• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافر اورواجب القتل لوگوں کی ایک قسم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں :

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اورختم کہاں ہورہی ہے۔ تقریباتمام بحثوں میں یہی حال ہے۔اوپر جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام کی پوری وضاحت آگئی توپھرتقلید اورعدم تقلید پر بحث بے کار اوربے فائدہ ہے۔
محترم، یہاں بات تقلید و عدم تقلید کے بجائے آپ ہی کے مکتب فکر کے آفتاب بھائی کے ایک سوال کے جواب پر چل رہی ہے۔ اگر آپ بحث میں شامل ہونا چاہیں تو ضرور بقدر توفیق حصہ ڈالیں۔ ورنہ دل تو کھٹا نہ کریں۔ ہر شخص بحث برائے بحث ہی کے لئے تو بات نہیں کرتا۔ آفتاب بھائی ہمارا موقف جاننا چاہتے تھے اور ہم ان کا۔ لہٰذا افہام و تفہیم کی خاطر بات چیت میں تو کچھ حرج نہیں۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جمشید بھائی جنرل پوسٹ پر یہی حال ہوتا ہے ۔ بعض حصرات جنرل تھریڈ میں تو بہت زور شور سے حصہ لیتتے ہیں ۔ کیوں یہاں دلائل کو جذبات سے زیر کرنا آسان ہوتا ہے ۔ اگر مخصوص مسائل کی بات ہو تو حیسے ترک رفع الیدین وغیرہ کے تھریڈ ۔ وہاں ایسے جذباتی ممبر نظر کیوں نہیں آتے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
آفتاب بھائی جان یہاں پر آپ نے پھر اعتراض کردیا۔بھائی جان یہ ایک عام سی بات ہے کہ ہر کسی کی علیحدہ فیلڈز ہوتیں ہیں شوق و جذبات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کسی علم پر مطالعہ زیادہ اور کسی پر کم ہوتا ہے۔کسی موضوع پر آدمی زیادہ دلچسپی لیتا ہے کسی پر نہیں ۔ان باتوں کو آپ بھی سمجھتے ہیں تو پھر یہ باتیں کم از کم آپ کو زیب نہیں دیتی۔ کہ ’’ایسے جذباتی ممبر وہاں نظر کیوں نہیں آتے۔‘‘ ماشاءاللہ آپ اہل علم ہیں ۔میں خود آپ کی پوسٹ سے بہت کچھ سیکھ رہاہوں لیکن جب آپ اس طرح کی باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں تو دل بہت غم زدہ ہوجاتاہے۔اللہ تعالی آپ کی محنتوں کو صحیح طرف لائے اور آپ کے ان جذبات کو صراط مستقیم پر صرف کروائے۔آمین
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
راجاصاحب آپ کی تحریر میں مجھے چند امور قابل نشاندہی نظرآئے ان کی نشاندہی کررہاہوں اورآپ ہی کی دعوت پر
اگر آپ بحث میں شامل ہونا چاہیں تو ضرور بقدر توفیق حصہ ڈالیں۔
جی بھائی ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں۔ کہ مقلد عالم نہیں ہوتا اور مقلد دلیل میں نظر نہیں کرتا اور مقلد کے لئے اس کے امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ وغیرہ۔ آپ کو اس بات سے اختلاف ہے؟ جبکہ امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔
حضرت ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے تواپنافیصلہ سنادیاہے کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتاہے اوراس پر اپنی جانب سے اجماع بھی نقل کردیاہے۔
اولاتوضرورت ہے تقلید اوراجتہاد کی حقیقت سمجھنے کی۔ ایک شخص اگر مجتہد مطلق ہے اوردوسرا مجتہد فی المذہب ہے تووہ اپنے علم کے مطابق اجتہاد کرے گا اورجہاں تک اس کی رسائی نہیں ہے وہاں وہ تقلید کرے گا۔یہ ہر علم وفن میں ہوتاہے۔
علم کے مختلف مدارج ہوتے ہیں ۔ہرایک اپنے علم کی رسائی اورگہرائی اورگیرائی کے اعتبار سے ہی عمل کرتاہے۔ اسمیں کوئی اشکال نہیں ہے کہ ایک شخص وقت واحد میں مجتہد اوروقت واحد میں مقلد ہو۔ علم کے ایک درجے تک وہ مجتہدہو اوراس کے آگے کے مراحل میں مقلد ہو۔
نواب صدیق حسن خان حضرت امام شافعی کے متعلق کہتے ہیں۔
قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلیدلعطاء(الجنۃ 68)حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات میں کہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے۔
امام احمد بن حنبل خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبل نے جواباارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں حضرت امام شافعی کا قول موجود ہے اورامام شافعی کا قول بذات خود حجت اوردلیل ہے۔(تاریخ بغداد2/6/تہذیب9/28)ہم اس مسئلہ میں اتنے پرہی اکتفاء کرتے ہیں۔
اس سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ تقلید میں بھی مختلف مراتب اوردرجات ہین اورسب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنااورمقلدین سے سیدھے عامی مراد لے لینا صحیح نہیں ہے۔اس کاایک الزامی جواب ہی سنئے۔
اہل حدیث حضرات تقلید نہیں کرتے بلکہ اتباع کرتے ہیں۔
حضرت امام ابن تیمیہ کسی مسئلہ دلیل بیان کرتے ہیں۔ اس دلیل کی ایک عامی اتباع کرتاہے ۔اسی دلیل کی راجا صاحب ناصرصاحب اورابوالحسن علوی صاحب اتباع کرتے ہیں۔اسی دلیل کی ان حضرات کے اساتذہ کرام مولانا اسماعیل سلفی،مولانا عطاء اللہ حنیف اوردیگر کبار اہل حدیث علماء اتباع کرتے ہیں۔کیا سبھی اتباع میں متحد المراتب ہیں؟
حضرت ابن قیم فرماتے ہیں کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتا۔ اس پر میں صاحب موافقات علامہ شاطبی کی ایک عبارت نقل کردیتاہوں اورآپ سے ہی جواب طلب کرتاہوں۔علامہ شاطبی ایک فتوی کے جواب میں فرماتے ہیں۔
انالااستحل-ان شاء اللہ-فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد ،بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی،ولااتعرض لہ الی القول الاخر،فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت(فتاوی الامام الشاطبی صفحہ94)میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتوی پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں۔
یہاں واضح رہے کہ حضرت امام شاطبی نے خود کو مقلد کہاہے۔ اب ہمیں راجا صاحب سے پوچھنایہ ہے کہ علامہ شاطبی کا شمار اہل علم میں ہے یانہیں۔
اس فتوی سے کئی دیگر اہم امورپر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن اسے حسب ضرورت بیان کیاجائے گا۔
تو اکثر مساجد کے حنفی امام کس درجے والے مجتہد ہیں اگر آپ اس کی بھی وضاحت کر دیں تو ہمیں سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ ورنہ حنفی امام کا کتاب و سنت کے دلائل سے جواب دینا تو بہرحال غلط ماننا ہوگا یا یہ مانیں کہ ایک عام مقلد جو کہ درس نظامی کا فارغ شدہ بھی نہ ہو، اسے بھی کتاب و سنت کے دلائل دینے اور سمجھنے کا حق حاصل ہے؟؟
ٓپ کے پیش کردہ سوال میں ایک بنیادی مغالطہ چھپاہواہے وہ یہ کہ
قران وحدیث سمجھنا اورقران وحدیث سے مسائل کا استنباط کرنادوالگ الگ چیزیں ہیں۔ اپ راجاصاحب اوردیگر اہل حدیث صاحبان جو فورم پر موجود ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپ قران وحدیث کو سمجھتے ہیں لیکن مسائل کااستنباط بھی کرنے کی لیاقت ہے یہ محل نظر بلکہ مشتبہ بلکہ ناقابل یقین ہے اورنہ ہی شاید آپ میں سے کسی کا دعویٰ یہ ہوگاکہ وہ مجتہد ہے اورقرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط کرسکتاہے۔
اسی طرح پر سوچئے۔ایک شخص جس نے درس نظامی سے فراغت حاصل کی ہے قرآن وحدیث کا اپنی وسعت اورفہم کے مطابق مطالعہ اوراکتساب فیض کیاہے وہ قرآن وحدیث سمجھ بھی سکتاہے۔کتابوں میں ائمہ کے اقوال کے جودلائل بیان کئے گئے ہیں اس کوبھی سمجھ سکتاہے لیکن ان دلائل میں محاکمہ کرنا وجوہ ترجیح تلاش کرنا یاپھر کتاب وسنت سے براہ راست مسائل کااستنباط کرنا چیزے دیگر است۔میراخیال ہے کہ اگراس کو آنجناب اچھے سے سمجھ جائیں توآنجناب کے بہت سے اشکالات حل ہوجائیں گے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ ہے وہ بات جس کے لئے آپ کو الزامی سوالات کی زحمت دی گئی تھی۔ میرے بھائی، درج بالا سطور میں آپ نے اہل حدیث ہی کا موقف پیش کیا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ اہل حدیث کے نزدیک بلا دلیل کسی کی بات ماننے کے بجائے دلیل طلب تو ضرور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہے۔ نیز عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ درست یا متبع سنت عالم تک اپروچ کرے۔اور کسی ایک عالم کو خاص نہ کر لے کہ ہمیشہ اسی سے مسئلہ پوچھے اور بلا دلیل اس کی بات مانتا رہے۔جبکہ حنفی عالم ایسے خیرو کو اردو عربی پڑھ کر دلیل تک پہنچنے کا تو خیر نہیں کہیں گے۔ کیونکہ مقلدین کے لئے تو امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ اگر کوئی سائل مفتی سے مسئلہ پوچھتے وقت یہ کہہ دے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے تو دیوبندی عالم اسے قاعدہ سے ناواقف کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ واللہ اعلم!
دلیل مانگنا اوردلیل سمجھنے کی کوشش کرتے رہناپتہ نہیں آنجناب نے کہاں سے اخذ کیاہے۔براہ کرم اس کی بھی دلیل بیان کردیں۔ایساکیوں نہ کریں کہ ہم اورآپ مصنف ابن ابی شیبہ اورمصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کاجائزہ لیں کہ سائل کے سوال کے جواب میں اکابر تابعین بلکہ خود حضرات صحابہ نے کس حدتک قران وحدیث سے جواب دیااورکتنے جوابات اپنی رائے سے دیا اورکتنے سائلوں نے دلیل طلب کی اورکتنے سائلوں کو حضرات صحابہ وتابعین نے دلیل سمجھنے اورمانگنے کی تاکید کی۔ امید ہے کہ میری اس گزارش کا مثبت جواب دیں گے۔
تحریر کر دی ہیں۔ تقلید کی تعریف ہی میں یہ بات شامل ہے کہ عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اورقاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا ہرگز تقلید نہیں۔
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص٢٨٩طبع ١٣١٦ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص٤٠٠)

اگر عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور مفتی کا بغیر دلیل اسے مسئلہ سمجھا دینا تقلید ہے تو میرے بھائی آج کے دور میں کوئی حنفی نہیں رہے گا۔ کوئی عثمانوی ہوگا، تو کوئی اوکاڑوی، کوئی صفدروی وغیرہ۔ امید ہے کہ اس عام فہم بات پر تو آپ بضد نہیں ہوں گے۔
میرے خیال میں اصل غلط فہمی کے شکار آپ ہیں۔ آپ کی اوردیگر حضرات کی ایک بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ العمل بقول القول من غیرحجۃ میں آپ بغیر حجۃ کاتعلق عمل سے جوڑدیتے ہیں جب کہ اس کا تعلق بقول الغیر سے ہے۔
اس کو اس طرح سمجھئے۔تقلید ایسے شخص کے قول پر عمل کرنے کانام ہے جس کاقول حجت شرعیہ میں سے نہ ہو ۔ایسے شخص نے جو مسئلہ بتایاہے اس پر دلیل ہے یانہیں اس سے یہ تعریف خاموش ہے لیکن مجتہد کہتے ہی اس کو ہیں جو دلائل شرعیہ کتاب وسنت اوراجماع وقیاس سے مسئلہ مستنبط کرے تواس کا تقاضایہ ہواکہ وہ جوبتائے گاوہ کتاب وسنت سے ہی مستفاد ہوگا۔
آپ لوگ پتہ نہیں کس بزرگ سے عربی زبان کی تعلیم حاصل کی ہے جس کی وجہ سے آپ العمل بقول الغیر من غیرحجۃ میں بغیر حجۃ کا تعلق عمل سے جوڑدیتے ہیں جب کہ اس کا تعلق بقول الغیر سے ہے۔اگرمیری بات پر اعتماد نہ ہوتواپنے بزرگوں سے دریافت کیجئے گا۔
