- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چھڑا رہے ہیں تجھ سے جان، میری جان! مگر آہستہ آہستہ
اردو کوئی اتنی قدیم زبان تو نہیں۔مگر اردو برصغیر میں مسلمانوں کی جان ہے!
ہمارے مدارس کی تدریسی زبان زمانہ دراز سے اردو رہی ہے، پورے برصغیر میں اردو کو مسلمانون کی زبان سمجھا جاتا رہا، حالانکہ زبان کسی کسی قوم یا کسی مذہب کے پیروکاروں کی نہ میراث ہوتی ہے نا جاگیر!
ایسا نہیں کہ اردو زبان سے محبت کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں!ہندو ، سکھ وغیرہ بھی ہیں!مگر اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان ہی متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی پہلی بنیاد بنی، کہ جب ہندؤں نے ہندی کو متحدہ ہندوستان کی سرکاری زبان قرار دینے کی مہم جوئی کا آغاز کیا!
عربی کے بعد جن چند زبانوں میں اسلامی کتب کا اجراء کیا گیا، اس میں اردو صف اول میں نظر آتی ہے!
پہلا نمبر شاید کسی زمانے میں فارسی کا رہاہو، مگر اب تو فارسی میں رفض کا پرچار حاوی ہے! یا شاید ترکی زبان میں اسلامی کتب کسی زمانے میں زیادہ ہوں!
مگر وہ کتب جو کسی زمانے میں ترکی زبان میں اسلامی عقائد و افکار کا پرچار کرتی تھیں، کیا اب وہ کتب ترکی کے باشندے پڑھ بھی سکتے ہیں!
ہاے افسوس! کہ ان کتب کا اب کوئی وارث نہیں! نہ انہیں پڑھنے والا کوئی اور نہ ہی ان کی اشاعت کرنے والا کوئی!
یہ اسلامی کتب ہی نہیں بلکہ ترکی زبان کا پورا ادب یتیم ہو گیا!
یہ ہوا کیوں؟ اور ایسا کیسے ہوگیا؟
بات اتنی سی ہے کہ ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کرکے اسے رومن رسم الخط بنا دیا گیا!
اور یہی نہیں، جب ترکی زبان کا رسم الخط رومن نہ تھا، بلکہ عربی کی طرح تھا، ترکی زبان بولنے لکھنے والے باشندوں کو عربی زبان سیکھنا ، پڑھنا اور لکھنا بھی آسان تھی!
مگر اب کیا ہے؟ عربی زبان ان ترکی باشندوں کے لئے اجنبی ہو گئی!
وہی لفظ جو ترکی بولنے والے اپنی زبان سے ذرا تغیر تلفظ کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اسے عربی زبان میں پڑھ بھی نہیں سکتے! خواہ وہ انتہائی اعلی درجہ کے تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں!
یہ سب ترکی زبان کے رسم الخط کو رومن میں تبدیل کرنے کا خمیازہ ہے!
ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنی پیاری ، میٹھی خوبصورت، زبان کے ساتھ یہی کرنا چاہتے ہیں؟
ہائے ، خط نستعلیق ، کہ جو خوبصورتی کا استعارہ قرار پایا!
کیا ہم اس خوبصورتی کو اپنے ہاتھوں اجاڑنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم بھی اپنی آنے والی نسل کو اردو ادب کی کتب سے مستفید ہونے کا باب بند کرنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم اپنی آنے والے نسل کو عربی زبان سے اس قدر دور لے جانا چاہتے ہیں کہ جیسے اب ترکی زبان والے ترکی کے باشندے ہیں؟
اردو زبان میں بہت وسعت ہے، اس وسعت کا بے جا فائدہ اردو زبان کی اس وسعت کو خوبی کے بجائے اس کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے!
جہاں ممکن نہ ہو وہاں اگر رومن میں لکھ دیا جائے تو قابل برداشت ہے، لیکن کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ ہر جگہ اردو کو اردو کے رسم الخط میں ہی لکھا جائے!
میں بھارت کے باشندوں کی مجبوری سمجھتا ہوں، مگر انہیں اپنی اس مجبوری کی وجہ سے رومن میں اردو لکھ کر ''جگاڑ'' سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ انہیں چاہیئے کہ وہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھیں! خاص کر بھارت کے مسلمان!
یاد رہے کہ اردو زبان برصغیر کے مسلمانوں کے تشخص کی ایک علامت ہے! اپنے تشخص کا سودا نہ کیجئے!
