھا اور اِدھر شوال بھی 29 کا ہی ہو گیا مگر آپ کے حساب سے تو اس دن شوال کی 28 ویں تھی مگر رویتِ ہلال ہو گئی اب آپ کسطرح اپنا کیلنڈر درست کریں گے؟ پھر اگر یہی مغالطہ ذالحجہ میں ہو جائے تو آپ کے سارے ارکان حج غلط تاریخ کو ہونے کے سبب غلط قرار پائیں گے اسیطرح دوسرے مہینوں کے سلسلہ میں جن اہم ایام کی یادگاریں منانے کی اللہ تعالیٰ تاکید کر رہا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی تاکید کرا رہا ہے کہ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلائیں تو اس کا کیا مطلب ہو گا ۔

تو یہ سارے معاملات ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم غور کریں کہ کیا ہم نے اس سلسلے میں آئے ہوئے قراٰن اور احادیث کے بیانات کو صحیح سمجھا ہے یا ہم ان بیانات کو سمجھنے میں کوئی صریح غلطی کر رہے ہیں؟

اس سلسلے میں میں آپ پر پھر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد قطعی طور پر آپ کی یا کسی بھی دوسرے ممبر کی دل آزاری کرنا نہیں تھا بلکہ میں اس سلسلہ میں تھوڑا سا تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے academic discussion کرنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اگر آپ گفتگو کو آگے بڑہائیں تو میں آپ کی پوسٹ میں دیے گئے حوالوں کے سلسلہ میں یہ بات دلیل کے ساتھ واضح کرسکتا ہوں کہ تقریباً 70 فیصد بیانات اس موضوع سے بالکل غیر متعلق ہیں اور جو باقی 30 فیصد حوالہ جات ہیں ان سے جو مفاہیم اخذ کئے گئے ہیں وہ درحقیقت درست نہیں ہیں اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے

اب میں آپ کی نئی پوسٹ کی طرف آتا ہوں۔ آپ نے تقویم اور کیلنڈر کا جسطرح تعارف کروایا اور خاص طور سےعیسوی کیلنڈر کے حسابات کی جو تفصیل بیان کی وہ خاصی جامع اور مکمل ہے کیونکہ یہ سب حسابات پر مشتمل ہیں جو فطری طور پرحسابی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ انہی حسابی اصولوں کے تحت جو آپ نے شمسی تقویم کے بیان کیے ہیں اگر ہم آج سے ۲ ہزار سال بعد کی کسی تاریخ کا دن نکالنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ نہایت آسانی کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں بلکہ ہماری وہ معلومات ہرگز غلط ثابت نہیں ہوں گی چنانچہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ اس کو سنہ 20842 کا کیلنڈر بنا کر دیں تو یقیناً آپ اس کو شمسی نظام کے تحت نہایت کم وقت میں اس کو پورا کیلنڈر بنا کر دے سکتے ہوں گے

مگر جو کچھ آپ نے قمری تقویم کے سلسلے میں لکھا ہے وہ محض خوش عقیدگی اور قیاس آرائی پر مشتمل ہے کیونکہ قمری نظام تو کسی بھی حسابی اصول کا پابند نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا کہ قمری نظام تو کسی بھی اصول کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو آپ کی پہلی پوسٹ میں بہت واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ

"علماء نے بیان کیا کہ رمضان ، حج اورعدت وغیرہ یعنی چاند سے متعلق احکام کے سلسلے میں اندازوں پر بھروسہ صحیح نہیں ہے، یہ بات نص اور اجماع سے ثابت ہے اور اسی پر قرون اولی میں عمل تھا، بعد کے زمانوں میں متاخرین نے چاند کے چھپ جانے کے سبب اندازوں اور تخمینوں پر عمل کو جائز قرار دیا لیکن اس عمل کا عموم جائز نہیں ہے۔

ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: چاند کے سلسلے میں اندازے پر بھروسہ کرنا شریعت میں گمراہی اور دین میں بدعت عمل ہے، چونکہ علم حساب میں انسان غلطی سے دوچار ہوسکتا ہے، اسی لئے علماء ہلال کمیٹی رویت ہلال کے سلسلے میں تخمینوں پراعتماد نہیں کرتی ہے۔ حساب کے ماہرین کے درمیان رویت کے سلسلے میں ایک تنازعہ ہے، اور ماہرین حساب جیسے Ptolemy وغیرہ اس موضوع پر کلام کرنے سے عاجز ہیں۔

اورشرعی احکام کی وضاحت ، نصیحت وخیرخواہی اور دینی واخلاقی ذمہ داری وجوابدہی کے طور پر میں نے یہ بتانا دینا ضروری سمجھا ہے اورشیخ نے مزید فرمایا کہ چاند اور شرعی احکام کا اعتبار چاند دیکھ کر ہوگا یا مہینے کی گنتی (30 دن) پورا کرکے ہوگا اور یہیں سے یہ بات غلط ثابت ہوجاتی ہے جو لوگ شرعی احکام کے لئے فلکی حساب فضاء میں چاند کی پیدائش، ٹیلسکوپ کے ایجاد اور سٹیلاٹ کو بنیاد بناتے ہیں کیونکہ شریعت نے احکام کے لئے آنکھ سے دیکھنے کو ہی بنیاد بنایا ہے، علمائے کرام ؒ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ آج کا دن رمضان مبارک کا پہلا دن ہے تو ایسی صورت میں بھی یہ ناقابل عمل ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں اس بنیاد پر عمل ہوگا جس کا ذکر اوپر گذرچکا ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اسلام کی پیروی کریں، اس لئے علماء کرام حساب جدول اور تقویم پر عمل کرنے کو مبتدعانہ عمل شمار کرتے ہیں اور اس کی سختی سے نکیر کرتے ہیں اور ہمارے لئے وہ ہدایت ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔"
اس سارے بیان میں نہ تو کسی آیت ہی کا حوالہ دیا گیا ہے نہ حدیث کا نہ اور کسی ماخذ کا اور قرار دے دیا کے یہ شریعت کے احکام ہیں حد یہ ہے کہ اگر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خواب میں بتا جائیں تو بھی آپ کو ان کی بات نہیں ماننا بلکہ مولویوں کی ماننا ہے۔ استغفراللہ۔ تخمینوں اور اندازوں کو تو اس لئے رد کردیا گیا کہ ان میں غلطی کا امکان ہے مگر تمہید میں میں نےجن سنگین نقائص کی جانب اشارہ کیا ہے جو صرف رویت ہلال کے مانے ہوئے احکام کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں ان کی ذمہ داری تو اللہ ہی پر جائے گی مولوی اس سے قطعی بری الذمہ قرار پائیں گے؟

چنانچہ اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ مجھے قمری احکام کے تحت 20842 کا نہیں صرف سنہ 1450ھجری کا کیلنڈر بغیر Ifs & buts کے بنا دیں تو میں چیلنج کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ ہی نہیں بلکہ دنیا کا بڑے سے بڑا مولوی بلکہ شمس العلماء بھی اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ جو کیلنڈر آپ مثلاً انگلینڈ کے لیے مرتب کریں گے وہ کراچی سے مطابقت نہیں رکھتا ہوگا اور جو مثلاً ایران کے لیے ہوگا وہ سعودی عرب میں فیل ہو جائے گا۔افقی حالات ،موسمی تغیرات اوراجتہادی اختلافات کا تو ابھی کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

باقی آپ کی تحریر کردہ معلومات معلومات کی حد تو کچھ اہمیت رکھتی ہیں مگر ان معلومات کا میرے اٹھائے ہوئے نکات سے کوئی ربط نہیں ۔ بالفاظِ دیگر آپ کی معلومات کے ذریعے میرے بیان کردہ نقائص کو دور کرنے میں کوئی مدد نہیں لی جا سکتی[/SUP]
[SUP]کچھ عرصہ پہلے مجھے قراٰن مجید کی ایک تفسیر کے مطالعے کا موقع میسر آیا۔ اس میں سورہ البقرۃ کی آیت نمبر 189 کی تفسیر پڑھتے وقت اس پر اپنے کچھ کمنٹس تحریر کئے تھے اور وہ کمنٹس کچھ جید اور نامی علما کو بھی تبصرے کے لئے بھیجے تھے۔ اس بات کو تقریباً چار سال سے زیادو عرصہ گذر چکا ہے مگر آج تک کسی کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا سوائے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور ان کے ایک رفیق جنکا نام غالباً عاکف سعید تھا انھوں نے دو تین مراسلے مجھے بھیجے تھے جن میں سطحی طور پر کچھ قائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب میں نےاس سلسلے میں دلائل دیے تو انھوں نے بھی قطعی خاموشی اختیار کر لی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ان کمنٹس کے کچھ اقتباسات آپ کے لئے بھی حاضر خدمت ہیں:
یسئلونک عن الا ھلۃ قل ہی مواقیت للناس والحج ۔۔۔ الخ

سورہ بقرۃ کی آیت ۱۸۹ سے تقریباً تمام مسلمانوں نے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویم کے سلسلے میں چاند کو آلہ قرار دیا ہے اور نئے چاند کو مہینے کے آغاز کے لئے نشانی قرار دیا ہے۔ چنانچہ مفسر ومترجمِ نے بھی مندرجہ ذیل الفاظ میں اس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے: ’لوگ آپ سے مہینے میں چاند کی مختلف صورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہیے کہ یہ تقسیمِ اوقات (اور طبیعی تقویم) کا مظہر ہیں نیز لوگوں (کے نظامِ زندگی ) کے لیے اور حج کے وقت (کے تعین) کے لیے ہیں‘

اس کی شانِ نزول کے سلسلے میں دو قول نقل کیے ہیں۔

۱۔ منقول ہے کہ: معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ چاند کیسا ہے اور یہ تدریجاً بدرِ کامل کی صورت کیوں اختیارکرتا ہے اور پھر دوبارہ پہلی حالت پر لوت آتا ہے؟
۲۔ منقول ہے کہ: یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا کہ یہ چاند کس لیے ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے؟

اب میری سمجھ میں یہ نہین آرہا کہ آیا پوچھنے والوں نے کس سن و سال میں یہ دقیق سوال کیے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلےٰ اٰلہٖ وسلم کے ذریعے ان ذہنی پسماندگان کے سوالات کے جو جوابات عطا فرمائے اس سے ان کے لئے معلومات کے کتنے دریا بہ گئے۔ یعنی اس دور میں جب عرب فلکیات اور نجوم کے علم میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے وہ یہ سوال لے کر آئے تھے کہ گھٹتے بڑھتے چاند کیا ہوتے ہیں؟ اور اگر ان کو نہیں معلوم تھا اور وہ یہ سوال کر ہی بیٹھے تھے تو اللہ نے ان کے جواب میں کونسے معلومات کے دریا بہا دیے؟ درانحالیکہ کیے گئے سوالات کو اگر من و عن بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان سوالات اور اس جواب میں نہ کوئی ربط ہی پایا جاتا ہے اور نہ معنوی صحت ۔اس کی تفصیل ذیل مین درج کی جارہی ہے۔

سوال ہوا کہ گھٹتے بڑھتے چاند کیا ہیں ؟ تو جواب آیا کہ یہ تقسیمِ اوقات کا مظہر ہیں لوگوں کے لئے اور حج کے وقت کے تعین کے لیے دوسرے الفاظ میں چاند آلہِ ہائے وقت ہیں انسانوں کے لئے اور حج کے لئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہلال جسکی جمع اہلّہ بتائی جا رہی ہے عربی میں چاند کی اس شکل کو کہتے ہیں جو پہلی تاریخ کی شب سے قبل غروبِ آفتاب کے وقت نظر آتی ہے یا دوسرے موقع پر ۲۶ یا ۲۷ تاریخ کو طلوع آفتاب سے قبل نظر آتی ہے۔ تو یہ ہلال تو خود مہینے میں دوبار چند دقیقوں کے لئے نظر آتا ہے تو یہ لوگوں کے لئے کیسے تقسیمِ اوقات کا مظہر یا آلہِ وقت بن سکتاہے ؟ دوسرے یہ کہ خصوصاً حج کے سلسلے میں تو اس لئے بھی کہ حج تو نویں تاریخ کو ہوتا ہے جسوقت چاند ہلال تو کیا حدِتربیع اول سے بھی گذر کر بدر کی منزل سے نزدیک ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ کو اگر بتانا ہی تھا تو چاہیے تھا کہ وہ یوں فرماتا کہ ’ قل ھی مواقیت لصوم والفطر‘ یعنی یہ آلہِ وقت ہیں روزوں کے لیے اور فطر کے لیے۔ حالانکہ اس صورت میں بھی یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ ہلال کی جمع استعمال نہیں ہو سکتی (تو اس مقصد کے لیے تو آیت کو یوں ہونا چاہیے تھا کہ ’یسئلونک عن الہلال‘ اور پھر کیونکہ خود ہلال بھی بنفسہٖ قمر کی ایک مخصوص شکل کو کہتے ہیں اور آیت کا مقصد چاند کی مجموعی کیفیات کو ذکر کرنا لگتا ہے اس صورت میں ’یسئلونک عن القمر قل ھی مواقیت لصوم والفطر‘ ہونا چاہیے تھا) چنانچہ اللہ پر علم الکلام اور عربی سے ناواقفیت کا الزام تو نہیں لگایا جاسکتا ہاں اپنی غلط فہمی کا احتمال ہو سکتا ہے جس کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کا علاوہ بھی اہلہ کو (اگر اسے ہلال کی جمع بھی تسلیم کر لیا جائے) آلہ وقت ہونے سے کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ خود ہلال بھی چاند کی کوئی ذاتی شکل نہیں ہے بلکہ چاند کے آفتاب اور زمین کے درمیان سے گذرنے کے بعد یا پہلے شعاع آفتاب کے چاند سے منعکس ہوکے زمین پر نظر آنے کی ایک شکل ہے ورنہ چاند اپنی جگہ ہمہ وقت شعاع آفتاب میں ڈوب کر مثلِ بدر روشن رہتا ہے اِلا یہ کہ چاند گرہن کے وقت کیونکہ زمین آفتاب اور چاند کے درمیان ہوتی ہے اور چاند کے زمین کے سایہِ مخروطی میں ہونے کے سبب سے شعاع آفتاب قمر تک پہونچنے سے قاصر رہتی ہے اس موقع پر چاند فی الواقعہ تاریک ہو جاتا ہے۔

پھر اس کے ماسوا بھی ہلال کی کوئی جگہ بھی متعین نہیں ہے کبھی یہ برج حمل میں نظر آتا ہے تو کبھی میزان میں کبھی سنبلہ میں تو کبھی سرطان میں۔ اس کے ساتھ ہی اس کے لئے کوئی موسم بھی مخصوص نہیں ہے ایک ہی مہینہ کا ہلال کبھی شدید گرمی مین ظاہر ہوتا ہے تو کبھی خزاں میں کبھی سخت سردی میں تو کبھی بہار میں اور برسات میں تو ہلال کو بس ڈھونڈا ہی کیجیے۔
پھر اس کے بعدیہ کہ قراٰن مجید میں جتنے بھی نام اوقات کے سلسلے میں آئے ہیں خواہ روزانہ کے اوقات ہوں کہ ماہانہ یا کہ سالانہ خواہ موسمی اوقات ہوں یا کہ مذہبی عبادات کے اوقات کسی ایک کا بھی تعلق قمر سے نہیں ہے۔ مثلاً لیل،نہار،،فجر،دلوک الشمس۔غسق الیل،عشاء،ظہر،عصر،بکرۃ واصیلۃ،شتاء،سیف وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر ہلال آخر کون سے وقت کا آلہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں کس بات کو ظاہر کیا گیا ہے؟ تو اس کے لیے آیت میں آئے ہوے دو الفاظ ایسے ہیں کہ جن کو تمام لوگوں نے غلط معنوں میں لیا ہے ایک تو لفظ’اہلہ‘ دوسرا لفظ ہے ’ مواقیت‘۔ اہلہ جمع ہے اور ’ادلہ‘ یا ’اذلہ‘کے وزن پر ہے۔ ادلہ جمع ہے دلیل کی جبکہ اذلہ جمع ہے ذلیل کی اسی طرح اہلہ جمع ہے ’ہلیل‘ کی جو لفظ’ ہلل‘ سے نکلا ہے جسکے معنیٰ ہوتے ہیں غل مچانا یا شور مچانا۔ بارش کے گرنے کی آواز کو بھی ہلیلہ کہا جاتا ہے۔ اور خود ہلال کی بھی وجہ تسمیہ یہ ہی بتائی جاتی ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر غل مچاتے ہیں اس لیے اس کو ہلال کہا جانے لگا۔اور جہاں تک مواقیت کا سوال ہے وہ جمع ہے میقات جو کہ اسم ظرف ہے اور یہاں ظرفِٰ مکان کے طور پر آیا ہے ۔

کیونکہ یہ آیت احکام حج کے شروع میں ہے اس لئے حج ہی کا ذکر اس آیت میں بھی ہے کہ لوگ تجھ سے اہلّہ (غل مچانے کی جگہ)کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ یہ مواقیت ہیں انسانوں کے لیے حج کے واسطے۔یعنی لوگ جو لبّیک اللھم لبّیک کا غل مچاتے ہیں اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو اللہ نے برجستہ اور برمحل جواب دیا کہ یہ لوگوں کیلیے حج کے واسطے میقات ہیں (جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے وہیں سے لبّیک،لبّیک کی صدائیں بھی بلند کی جاتی ہیں)اور کیونکہ حج کے سلسلے میں میقات متعدد ہیں اس لیے ان کی جمع استعمال کی گئی ہے،جو لوگ حج و عمرہ کے لیے جا چکے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔

یہاں تک پہونچنے کے بعد اب مفسر و مترجم نے اس آیت کی تفسیر کی ذیل میں جو کچھ لکھا ہے اس پر بھی نظر ڈال لی جائے:۔
لکھتے ہیں کہ ’جیسا کہ شانِ نزول میں آیا ہے کہ کچھ لوگ بیغمبرِاسلامؐ سے چاند کے متعلق سوالات کرتے تھے اس سوال کے جواب میں خداوند عالم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حکم دیا کہ وہ چاند کے آثاروفوائد بیان کریں انہیں بتائیں کہ مہینوں کی ابتداء طلوع ہلال کی صورت میں اور پھر تدریجاً اس کی تبدیلی عبادات اور دینی فرائض کی انجام دہی نیز مادی نظامِ زندگی کے لیے بہت کارآمد ہے یہ اس لیے تاکہ لوگ آسانی سے اپنے تجارتی امور اور دیگر پروگراموں کو ترتیب دے سکیں نیز وعدوں اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا تعین کر سکیں۔اس طرح روزہ رکھنے اور حج جیسی عظیم عبادت کی انجام دہی کے لیے مخصوص وقت ہے جس کے تعین کے لیے بہترین راستہ چاند ہی کی وضع وکیفیت ہے چاند دیکھ کر لوگ ہمیشہ ابتداء،وسط اور آخرِ ماہ کی تشخیص کر سکتے ہیں اور اپنے امور کو اس کے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں۔‘

میں حقیقاً یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مفسر ومترجم نے کوزہ میں سے اس سمندر کو نکالا کس طرح؟ سوال تو صرف یہ تھا کہ اہلّہ کیا ہیں اور جواب جو قرآن میں آیا وہ یہ کہ’ یہ مواقیت ہیں انسانوں کے لیے حج کے واسطے‘۔ اب اس مختصر سے جواب میں سے چاند کے آثاروفوائد بیان کرنے کا حکم بھی نکال لیا گیا یہ بھی بتا دیا کہ مہینوں کی ابتداء طلوع ہلال کے ذریعے ہو گی اور پھر تدریجاً اس کی تبدیلی سے عبادات ودینی فرائض کی انجام دہی،مادی زندگی میں اس کا کارآمد ہونابھی واضح کیا گیا پھر یہ بھی بتا دیا کہ لوگ اس سے تجارتی امور اور دیگر پروگراموں کو مرتب کر سکتے ہیں۔وغیرہ ،وغیرہ۔ کمال کی باریک نگاہی پائی ہے مفسرومترجم نے ۔ سبحان اللہ ۔

اب اس بیان کی صحت کو جانچنے کے لیے ہم کچھ سوالات بشکل اعتراض وارد کرتے ہیں۔

پہلا سوال تو یہ کہ اگر اہلّہ ہلال کے لیے ہی استعمال ہوا ہے تو لفظ ہلال تو خود قمر کی ایک مخصوص کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ چاند کے آثاروفوائد پر سیر حاصل روشنی کیسے ڈال سکتا ہے اسکے لیے تو لفظ ’قمر‘ جو کہ قرآن مجید میں جا بجا استعمال ہوا ہے ہی استعمال ہونا چاہئے تھا چنانچہ اس لفظ کو چھوڑ کر اللہ نے ایک بالکل ہی نیا لفظ( جو یہاں کے علاوہ پورے قرآن میں نہ واحد کی شکل میں نہ ہی جمع کے صورت میں کہیں استعمال ہی نہیں ہوا) کیوں استعمال کیا؟

دوسرا نکتہ یہ کہ مہینوں کی ابتداء جو کہ ہلال کی رویت پر منحصر قرار دی گئی ہے اس میں روزمرہ کے واقعات میں جس طرح کے تنازعات بالعموم اور رمضان، شوال اور محرم کے مہینوں میں بالخصوص پیدا ہوتے رہتے ہیں اس کا بھی تمامتر سبب اور اس کے نتائج کی ذمہ داری اللہ کی طرف چلی جاتی ہے کہ اس نے رویت ہلال کا حکم تو دے دیا مگر اس سلسلے میں حالات کو سازگار نہ بنا سکاکہ تمام انسان اس حکم پر بلا خوفِ اشتباہ عمل پیرا ہو سکتے خصوصاً اس صورت میں کہ بلا اختلاف یہ بات مسلّم ہے کہ یکم شوال کا روزہ حرامِ قطعی ہے مگر فضاء کے گرد آلود یا ابر آلود ہونے کی صورت میں جبکہ ہلال فی الواقعہ حدِ رویت پر ہونے کے باوجود نظر نہیں آتا اور لوگ مجبور ہیں کہ ایک فعلِ حرام کا دینی جذبہ سے ارتکاب کریں چنانچہ وہ عیدالفطر کے دن روزہ رکہتے ہیں۔

پھر اس کے ما سوا بھی ایک ہی افق پر ہونے کے باوجود مختلف آبادیوں میں ایک ہی دن مختلف تاریخیں چل رہی ہوتی ہیں چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن ایّام کو اللہ واحد ذکر کرتا ہے وہ تثنیہ اور جمع کے شکل میں وارد ہوتے ہیں مثلاً یوم الفطر، یوم العرفہ، شبِ قدر، شبِ معراج اور یومِ عاشوراوغیرہ جو کہ ایک ہی مہینے میں دو دو اور تین تین مرتبہ واقع ہونے کی وجہ سے یومین الفطر یا ایام الفطر، ایام العرفہ،یومینِ عاشورہ یا شبھائے قدر بن جاتے ہیں الا ھذالقیاس۔ اس طرح ان کی حرمت بھی پامال ہوتی ہے اور مخالفین کو بھی اعتراض کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔

چوتھی بات یہ کہ اگر اہلّہ کو ہلال کی جمع بھی تسلیم کر لیا جائے اور اس کے بعد لغت کے تمام قائدے قانون برطرف کرکے ہلال کو قمر کا قائم مقام بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی تدریجاً اس میں تبدیلی سے کسی کو کوئی مفاد نہیں رہتا خواہ چاند مغرب میں نظر آئے خواہ عین سر کی سیدھ میں چمک رہا ہو خواہ مشرق میں واقع ہو پھر اس کا رات میں ہی نظر آنا بھی کوئی لازم نہیں دن میں بھی اس کی رویت ہو جاتی ہے اور پھر بالکل ہی نگاہوں سے بھی اوجھل ہو جاتا ہے تو بھی کسی مسلمان کو اس کی ان تمام کیفیات سے کوئی سروکار نہیں رہتا جبکہ آفتاب عالمتاب کی ہر کیفیت ایسی ہے کہ انسان اس سے بے نیاز رہ ہی نہیں سکتا یہاں تک کہ قمری تقویم کے بڑے سے بڑے علمبرداربھی اپنے تمام دینی ودنیاوی افعال و معاملات میں آفتاب پر انحصار کرنے پر مجبورِ محض ہیں۔اور تو اور خود رویت ہلال بھی شعاعِ افتاب ہی کی مرہونِ منت ہے۔

جہاں تک کہ اس کے مادی نظام زندگی میں کارآمد ہونے کا سوال ہے تو یہ ایک ایسا بے دلیل دعوٰے ہے کہ ہمیں اس امر پر تعجب ہے کہ مفسر ومترجم کا قلم اس بے سروپا دعوے کو تحریر کرتے ہوئے لرزا کیوں نہیں حالانکہ یہ ایک ایسا اظہرمن الشمس مغالطہ کہ خود مفسرومترجم بھی اس سلسلے میں کوئی حوالہ مہیا نہیں کر سکے۔ ماہتاب تو نظامِ زندگی پر اس حد تک بے اثر ہے کہ اگر اس کی جانب توجہ نہ ہو تو یہ عموماً اپنی موجودگی بھی ظاہر کرنے سے قاصر ہے سوائے اسکے کہ بدر کے موقع پر کسی حد تک یہ ضرور لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا ہے حالانکہ یہ توجہ بھی اس جہت سے نہیں ہے کہ یہ کسی مادی نظام پر اثر انداز ہونے کے سبب سے ہو چنانچہ درحقیقت جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ خواہ چاند مغرب میں ہو کہ مشرق میں، رات میں نظر آئے یا دن میں، آدھا دکھائی دے کہ پورا یا بالکل ہی دکھائی نہ دیتا ہو کسی کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتانہ شب وروز کے تغیرات سے اس کو کوئی علاقہ ہے نہ موسمی تغیرات میں ہی اس کا کوئی دخل ثابت ہے اور نہ ہی دن کی ساعتوں کا ہی اس کی کسی کیفیت پر انحصار ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ لوگ اس کے ذریعے اپنے پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تو یہ بھی دروغ گوئی کی حد تک بے بنیاد دعوٰے ہے ایسا ہی بے بنیاد کہ چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں بیشمار اسلامی ریاستوں کی ہر دور میں موجودگی کے باوجود کوئی اسلامی مملکت بھی اپنے معاملات میں اسے نافذ کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکی یہاں تک کہ اسلامی ملک ایران میں بھی جہاں سرکاری طور پر ہجری کیلینڈر رائج ہے وہاں بھی ہجری شمسی کیلینڈر ہی رائج ہے۔ قمری سال تو کچھ مذہبی رسوم اور تہواروں کو منانے کے لئے تبرکاً استعمال کیا جاتا ہے اور ہر دوسرے مہینے اس پر تمام مسلمان آپس میں دست بگریباں نظر آتے ہیں اور کوئی بھی ایک تاریخ سب کے لئے متفقہ قرار نہیں پاتی۔[/SUP]
[SUP]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/SUP]
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
چاند​

شائع کنندہ مکتبہ حجاز سہارن پور

خطبہ مسنونہ کے بعد:

(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْأَہِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ، وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِہَا، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ ُتفْلِحُوْنَ)
(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور ﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ

بزرگو اور بھائیو: ابھی ہمارے قاری صاحب نے جو تلاوت کی ہے اس میں یہ آیت بھی پڑھی ہے اس آیت میں چاند کا مسئلہ ہے اور مغربی دنیا میں یہ مسئلہ جھگڑے کا باعث بنا ہوا ہے، پس کیوں نہ آج اسی آیت پاک کی تفسیر سمجھ لی جائے؟

شا ن نزول​
آیت کریم کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سورج ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے مگر چاند ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا، ایسا کیوں ہے؟ مہینہ کی تین راتوں میں یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ میں تو ماہ کامل ہوتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے ، اور گھٹتے گھٹتے برائے نام رہ جاتا ہے، پھر بالکل غائب ہو جاتا ہے ، پھر کھجور کی ٹہنی کی طرح دوبارہ نمودار ہوتا ہے، جو مہینہ کی پہلی تاریخ کہلاتی ہے ، پہلی تاریخ کے چاند کو عربی میں 'ہلال ' کہتے ہیں، اردو میں بھی یہی لفظ مستعمل ہے، پھر پہلا چاند بڑھتا ہے اور بڑھتے بڑھتے ماہ کامل بن جاتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا؟

اس سوال کا ایک پس منظر ہے، صحابہ رضی اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اس لئے پوچھی تھی کہ عرب کا ملک گرم ملک ہے، جیسے یہاں (یورپ و امریکہ میں ) آٹھ مہینے سردی رہتی ہے عرب میں آٹھ مہینے گرمی رہتی ہے اور عرب میں پہاڑ بہت ہیں، وہاں کچھ پیدا نہیں ہوتا ، مدینہ اور طائف میں تو تھوڑا بہت پیدا ہو جاتا ہے مگر ملک کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا، اس لئے عربوں کی معیشیت کا مدار اسفار پر تھا ، سال میں ایک مرتبہ شام جاتے تھے اور ایک مرتبہ اونٹوں پر سفر ہوا کرتا تھا اور اونٹ پورے دن نہیں چل سکتے ، زمین گرم ہو جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ نو بجے تک چل سکتے ہیں ، پھر سفر روک دینا پڑتا ہے ، پھر شام کو عصر کے بعد جب سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو سفر شروع کرتے ہیں ، دن میں سفر نہیں کر سکتے، اس لئے دن کی تلافی رات میں کرتے تھے اور چاند جیسا تیرہ چودہ اور پندرہ میں کامل ہوتا ہے اگر ایسا ہی پورا مہینہ رہے تو سفر پر لطف ہو جائے ، یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے سوال کیا تھا کہ جس طرح سورج ایک حال پر رہتا ہے چاند ایک حال پر کیوں نہیں رہتا ؟
پس آیت پاک نازل ہوئی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہلالوں کے بارے میں؟
ہلال نہیں فرمایا بلکہ ہلالوں فرمایا ، جمع لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سا ری دنیا کا ہلال ایک نہیں ہوتا، اگر ساری دنیا کا ہلا ل ایک ہوتا تو مفرد ہلال لایا جاتا، أہلہ جمع لا نے کی ضرورت نہیں تھی ، بہرحال لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مہینہ کے شروع کے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ ان کو جواب دیں : مہینہ کے شروع کے چاند لوگوں کے لئے اوقات مقررکرتے ہیں اور حج کے لئے وقت مقرر کرتے ہیں ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حج کو الگ کیوں کیا؟
موا قیت للناس کافی تھا، حج کو الگ کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہینہ کے نئے چاند ساری دنیا کے لئے الگ الگ تاریخیں مقرر کرتے ہیں۔

بعض احکام سورج سے متعلق ہیں اور بعض چاند سے
کیلنڈر دو بنتے ہیں ، ایک سورج کا اور ایک چاند کا، سورج کا کیلنڈر ہر آدمی نہیں بنا سکتا جو فلکیات کا ماہر ہے و ہ ہی بنا سکتا ہے، اور چاند کا کیلنڈر ہر شخص بنا سکتا ہے، چاند نظر آئے تو اگلا مہینہ شروع کر دو، ورنہ تیس دن مکمل کر لو، اس کے لئے کسی حساب کی ضرورت نہیں اور سورج کا کیلنڈر بنانے کے لئے حساب کا جاننا شرط ہے۔

پھر شریعت نے کچھ احکام سورج سے متعلق کئے ہیں اور کچھ چاند سے، وہ احکام جن کو سال میں دائر نہیں کرنا ان کو سورج سے متعلق کیا ہے، اور جن احکام کو سال میں دائر کرنا ہے ان کو چاند سے متعلق کیا ہے، جیسے رمضان شریف کو سال میں دائر کرنا ہے، اگر ہمیشہ رمضان گرمی میں آئے گا تو لوگ پریشان ہونگے اورہمیشہ سردی میں آئے گا تو کچھ مشقت نہ ہو گی ، پھر زمین کا کرہ گول ہے، شمال کی سردی گرمی کا اعتبار ہو گا یا جنوب کی؟ ایک جانب والا ہمیشہ مزہ میں رہے گا دوسری جانب والا پریشان! پس رمضان پورے سال میں گھومے اس لئے اس کو چاند سے متعلق کیا تاکہ کبھی اور کہیں رمضان سردیوں میں آئے اور کبھی اور کہیں گرمیوں میں، اور نمازیں سال بھر پڑھنی ہے، گر می اور سردی کا اس پر اثر نہیں پڑتا اس لئے ان کو سورج سے متعلق کیا۔

پھر جو احکام سورج سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے، آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو اور جو احکام چاند سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اتنی بڑی ہے کہ اگر درختوں کے پتے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اگر ریت کے ذرے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اگر آسمان کے تارے گنے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گنی جا سکتی ہے، اور سب لوگ شہروں اور دیہاتوں میں نہیں رہتے ، کچھ لوگ پہا ڑوں میں رہتے ہیں، کچھ جنگلوں میں، پس اگر ان کو سورج اور چاند کا حساب سیکھنے کے لئے کہا جا ئے گا تو یہ بات امت کے لئے نا قابل عمل ہوگی، اس لئے حکم دیا کہ آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو چاہے وہ حکم سورج سے تعلق رکھتا ہو یا چاند سے۔

ہندی مہینے یکساں کیوں ہوتے ہیں؟​
ہندؤوں کا کیلنڈر بھی قمری ہے مگر وہ موسم فکس کرنے کے لئے ہر تین سال میں ایک مہینہ بڑھا دیتے ہیں، ہر تیسرے سال: سال کے تیرہ مہینے کر دیتے ہیں اور اس طرح ان کے قمری مہینے ایک سیزن میں آتے ہیں ، جیٹھ ہمیشہ گرمیوں میں آتا ہے، اسلام سے پہلے عرب بھی مہینوں کے ساتھ یہی عمل کرتے تھے، وہ بھی ہر تیسرے سال کبیسہ کے نام سے ایک مہینہ بڑھاتے تھے، چنانچہ رمضان کا جو رمضان نام پڑا ہے وہ اس وجہ سے پڑا ہے کہ رمضان کے معنی ہیں : وہ زمانہ جس میں پتھر نہایت گرم ہو جاتے ہیں، چونکہ رمضان ہمیشہ نہایت گرمی میں آتا تھا اس لئے اس مہینہ کو رمضان کہنے لگے، قرآن کی آیت ( اِنَّماَ النَّسِیْئُ زِیَادَة فِیْ الْکُفْرِ) میں اسی کا بیان ہے، اسلام نے اس سسٹم کو ختم کر دیا تو مہینے سال میں گھومنے لگے۔

نمازوں کے اوقات میں جنتری اور گھڑی کا اعتبار نہیں​
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نمازوں کے اوقات کیلئے جنتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کے حساب سے اذانیں دی جاتی ہیں اور نمازیں پڑھی جاتی ہیں، پس جب نمازوں میں حساب کا اعتبار کیا جاتا ہے تو رمضان کے چاند میں حساب کا اعتبار کیوں نہیں کیا جا تا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات میں جنتریوں کا اعتبار نہیں،

مشرق میں دیکھو! پو پھٹے اور لال دھاری نمودار ہو تو صبح صادق ہو گئی، سحری بند کرو اور فجر کی نماز پڑھو، گھڑی میں چاہے کچھ بھی بجا ہو اس کا اعتبار نہیں،


اسی طرح سورج نکلا اس کا اوپر کا کنارہ نمودار ہوا تو سورج نکل آیا اب فجر کی نماز کا وقت ختم ہوگیا،

پھر جب سورج بلند ہوا اور ہر چیز کا سایہ گھٹتا ہوا درجہ صفت پر آ گیا یعنی سورج سر پر آ گیا تو ہر نماز ممنوع ہو گئی،

پھر جب سورج ڈھلا اور سایہ مشرق کی طرف بڑھنا شروع ہوا تو زوال ہو گیا اب ظہر پڑھو،

پھر اصلی سایہ چھوڑ کر جب ہر چیز کا سایہ اس کے مانند ہو گیا تو ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہو گیا اور امام اعظم کے نزدیک ابھی ظہر کا وقت باقی ہے،

ان کے نزدیک اصلی سایہ چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ دوگنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے، اور جب بھی ظہر کا وقت ختم ہو عصر کا وقت شروع ہو جا ئے گا،

اور جب سورج کا اوپر کا کنارہ چھپ گیا تو مغرب کا وقت ہو گیا، پھر سورج ڈوبنے کے بعد جب تک مطلع پر رو شنی رہے مغرب کا وقت ہے،

اور جب بالکل اند ھیرا چھا جائے تو عشاء کا وقت شروع ہو گیا صبح صادق تک عشاء پڑھ سکتے ہیں،

غرض کسی حساب کی ضرورت نہیں اور کوئی گھڑی نہیں چاہئے، آنکھوں سے دیکھو اور پانچوں نمازیں پڑھو، نمازوں میں جنتریوں کا حساب ضروری نہیں، جنتریاں لوگوں نے سہولت کے لئے بنائی ہیں، لیکن فرض کرو : جنتری کہتی ہے ابھی پانچ منٹ کے بعد سورج طلوع ہو گا اور ہم اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ سورج نکل آیا ہے، تو اعتبار دیکھنے کا ہو گا، جنتری اور گھڑی کا نہیں ہو گا،

چاند کا بھی یہی معاملہ ہے، اعتبار آنکھ سے دیکھنے کا ہے،

اگرچہ قمری کیلنڈر بنتے ہیں، اور سال میں دس مہینے اس کے حساب سے چند نظر آتا ہے، مگر سال میں دو ماہ اس کیلنڈر کے مطابق چاند نظر نہیں آتا، اس لئے اعتبار حساب کا نہیں، بلکہ آنکھ سے دیکھنے کا ہے ۔

ترقی یافتہ دور میں حساب پر مدار رکھنے میں حرج کیا ہے؟​
برطانیہ میں اور اس ملک (امریکہ) میں کچھ مسلمان جو ماہرین حساب ہیں کہتے کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا زمانہ چودہ سو سال پہلے تھا جبکہ اونٹوں اور پتھروں کا زمانہ تھا ،اب ہم تر قی یافتہ ہیں ، لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ، حساب کتاب جا نتے ہیں ، ہم حساب سے بتا سکتے ہیں کہ چاند کب نکلے گا اور کب ڈوبے گا ؟

اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نیا چاند کب پیدا ہو گا اور کب آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہو گا، میں ان بھائیوں سے پوچھتا ہوں : بتاؤ حساب کتاب جاننے والے کتنے مسلمان ہیں؟
پو ری دنیا میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں ، پس شریعت احکام کا مدار ایسی چیز پر کیسے رکھے گی جس کے جاننے والے ایک فیصد بھی نہیں ، چنانچہ حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
نحن أمة أمیة لا نکتب ولا نحسب : ہم ناخواندہ امت ہیں یعنی امت کی اکثریت ناخواندہ ہے ، اور ناخوا ندہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو فارسی انگریزی نہیں پڑھ سکتے، بلکہ ناخواندہ کا مطلب ہے :
لا نکتب ولانحسب: ہم لکھتے اور گنتے نہیں، چنانچہ آج بھی امت کی اکثریت حساب کتاب نہیں جانتی ایسی صورت میں شریعت اکثریت کا لحاظ کر کے احکام مقرر کرتی ہے کچھ خاص بندوں کا لحاظ کر کے احکام مقررنہیں کرتی ، پا لیمنٹ جو قوانین بناتی ہے ان میں بھی اکثریت کا لحاظ کرتی ہے بعض کا لحاظ نہیں کرتی ، پس ماہرین حساب کا یہ کہنا کہ دنیا اب بہت تر قی یافتہ ہوگئی ہے ، اب ہم حساب کے ماہر ہو گئے ہیں ان کا یہ کہنا صحیح ہے ، بے شک وہ ماہر ہو گئے ہیں ، ہم ان کی مہارت کا انکار نہیں کرتے لیکن شریعت نے اکثریت کا لحاظ کر کے چاند کا مدار حساب پر نہیں رکھا ، بلکہ آنکھوں کی رویت پر مدار رکھا ہے۔

بہرحال کوئی ماہر ہے یا نہیں؟ اس قصہ کو چھوڑو، اگر ماہر ہے بھی تو احکام کا مدار حساب پر نہیں، سورج سے متعلق احکام کا بھی اور چاند سے متعلق احکام کا بھی، دونوں کا مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے کیونکہ امت کی اکثریت حساب کتاب نہیں جانتی اور شریعت احکام کے نازل کرنے میں اکثریت کا لحاظ کرتی ہے ۔

آیت کریمہ پر ایک نظر پھر ڈالو اللہ پاک فرما تے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیں : چاند گھٹتا بڑھتا اس لئے ہے کہ لوگوں کے لئے اوقات مقرر کرے اور حج کے لئے وقت مقرر کرے، اس میں صاف اشارہ ہے کہ مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے اور آنکھ سے دیکھنے کے اعتبار سے مہینہ کا پہلا چاند پوری دنیا میں ایک نہیں ہو سکتا پس لا محا لہ چاند کا مہینہ پوری دنیا میں الگ الگ شروع ہو گا ، جہاں چاند نظر آئے گا وہاں مہینہ شروع ہو گا،
صرف حج ایک ایسی عبا دت ہے جس میں ساری دنیا کے مسلمان اپنی تاریخیں چھوڑ کر مکہ کی قمری تا ریخ کے اعتبار کریں گے
اور ایک معین دن میں حج کریں گے۔


آج سے تقریبا چالیس سال پہلے جبکہ میں راندیر میں مدرس تھا ، مکہ کے حکومتی ادارے رابطہ عالم اسلامی نے اجلاس بلایا ، دنیا کے بڑے بڑے علماء اس کے رکن ہیں ، ہندوستان سے اس وقت رکن حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ تھے، دونوں حضرات اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے، اس کانفرنس کے ایجنڈے میں توحید اہلہ کا مسئلہ بھی تھا، توحید کے معنی ہیں : ایک ہونا ، اور اہلہ : ہلال کی جمع ہے، یعنی دنیا میں چاند کی الگ الگ تاریخیں شروع ہوتی ہیں، یہ نظام ختم کیا جائے اور پوری دنیا میں چاند کی تاریخیں ایک ساتھ شروع ہوں ایسا نظام بنایا جائے۔ توحید اہلہ کا مطلب یہی ہے، تمام ممبران نے حتی کہ سعودیہ کے ممبران نے بھی اس کو نامنظور کیا کہ یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے، قر آن کی تو یہی آیت ہے اور حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ : جب چا ند نظر آئے رمضان کے روزے شروع کرو اور چاند نظر آئے تو رمضان کے روزے ختم کرو، غرض تمام ممبران نے اس تجویز کو رد کر دیا کہ پو ری دنیا کا چاند ایک نہیں ہو سکتا۔

پوری دنیا کے لئے ایک چاند مقرر کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا مسئلہ ختم کر دیا جا ئے اور قمر جدید یعنی نیو مون کا اعتبار کر لیا جائے، اس صورت میں ساری دنیا کا چاند ایک ہو جا ئے گا ۔

قمر جدید (نیا چاند) کیا ہے؟​
سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبتا ہے
، چاند بھی اسی طرح مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبتا ہے،
یہ چاند کی روز مرہ کی چال ہے

البتہ چاند کی ایک دوسری چال بھی ہے، وہ مغرب سے مشرق کی طرف بھی چلتا ہے، دو متضاد چالیں ایک ساتھ چلتا ہے

اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں، جیسے ہم فٹ بال کو لات مارتے ہیں تو گیند سامنے کی طرف بھی جاتی ہے اور گول بھی گھومتی ہے، اسی طرح چاند چوبیس گھنٹے میں ایک راؤنڈ لیتا ہے ،
اور دوسری چال مغرب سے مشرق کی طرف چوبیس گھنٹوں میں٢٣ ڈگری چلتا ہے اور انتیس دن میں ایک راؤنڈ پورا کرتا ہے۔
اور جیسے آدھی زمین روشن رہتی ہے اور آدھی پر اندھیرا چھایا رہتا ہے ، یہاں رات ہے اور چین میں سورج نکلا ہوا ہے ، یہی حال چاند کا بھی ہے ،اس کا آدھا حصہ جو سورج کی طرف ہے وہ روشن ہوتا ہے اور دوسرا آدھا جو سورج کے مقابل نہیں وہ تاریک ہوتا ہے، پس آدھا روشن اور آدھا غیر روشن ہو نے میں چاند اور زمین یکساں ہیں، اور جب ہم چاند کو زمین سے دیکھیں اوراس کا روشن حصہ نظر نہ آئے تو اس کا نام مُحاق ہے، پھر جب ہمارے دیکھنے کا زاویہ بدلتا ہے تو چاند کے روشن حصہ کا ایک کنارہ ہمیں نظر آتا ہے، یہ ہلال ہے، پھر جوں جوں زاویہ بدلتا رہتا ہے ہر دن کا چاند بڑا ہوتا رہتا ہے ، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ چاند زمین اور سورج کے بیچ میں آ جاتا ہے ، پس چاند کا آدھا روشن حصہ دوسری طرف ہو جا تا ہے اور ہما ری طرف تاریک والا حصہ ہو جا تا ہے ، یہ زمانہ محاق کہلاتا ہے ، پھر جب چاند مشرق کی طرف ہٹتا ہے اور سورج کے تقابل سے نکل جاتا ہے تو قمر جدید کہلا تا ہے ، لیکن ابھی اس کا زاویہ اتنا باریک ہوتا ہے کہ زمین سے اس کے دیکھنے کا امکان نہیں ہوتا ،جب چاند سورج سے کم از کم سولہ ڈگری پیچھے ہو جائے تب زمین سے دیکھنے کے قابل ہو تا ہے اور کھجور کی ٹہنی کی طرح نظر آتا ہے۔

غرض قمر جدید کا اعتبارکرلیں تو پو ری دنیا کی تا ریخ ایک ہو جا ئے گی، توحید اہلہ کی یہی صورت ہے، یہ تجویز رابطہ کے اجلاس میں پیش ہوئی مگر دنیا کے تمام علماء نے اس کو نامنظور کر دیا۔

اسلام سے پہلے جب عرب حج کا احرام باندھتے تھے تو دروا زہ سے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے اور گھر میں آنا ضروری ہے، پس وہ پچھلے دروازے سے گھر میں آتے تھے اور وہیں سے نکلتے بھی تھے ، جیسے یہود کے یہاں سنیچر کو کوئی کام نہیں کر سکتے، لائٹ اگر کھلی ہے اور سنیچر شروع ہو گیا تو اب اس کو بند نہیں کر سکتے، بند ہے اور سنیچر شروع ہو گیا تو اب اس کو کھول نہیں سکتے ، لیکن کرتے سب کام ہے ، کرتے کیا ہیں ؟ سڑک سے کسی مسلمان کو پکڑ لاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں: ذرا بٹن آن کر دو، یہ کیا دین پر عمل ہوا ؟ یہ تو اللہ کو دھوکہ دینا ہوا، ایسا ہی حیلہ انہوں نے پرانے زمانہ میں مچھلیوں کے تعلق سے کیا تھا ، بہرحال جیسا یہ یہودی کرتے ہیں ایسا ہی عرب بھی کرتے تھے کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد سامنے کے دروازے سے گھر میں نہیں آتے تھے، پیچھے سیڑھی لگا کر گھر میں آتے تھے،

قرآن نے کہا: (وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا) یہ کونسا نیکی کا کام ہے کہ تم گھروں میں پچھواڑے سے آؤ
(وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی) بلکہ نیکی کا کام یہ ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرو اس کے حکم کی خلاف ورزی مت کرو۔

اللہ سے ڈر نے کا مطلب​
اور اللہ سے ڈرنا ایسا ڈرنا نہیں جیسے سانپ سے، شیر سے اور دشمن سے ڈرتے ہیں، اللہ تو وہ ذات ہے جس سے محبت کرنی ہے، بلکہ اللہ سے ڈرنے مطلب یہ ہے کہ جیسے اطاعت شعار بیٹا باپ سے ڈرتا ہے ، مخلص طالب علم استاذ سے ڈرتا ہے۔ اللہ سے ڈرنا ایسے ہے کہ مومن بندے کو کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس سے اللہ ناراض ہو جائیں، قرآن و حدیث میں جہاں جہاں آتا ہے کہ اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اس کا یہی مطلب ہے ۔

غرض قرآن نے مشرکین سے کہا :
( وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی) نیکی کا کام یہ ہے کہ تم اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرو، اگر اللہ نے یہ حکم دیا ہو کہ احرام باندھنے کے بعد گھر میں مت جاؤ تویہ کیا بات ہو ئی کہ دروازے سے نہیں گئے، پیچھے سے گھس گئے
(وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِہَا) گھروں میں ان کے دروا زوں سے آؤ ،یعنی شریعت کا یہ حکم نہیں ہے کہ احرام باندھنے کے بعد گھر میں نہیں آسکتے ، یہ تو تم نے خود گھڑ لیا ہے ،
(وَاتَّقُوْا اللّٰہَ) اور اللہ سے ڈرو ، یعنی اللہ نے جو احکام دیئے ہیں ان کی خلاف ورزی مت کرو ، اللہ نے کہا ہے : احرام میں ٹوپی مت پہنو، مت پہنو ، اللہ نے کہا ہے : احرام میں پگڑی مت باند ھو، مت با ندھو ، اللہ نے جو احکام دیئے ہیں اس پر عمل کرو اپنی طرف سے کچھ مت بڑ ھا ؤ،
(لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) تا کہ تم کامیاب ہوؤ، مومن کی کامیابی اللہ کے احکام کی اطاعت میں ہے اپنی طرف سے احکام تجویز کرنے میں نہیں ہے۔

ربط مضامین
اور آیت میں مذکور دونوں مضمون میں نے آپ حضرات کو سمجھا دئیے، میرے بھا ئیو! آپ اس پر غور کریں کہ ان دونوں مضمونوں میں جوڑ کیا ہے؟ پہلا مضمون یہ ہے کہ مہینہ کے نئے چاند تمام لوگوں کے لئے الگ الگ اوقات مقرر کریں گے اور حج کے لئے ایک وقت مقرر کریں گے،

اور دوسرا مضمون یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام دئے ہیں ان کی خلاف ورزی مت کرو ، نہ اپنی طرف سے کسی حکم کا اضا فہ کرو ، یہی برو تقویٰ ہے ، کامیا بی کا راز اسی میں ہے ، اپنی طرف سے نئے نئے شوشے چھوڑنا کہ اب تو ہم بڑے ماہر ہو گئے ہیں، حساب کتاب جاننے لگے ہیں ، اب آنکھ سے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں، اب ہم ہیلی کاپٹر میں اڑکر جائیں گے اور اوپر جا کر چاند دیکھیں گے ، دور بینوں سے چاند دیکھیں گے ، یہ کریں گے وہ کریں گے ، ارے بھائی یہ سب باتیں چھوڑو اور جو اللہ کا حکم ہے اس پر عمل کرو، کامیابی اسی میں ہے۔

وآخردعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین

[SUP](اصل مضمون سے وہی حصہ لیا گیا ھے جس کی یہاں ضرورت تھی)[/SUP]
رؤیت ہلال حقائق اور مغالطے

[SUP] تحریر و تحقیق: ساجد محمود مسلم[/SUP]

رؤیت ہلال
حقائق اور مغالطے تحریر و تحقیق: ساجد محمود مسلم اسلامی تہذیب کا ایک نمایاں وصف خالص قمری تقویم ہے، جس کی بنیاد منازلِ قمر پر رکھی گئی ہے۔

اللہ وحدہٗ لاشریک کا ارشاد ہے:

ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
(یونس: 5)
’’ وہی (اللہ) ہے جس نے سورج کو ضیا اور چاند کو چمکتا ہوا بنایا اور اس نے اس (چاند) کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان سکو۔ اللہ نے یہ سب حق کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے علم والوں کیلئے‘‘

دینِ اسلام نے عبادات کو شمسی تقویم کی بجائے قمری تقویم سے متعلق کیا ہے، جس کا ایک سبب یہ ہے کہ منازلِ قمر ظاہری آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں، لہٰذا ہر صاحبِ بصارت ان کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ چاند کی پہلی منزل ہلال ہے جو ایک نورانی قوس کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد چاند کی قوس بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ چاند بدر کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔ پھر یہ گھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور گھٹتے گھٹتے نظروں سے بالکل اوجھل ہو جاتا ہے۔ پھراگلی رات دوبارہ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ منازلِ قمر کے اس مکمل چکر کو دورِ قمر(Lunar Cycle) کہتے ہیں۔

منازلِ قمر کی سائنسی توجیہ یہ ہے کہ چاند، زمین کے گرد قدرے بیضوی مدار میں مخالف گھڑی وار (Anti-clockwise) گردش کرتا ہے۔ زمین اپنے چاند سمیت سورج کے گرد مخالف گھڑی وار گردش کرتی ہے۔ چاند کی سورج کے گرد گردش کے دوران ایک مقام ایسا آتا ہے کہ سورج، زمین اور چاند اس طرح ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ چاند، سورج اور زمین کے درمیان ہوتا ہے۔ اس حالت میں ایک خط سورج ،چاند اور زمین کے مراکز کو ملاتا ہے۔ اس لمحے کو فلکیاتی اصطلاح میں قِرانِ شمس و قمر یا اجتماعِ شمس و قمر (Luni-solar Conjunction) کہتے ہیں۔

چاند سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ قِران کے وقت چاند کا روشن حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے اور چاند کا وہ رخ زمین کی طرف ہوتا ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ رہی ہوتی۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قِران کے وقت چاند زمین سے دکھائی نہیں دیتا۔ اس فطری مظہر کو محاق کہا جاتا ہے جس کا لغوی مطلب ہے مٹ جانا۔ کیونکہ چاند وقتِ قران ظاہراً آسمان سے مٹ جاتا ہے، اس لئے اس لمحے کو محاق بھی کہتے ہیں۔
(الہیءۃ الوُسطٰی: ص 405-406)

اس تاریک چاند کو جدید فلکیاتی اصطلاح میں نیومون کہا جاتا ہے۔

چاند اور سورج مسلسل حرکت میں ہیں، ان کی رفتارِ حرکت مختلف ہونے کی وجہ سے چاند سورج سے پیچھے رہ جاتا ہے، لہٰذا محاق کے بعد چاند اور سورج کے قرص (Disks) ایک دوسرے سے الگ ہونے لگتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں چاند کے روشن حصے کا نہایت باریک کنارہ ایک قوسِ نور (Arc of Light) کی شکل میں برآمد ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں یہ قوسِ نور اس قدر باریک اور چھوٹی ہوتی ہے کہ زمین سے دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے نظر نہ آنے کا ایک سبب سورج کی تیز روشنی بھی ہے، جیسے چراغ کی لو سورج کی روشنی میں نظر نہیں آتی، ایسے ہی ابتدائی قوسِ نور سورج کی تیز روشنی میں نظر نہیں آتی۔ آہستہ آہستہ سورج اور چاند کا درمیانی زاویائی فاصلہ بڑھتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قوسِ نور بڑی اور موٹی ہونے لگتی ہے۔ چونکہ قوسِ نور سورج اور چاند کے درمیان زاویائی فاصلہ کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے اس لئے اس کی پیمائش درجاتِ زاویہ کے ذریعے کی جاتی ہے، قوسِ نور کے لئے دوسری فلکیاتی اصطلاح Luni-solar Elongation استعمال ہوتی ہے۔ جب قوسِ نور کی مقدار دس (10) درجے ہوجاتی ہے تو یہ زمین سے دکھائی دیتی ہے، اس قابلِ مشاہدہ قوسِ نور کو شرعی اصطلاح میں ہِلال (New Crescent) کہتے ہیں۔ کسی مخصوص مقام سے ہلال کے دکھائی دینے کے لئے ضروری ہے کہ قوسِ نور کی مقدار دس (10) درجے ہو اور غروبِ شمس کے وقت چاند افق سے کم از کم آٹھ (8) درجے بلند ہو۔ دنیا کے جن مقامات پر مذکورہ شرطیں پوری ہوں وہاں ہلال دکھائی دینے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ وہ تمام علاقے جہاں ہلال دکھائی دیتا ہے ، انہیں مجموعی طور پر مطلعِ قمر کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہلال ایک ہی دن دکھائی نہیں دیتا، بلکہ مختلف مقامات پر مختلف دنوں میں نظر آتا ہے۔ ہلال کا اس طرح مختلف ایام میں دکھائی دینے کے مظہر کو اختلافِ مطالع کہتے ہیں۔

جوں جوں دن گزرتے ہیں قوسِ نور کی مقدار بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ یہ ایک سواسّی (180) درجے ہو جاتی ہے تو چاند بدر کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔ اس کے بعد قوسِ نور پھر گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ قوسِ نور غائب ہوجاتی ہے۔ اس لمحے دوبارہ قِرانِ شمس وقمر ہوتا ہے، جو کہ عموماً قمری ماہ کی آخری تاریخ کو ہوتا ہے۔ قران کے دوران چاند اوسطاً بیس (20) گھنٹے تک زمین والوں کے لئے غائب رہتا ہے۔ تاآنکہ قوسِ نور دوبارہ دس (10) درجے ہوجائے اور نیا ہلال زمین سے دکھائی دینے لگے۔ اس طرح ایک دورِ قمر مکمل ہو جاتا ہے۔

قرآن حکیم نے اس دورِ قمر کو مختصراً ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
(یٰسین: 39)
’’ اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردیں، یہاں تک کہ وہ دوبارہ کھجور کی بوسیدہ خمدار شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘

اَلْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم کا لغوی مطلب کھجور کی بوسیدہ شاخ ہے جو سوکھ کر پتلی اور خمدار ہو جاتی ہے۔ اس سے مراد نیا ہلال ہے جو قمری ماہ کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے۔
( لسان العرب:ج13،ص 281)

پس اسلامی قمری ماہ کی ابتدا قابلِ رؤیت، ہلال سے ہوتی ہے ناں کہ قرانِ شمس وقمر یا نیو مون سے باور کر لیجئے کہ رؤیتِ ہلال نہایت اہم فقہی مسئلہ ہے جس کے بارے شرع نے واضح اور دوٹوک ہدایات فراہم کی ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
(البقرۃ: 189)
’’(اے نبی) یہ لوگ آپ سے ہلال کے بارے پوچھتے ہیں، انہیں بتا دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مواقیت (معیارِ وقت) ہیں۔‘‘

سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ثعلبہ بن غنم رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہلال کا کیا معاملہ ہے کہ یہ دھاگے کی مانند باریک حالت سے ابتدا کرتا ہے، پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ پورا چاند طلوع ہوتا ہے، پھر گھٹتا رہتا ہے حتیٰ کہ ابتدائی حالت پر لوٹ آتا ہے، سورج کی طرح ایک حالت پر قائم نہیں رہتا؟ تب سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔
(مفاتیح الغیب: ج 2 ص 281)

اس آیت سے پہلے رمضان المبارک کا بیان جاری ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

فَمَنْ شَھِدَمِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرۃ :185)
’’ تم میں سے جو کوئی (رمضان کا) مہینہ پائے، اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘

رمضان کا مہینہ پانے سے مراد رمضان کی رؤیتِ ہلال ہے، جیسا کہ شارحِ قرآن محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت کی ہے:

سیدنا ابو ہریرہ صسے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَ اَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہ
’’ ہلال دیکھ کر روزے رکھو اور ہلال دیکھ کر روزہ رکھنا موقوف کرو‘‘
(مسند احمد: ح 9365، صحیح بخاری: ح 1909، صحیح مسلم : ح 1081)

رؤیتِ ہلال سے متعلق یہ قولی حدیث حدِ تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔ متعدد صحابہ کرام نے رؤیتِ ہلال سے متعلق احادیث روایت کی ہیں، جن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی ، سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالی، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی شامل ہیں۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان، حج، عیدین اور دیگر قمری مہینوں کا معیارِ وقت (Time Standard) رؤیتِ ہلال ہے ناں کہ تاریک نیو مون۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں ہلالِ رمضان دیکھنے کے لئے جس قدر اہتمام فرماتے تھے ، اتنے تردد کے ساتھ دوسرے مہینوں کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔
(مسند احمد: ح25676، سنن ابو داؤد: ح 2325)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ’’میں نے رمضان کا ہلال دیکھا ہے‘‘، آپ نے فرمایا ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جی ہاں‘‘ پھر آپ نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جی ہاں‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے بلال! لوگوں میں منادی کر دو کہ کل کا روزہ رکھیں۔
(سنن ابوداؤد: ح2340)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں (صحابہ کرام) نے ہلال دیکھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے ہلال دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
( سنن ابو داؤد: ح 2342)

سیدنا نافع بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب شعبان کے انتیس دن گزر جاتے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی کو ہلال دیکھنے کے لئے بھیجتے تھے۔
(مسند احمد : ح 4488 )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ، آپ کے اپنے عمل اور صحابہ کرامؓ کے تواتر عملی سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی قمری مہینے کی ابتدا رؤیتِ ہلال سے ہوتی ہے، نیو مون کی ولادت سے نہیں۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رؤیتِ ہلال سے مراد محض ولادتِ ہلال نہیں بلکہ آنکھوں سے ہلال کا دیکھنا مراد ہے۔

لغاتِ قرآن کے ماہر امام حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمہ اللہ (متوفی507ھ) فرماتے ہیں:
اَھَلَّ الْہِلَال کے معنی (نیا) چاند نظر آنے کے ہیں
(مفردات القرآن: ج 2، ص 1166)

امام فخرالدین محمد بن ضیا ء الدین عمر الرازی الشافعی رحمہ اللہ (متوفی606ھ) فرماتے ہیں:
الاھلۃ جمع الھلال و ھو اول حال القمر حین یراء الناس
’’اَہِلَّۃ جمع ہے ہلال کی، یہ چاند کی پہلی حالت ہے جس کا لوگ مشاہدہ کرتے ہیں۔‘‘
(مفاتیح الغیب: ج 2 ص 281)

شیخ الاسلام امام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد ابن قدامہ الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ (متوفی630ھ) فرماتے ہیں:
سرر الشھر آخرہ لیال یستسر الھلال فلا یظھرہ
’’اور قمری ماہ کی تاریک راتیں اس کے آخر میں ہوتی ہیں جب چاند چھپا رہتا ہے اور مطلق ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘
(المغنی والشرح الکبیر: ج3، ص 15)

شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو لعباس احمد بن تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ ( متوفی 728ھ) فرماتے ہیں:
فالمقصود ان المواقیت حددت با مر ظاہر بیّن یشترک فیہ الناس ولا یشترک الھلال فی ذالک شیء، فان اجتماع الشمس والقمر الذی ھو تحاذیھما الکائن قبل الھلال: امر خفی لا یعرف الا بحساب ینفرد بہ بعض الناس
’’ مقصود یہ ہے کہ اوقات ( قمری ) کی حد بندی ایسی ظاہرو واضح شے سے کی گئی ہے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں ہے، ہلال کے مقابلے میں کوئی شے ا سکی برابری نہیں کر سکتی ۔، بلا شبہ اجتماعِ شمس وقمر ،جو کہ ظہورِ ہلال سے قبل واقع ہوتا ہے، ایک پوشیدہ امر ہے جسے ایسے حساب کے ذریعے ہی معلوم کیاجاسکتا ہے جو چند لوگوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
(مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ: ج 25، ص136)

امام عبداللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمہ اللہ (متوفی 711ھ) فرماتے ہیں :
و یثبت رمضان برؤیۃ ھلالہ
’’ رمضان کا مہینہ رؤیتِ ہلال سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘
(کنز الدقائق: ص 67)

امام ابوالولید محمد بن احمد ابن رشد القرطبی المالکی رحمہ اللہ (متوفی 595ھ) فرماتے ہیں:
و علٰی ان اعتبار فی تحدید شھر رمضان انما ھو الرؤیۃ
’’ رمضان المبارک کی تحدید کے لئے اصل اعتبار صرف رؤیتِ ہلال کا ہے‘‘
(بدایۃ المجتہد:ج 1، ص 207)

غرض اسلامی قمری مہینے کا آغاز ہلالِ مشہودہ سے ہوتا ہے ناں کہ نیومون جیسے پوشیدہ مظہر سے۔ نیومون دن رات (چوبیس گھنٹوں ) میں سے کسی بھی لمحے واقع ہوسکتا ہے، اس لئے اس کی حد بندی ممکن نہیں کہ فلاں وقت نیومون پیدا ہوجائے تو قمری مہینہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار نیومون سسٹم کے حامی بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس اسلامی قمری مہینے کا آغاز غروبِ آفتاب سے ہوتا ہے، بشرط یہ کہ طلوعِ فجر سے پہلے ہلال دکھائی دے جائے۔ جبکہ نیومون سسٹم میں دن کی ابتدا کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ دن کے بارہ بجے یا رات کے بارہ بجے سے دن کا آغاز مانتے ہیں، وہ شرعِ اسلام سے ناواقف ہیں۔ اگر دن کے بارہ بجے سے نئے دن کی ابتدا تسلیم کی جائے تو آدھا روزہ ایک دن میں ہوگا اور آدھا دوسرے دن میں، اسی طرح رات کے بارہ بجے سے دن کی ابتدا مانی جائے تو نصف لیلۃ القدر ایک دن میں شامل ہوگی اور نصف دوسرے دن میں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں عقلِ صریح اور شرعِ مبین کے منافی ہیں۔ یہی معاملہ ایامِ حج اور دیگر عبادات میں پیش آئے گا جو کہ بداہتاً غلط ہے۔

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ قرانِ شمس و قمر کے سبب اسی دن سورج گرہن لگتا ہے، سورج گرہن کبھی جزوی ہوتا ہے کبھی کلّی۔ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے دوران مدینہ منورہ میں تین مرتبہ سورج گرہن لگا۔ ایک بار جزوی طور پر اور دو بار کلی طور پر۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سورج گرہن کے دن (نیومون) سے قمری مہینے کا آغاز نہیں کیا۔

رؤیتِ ہلال کے ضمن میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ رؤیت ہلال کے لئے اختلافِ مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ یعنی پہلے دن نظر آنے والا ہلال ساری امت کے لئے کافی ہے یا ہر علاقے کے لوگ اپنے ہاں ہلال نظر آنے کا انتظار کریں گے؟ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ساری امت کے لئے ایک ہی متفقہ قمری تقویم کافی ہے یا ہر علاقے کی جدا گانہ قمری تقویم ہونا چاہیے؟

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی (80۔150ھ)،
امام ابو عبداللہ مالک بن انس المدنی (93۔179ھ)،
امام ابو الحارث اللیث بن سعد المصری،(94۔175ھ)
امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی البغدادی (164۔241ھ)
رحمہم اللہ کا مسلک مختار یہ ہے کہ اگر دنیا کے کسی ایک علاقے میں ہلال نظر آجائے تو وہ تمام امتِ مسلمہ کے لئے کافی ہے، اس سلسلے میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں۔

امام عبد اللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمہ اللہ ( متوفی 711ھ) فرماتے ہیں :
و لا عبرۃ لاختلاف المطالع
’’اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘
(کنز الدقائق: ص67)

اس قول کے حاشیہ میں مولوی محمد احسن صدیقی نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ای اذا رای الہلال اہل بلدۃ یلزم ذٰلک اھل بلدۃ اخریٰ فی ظاہرالروایۃ مطلقاً سواء کان بین البلدتین تفاوت او لا و علیہ الفتوٰی ( ایضاً)
’’ یعنی جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں تو دوسرے شہر کے باشندگان پر اس کی اتباع لازم ہو جاتی ہے۔ خواہ ان شہروں کے مابین فاصلہ ہو یا نہ ہو، یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ظاہری روایت ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔‘‘

امام ابوالولید محمد بن رشد القرطبی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فاما مالک فان ابن القاسم والمصریین رووا عنہ انہ اذا ثبت عند اہل بلد أن اہل بلد اٰخر راوا لہلال أن علیہم قضا ذٰلک الیوم الذی افطروہ و صامہ غیرھم و بہ قال الشافعی و احمد

’’ جہاں تک امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا تعلق ہے تو امام ابن القاسم المالکی ؒ اور مصری علماء ان سے روایت کرتے ہیں کہ جب ایک شہر کے باشندگان پر ثابت ہوجائے کہ دوسرے شہر والوں نے ان سے پہلے ہلال دیکھ لیا تھا تو ان پر اس دن کی قضا لازم ہے جس کا روزہ انہوں نے نہیں رکھا، جبکہ دوسرے شہر والوں نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ امام محمد بن ادریس الشافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہمااللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔‘‘
(بدایۃ المجتہد: ج1،ص210)

شیخ الاسلام امام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واذا رأی الہلال اہل بلد لزم جمیع البلاد الصوم
’’ جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں تو تمام شہروں کے باشندگان پر روزہ رکھنا لازم ہوجاتا ہے۔‘‘
( المغنی والشرح الکبیر: ج 3 ص7)

شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد بن تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فالضابط أن مدار الامر علی البلوغ لقولہ ’’صوموا لرؤیتہ‘‘ فمن بلغہ أنہ رؤی ثبت فی حقہ من غیر تحدید بمسافۃ اصلا
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (ہلال دیکھ کر روزہ رکھو) کی بنیاد پر ضابطہ یہ ہے کہ اصل مدار، رؤیتِ ہلال کی اطلاع پہنچنے پر ہے، پس جس شخص تک یہ اطلاع پہنچ گئی کہ ہلال نظر آگیا ہے، اس کے حق میں ہلال ثابت ہو گیا۔ اس سلسلے میں مسافت و فاصلہ کی کوئی حد مقرر نہیں ۔‘‘
( مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ج 25، ص107)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ مزید فرماتے ہیں:
فاذا شھد شاھد لیلۃ الثلاثین من شعبان انہ رآہ بمکان من امکنۃ قریب او بعید وجب الصوم

’’جب شعبان کی تیسویں رات گواہی دینے والا گواہی دے کہ اس نے کسی ایک مقام پر ہلال دیکھا ہے، خواہ یہ مقام قریب ہو یا دور، توروزہ فرض ہوگیا‘‘
(ایضاً، ص 105 )

امام منصور بن یونس البہوتی الحنبلی رحمہ اللہ (متوفی 1051ھ) فرماتے ہیں:
واذا رآی اہل بلد ای متی ثبت رؤیت ببلد لزم الناس کلہم الصوم لقول صلی اللہ علیہ وسلم: صوموا لرؤیتہ، و ھو خطاب للامۃ کافۃ
’’ جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں یعنی ایک شہر میں رؤیتِ ہلال ثابت ہوجائے تو تمام لوگوں پر روزہ واجب ہوجاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرما ن (ہلال دیکھ روزہ رکھو) کی وجہ سے ، یہ خطاب ساری امت کے لئے ہے۔‘‘
(الروض المربع: ص188)

فضیلۃ الشیخ ابراہیم بن محمد بن سالم بن ضویان النجدی حنبلی رحمہ اللہ (متوفی1353ھ) فرماتے ہیں:
یجب صوم رمضان برؤیۃ ہلالہ علی جمیع الناس لقولہ تعالی فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان ( تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے) سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا ہلال نظر آجائے تو سب لوگوں پر رمضان کے روزے فرض ہوجاتے ہیں‘‘
(منارالسبیل: ج1، ص 217 )

فقہائے امت کے مذکورہ اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں ایک مقام پر رؤیتِ ہلال ثابت ہوجائے تو وہ ساری امت کے لئے کافی ہے، ہر علاقے کے مسلمانوں کو اپنے علاقے میں ہلال نظر آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ عالمگیر امت کے لئے ایک ہی متفقہ عالمگیر قمری تقویم ضروری ہے۔ ان اقوال میں جن دلائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ سابقہ سطور میں گزر چکے ہیں لہٰذا ان کی تکرار کی ضرورت نہیں۔ تاہم ایک مزید دلیل اتمامِ حجت کے لئے بیان کیے دیتے ہیں:

سیدنا ربعی بن حراش رحمہ اللہ (تابعی ) اصحابِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار ایسا ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے رمضان المبارک کا تیسواں روزہ رکھا ہوا تھا۔ اسی روز مدینہ کے باہر سے دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے پچھلی شام ہلال دیکھا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دو اور کل صبح عید کے لئے نکلو۔
(مسند احمد: ح 19029، 23457، سنن ابو داؤد: ح 2339)

سیدنا انس بن مالک ص کی روایت میں صراحت ہے کہ مدینہ میں آنے والے مذکورہ اعرابی مسافر تھے، جو کسی دور دراز علاقے سے سوار ہو کر آئے تھے۔
(نیل الاوطار: ج 4، ص213 بحوالہ مسند احمد و صحیح ابن حبان)

یہ حدیثِ صحیح، اختلافِ مطالع کو رد کرنے کے لئے صریح نص ہے اور ثابت کرتی ہے کہ ہر علاقے کے لئے جداگانہ تقویم کا تصور صریحاً غلط ہے۔ آج امتِ مسلمہ میں رمضان المبارک اور عیدین کے حوالے سے جو اختلاف و انتشار پایا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے شریعت کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور علاقائی و گروہی تعصبات کے سبب خالص دینی معاملے کو فانی و حقیر سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ پاکستان جیسے محدود قلیل رقبے کے حامل ملک میں تین دن عید پڑھی جاتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تین مختلف و متواتر دنوں میں ایک ہی قمری تاریخ ہو؟ عقلاً و شرعاًایسا ہونا محال ہے، پھر علمائے حق ،دین کے ساتھ اس صریح مذاق پر خاموش کیوں ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ امام محمد بن ادریس الشافعی المکی رحمہ اللہ (150۔ 204ھ ) اور ان کے کئی اصحاب، اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ اما م شافعی رحمہ اللہ کے اس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں، جن میں سے ایک قول جمہور امت کے موافق ہے،جیسا کہ بدایۃ المجتہد کے حوالہ سے اوپر مذکور ہے، ہاں ان کے بعض اصحاب اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے کے ضرور قائل ہیں۔
کما قال ابنِ قدامہ الحنبلیؒ
( المغنی والشرح الکبیر : ج 3 ، ص 7)

امتِ مسلمہ کے اجتماعی مسائل میں ایسی شاذ رائے قابلِ اعتنا نہیں۔ قرآن وسنت کے دلائل اور فقہائے امت کے مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے کہ اقرب الیٰ الحق رائے جمہور امت کی ہے اوراختلافِ مطالع کے اعتبار کا قول خطا پر مبنی ہے، جس کی کوئی صریح عقلی و شرعی دلیل موجود نہیں۔ اگر اختلافِ مطالع کو معتبر تسلیم کرلیا جائے تو وہ کونسی عقلی اور شرعی دلیل ہے جس کے ذریعے مطالعِ قمر کی حد بندی کی جاسکے؟ سابقہ سطور میں وضاحت کردی گئی ہے کہ مطلعِ قمر ہر ماہ تبدیل ہوتا ہے، لہٰذا اسے کسی ایک خطے کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا۔ امتِ واحدہ، پچاس سے زائد سیاسی وحدتوں میں تقسیم ہوچکی ہے، مگر ان مسلم ممالک کی موجودہ سیاسی حدود کی کوئی غیر متغیر و مستقل حیثیت نہیں، وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ۔ پھر وہ کونسی شےء ہے جس کی بنیاد پر مطالع کی حد بندی کی جائے؟ اختلافِ مطالع کے اعتبار کے قائل بعض علماء نے مسافتِ قصر اور بعض نے اقالیم (قدیم صوبے) کی حدود کو مطالع کی حد بندی کے لئے مناسب گردانا، حالانکہ ان دونوں تجاویز کی بنیاد کوئی عقلی و شرعی دلیل نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ ان تجاویز کے بارے فرماتے ہیں:

و کلاھما ضعیف فان مسافۃ القصر لا تعلق لھا با لہلال و اما الاقالیم فما حدد ذٰلک؟
’’ یہ دونوں تجاویز بودی ہیں، یقیناً مسافتِ قصر کا ہلال سے کوئی تعلق ہی نہیں، رہے اقالیم تو ان کی حدود کیا ہوں گی؟‘‘
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ج 25، ص 104)

اقالیم اسلامیہ کی حدود مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں اور ان حدود کا مطالعِ قمر سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ مطالع تو ہر ماہ بدلتے رہتے ہیں۔ غرض مطالع کی مستقل حدود کا تعین کسی طرح بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان حدود کا تعین کیا جائے گا تو وہ صراحتاً غلط ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ اختلافِ مطالع کے اعتبار کی کوئی عقلی و شرعی دلیل نہیں ہے۔

دوسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ امتِ واحدہ کے پچاس سے زائد خود مختار سیاسی وحدتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے اختلافِ مطالع کا اعتبار کیے بغیر چارہ نہیں، جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی، کسی ایک علاقے کی رؤیت کی بنا پر رؤیتِ ہلال کا متفقہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ استدلال نہایت کمزور اور بے وزن ہے۔ اگر امتِ مسلمہ کے جید علما ء ایکا کرلیں کہ وہ اصل حکمِ شرعی کے مطابق ایک متفقہ قمری تقویم اپنائیں گے، تو کونسی قوت ہے جو انہیں اس نیک ارادے سے باز رکھ سکے؟ کیا علاقائی رؤیت کا اعلان کرنے والے انہی علماء میں سے نہیں ہیں؟ کیا وہ احکام جو خلافت سے متعلق ہیں ، قیامِ خلافت تک معلق و معطل رکھے جائیں گے؟ مثلاً نظامِ صلوٰۃ ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حج، نظامِ جہاد اور نظامِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ قیامِ خلافت تک معطل رہیں گے؟ اگر یہ سب احکامِ شرع معطل نہیں کیے جاسکتے، تو ایک ہی دن عیدیں منانے اور ایک ہی دن رمضان کا آغاز کرنے کے حکم کو ہی کیوں معطل کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامز کی موجودگی میں متفقہ قمری تقویم اپنانا جس قدر سہل ہے، ماضی میں اس حکمِ شرع پر عمل کرنے میں اس قدر سہولت نہ تھی۔ پھر بھی ہمارے اسلاف نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا، آخر آج کیوں نہیں؟

تیسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کرہ ارض پر کسی بھی مخصوص وقت پر ہمیشہ دو دن ہوتے ہیں، مثلاً نصف کرہ شرقی میں جمعہ اور نصف کرہ غربی میں جمعرات۔ لہٰذا اہلِ اسلام ایک ہی دن عیدیں مناسکتے ہیں نہ ایک ہی دن روزے رکھ سکتے ہیں۔ اس اشکال کا سبب جغرافیہ سے ناواقفیت ہے۔ یہ درست ہے کہ کرہ ارض پر ایک ہی وقت پر دو مختلف دن ہوتے ہیں ،جس کا اصل سبب زمین کی کروی شکل اور اس کی محوری حرکت ہے۔ دراصل مشرق میں دن پہلے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں بعد میں ۔ جب مغرب میں ایک دن کا سورج غروب ہورہا ہوتا ہے ، اسی لمحے مشرق میں اگلا دن طلوع ہورہا ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود دنیا میں کسی بھی مقام پر ایک ہی دن میں دو مختلف شمسی تاریخیں نہیں ہوتیں۔ یہ تو ہوتا ہے کہ مشرق میں جمعہ کو پانچ جنوری ہے تو مغرب میں جمعرات کو چار جنوری۔ یہ نہیں ہوتا کہ دنیا کے کچھ مقامات پر جمعہ کو چار تاریخ ہو اور کچھ مقامات پر جمعہ کو ہی پانچ تاریخ ہو۔ بعینہٖ قمری تقویم میں بھی اصولاً ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمعہ کو کچھ مقامات پر یکم شوال ہو، کچھ مقامات پر انتیس رمضان ہو اور کچھ مقامات پر تیس رمضان۔ ایسا ماننا بداہتاً غلط ہے اور دین کا مذاق اڑانے کے لئے جواز فراہم کرنا ہے۔ پس کرّۂ ارض پرمشرق و مغرب میں ایک ہی وقت میں دو مختلف دن اورمختلف تاریخوں کا ہونا اور شئے ہے، جبکہ ایک ہی دن دو یا تین مختلف تاریخوں کا ہونا اس سے با لکل متغائر ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار

رہی یہ بات کہ متفقہ قمری تقویم اپنانے کی عملی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ کرہ ارض کا جغرافیائی مرکز اور امتِ مسلمہ کا قبلہ وروحانی مرکز ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بلند کلاک ٹاور تعمیر کیا گیا ہے، مکہ کلاک ٹاور کی سب سے اوپر والی منزل پر پہلے سے رؤیتِ ہلال کا مرکزی دفتر قائم ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اہلِ اسلام کی مجالسِ رؤیتِ ہلال بھی پہلے سے کام کرہی ہیں، جہاں ایسی مجلس موجود نہیں وہاں بنائی جاسکتی ہے۔ ان تمام ممالک کی مجالسِ رؤیتِ ہلال کے مکمل کوائف مکہ کی مرکزی مجلسِ رؤیتِ ہلال کے پاس کمپیوٹرمیں فیڈ کیے ہوں، تاکہ منٹوں میں ان کی پڑتال کی جاسکے اور کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی سے بچا جاسکے۔ تمام مجالس ، رؤیتِ ہلال کے بارے اپنی رپورٹیں مرکزی مجلس کو انٹرنیٹ پر نیٹ میٹنگ اور ای میل کے ذریعے، نیز فیکس کے ذریعے تصدیق شدہ دستاویزات کی شکل میں ارسال کریں۔ جب دنیا کے کسی علاقے میں ہلال نظر آنے کی مصدقہ شہادتیں مل جائیں تو مرکزی مجلسِ رؤیتِ ہلال مکہ مکرمہ ، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر اس کا اعلان کردے۔ یوں امتِ مسلمہ ایک ہی دن روزے رکھنے کا آغاز کرنے اور ایک ہی دن عیدیں منانے کے قابل ہو جائے گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو اتفاق واتحاد کا اصول اپنانے اور تمام گروہی و علاقائی تعصبات ترک کرکے فی الواقع امتِ واحدہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[SUP]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/SUP]
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

نیچے ایک لنک ھے جو تجربہ کے لئے موذوں ھے ہر دلچسپی رکھنے والا ممبر اس پر خود تجرباتی طور پر اسے سائٹیفک طریقہ سے بھی سمجھ سکتا ھے۔


چاند کے متعلق (ہلال و قمر) مرحلہ وار پیمائش کی نقال جو تربیت کے لئے تیار کی گئی، نیچے دی گئی تصویر کے مطابق اسے سیٹ کریں پھر نمبر 3 پر سٹارٹ کریں اور خود اپنی آنکھ سے مشاھدہ کریں۔













چاند کا سائیکل مکمل ہونے پر ہمیں 29 دن اور 11 گھنٹے کی ریٹنگ سامنے نظر آ رہی ھے (منٹ اور سیکنڈ ہیں مگر اس پروگرام میں سیٹ نہیں کئے گئے)

29 کی رات یا 30 کی۔

والسلام
[SUP]محترم شعبان نظامی صاحب، سلام علیکم

آپکی حوصلہ افزائی پر تہہ دل سے آپکا ممنون ہوں۔ میں نے اپنے گذشتہ مراسلہ میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میں کوئی باقائدہ مضمون نگار نہیں ہوں مجھے زندگی میں کبھی مضامین لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔اسی لئے میرے مراسلوں میں آپ کو اکثر بےربطی بھی محسوس ہوتی ہو گی۔ بہرحال جو کچھ بھی معروضات میں نے اب تک پیش کی ہیں ان کا زیادہ credit بھائی کنعان کو ہی جاتا ہے جن کے مراسلوں میں موجود نکات پر ہی زیادہ تر تبصرہ کیا ہے۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی شرکت سے ہی شاید ہم کسی منطقی نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

خطبات بہاولپور میں نے پڑھے ہیں میرے پاس اس کا 1992 کا ایڈیشن جو کہ چوتھی اشاعت ہے موجود ہے۔ اس کے مطابق آپ نے جو صفحہ نمبر کاحوالہ دیا ہے وہ مختلف ہے میرے ایڈیشن میں آپکے دئے گئے حوالہ کا پیراگراف نمبر 332 اور صفحہ نمبر339 ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ زیادو تر معاملات میں مجھے قطعاً متاثر نہیں کر سکے۔ انھوں نے بےشمار موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے مگر زیادہ تر ان کی تقریریں محض شعلہ بیانی کے زمرے میں آتی ہیں۔اور شعلہ بیانی میں دلیل سے کم سے کم کام لیا جاتا ہے۔

جن نکات کا آپ نے ان کی تقریر سے حوالہ دیا ہے ان کے لئے صرف یہی کہوں گا کہ کیونکہ مسلمانوں نے اس بات کو اپنے مذہبی عقیدہ کی حیثیت دی ہوی ہے کہ قمری تقویم اسلامی تقویم ہے اس لئے کسی نہ کسی طرح گھما پھرا کر تک بندیاں کرتے ہوئے اس کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح ڈاکٹر صاحب بھی یہی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً جس بات کو وہ قمری نظام کی خوبی بیان کر رہے ہیں وہ تو دراصل اس کی ایک بہت بڑی خامی ہے۔ اور اس خامی کو خوبی تسلیم کر کے ہم صرف خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ موصوف نے فرمایا کہ شمسی سال سے قمری سال گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے لہٰذاتیس سال میں حکومت شمسی حساب سے تیس مرتبہ ٹیکس وصول کرے گی جبکہ قمری حساب سے اکتیس مرتبہ ٹیکس کی وصولی کر سکے گی۔ اس فارمولہ کے صحیح قدردان ہمارے ملک کے زرداری نما سیاستدان تو ہو سکتے ہیں مگر اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ موصوف بھی دراصل یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کا حق عوام سے صرف ٹیکس لینا ہی ہے اور ٹیکسوں کے عوض میں کوئی ذمہ داری حکومت پر عائد نہیں ہوتی۔ ان کو 30 سال میں 31 سال کے ٹیکس کی وصولیاں تو نظر آگئیں مگر تیس سال میں اکتیس سال کی تنخواہیں اور دوسری ادائیگیاں نظر نہ آسکیں اسی طرح کیونکہ ہمارا ملک زراعت پر انحصار کرتا ہے اور زیادہ تر آمدنی بھی زراعت سے ہی حاصل ہوتی ہے چنانچہ تیس سال کی پیداواروں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اکتیس سال کا بجٹ کسطرح بن سکے گا یہ بھی ان کو کیونکر نظر آسکتا تھا ۔دوسری بات یہ کہ ٹیکسوں کا دارومدار تو آمدنی پر ہے 355 دن کی امدنی پر 355 دن ہی کا ٹیکس ملے گا اور 365 دن کی آمدنی پر365 دن کے حساب سے ہی ٹیکس ملے گا۔ چناچہ ان کی اس تقریر پر جرمنی کے لوگوں نے یقیناً ان کی عقل پر ماتم ہی کیا ہو گا اور امریکہ اور روس کے لوگ اتنے احمق بہرحال نہیں ہیں کہ اتنی معمولی سی بات ان کی سمجھ میں نہ آسکے۔[/SUP]
اگلا مراسلہ دانشجیو کے لئے خاص تھا کیونکہ وہ امریکہ میں مقیم ہیں اس لئے یہ بھی جواب انہیں دینا ضروری تھا۔

السلام علیکم

دانشجو بھائی قمری مہینہ پر آپ جو 365 سے ٹیکس پر اپنے رائے پیش کر رہے ہیں تو میرا اندازہ جو غلط بھی ہو سکتا ھے کہ آپ پریکٹیکل کچھ باتوں پر معلومات نہیں، ترقی یافتہ عرب ممالک میں ٹیکس نام کی کوئی چیز نہیں۔ اور یقیناً دوسرے عرب ممالک میں بھی ٹیکس نہیں ہو گا۔ جن ممالک میں ٹیکس ھے۔

اکاؤنٹس پر برطانیہ اور امریکہ کا اکاؤنٹس سسٹم الگ الگ ھے اور پوری دنیا میں اکاؤنٹس پر کس ملک میں برطانوی سسٹم ھے اور کسی میں‌ امریکی سسٹم اس پر مجھے اتنا معلوم ھے، پھر جیسا آپ یو۔ ایس۔ اے میں ہیں اور 365 دن اور ٹیکس پر وہاں کا آپ بہتر جانتے ہوں مگر برطانیہ کے حوالہ سے میں آپ کو اس پر معلومات جو ہیں وہ بتا دیتا ہوں۔

