• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چہرے کے احکام

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
چہرے کے احکام

انسانی اعضا ء کے احکام ومسائل
جب ہم اپنے اعضاء مثلا چہرہ،بال،ہاتھ،سر،ناخن،شرمگاہ،بازو،کہنیاں، پاوں،انگلیاں، ران، منہ، زبان، ناک، دانت، کان، کندھے، ٹخنے، گھٹنے، بغل، پیٹ، رخسار، پہلو، دل و غیرہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ہر عضو کے متعلق شرعی احکام ملتے ہیں ۔اب ہم چہرے کے احکام قارئین محدث فورم کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

چہرے کے احکام
چہرے کے احکام درج ذیل ہیں:
مرد کے چہرے کے احکام

جن موقعوں پر چہرے کو قبلہ رخ کرنا ضروری یا مسنون ہے وہ درج ذیل ہیں:

١: اذان دیتے وقت قبلہ رخ کھڑا ہونا ضروری ہے۔
سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے سامنے مؤذن نے قبلہ رُخ ہو کر اذان دی تھی۔ (مسند السراج: ٦١ وسندہ صحیح)(ہم نے قبلہ کے احکام پر بھی ایک رسالہ لکھ رکھا ہے )
اس مسئلہ پر اجماع ہے۔امام ابن المنذر فرماتے ہیں :
'' أجمع أھل العلم علٰی أن من السنۃ أن تستقبل القبلۃ بالأذان''
اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اذان میں قبلہ رخ ہونا سنت ہے۔ ( الاوسط ٣/٢٨)
نیز فرماتے ہیں کہ'' وأجمعوا علٰی أن من السنۃ أن تستقبل القبلۃ بالأذان''
اور اس پر اجماع ہے کہ اذان دیتے وقت قبلہ رخ ہونا چاہئے۔ ( الاجماع ص٧، فقرہ: ٣٩)
نیز دیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی (١/٩٣)

٢: نماز پڑھتے وقت قبلہ رخ ہونافرض ہے۔
مسلمان ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ نماز قبلہ رخ ہو کر پڑھے، جس نے اس کا انکار کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' من صلّی صلاتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فذلک المسلم...''
جس نے ہماری جیسی نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ( بیت اللہ )کی طرف (نماز پڑھتے وقت) رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ (مسلم) ہے۔ (صحیح البخاری: ٣٩١)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ، ط)
اور تم جہاں بھی ہو ( نماز میں ) اپنا رخ اسی (قبلے کی) طرف پھیر دو۔ ( البقرۃ:١٤٤)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إذا قمت إلی الصلٰوۃ فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبّر ))
جب تم نماز ( کے ارادے) کے لئے کھڑے ہو تو پُورا وضو کرو پھر قبلے کا رخ کرو اور تکبیر (اللہ اکبر) کہو۔ ( صحیح بخاری: ٦٢٥١ وصحیح مسلم: ٤٦/٣٩٧)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ'' قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنے پر اجماع ہے.'' (فتح الباری١/٦٦٣)

فائدہ: قبلہ سے کیا مراد ہے، بیت اللہ یا تمام مسجد حرام؟

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے کہ
'' باب ذکرالدلیل علٰی أن القبلۃ أنما ھي الکعبۃ لاجمیع المسجد الحرام وأن اللہ عزوجل إنما أرادہ بقولہ: (فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِج) (البقرۃ: ١٤٤ ) لأن الکعبۃ فی المسجد الحرام وإنما أمر النبي ؐ والمسلمین أن یصلوا إلی الکعبۃ إذالقبلۃ إنما ھي الکعبۃ لا المسجد کلہ، إذ إسم المسجد یقع علٰی کل موضع یسجدفیہ''
اس دلیل کو ذکر کرنے کا باب کہ قبلہ ( سے مراد) کعبہ ہے نہ کہ تمام مسجد حرام اور اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِج) سے یہ کعبہ مراد لیا ہے کیونکہ کعبہ مسجد حرام میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے معلوم ہو اکہ قبلہ کعبہ ہی ہے نہ کہ تمام مسجد اور مسجد کا اطلاق ہر اس جگہ پر ہوتا ہے جس پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ١/٢٢٤ قبل ح ٤٣٢)
اس باب کے تحت امام صاحب نے کافی دلائل نقل کئے ہیں، تفصیل کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔

٣: فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر قبلہ رخ ہو کر پڑھنا فرض ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفلی نماز) پڑھتے، اس کا رخ مشرق ( غیر قبلہ ) کی طرف ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اترتے اور قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے۔ (صحیح بخاری: ١٠٩٩)
فائدہ: اگر غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لی جائے تو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی طرف باب باندھ کر اشارہ کیا ہے:
'' باب ماجاء فی القبلۃ، ومن لم یرالإعادۃ علٰی من سھا ، فصلّی إلٰی غیر القبلۃ''
باب ان احادیث کے بارے میں جو قبلہ کے متعلق وارد ہوئی ہیں اور اس شخص کے بارے میں جو بھول کر اگر غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لے تو اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔( صحیح بخاری قبل ح٤٠٢)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم ( محدثین ) کا یہی موقف ہے کہ جب بادل یا کوئی اور عارضہ ہو اور آدمی نے نماز غیر قبلہ کی طرف پڑھ لی ہو پھر اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے تو نماز غیر قبلہ کی طرف پڑھی ہے اس کی نماز ہو گئی ہے (دہرانے کی ضرورت نہیں) سفیان ثوریؒ ، ابن المبارکؒ، احمدؒ اور اسحاق ؒ( بن راہویہ ) اسی کے قائل ہیں۔( سنن الترمذی تحت ح ٣٤٥)

٤: قبلہ رخ ہو کر دعا کرنامستحب ہے۔
محدثینِ کرام نے قبلہ رخ ہو کر دعا کرنے کے ابواب قائم کئے ہیں اور قبلہ رخ ہونے کو دعا کے آداب میں شمار کیا ہے۔مثلاً:
امام بخاریؒ باب الدعاء مستقبل القبلۃ ( صحیح بخاری قبل ح ٦٣٤٣)
فائدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل موقعوں پر قبلہ رخ ہو کر دعا کی ہے:


الف۔ نماز استسقاء سے پہلے
'' استقبل القبلۃ یدعو ثم حول رداء ہ ثم صلّی لنا رکعتین...''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا کی پھر آپ نے اپنی چادرکوپلٹا پھر ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ۔ ( صحیح بخاری: ١٠٢٥ )
فائدہ: اگر امام منبر پر خطبہ دے رہا ہے اور اس نے بارش کے لئے دعا مانگنی ہو تو پھر استقبالِ قبلہ کے بغیر ہی دعا مانگنی چاہئے۔( صحیح البخاری: ١٠١٨)
ب۔ جمرہ اولیٰ کو کنکریاں مارنے سے فارغ ہو کر چند قدم آگے جا کر قبلہ رخ ہونا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ اولیٰ کو کنکریاں مارنے سے فارغ ہوتے تو چند قدم آگے جا کر آپ قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور دعا کے لئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ۔ ( صحیح بخاری:١٧٥٣)

ج۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقریش کے ایک گروہ کے خلاف قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔
(صحیح بخاری: ٣٩٦٠ و صحیح مسلم ١١٠/١٧٩٤)
٥: قبلہ رخ ہو کر تلبیہ کہنا۔
دیکھئے صحیح بخاری( ١٥٥٣)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی پر باب باندھا ہے کہ
'' باب الإھلال مستقبل القبلۃ ''
قبلہ رخ ہو کر تلبیہ کہنا ۔واللہ أعلم بالصواب

٦: قبر میں میت کے صرف چہرے کو نہیں بلکہ مکمل جسم کو قبلہ رخ (دائیں پہلو پر لیٹنے کی طرح) کرنا چاہئے
(جیسا کہ مسلمانوں کا متوارث عمل ہے)۔ دیکھئے (المحلیٰ ٥/١٧٣، مسئلہ: ٦١٥) ان سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔ ( احکام الجنائزص ١٥١)


جن موقعوں پر چہرے کو قبلہ رخ کرنا ضروری نہیں


١: نفلی نماز اگر سواری پر پڑھنی ہے تو اس کے لئے قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز سواری پر پڑھا کرتے تھے اور سواری قبلہ رخ نہیں ہوتی تھی۔( صحیح بخاری: ١٠٩٤)
انس بن سیرین نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو سواری پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور سواری کا منہ قبلہ کی دائیں طرف تھا، انھوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے تجھے قبلہ کے علاوہ ( کسی اور طرف منہ کر کے) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو انھوں ( انس رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی نہ کرتا ( صحیح البخاری: ١١٠٠)

٢: حالتِ اضطراب ،مثلاً لیٹ کر نماز پڑھنے میں یا صلاۃ الخوف میں قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ) (البقرۃ: ٢٨٦)
اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

٣: مرنے والے کے چہرہ کو قبلہ رخ کرنامستحب ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے وفات کے وقت اپنا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر رکھا تھا۔ ( مناقب احمد ص ٤٠٦ وسندہ صحیح بحوالہ ماہنامہ الحدیث : ٢٦ ص ١٨)
حافظ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ(میت کو ) قبلہ رخ کرنا اچھا ہے اگر نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ
( فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ) اور کوئی نص(صحیح حدیث ) میت کو قبلہ رخ کرنے کے متعلق نہیں آئی۔ امام شعبی ؒنے کہا کہ کرو یا نہ کرو آپ کی مرضی ہے... ( المحلیٰ ٥/١٧٣٠،١٧٤، مسئلہ: ٦١٦)

جن موقعوں پر قبلہ رخ ہونا منع ہے

١: قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنا منع ہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إذا أتٰی أحدکم الغائط فلا یستقبل القبلۃ )) جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے آئے تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے۔ (صحیح بخاری: ١٤٤)

قبلہ رُخ پیشاب کی ممانعت کے لئے دیکھئے صحیح مسلم (٥٩/٢٦٤)

چہرے کو دھونے کے احکام

چہرے کو دھونے کے احکام درج ذیل ہیں:
١: وضو میں چہرے کادھونافرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
(یٰۤاَایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ )
اے ایمان والو! جب نماز ادا کرنے کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھوں کو دھولو۔ ( المآئدۃ: ٦)

امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن النسائی (١/١٥) میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث پر باب قائم کیا ہے : '' باب غسل الوجہ'' چہرے کو دھونے کا بیان ۔
٢: وضو میں چہرے کو ایک مرتبہ دھونابھی فرض ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ'' توضأ النبي مرۃ مرۃ ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔ (صحیح بخاری: ١٥٧)

٣: دو مرتبہ دھونابھی جائز ہے۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
'' أن النبي ؐ توضأ مرتین مرتین'' بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا۔ ( صحیح بخاری: ١٥٨)

٤: اعضائے وضو کوتین مرتبہ دھونامسنون ہے۔
حمران مولیٰ عثمان نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اس میں یہ بھی ہے کہ '' ثم غسل وجھہ ثلاثًا'' پھر آپ ( رضی اللہ عنہ) نے اپنے چہرے ( مبارک) کو تین مرتبہ دھویا۔ ( صحیح بخاری: ١٥٩، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں)

٥: تین دفعہ سے زیادہ مرتبہ چہرے ( وضو کے اعضاء ) کو نہیں دھونا چاہئے۔
عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے لمبی روایت جس میں ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر وضو کے بارے میں سوال کرتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے وضو کے اعضاء کا تین تین بار دھونا سکھایا اور فرمایاکہ اس طرح ( کامل) وضوہے، پھر جو شخص اس (تین تین بار دھونے) پر زیادہ کرے پس تحقیق اس نے ( سنت کو چھوڑنے کی وجہ سے ) برا کیا اور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کر کے اپنے آپ پر) ظلم کیا ۔ ( ابو داود: ١٣٥،وسندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' عنقریب اس امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو وضو میں زیادتی کریں گے اور دعا میں بھی۔" ( ابو داود: ٩٦وسندہ صحیح)

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
'' وبین النبيؐ أن فرض الوضوء مرۃ مرۃ، وتوضأ أیضًا مرتین ، وثلاثا ، ولم یزد علٰی ثلاث و کرہ أہل العلم الإسراف فیہ ، وأن یجاوزوا فعل النبيؐ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا کہ وضو( کے اعضاء کو دھونا) ایک ایک بار فرض ہے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس(تین مرتبہ) پر زیادتی نہیں کی اور علماء( محدثین) نے اس میں زیادتی کرنے کو مکروہ (حرام)سمجھا ہے اور اس کو بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز کیا جائے۔ ( صحیح بخاری قبل ح ١٣٥)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ'' فبین الشارع أن المرۃ الواحدۃ للإیجاب ومازاد علیھا للإستحباب'' شارع (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کیا ہے کہ (وضو کے اعضاء کو) ایک مرتبہ (دھونا) واجب (فرض) ہے اور اس سے زائد ( دودو یا تین تین) مرتبہ (دھونا) مستحب ہے۔
(فتح الباری١/٣١٠)

٦: چہرے کو دونوں ہاتھوں کے ساتھ دھونا چاہئے۔
دیکھئے صحیح بخاری( ١٤٠) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ'' باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ واحدۃ '' چہرے کو دونوں ہاتھوں کے ساتھ ایک چلو سے دھونا۔
٧: وضو میں چہرہ دھونے کی وجہ سے چہرے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إذا توضأ العبدالمسلم أوالمؤمن فغسل وجھہ خرج من وجھہ کل خطیئۃ نظرإلیھا بعینہ مع الماء أومع آخر قطرالمائ...))
جب مسلمان یا مومن وضو کرتا ہے اور اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو پانی یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے کے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے کئے ہیں۔ (صحیح مسلم: ١/ ١٢٥)

٨: وضو میں چہرے کو دھونے کی وجہ سے چہرہ قیامت کے دن روشن ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((إن أمتي یُدعون یوم القیامۃ غرًّا محجلین من آثار الوضوء ))
یقیناً میری امت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا (اور)وہ وضو کے آثار کی وجہ سے سفید پیشانی اور سفید اعضاء والی ہو گی۔ (صحیح البخاری: ١٣٦ واللفظ لہ ،صحیح مسلم :٢٤٦)

سو کر اٹھتے وقت چہرے کو دھونا

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
'' أن النبي ؐ قام من اللیل فقضٰی حاجتہ وغسل وجھہ ویدیہ ثم نام ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (نیند سے) بیدار ہوئے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قضائے حاجت کی پھر چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھویا پھر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سو گئے۔ (صحیح مسلم :٣٠٤ دارالسلام :٦٩٨ )
تیمم میں چہرے کا مسح کرنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْ ضٰی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءفَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ ط )
ہاں اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت سے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو پھر تمھیں پانی نہ مل رہا ہو تو پاک مٹی سے کام لو۔ پھر اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔(المآئدۃ: ٦)

چہرے پر مسح کا ذکر درج ذیل احادیث میں ہے:
سیدنا ابو جہیم بن الحارث بن الصمۃ الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث ( صحیح بخاری: ٣٣٧)
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث ( صحیح بخاری: ٣٣٨)
فائدہ: پہلے ہاتھوں کا پھر چہرے کا مسح کرنا چاہئے ۔( صحیح البخاری: ٣٤٧)
اذان میں چہرے کے احکام


١: مؤذن قبلہ رخ ہو کر اذان کہے ۔ ( دیکھئے مرد کے چہرے کے احکام :١)
٢: مؤذن حي علی الصلاۃ اور حي علی الفلاح کہتے وقت دائیں اور بائیں طرف چہرہ کو موڑے۔ (دیکھئے صحیح بخاری:٦٣٤ وصحیح مسلم: ٢٤٩/٥٠٣)
نماز میں چہرے کے احکام

١: قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے ۔
( دیکھئے مرد کے چہرے کے احکام :٢)
٢: نماز پڑھتے وقت چہرے کے سامنے سترہ کا اہتمام کرنا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
''أن رسول اللہ ؐ کان إذا خرج یوم العید أمر بالحربۃ فتوضع بین یدیہ فصلّی إلیھا..''
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید کے لئے نکلتے آپ نیزہ کا حکم دیتے۔ نیزہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے قبلہ کی طرف گاڑا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔ ( صحیح بخاری: ٤٩٤)
نیز دیکھئے صحیح بخاری( ٤٩٥) وصحیح ابن خزیمہ( ٨٤٠)
[ تنبیہ: سترہ رکھنا واجب نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے۔ دیکھئے مسند البزار بحوالہ شرح صحیح بخاری لابن بطال ٢/ ١٧٥ وسندہ حسن۔/ زع]
٣: امام سلام پھیرتے وقت پہلے دائیں طرف چہرہ کر کے سلام کہے پھر بائیں طرف ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں طرف سلام پھیرتے ( توکہتے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور بائیں طرف سلام پھیرتے ( تو کہتے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ ( ابوداود: ٩٩٦ ترمذی: ٢٩٥ وصححہ وھو حدیث صحیح)مزید دیکھیں صحیح مسلم ( ٥٨٢)
فائدہ: نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا چاہئے ۔ ( ماہنامہ الحدیث: ١٧ ص ٣٧ ومصنف ابن ابی شیبہ ٣/٣٠٧ ح ١١٤٩١ وسندہ صحیح )
بعض علماء دونوں طرف کے بھی قائل ہیں وہ ان احادیث کو حسن قرار دیتے ہیں مثلا شیخ البانی رحمہ اللہ ۔
٤: امام کا نماز سے سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف چہرہ کرنا۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
'' کان النبيؐ إذا صلّی صلٰوۃ أقبل علینا بوجھہ''
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھا لیتے تو ہماری طرف رخ کرتے۔ (صحیح بخاری: ٨٤٥)

فائدہ نمبر١: امام کوعام طور پر بائیں طرف سے پھرنا چاہئے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
''لقد رأیت النبيؐ کثیرًا ینصرف عن یسارہ ''
البتہ تحقیق میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر بائیں طرف پھرتے ہوئے دیکھا۔ ( صحیح بخاری:٨٥٢وصحیح مسلم: ٧٠٧)
فائدہ نمبر٢: امام عام طور پر دائیں طرف سے بھی پھر سکتاہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
'' أما أنا فأکثر ما رأیت رسول اللہؐ ینصرف عن یمینہ ''
میں نے تو دیکھا ہے کہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کے بعد دائیں طرف سے پھرتے تھے ۔ ( صحیح مسلم: ٧٠٨)
معلوم ہوا کہ امام دونوں طرف ( دائیں اور بائیں) سے پھر سکتا ہے۔
تنبیہ: بعض الناس سلام پھیرنے کے بعد شمال کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں جس کا کوئی ثبوت کتاب و سنت میں نہیں ہے۔
امام کو کتنی دیر نماز سے سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف اپنا چہرہ کرنا چاہئے؟

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
'' أن النبي ؐ کان إذا سلم یمکث في مکانہ یسیرًا''
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو تھوڑی دیر اپنی جگہ پر بیٹھتے۔ ( صحیح بخاری:٥٤٩)
تھوڑی دیر کی مدت کتنی تھی؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو صرف اتنی دیر(قبلہ رخ) بیٹھتے جتنی دیر میں یہ دعا '' اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذاالجلال والإکرام'' پڑھ لی جاتی ہے۔(صحیح مسلم:٥٩٢)
پھر آپ مقتدیوں کی طرف پھر جاتے۔

نماز میں چہرہ کو ڈھانپنا منع ہے۔
سالم بن عبداللہ بن عمر جب کسی کو دیکھتے تھے کہ وہ نماز میں اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے ہے تو وہ زور سے کپڑا کھینچ دیتے تھے، یہاں تک کہ اس کا چہرہ کھل جاتا۔ (موطأ امام مالک١/١٧ح ٣٠ وسندہ صحیح)
خطبہ جمعہ اور چہرے کے احکام

خطبہ جمعہ سنتے ہوئے لوگوں کا اپنا چہرہ خطیب کی طرف اور خطیب کا خطبہ جمعہ دیتے وقت سامعین کی طرف اپنے چہرے کو متوجہ کرنا ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن ممبر کی طرف چہرہ کرتے تھے۔ ( ابن ابی شیبہ ٢/١١٨ ح ٥٢٣٣ وسندہ صحیح)
اس طرح کے آثار دوسرے اسلاف مثلاً قاضی شریح ؒ، امام شعبی ؒ، نضر بن انس ؒاور ابراہیم نخعیؒ سے بھی ثابت ہیں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ٢/١١٨ واسانیدھا صحیحۃ )
نیز دیکھئے صحیح بخاری( قبل ح ٩٢١)
[تنبیہ: خطیب کا منبر پر چڑھتے وقت سامعین کو سلام کہنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں ہے لہٰذا سلام کے بغیر خطبہ دینا بھی صحیح ہے اور عام احادیثِ مجلس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خطیب کا لوگوں کو سلام کہنا بھی جائز ہے ۔ ]
حج یا عمرہ اور چہرے کے احکام


١: تلبیہ قبلہ رخ ہو کر کہنا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ١٥٥٣)
٢: صفا اورمروہ پرچڑھ کر جہاں سے بیت اللہ نظر آئے تو اس کی طرف اپنا چہرہ کر کے یہ دعا کرنی چاہئے:
'' لاإلٰہ إلااللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ، ولہ الحمد، وھوعلٰی کل شيئ قدیر، لاإلٰہ إلااللہ وحدہ،انجز وعدہ، ونصرعبدہ ، وھزم الأحزاب وحدہ'' ( صحیح مسلم : ١٢١٨)
٣: جمرہ اولیٰ کو کنکریاں مار کر چند قدم اس سے آگے بڑھ کر قبلہ رخ ہو کر دعا کرنا ۔ (صحیح بخاری: ١٧٥٣)
چہرے پر مارنے کی ممانعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إذا ضرب أحدکم فلیق الوجہ))
جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے ۔ ( سنن ابی داود: ٤٤٩٣ وسندہ حسن لذاتہ وللحدیث شواہد عند احمد ٢/ ٤٣٤ح ٩٦٠٤ وغیرہ)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إذا قاتل أحدکم فلیجتنب الوجہ))
جب تم میں سے کوئی جھگڑا کرے تو اس کے چہرے ( پر مارنے سے ) پر ہیز کرے۔ ( صحیح بخاری:٢٥٥٩وصحیح مسلم: ٢٦١٢ وفی روایۃ عندہ: إذا ضرب أحدکم)

جو لوگوں سے(بغیر شرعی عذر کے) مانگتارہتا ہے، اس کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مایزال الرجل یسأل الناس حتی یأتي یوم القیامۃ لیس في وجھہ مزعۃ لحم))
جو شخص لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے قیامت کو وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔ ( صحیح بخاری:١٤٧٤،وصحیح مسلم: ١٠٤٠)
میدانِ جہاد میں چہرے پر غبار

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا یجتمع غبار في سبیل اللہ ودخان جہنم في وجہ رجل أبدًا...))
کسی آدمی کے چہرے پر اللہ کے راستے میں پڑنے والا غبار اور جہنم کی آگ جمع نہیں ہو سکتے۔ ( سنن النسائی٦/١٣ح٣١١٣ وسندہ حسن)

دعا کے بعد دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا ۔

ابو نعیم وہب بن کیسان فرماتے ہیں کہ
'' رأیت ابن عمر وابن الزبیر یدعوان یدیران بالراحتین علی الوجہ''
میں نے ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا آپ دونوں دعا کرتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں کو منہ پر پھیرتے تھے۔'' ( الادب المفرد:٦٠٩وسندہ حسن)
امام معمر بھی دعا میں چہرے پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ ( مصنف عبدالرزاق ٣/ ١٢٣ح ٥٠٠١ وسندہ حسن)
فائدہ: دعائے قنوت یا دعائے وتر میں دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر نہیں پھیرنا چاہئے ۔ امام بیہقی ؒنے کہا : نماز میں یہ عمل نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ کسی اثر سے اور نہ قیاس سے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ نماز میں یہ نہ کیا جائے۔ ( السنن الکبریٰ ٢/٢١٢)
عورت کے چہرے کے احکام

بعض احکام میں عورت اور مرد کا چہرہ مشترک ہے۔
مثلاً نماز قبلہ رخ ہو کر پڑھنا، قبلہ رخ ہو کر دعا کرنا ، قبلہ رخ ہو کر تلبیہ کہنا ، قبر میں میت کے پورے جسم کو قبلہ رخ کرنا، قبلہ رخ ہو کر پیشاب کرنا منع ہے، چہرے کو دھونے کے احکام، تیمم میں چہرے کے احکام، نماز پڑھتے وقت سترہ کا اہتمام کرنا، حج یا عمرہ میں چہرہ کے احکام، لڑائی اور چہرے کے احکام ، جو لوگوں سے سوال کرتا ہے اس کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا، جس کے چہرے پراللہ کی راہ میں غبار پڑا وہ چہرہ کبھی جہنم میں نہیں جائے گا۔

دعا کے بعد دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا۔
ان احکام کی تفصیل گزر چکی ہے لیکن بعض وہ احکام ہیں جو صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں وہ درج ذیل ہیں:
١: عورت کا اپنے چہرے کو غیر محرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَایُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَا جِکَ وَ بَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ طذٰلِکَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا)
اے نبی اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( الاحزاب: ٥٩)
(یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ط)کی تفسیر میں عبیدہ السلمانی ؒنے وضاحت کی ہے کہ عورت اپنے چہرے کو چھپائے گی جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ہمارے قابل احترام دوست ابوالحسن حافظ زبیر علوی کی کتاب پردہ واجب مستحب یا بدعت۔
٢: امہات المؤمنین کا پردہ کا اہتمام کرنا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ایک واقعہ میں بیان کرتی ہیں کہ '' جب صفوان رضی اللہ عنہ ادھر آئے تو انھوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردے کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے مجھے پہچان کر اس نے إنا للہ وإنا إلیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا...'' ( صحیح بخاری:٤١٤١، صحیح مسلم: ٢٧٧٠)

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
'' کنا نغطي وجوھنا من الرجال ''
ہم اپنے چہروں کو مردوں سے چھپاتی تھیں۔ ( صحیح ابن خزیمہ٤/٢٠٣ ح ٢٦٩٠ وسندہ صحیح واللفظ لہ، موطأ امام مالک ١/ ٣٢٨ ح ٧٣٤ وسندہ صحیح، نیز دیکھئے ''حاجی کے شب و روز ''ص ٨٣)
اس سے معلوم ہوا کہ حج میں شرعی ضرورت کے وقت عورتوں کے لئے اپنا چہرہ ڈھانپنا جائز ہے۔
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے اللہ کے فرمان '' یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ١ ' ' کے متعلق عبیدہ السلیمانی ؒسے سوال کیا تو انھوں نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور اپنی بائیں آنکھ ظاہر کی (صرف بائیں آنکھ دیکھنے کے لئے ظاہرکی اور سارا چہرہ ڈھانپ لیا۔) ( تفسیر ابن جریر ٢٢/٣٣وسندہ صحیح)

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ '' حقیقتاً جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سر سمیت عورت کے پورے بدن کو ڈھانپ دے ''( مجموع الفتاویٰ ٢٢/ ١١٠)
[ تنبیہ: محدث البانی رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کے لئے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کا چھپانا واجب نہیں ہے۔دیکھئے '' جلباب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب والسنۃ'' ]
٣: عمر رسیدہ عورت کے لئے چہرہ چھپانا ضروری نہیں:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَا بَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ م بِزِیْنَۃٍ ط وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )
اور بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں وہ اگر اپنی چادریں اتار (کرسر ننگا کر) لیا کریں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم اگر وہ (چادر اتارنے سے) پرہیز ہی کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا ، جانتا ہے۔ ( النور:٦٠)

٤: منگنی کرنے سے پہلے اپنی مخطوبہ کا چہرہ دیکھنا جائز ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے منگنی کرنا چاہتا ہو اگر اسے دیکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے دیکھ لے۔ ''
(مسند احمد٣/٣٦٠وسندہ حسن، سنن ابی داود:٢٠٨٢ وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم٢/١٦٥ ،ووافقہ الذہبی وحسنہ الحافظ ابن حجر فی فتح الباری ٩/١٨١ تحت ح ٥١٢٥)
٥: نماز میں عورت اپنے چہرے کونہ ڈھانپے ۔
اگر عورت گھر میں محرم مردوں کے پاس نماز پڑھ رہی ہے تو اپنا چہرہ نہ ڈھانپے لیکن غیر محرم بھی موجود ہوں تو اپنے چہرے کو ڈھانپ کر نماز پڑھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک

١: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔ ( صحیح بخاری: ٣٥٤٩، صحیح مسلم٩٣/٢٣٣٧ و دار السلام : ٦٠٦٠)
٢: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چاند جیسا (خوبصورت اور پر نور ) تھا۔ ( صحیح بخاری : ٣٥٥٢)
٣: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسے چمک اٹھتا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔ ( صحیح بخاری: ٣٥٥٦ ، صحیح مسلم: ٢٧٦٩،دار السلام : ٧٠١٦)
٤: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی ( خوبصورت) دھاریاں بھی چمکتی تھیں۔ ( صحیح بخاری: ٣٥٥٥، صحیح مسلم: ١٤٥٩، دار السلام : ٣٦١٧)
٥: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ہ سورج اور چاند کی طرح (خوبصورت،ہلکا سا) گول تھا۔ ( صحیح مسلم :١٠٩/٢٣٤٤ ، دار السلام : ٦٠٨٤)
٦: آپ صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ ، پر ملاحت چہرے ، موزوں ڈیل ڈول اور میانہ قد وقامت والے تھے ۔ ( صحیح مسلم:٢٣٤٠)
٧: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ تو چونے کی طرح خالص سفید تھا اور نہ گندمی کہ سانولا نظر آئے بلکہ آپ کا رنگ گورا چمک دار تھا۔ ( صحیح بخاری: ٣٥٤٧،صحیح مسلم: ٢٣٤٧)
٨: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں دیکھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سورج کی روشنی آپ کے رخ انور سے جھلک رہی ہے ۔ ( صحیح ابن حبان ، الاحسان : ٦٢٧٦ دوسرا نسخہ : ٦٣٠٩ وسندہ صحیح علیٰ شرط مسلم)
٩: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرمگیں، دل پسند مسکراہٹ اور خوشنما گولائی والا چہرہ تھا ۔ آپ کی داڑھی نے آپ کے سینے کو پر کر رکھا تھا۔ ( شمائل الترمذی : ٤١٢ وسندہ صحیح)
١٠: آپ کے چچا ابو طالب فرماتے تھے :
''وأبیض یستسقی الغمام بو جھہ ثمال الیتامٰی عصمۃ للأرامل''
وہ گورے مکھڑے والا جس کے روئے زیبا کے ذریعے سے ابرِ رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔ وہ یتیموں کا سہارا، بیواؤں اور مسکینوں کا سرپرست ہے ۔ ( صحیح بخاری: ١٠٠٨ ، آئینہ جمال نبوت مطبوعہ دار السلام ص ٣٤ ح ٣٢)
١١: آپ کی آنکھیں ( خوبصورت ) لمبی اور سرخی مائل ( ڈوروں والی) تھیں ۔(صحیح مسلم : ٢٣٣٩ دار السلام: ٦٠٧٠)
١٢: اہلِ ایمان کے نزدیک سب چہروں سے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہے۔(صحیح البخاری: ٤٣٧٢)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
سبحان اللہ۔ ابن بشیر بھائی، بہت ہی عمدہ مضمون شیئر کیا ہے آپ نے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا یہی مضمون الحدیث حضرو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ بڑے عرصے سے خواہش تھی کہ الحدیث حضرو میں شامل ہونے والے علمی و تحقیقی مضامین کو یونیکوڈ میں ٹائپ کر کے فورم پر لگایا جائے (کیونکہ الحدیث کی ان پیج فائلیں یا یونیکوڈ فائلیں نہ مل سکیں)، اب الحمدللہ ایسے ہی ایک تحقیقی مضمون کو دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خوشی کی بات یہ کہ خود الحدیث حضرو میں موجود کئی مضامین کے مصنّف ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں میں خوب اچھا بدلہ عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
 
Top