خدا را اردو کو رسوا نہ کیجئے!چھڑا رہے ہیں تجھ سے جان، میری جان! مگر آہستہ آہستہ
اردو کوئی اتنی قدیم زبان تو نہیں۔مگر اردو برصغیر میں مسلمانوں کی جان ہے!
ہمارے مدارس کی تدریسی زبان زمانہ دراز سے اردو رہی ہے، پورے برصغیر میں اردو کو مسلمانون کی زبان سمجھا جاتا رہا، حالانکہ زبان کسی کسی قوم یا کسی مذہب کے پیروکاروں کی نہ میراث ہوتی ہے نا جاگیر!
ایسا نہیں کہ اردو زبان سے محبت کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں!ہندو ، سکھ وغیرہ بھی ہیں!مگر اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان ہی متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی پہلی بنیاد بنی، کہ جب ہندؤں نے ہندی کو متحدہ ہندوستان کی سرکاری زبان قرار دینے کی مہم جوئی کا آغاز کیا!
عربی کے بعد جن چند زبانوں میں اسلامی کتب کا اجراء کیا گیا، اس میں اردو صف اول میں نظر آتی ہے!
پہلا نمبر شاید کسی زمانے میں فارسی کا رہاہو، مگر اب تو فارسی میں رفض کا پرچار حاوی ہے! یا شاید ترکی زبان میں اسلامی کتب کسی زمانے میں زیادہ ہوں!
مگر وہ کتب جو کسی زمانے میں ترکی زبان میں اسلامی عقائد و افکار کا پرچار کرتی تھیں، کیا اب وہ کتب ترکی کے باشندے پڑھ بھی سکتے ہیں!
ہاے افسوس! کہ ان کتب کا اب کوئی وارث نہیں! نہ انہیں پڑھنے والا کوئی اور نہ ہی ان کی اشاعت کرنے والا کوئی!
یہ اسلامی کتب ہی نہیں بلکہ ترکی زبان کا پورا ادب یتیم ہو گیا!
یہ ہوا کیوں؟ اور ایسا کیسے ہوگیا؟
بات اتنی سی ہے کہ ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کرکے اسے رومن رسم الخط بنا دیا گیا!
اور یہی نہیں، جب ترکی زبان کا رسم الخط رومن نہ تھا، بلکہ عربی کی طرح تھا، ترکی زبان بولنے لکھنے والے باشندوں کو عربی زبان سیکھنا ، پڑھنا اور لکھنا بھی آسان تھی!
مگر اب کیا ہے؟ عربی زبان ان ترکی باشندوں کے لئے اجنبی ہو گئی!
وہی لفظ جو ترکی بولنے والے اپنی زبان سے ذرا تغیر تلفظ کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اسے عربی زبان میں پڑھ بھی نہیں سکتے! خواہ وہ انتہائی اعلی درجہ کے تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں!
یہ سب ترکی زبان کے رسم الخط کو رومن میں تبدیل کرنے کا خمیازہ ہے!
ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنی پیاری ، میٹھی خوبصورت، زبان کے ساتھ یہی کرنا چاہتے ہیں؟
ہائے ، خط نستعلیق ، کہ جو خوبصورتی کا استعارہ قرار پایا!
کیا ہم اس خوبصورتی کو اپنے ہاتھوں اجاڑنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم بھی اپنی آنے والی نسل کو اردو ادب کی کتب سے مستفید ہونے کا باب بند کرنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم اپنی آنے والے نسل کو عربی زبان سے اس قدر دور لے جانا چاہتے ہیں کہ جیسے اب ترکی زبان والے ترکی کے باشندے ہیں؟
اردو زبان میں بہت وسعت ہے، اس وسعت کا بے جا فائدہ اردو زبان کی اس وسعت کو خوبی کے بجائے اس کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے!
جہاں ممکن نہ ہو وہاں اگر رومن میں لکھ دیا جائے تو قابل برداشت ہے، لیکن کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ ہر جگہ اردو کو اردو کے رسم الخط میں ہی لکھا جائے!
میں بھارت کے باشندوں کی مجبوری سمجھتا ہوں، مگر انہیں اپنی اس مجبوری کی وجہ سے رومن میں اردو لکھ کر ''جگاڑ'' سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ انہیں چاہیئے کہ وہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھیں! خاص کر بھارت کے مسلمان!
یاد رہے کہ اردو زبان برصغیر کے مسلمانوں کے تشخص کی ایک علامت ہے! اپنے تشخص کا سودا نہ کیجئے!
Last edited: