• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چہرے کا پردہ

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
چہرے کا پردہ

سرفراز فیضی
چہرے کا نقاب ابتداء سے فقہاء کے درمیان اختلاف کا موضوع رہا ہے ۔ خود صحابہ کرام کی آراء چہرے کے نقاب کے تعلق سے مختلف رہی ہیں ۔ فقہ اور تفسیرکی کتابوں میں اس اختلاف کی تفصیلات موجود ہے ۔مغرب کی حجاب مخالف تحریک کے حامی ہمارے بعض متجددین اس اختلاف کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اور نقاب کو اسلام مخالف لباس ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں نقاب پر پابندی کے بعد کئی مسلم دانشوران اپنی باطل فکر کے اثبات کے لیے نقاب کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا حوالہ دیتے بھی دکھائی دیے ۔ سردست ہمارا مقصود اس اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے بعض حقائق کی توضیح اور بعض شبہات کی تردیدہے ۔
۱:یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ کسی چیز کے بارے میں محض اختلاف ہونا اس کے جائز اور صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کے لیے واجب قرار دیا گیا ہے کہ کسی مسئلہ میں جب اختلاف ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب لوٹائیں ۔
(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۲: نقاب کو لے کر فقہاء میں جو بھی اختلاف ہے وہ نقاب کے وجوب سے متعلق ہے ۔ نقاب کے استحباب پر کبھی امت کے علماء و فقہاء میں اختلاف نہیں رہا ۔ جو علماء نقاب کے وجوب کے منکر ہیں ان کا موقف بھی یہی ہے کہ عورت کے کی عزت و وقار کے تحفظ کے لیے نقاب زیادہ مناسب لباس ہے ۔
۳:جن فقہاء نے چہرے اور ہتھیلی کو کھلارکھنے کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہ شرط عائد کی ہے کہ چہرے یا ہتھیلی پر کوئی زینت کا سامان نہ ہو۔ اگر چہرے یا ہتھیلی پر کسی قسم کی زینت کی گئی ہوتو اس کا چھپانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے ۔
۴:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے متعلق یہ بات متحقق ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں۔ ازواج مطہرات کی زندگیاں اور ان کا طرز معاشرت مسلمان خواتین کیلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں ان کی تزہیہ فرمائی اور ان کو اپنے عظیم رسول کی صحبت اور ازدواج کے لیے منتخب فرمایا ۔ ان کی زندگیاں اللہ کے نبی ﷺکی تربیت کی آئینہ دار ہیں ۔ انہوں نے قرآن کو نازل ہوتے دیکھا ہے ۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ حجاب کے متعلق قرآن کامدعا کیا ہے ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے ؟
۵:جو فقہاء چہرے کے پردہ کو مستحب سمجھتے ہیں وہ بھی مردوں کے لیے عورتوں کا چہرہ دیکھنا حرام ہی قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
یا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فإن لک الأولی ولیست لک الآخرۃ
اے علی نظر پڑ جانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں نظر پڑ جائے تو پھر اسکے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو ) کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر تو جائز ہے ( جبکہ اس میں قصد و ارادہ کو قطعًا دخل نہ ہو)مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ( احمد ترمذی ابوداؤد دارمی، شیخ البانی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے )
اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ گناہ کرنا اور گناہ کے کام پر تعاون کرنا دونوں حرام ہے ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
(تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون کرنے سے باز رہو (المائدۃ :۲)
اس اصول کے مطابق اگر کسی عورت کو یہ معلوم ہو کہ اس کے چہرہ کھلا رکھنے پر مرد اس کی طرف دیکھیں گے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کرے اور مردوں کے گناہ پر تعاون کرنے سے پرہیز کرے ۔ مبحث کی تعیین کے لیے ان پانچوں نکات کا سمجھنا ضروری ہے ۔ چہرہ کے پردہ کا وجوب ایک مستقل موضوع ہے جس پر ممکن ہے اپنے آئندہ کسی شمارے میں تفصیل سے بات کریں ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
چہرے کا پردہ

سرفراز فیضی
چہرے کا نقاب ابتداء سے فقہاء کے درمیان اختلاف کا موضوع رہا ہے ۔ خود صحابہ کرام کی آراء چہرے کے نقاب کے تعلق سے مختلف رہی ہیں ۔ فقہ اور تفسیرکی کتابوں میں اس اختلاف کی تفصیلات موجود ہے ۔مغرب کی حجاب مخالف تحریک کے حامی ہمارے بعض متجددین اس اختلاف کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اور نقاب کو اسلام مخالف لباس ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں نقاب پر پابندی کے بعد کئی مسلم دانشوران اپنی باطل فکر کے اثبات کے لیے نقاب کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا حوالہ دیتے بھی دکھائی دیے ۔ سردست ہمارا مقصود اس اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے بعض حقائق کی توضیح اور بعض شبہات کی تردیدہے ۔
۱:یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ کسی چیز کے بارے میں محض اختلاف ہونا اس کے جائز اور صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کے لیے واجب قرار دیا گیا ہے کہ کسی مسئلہ میں جب اختلاف ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب لوٹائیں ۔
(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۲: نقاب کو لے کر فقہاء میں جو بھی اختلاف ہے وہ نقاب کے وجوب سے متعلق ہے ۔ نقاب کے استحباب پر کبھی امت کے علماء و فقہاء میں اختلاف نہیں رہا ۔ جو علماء نقاب کے وجوب کے منکر ہیں ان کا موقف بھی یہی ہے کہ عورت کے کی عزت و وقار کے تحفظ کے لیے نقاب زیادہ مناسب لباس ہے ۔
۳:جن فقہاء نے چہرے اور ہتھیلی کو کھلارکھنے کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہ شرط عائد کی ہے کہ چہرے یا ہتھیلی پر کوئی زینت کا سامان نہ ہو۔ اگر چہرے یا ہتھیلی پر کسی قسم کی زینت کی گئی ہوتو اس کا چھپانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے ۔
۴:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے متعلق یہ بات متحقق ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں۔ ازواج مطہرات کی زندگیاں اور ان کا طرز معاشرت مسلمان خواتین کیلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں ان کی تزہیہ فرمائی اور ان کو اپنے عظیم رسول کی صحبت اور ازدواج کے لیے منتخب فرمایا ۔ ان کی زندگیاں اللہ کے نبی ﷺکی تربیت کی آئینہ دار ہیں ۔ انہوں نے قرآن کو نازل ہوتے دیکھا ہے ۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ حجاب کے متعلق قرآن کامدعا کیا ہے ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے ؟
۵:جو فقہاء چہرے کے پردہ کو مستحب سمجھتے ہیں وہ بھی مردوں کے لیے عورتوں کا چہرہ دیکھنا حرام ہی قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
یا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فإن لک الأولی ولیست لک الآخرۃ
اے علی نظر پڑ جانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں نظر پڑ جائے تو پھر اسکے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو ) کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر تو جائز ہے ( جبکہ اس میں قصد و ارادہ کو قطعًا دخل نہ ہو)مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ( احمد ترمذی ابوداؤد دارمی، شیخ البانی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے )
اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ گناہ کرنا اور گناہ کے کام پر تعاون کرنا دونوں حرام ہے ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
(تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون کرنے سے باز رہو (المائدۃ :۲)
اس اصول کے مطابق اگر کسی عورت کو یہ معلوم ہو کہ اس کے چہرہ کھلا رکھنے پر مرد اس کی طرف دیکھیں گے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کرے اور مردوں کے گناہ پر تعاون کرنے سے پرہیز کرے ۔ مبحث کی تعیین کے لیے ان پانچوں نکات کا سمجھنا ضروری ہے ۔ چہرہ کے پردہ کا وجوب ایک مستقل موضوع ہے جس پر ممکن ہے اپنے آئندہ کسی شمارے میں تفصیل سے بات کریں ۔

السلام علیکم۔
سورۃ الاحزاب آیت ٥٩ کا درست ترجمہ یہ ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلاَبِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلاَ يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا(الاحزاب 59)

"اے نبی کہہ دے اپنی ازواج اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کے لئے کہ وہ اپنے اوپر چوغوں (گاؤن) سے بنیاد بنالیں۔ یہ بنیاد ہے کہ وہ پہچان لی جائیں، پس وہ ستائی نہ جائیں۔ اور اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔"

"جلابیب کا مطلب چوغہ (انگلش میں گاؤن) ہوتا ہے۔ "

"چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ ( یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ آیت میں نہ تو چہرے کا زکر ہے اور نہ ہی گھونگھٹ کا۔ حیرت ہے آپ لوگ آیت میں لکھی ہوئی عربی کیوں نہیں دیکھتے)




چہرا کھلا ہونے کا جواز درج زیل آیات سے بھی ملتا ہے۔


"فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿٢٧﴾

" پس وہ (مریم) اس کو اٹھائے اس کے ساتھ اپنی قوم کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا اے مریم تحقیق تو گڑھی ہوئی شے کے ساتھ آئی"

(مریم علیہ سلام کو قوم نے پہچان لیا اگر ان کا چہرہ چھپا ہوتا یا صرف ایک آنکھ نظر آرہی ہوتی تو قوم ہرگز پہچان نہیں سکتی تھی)


وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے (3)


(بغیر چہرہ دیکھے عورت نکاح کے لیے کس طرح پسند آسکتی ہے؟)

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ﴿٥٢﴾

اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے (52)


(بغیر چہرہ دیکھے نبی کو عورتوں کا حسن کیسے پسند آئے گا؟)

اللہ اپنی آیات میں حق بیان کرتا ہے اور شرماتا نہیں ہے خواہ کسی کو برا لگے۔


اب دیکھیں موازنے کے لئے "یہودیوں اور عیسائیوں کے عقیدے بائبل کے مطابق"


"جو عورت بے سر ڈھکے دعاء یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے۔ کیونکہ وہ سرمنڈی کے برابر ہے۔"
" پس فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہیئے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے" (١-کرنتھیوں١١-- ٥،١٠)

"اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عورت کا بال کٹانا یا سر منڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔"
" اور اگر عورت کے لمبے بال ہوں تو اس کی زینت ہے۔ کیونکہ بال اسے پردے کے لئے دیئے گئے ہیں۔" (١-کرنتھیوں١١-- ٦،١٥)


"اب جس کا دل چاہے یہودیوں اور عیسایئوں کے عقیدے بائبل کے مطابق عمل کرے یا اللہ کی کتاب کے مطابق عمل کرے۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,094
پوائنٹ
1,155
چہرے کا پردہ

سرفراز فیضی
چہرے کا نقاب ابتداء سے فقہاء کے درمیان اختلاف کا موضوع رہا ہے ۔ خود صحابہ کرام کی آراء چہرے کے نقاب کے تعلق سے مختلف رہی ہیں ۔ فقہ اور تفسیرکی کتابوں میں اس اختلاف کی تفصیلات موجود ہے ۔مغرب کی حجاب مخالف تحریک کے حامی ہمارے بعض متجددین اس اختلاف کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اور نقاب کو اسلام مخالف لباس ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں نقاب پر پابندی کے بعد کئی مسلم دانشوران اپنی باطل فکر کے اثبات کے لیے نقاب کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا حوالہ دیتے بھی دکھائی دیے ۔ سردست ہمارا مقصود اس اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے بعض حقائق کی توضیح اور بعض شبہات کی تردیدہے ۔
۱:یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ کسی چیز کے بارے میں محض اختلاف ہونا اس کے جائز اور صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کے لیے واجب قرار دیا گیا ہے کہ کسی مسئلہ میں جب اختلاف ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب لوٹائیں ۔
(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۲: نقاب کو لے کر فقہاء میں جو بھی اختلاف ہے وہ نقاب کے وجوب سے متعلق ہے ۔ نقاب کے استحباب پر کبھی امت کے علماء و فقہاء میں اختلاف نہیں رہا ۔ جو علماء نقاب کے وجوب کے منکر ہیں ان کا موقف بھی یہی ہے کہ عورت کے کی عزت و وقار کے تحفظ کے لیے نقاب زیادہ مناسب لباس ہے ۔
۳:جن فقہاء نے چہرے اور ہتھیلی کو کھلارکھنے کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہ شرط عائد کی ہے کہ چہرے یا ہتھیلی پر کوئی زینت کا سامان نہ ہو۔ اگر چہرے یا ہتھیلی پر کسی قسم کی زینت کی گئی ہوتو اس کا چھپانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے ۔
۴:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے متعلق یہ بات متحقق ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں۔ ازواج مطہرات کی زندگیاں اور ان کا طرز معاشرت مسلمان خواتین کیلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں ان کی تزہیہ فرمائی اور ان کو اپنے عظیم رسول کی صحبت اور ازدواج کے لیے منتخب فرمایا ۔ ان کی زندگیاں اللہ کے نبی ﷺکی تربیت کی آئینہ دار ہیں ۔ انہوں نے قرآن کو نازل ہوتے دیکھا ہے ۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ حجاب کے متعلق قرآن کامدعا کیا ہے ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے ؟
۵:جو فقہاء چہرے کے پردہ کو مستحب سمجھتے ہیں وہ بھی مردوں کے لیے عورتوں کا چہرہ دیکھنا حرام ہی قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
یا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فإن لک الأولی ولیست لک الآخرۃ
اے علی نظر پڑ جانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں نظر پڑ جائے تو پھر اسکے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو ) کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر تو جائز ہے ( جبکہ اس میں قصد و ارادہ کو قطعًا دخل نہ ہو)مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ( احمد ترمذی ابوداؤد دارمی، شیخ البانی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے )
اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ گناہ کرنا اور گناہ کے کام پر تعاون کرنا دونوں حرام ہے ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
(تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون کرنے سے باز رہو (المائدۃ :۲)
اس اصول کے مطابق اگر کسی عورت کو یہ معلوم ہو کہ اس کے چہرہ کھلا رکھنے پر مرد اس کی طرف دیکھیں گے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کرے اور مردوں کے گناہ پر تعاون کرنے سے پرہیز کرے ۔ مبحث کی تعیین کے لیے ان پانچوں نکات کا سمجھنا ضروری ہے ۔ چہرہ کے پردہ کا وجوب ایک مستقل موضوع ہے جس پر ممکن ہے اپنے آئندہ کسی شمارے میں تفصیل سے بات کریں ۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,094
پوائنٹ
1,155
چہرے کے پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کا جواب

جہاں تک مجھے علم ہے ،غیر محرم عورتوں کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے والوں کے پاس کتاب و سنت سے صرف مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل
(1) فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ

کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) سے مراد عورت کا چہرہ،اس کے ہاتھ کی انگوٹھی ہے۔یہ قول امام اعمش نے سعید بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ صحابی کی تفسیر حجت ہے۔

(2) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہنے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ (ﷺ) نے چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا،نیز چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اسماء ! ان المراۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا ان یری منھا الا ھذا وھذا ،واشار الی وجھہ وکفیہ"(سنن ابی داود ،اللباس ،باب فیما تبدی المراۃ من زینتھا،حدیث : 4104)
"اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کچھ نظر آئے۔"

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:
كان الفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر
"(حجۃ الوداع میں ان کے بھائی) فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ اسی دوران میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی۔فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی طرف اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب کر دیا۔"
ان حضرات کی رائے میں یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے ہوئے تھی۔

(4)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نماز عید پڑھانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایااور وعظ و نصیحت کی،پھر چل کر عورتوں کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے بھی خطاب کیا اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"تصدقن ،فان اکثرکن حطب جھنم ،فقالت امراۃ من سفلۃ النساء سفعاء الخدین۔۔۔۔"(مسند احمد: 3/318 ،وسنن النسائی،صلاۃ العیدین، باب قیام۔۔۔،حدیث :1576)
("اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو کیونکہ جہنم کا زیادہ تر ایندھن تم (عوتیں) ہی ہو۔اس پر ایک کم درجے کی عورت جس کےرخسار سیاہی مائل تھے،نے کہا۔۔۔۔")
اگر اس عورت کا چہرہ کھلا نہ ہوتا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلتا کہ اس عورت کے رخسار سیاہی مائل ہیں۔
میری دانست میں یہی وہ دلائل ہیں جن سے غیر محرم مَردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,094
پوائنٹ
1,155
مذکورہ بالا دلائل کا جواب

یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔پرے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں۔
جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے ،وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔جب کہ دوسرے فریق کو ئی دلائل نہیں مل سکے،لہذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہو گی۔
یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں،پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔
*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں:
ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔


یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ

کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے،چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔بصورت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جوازخود ظاہر ہو جائے" کی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النورآیت :31)
اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرارپائے،اس پر عمل کیا جائے۔

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث دو وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے:
1. خالد بن دریک نے جس راوی کے واطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے،اس کا ذکر نہیں کیا ہے،لہذا اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ خود امام ابو داود نے اس کی نشاندہی کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ "خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست نہیں سنا۔"اس حدیث کے ضعیف ہونے کی یہی وجہ ابو حاتم رازی نے بھی بیان کی ہے۔
2. اس حدیث کی سند میں سعید بن بشیر البصری نزیل دمشق نامی راوی ہے۔ابن مدی نے اسے ناقابل اعتماد سمجھ کر ترک کیا۔امام احمد،ابن معین،ابن مدینی نسائی رحمۃ اللہ علیھم جیسے اساطین علم حدیث نے اسےضعیف قرار دیا ہے ۔لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور متذکرہ صدر صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی۔یہ نا ممکن ہے کہ اس بڑی عمر میں وہ نبی ﷺ کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر جائیں جن سے ان کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ بدن کے اوصاف ظاہر ہو رہے ہوں۔بالفرض اگر حدیث صحیح بھی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور پردہ واجب کرنے والی نصوص نے اس حکم کو بدل دیا ہے،لہذا وہ ان پر مقدم ہوں گی۔واللہ اعلم۔
*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس میں غیر محرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سکوت نہیں فرمایا بلکہ اس کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا،اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ "غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی ذکر کیا ہے: "اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا شرعا ممنوع اور نگاہ نیچی کرنا واجب ہے۔"قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "بعض کا خیال ہے کہ نظر نیچی رکھنا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ جب فتنے کا اندیشہ ہو۔(اس لیے کہ آپ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک نبی ﷺ کا یہ عمل، بعض روایات کے مطابق،کہ آپ (ﷺ) نے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا،زبانی منع کرنے سے کہیں زیادہ تاکید کا حامل ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے۔یہ بھی امکان ہے کہ نبی ﷺ نے بعد میں اسے یہ حکم بھی دیا ہو۔کیونکہ راوی کا اس بات کا ذکر نہ کرنا اس امر کی نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا۔کسی بات کے نقل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق عرض کیا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
"اصرف بصرک"(صحیح مسلم،الآداب و سنن ابی داود،النکاح)

*رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ،تو اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے۔یا تو وہ خاتون بوڑھی عورتوں میں سے ہو گی جنہیں نکاح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،تو ایسی خواتین کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے اس سے دوسری عورتوں پر حجاب کا وجوب ختم نہیں ہو سکتا۔
یا پھر یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے کیونکہ سورۃ الاحزاب (جس میں پردے کے احکام ہیں) 5 ہجری یا 6 ہجری میں نازل ہوئی اور نماز عید 2 ہجری سے مشروع چلی آتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل کے ساتھ کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے میں عام لوگوں کے لیے شرعی حکم کا جاننا ضروری ہے اور بہت سے ایسے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں جو بے پردگی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ان لوگوں نے اس مسئلے میں کماحقہ تحقیق کی نہ غورو فکر سے کام لیا،حالانکہ اہل تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں اور ضروری معلومات حاصل کیے بغیر ایسے مسائل میں گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔
محقق کا فرض ہے کہ مختلف دلائل کے درمیان منصف جج کی طرح عدل و انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور حق کے مطابق فیصلہ کرے۔کسی ایک جانب کی دلیل کے بغیر راجح قرار نہ دے بلکہ تمام زاویوں سے غور کرے۔ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہو اور مبالغہ سے کام لے کر اس کے دلائل کو محکم اور مخالف کے دلائل کو بلاوجہ کمزور اور ناقابل توجہ قرار دے۔اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اعتقاد رکھنے سے پہلے اس کے دلائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کا عقیدہ دلیل کے تابع ہو نہ کہ دلیل اس کے عقیدے کے تابع،یعنی دلائل کا جائزہ لینے کے بعد عقیدہ بنائے نہ کہ عقیدہ قائم کر کے دلائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔کیونکہ جو شخص دلائل دیکھنے سے پہلے عقیدہ بنا لیتا ہے وہ اپنے عقیدے کے مخالف دلائل کو عموما رد کرتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے۔
عقیدہ قائم کر لینے کے بعد دلائل کی تلاش کے نقصانات ہمارے بلکہ سب کے مشاہدے میں ہیں کہ ایسا کرنے والا کس طرح ضعیف احادیث کو بتکلف صحیح قرار دیتا ہے یا نصوص سے ایسے معانی کشید کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے جو اس میں پائے نہیں جاتے،لیکن صرف اپنی بات کو ثابت و مدلل کرنے کے لیے یہ سب کچھ اسے کرنا پڑتا ہے۔
مثلا راقم نے ایک صاحب کا رسالہ "پردے کے عدم وجوب" کے موضوع پر پڑھا ۔اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو سنن ابی داود میں ہے جس میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا باریک کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ ﷺ کا فرمانا کہ "جب عورت سن بلوغت کو پہنچ جائے تو ان اعضاء کے سوا کچھ نظر نہیں آنا چاہیےاور ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔" یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے،یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق کہاں؟خود اسے روایت کرنے والے امام ابو داود نے اسے مرسل ہونے کے سبب معطل قرار دیا ہے اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جسے امام احمد اور دوسرے آئمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تفصیل گزر چکی ہے)
لیکن برا ہو تعصب اور جہالت کا کہ انسان کو ہلاکت و مصیبت میں گرفتار کرا دیتے ہیں۔شیخ الاسلام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے "القصیدۃ النونیۃ" میں کیا خوب کہا ہے:

"ان دو کپڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلو،جو انہیں پہن لیتا ہے ذلیل و خوار ہو کر ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے،ایک کپڑا تو جہ مرکب ہے اور دوسرا تعصب۔یہ دونوں کپڑے بہت ہی برے ہیں۔عدل و انصاف کا لباس زیب و تن کرو کہ یہی خلعت فاخر ہ ہے۔جس سے شانے اور بدن کا ایک ایک حصہ مزین ہو جاتا ہے۔"
ہر مولف اور مقالہ نگار کو دلائل کی تلاش اور ان کی چھان بین میں کوتاہی کے ارتکاب سے ڈرنا چاہیے اور بغیر علم کے محض جلد بازی میں کوئی بات کہنے سے کامل اجتناب کرنا چاہیے وگرنہ وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن کے متعلق قرآن حکیم میں یہ وعید شدید وارد ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًۭا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿144﴾
ترجمہ: تو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے تاکہ اِز راہ بے دانشی لوگوں کو گمراہ کرے کچھ شک نہیں کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ الانعام،آیت 144)
اور ایسا بھی نہ کرے کہ ایک طرف دلائل کی تلاش اور تحقیق میں کوتاہی کا مرتکب ہو اور دوسری طرف ثابت شدہ دلائل کو ٹھکرا کر عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق بنے اور اس زمرے میں داخل ہو جائے جس کے متعلق فرمان ربانی ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى ٱللَّهِ وَكَذَّبَ بِٱلصِّدْقِ إِذْ جَآءَهُۥ ۚ أَلَيْسَ فِى جَهَنَّمَ مَثْوًۭى لِّلْكَٰفِرِينَ ﴿32﴾
ترجمہ: پھر اس سے کون زیادہ ظالم ہے جس نے الله پرجھوٹ بولا اور سچی بات کو جھٹلایا جب اس کے پاس آئی کیا دوزخ میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے (سورۃ الزمر،آیت 32)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،نیز باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے مکمل طور پر اجتناب کی ہمت دے اور اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے کہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
وصلی اللہ وسلم و بارک علی نبیہ ولی الہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ آیت میں نہ تو چہرے کا زکر ہے اور نہ ہی گھونگھٹ کا۔ حیرت ہے آپ لوگ آیت میں لکھی ہوئی عربی کیوں نہیں دیکھتے)
جناب !آپ چہرے کی بات کررہے ہیں قرآن مجید میں تو عورت کے لیے پورا جسم کھلا رکھنے کی اجازت ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ [النور : 60]
اوربیٹھی ہوئی ایسی عورتیں جو نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں اپنے کپڑے بھی اتار دیں تو کوئی حرج نہیں
صاحب! اصل مسئلہ یہ ہیکہ قرآن کا مدعا سمجھنے کےلیے نظری بصارت سے زیادہ نبوی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے آپ شاید آپ محروم ہیں ۔ آپ پردہ کے مسئلہ کو لے کر بیٹھ گئے ہمارا آپ سے اختلاف اس کئی زیادہ بڑا ہے ۔ آپ پردہ کر کرا بھی لیں تو کیا فرق پڑتا ہے ؟
 
Top