  • سال میں دن 365 ہوں یا لیپ سے 366،
  • ریوینیو ڈپارٹمنٹ کا سال 6 اپریل سے شروع ہوتا ھے۔
  • ٹیکس ارننگ پر ھے 365 دنوں پر نہیں۔
  • جیسے یہاں 365 یا 366 دن کا ٹیکس نہیں ہوتا، بلکہ گراس 100 پاؤنڈ پر پہلے قریب 20 پاؤنڈز ھے یعنی 20 فیصد۔
  • حکومت کی طرف سے ایک ہفتہ کے 39 سے 40 گھنٹہ ہیں اور ایگریمنٹ پر 40 گھنٹہ کی جو تنخواہ بنتی ھے اس پر 20 فیصد ایک قسم کا ٹیکس ھے اور اگر اوور ٹائم کریں تو پھر اس پر ڈپینڈ کرتا ھے کتنا اوور ٹائم ھے تو ٹیکس 100 پر 20 سے بڑھنا شروع ہو جاتا ھے۔
  • اب ایک ہفتہ میں کام کرنے والا کی مرضی ھے اگر اسے کمپنی اوور ٹائم مہیا کرتی ھے تو وہ چاہے تو 70 گھنٹہ تک ایک ہفتہ میں کام کرے یا کم تنخواہ اسے گھنٹوں کے حساب سے ملتی ھے دنوں کے حساب سے نہیں۔ اور گھنٹے 40 سے تجاوز کرنے پر ٹیکس کی اماؤنٹس بھی بڑھتی جاتی ھے۔
  • 365 دن کا سال ھے جس میں 52 ہفتہ اور 1 دن بنتا ھےاور اگر 366 دن ہوں تو پھر 52 ہفتہ اور 2 دن بنتے ہی۔
  • شمسی سال پر 365 و 366 دنوں میں 52 ہفتوں کے بعد باقی جو ایک یا دو دن ہیں ان کا شمار اگلے ہفتہ میں ہوتا ھے۔ خیال رہے ریوینیو کا سال 6 اپریل سے شروع ہوتا ھے اس پر بھی جو باقی دن ہیں وہ اگلے ہفتہ میں شمار کئے جائیں گے۔
  • یہی قانون کاروبار پر بھی ھے۔ چھوٹے کاروبار کرنے والے اس پر انہیں ایک اکاؤنٹنٹ کرنا پڑتا ھے جسے ایک سال کا انہوں نے فکس کیا ہوتا ھے کہ اسے اتنی فیس دیں گے اور پھر اسے بتایا جاتا ھے کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اکاؤنٹنٹ کا کام ھے ایک سال بعد ان کی سیل پر کتنا نفع نقصان ہوا اس سے وہ رپورٹ تیار کر کے ریوینیو کو دینی پڑتی ھے اس پر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
  • بڑے پیمانہ پر بھی ایسا ہی نفع نقصان، آڈٹ تیار ہوتا ھے اور مزید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
  • ٹیکس کا تعلق 365 دنوں سے نہیں بلکہ آپ جو ارننگ کر رہے ہیں اس پر ھے۔
  • ٹیکس دنوں پر اگر ہو تو اس پر کسی بھی طرح کوئی لاجک سمجھ نہیں آتی کیونکہ یہاں پر جاب کا ملنا اور چھوٹنا، کاروبار کا سٹارٹ ہونا اور بند ہونا یہ کسی بھی دن اور مہینہ میں‌ ہو سکتا ھے اور یہاں پر ایسا ہی ھے۔
  • جب جاب شروع ہو تو اور جب ختم ہو اس پر جتنے گھنٹے کام کام کیا ھے اور جب جاب ختم ہوئی اس ہفتہ میں جتنے گھنٹے کام کیا ھے اس پر ٹیکس تو دینا پڑے گا مگر جاب شروع ہونے کے ایک مہینہ تک کونسل کی طرف سے کرایہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی گھر کا ٹیکس لیا جاتا ھے وہ فری میں ھے اس پر اتنی ہی معلومات بہت ھے۔

اس سے پہلے بھی آپ نے ایک مراسلہ میں ذکر کیا ہوا ھے کہ رقم ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجیں اور بھیجنے کی تاریخ اور ملنے کی تاریخ سے بھی کلیم کا ہونا تو میرے بھائی اس پر بھی تھوڑی سی معلومات وہ یہ ھے

  1. کہ میں یا آپ رقم ہنڈی میں بھیجیں یا پے۔ پال، ویسٹرن یونین، بینک، ٹریویل ایجنسیز یا اس کے علاوہ اپنے پسندیدہ منی چیینجرز سے ان سب پر قانون بنے ہوئے ہیں، جو رقم میں یا آپ آج جمع کروائیں گے اس پر آج جو ریٹ ہو گا وہ پہلے بتا دیا جاتا ھے اسی کے مطابق ہمیں رسید دی جاتی ھے اور جو رقم اس رسید پر لکھی گئی ھے وہ ایجنسی کے وعدہ کے مطابق بھلہ 24 گھنٹہ کے اندر ہو یا 10 دن کے اندر، ڈالر کا ریٹ بڑھے یا کام ہو، وہی اماؤنٹس پاکستان میں یا جہاں بھیجی گئی ھے اتنی ہی ملے گی جو بھیجنے والے کو اس وقت بتائی گئی تھی۔ اس میں تاریخوں پر کوئی افیکٹس نہیں۔
  2. اس پر اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ نے کنزیومر کی بات نہیں کی ایک ملک سے دوسرے ملک کے بروکر، ایجنسی سے کی ھے تو محترم برادر اس پر ان دونوں کا آپس میں کوئی معاہدہ تو ہو گا اور وہ اسی معاہدہ سے ہی آپس میں کام کر رہے ہونگے اس میں بھی تاریخوں کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ ایک ملک میں یا ایک سے دوسرے ملک میں جو بھی کاروبار ہوتے ہیں وہ دونوں کے آپس میں شرائط جن پر وہ متفق ہوتے ہیں انہی کے تحت عمل میں لائے جاتے ہیں۔

باقی میں نے جو مراسلہ لکھنا ھے جس پر میں نے کہا تھا اس پر ریگولر وقت چاہئے اس لئے اس پر تھوڑا وقت درکار ھے۔

والسلام


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

عبید اور شعبان بھائی 29.53 دن پر جو کنفیوژن تھی اس پر آپکی دلچسپی کے لئے بمشکل وقت نکالنا پڑا، عبید بھائی کو شائد کچھ مشکل پیش آئے کیونکہ اکیڈمک لیول کی وجہ سے تبصرہ کم ہو گا مگر پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور شعبان بھائی کو اس پر سمجھنے میں آسانی ہو گی باقی دانشجو بھائی کے بارے میں کچھ بھی کہنا مناسب نہیں۔


يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
البقرة: 189
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔

صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھو، اگر چاند نہ دیکھ سکو تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کرلو
رواه البخاري

[SUP]کنعان کے لئے۔۔۔

قمر یعنی چاند جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے اور جس کی گردش کو مسلمان خصوصیت سے ایک مہینہ سے تعبیر کرتے ہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ چاند زمین کے گرد اپنے دور اصلی میں27 دن7 گھنٹے 42 منٹ اور 11 سیکنڈ میں اپنا ایک دور مکمل کرتا ہے جسے sidereal revolution بھی کہا جاتا ہے
لیکن اس عرصے میں کیونکہ زمین سورج کے گرد اپنے مانے ہوئےدور کے تقریباً 28 درجے طے کر چکی ہوتی ہے چنانچہ اس زائد فاصلے کو جسے synodic revolution بھی کہا جاتا ہے طے کرنے میں اور بالفاظِ دیگر چاند کو حدِرویت پر آنے کے لئے مزید دو دن درکار ہوتے ہیں چنانچہ وہ 29 دن 12 گھنٹے اور 44 منٹ اور 3 سیکنڈ میں دوبارہ حدِ رویت پر آجاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوے کہ چاند زمین کے گرد حقیقتاًتو 322۔27 دن میں اپنا دور مکمل کرلیتا ہے مگر اس کے اس دور کو نہ کوئی مہینہ ہی تسلیم کرتاہے اور نہ سال مگر اس کے زائد طے کیے ہوئے دور کو مسلمان مہینہ تسلیم کرتے ہیں چنانچہ چاند کے اس حقیقی دور کی مدت کو اگر 355 دن پر تقسیم کیا جائے تو 993۔12 یعنی 13 دور بنتے ہیں یعنی جن 354 یا 355 دن میں چاند ہم اہل زمین کو اپنے 12 چکر مکمل کرتا نظر آتا ہے اسی مدت میں درحقیقت اپنے پورے 13 چکر مکمل کر چکا ہوتا ہے۔چنانچہ جس نظام میں 13 چکروں سے 12 مہینے برامد ہوتے ہوں اس کو فطری نظام کہنا اور پھر
اس نظام کو اللہ کی ذات سے منسوب کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔

Sidereal and Synodic Months

The Sidereal and Synodic Months

The sidereal month is the time the Moon takes to complete one full revolution around the Earth with respect to the background stars. However, because the Earth is constantly moving along its orbit about the Sun, the Moon must travel slightly more than 360° to get from one new moon to the next. Thus, the synodic month, or lunar month, is longer than the sidereal month. A sidereal month lasts 27.322 days, while a synodic month lasts 29.531 days. [/SUP]
پہلے ہم دیکھتے ہیں یہ Sidereal Month and Synodic Month کا مطلب کیا بنتا ھے۔ تاکہ جو کنفیوژن سمجھنے میں موصوف کو ہوئی وہ باقی ممبران کو نہ ہو ہم ایک ترتیب سے آگے بڑھیں گے۔

Sidereal Month: ماہ نجمی، ستاروں کے ذریعے متعین ہونے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Synodic Month: ماہ قمری ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیش کئے گئے مراسلوں میں قمری مہینہ پر ہماری گفتگو ھے، نجمی پر نہیں پھر بھی دونوں پر بتانے کی کوشش کریں گے۔

synodic revolution قمری انکشاف: یہ انکشاف نہیں بلکہ اس پر 1400 سال پہلے ہی فرما دیا گیا کہ
صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين


نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں
36:40


  • مدار کو سمجھنے کے لئے اس تصویر کا مشاھدہ کریں۔ اس میں چاند کی تصویر ھے اور اس کے مرکز میں ایک تیر کے نشان نیچے کی جانب ھے سے واضع کیا گیا ھے وہ اس کا مدار/ مرکز ھے۔
    [*]اس کے اندر سٹارٹنگ اور اینڈنگ کے اندر ایک پوائنٹ ھے جسے پیلے رنگ سے واضع کیا گیا ھے اور جب ہم اس گلوب نما چاند کے گھمائیں گے تو وہ پوائنٹ/ نشان پورا گھوم کر پھر ہمارے سامنے آئے گا اسے مدار کا ایک چکر کہیں گے۔

مدار پر مزید سمجھنے کے لئے ایک اور اینیمیشن دیکھیں۔


اس میں دکھایا گیا ھے زمین اپنے مدار کے گرد گھوم رہی ھے۔ خیال رہے چاند اور زمین پر الگ الگ اپنے مدار میں گھومنے پر یہاں دکھایا گیا ھے۔ جب تک مدار میں گھومنا سمجھ نہیں آئے گا مزید آگے سمجھنے میں مشکل ہو گی۔



سب سے پہلے ہم یہاں ایک کلپ ھے دانش بھائی کو اسے کھولتے ہیں۔ یہاں چاند کی 6 حالتیں دکھائی گئی ہیں اس میں‌ پہلی 4 حالتوں میں نمبر2 اور 4 پر ہم مشاھدہ کریں‌ گے نیچے دی گئی تصاویر کے مطابق پہلی تصویر میں دو سنیپ اکٹھے کئے گئے ہیں اس کے بعد اگلی میں تیسری اور چوتھی حالت ھے۔



اس میں Sidereal Month نمبر 2 پر دیکھیں سورج کہاں پر ھے جبکہ زمین اور چاند سے آگے کی پوزیشن دیکھیں کہاں ھے


یہاں تصویر نمبر 4 میں Synodic Month پر زمین، چاند اور سورج ایک پوزیشن میں ہیں۔

-------------​

یہاں ایک کلپ ھے اس پر کلک کرنے سے ایک تصویر سامنے آئے گی پھر اس تصویر پر کلک کریں تو کلپ چلنا شروع ہو جائے گا اسے دیکھیں۔​

زمین اپنے مدار میں گھوم رہی ھے، چاند اپنے مدار پر بھی ھے اور زمین کے گرد بھی چکر لگا رہا ھے۔

چاند کا اپنے مدار پر چکر زمین کے گرد گھومتے وقت 3۔27 دن میں مکمل ہوتا ھے مگر چاند کا مکمل چکر زمین کے گرد 5۔29 دن میں‌ مکمل ہوتا ھے۔



چاند کا زمین کے گرد کا ایک چکر مکمل ہونے سے پہلے اس کا مدار 3۔27 دن میں مکمل ہوتا ھے۔


چاند کا زمین کے گرد ایک مکمل چکر 5۔29 دن میں‌ مکمل ہوتا ھے


Sidereal Month ماہ نجمی : چاند کا زمین کے گرد چکر کے دوران اپنا مدار جب 3۔27 دن میں پورا ہوتا ھے تو اس وقت زمین - چاند - ستارہ ایک سیدھ/ سمت میں ہوتے ہیں۔

Synodic Month قمری مہینہ: چاند کا زمین کے گرد مکمل چکر 5۔29 دن میں جہاں مکمل ہوتا ھے اس
وقت زمین - چاند ۔ سورج ایک ہی سیدھ/ سمت میں سامنے ہوتے ہیں۔

مزید جاننے کے لئے اگلی تصاویر کا مطالعہ بھی کر لیں۔





امید کرتا ہوں‌ یہاں‌ تک ماہ نجمی اور ماہ قمری کیا اور کیوں ھے اس کی سمجھ آ گئی ہو گی۔


امید کرتا ہوں ماہ نجمی اور ماہ قمری کی سمجھ آ گئی ہو گی، اگر کوئی بھی بھائی اس پر مزید جانتا ہو تو وہ بھی اپنی مفید رائے پیش کر سکتا ھے، یا اس کے علاوہ کوئی بھی مراسلہ لگا سکتا ھے تعاون کا شکریہ

والسلام
[SUB]اختتام[/SUB]
 
Top