آپ نے مسلم الثبوت اورفواتح الرحموت کا حوالہ دیاآنجناب کا شکریہ۔ فواتح الرحموت کی پوری عبارت اوراس مسئلہ کی پوری تفصیل جومیں نے ایک پوسٹ میں قبل ازیں ایک صاحب کے جواب میں لکھاہے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
سب سے پہلا قابل ذکر حوالہ مضمون نگار نے مسلم الثبوت اوراس کی شرح فواتح الرحموت کا دیاہے۔جب کہ عبارت انہوں نے صرف مسلم الثبوت سے لیاہے اورحوالہ دونوں کادیاہے۔میرے خیال سے ایسالگتاہے کہ ان کے پاس مسلم الثبوت نہیں رہی ہوگی تو فواتح الرحموت سے عبارت لی ہوگی ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم الثبوت اورفواتح الرحموت دونوں کی عبارت کیاہے اورمتن کی شرح کیاہے۔
فصل * التقليد العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل والمارد بالحجة من الحج الأربع وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فانه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليدا وإن كان العمل بما اخذوا بعده تقليدا (لا يجاف النص ذلك عليهما) فهو عمل حجه لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين وهو المشتهر المعتمد عليهیہ توآپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بریکٹ میں جوعبارت ہے وہ مسلم الثبوت کی ہے اوراس کے بعد جوعبارت ہے وہ ملانظام الدین لکھنوی کی ہے۔ہمارے مضمون نگار ہمیں جو سمجھاناچاہ رہے ہیں کہ عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے دیکھئے اس کے بارے میں شارح نے کیاشرح کی ہے۔
میں نے اس خط کشیدہ جملہ کو ملون کردیاہے تاکہ بات بآسانی سمجھ میں آسکے۔
شارح کہتے ہیں کہ عامی کا اہل علم اورمفتی سے رجوع کرنا فی نفسہ تقلید نہیں ہے لیکن اس کے بعد جو ہوگا یعنی مفتی یااہل علم کی بتائی بات پر عامی عمل کرے گا وہ تقلید ہے۔یہ بہت اہم بات ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ایک ہے عامی کا اہل علم یامفتی کی جانب رجوع کرنا ۔اتنانص سے ثابت ہے دوسراہے اس کی بات کو بلادلیل قبول کرلینا۔یہ جودوسراشق ہے وہ تقلید میں شامل ہے۔لیکن ہمارے مہربان اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس کے بعد آتے ہیں انہوں نے پہلے ابن ہما م کی پیش کردہ تقلید کی تعریف ذکر کی جس میں یہ موجود ہے کہ عامی کا اہل علم کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں۔اس کے بعد وہ لکھتے ہیں۔
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے
دوسرے حوالہ جات کوچھوڑ ہم صرف ابن امیر الحاج کی بات کرتے ہیں کہ مضمون نگار نے ان کی بات کہاں تک سمجھی ہے اورسمجھنے میں کس ناسمجھی کا مظاہرہ کیاہے۔
ابن امیر الحاج ابن ہمام کے اس قول کی شرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ۔اس میں وہ یہ بات لکھ کر کہ عامی کا مفتی سے رجوع کرنا اورقاضی کا گواہوں سے تقلید میں شامل نہیں ہے وہ کہتے ہیں
اس بناء پر تقلید کا تصور ہی محال ہے نہ اصول میں نہ فروع میں کہیں بھی تقلید نہیں پائی جائے گی کیونکہ یاتوآدمی مجتہد ہوگا تو وہ خود سے اجتہاد کرے گایااگر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تو مجتہد کے قول کی جانب رجوع کرے گا توجیسے عامی کا اہل علم کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں توکسی کامجتہد کی جانب رجوع کرناتقلید میں کیسے شامل ہوگا ۔وہ کہتے ہیں
بل على هذا لا يتصور تقليد في الشرع لا في الأصول ولا في الفروع فإن حاصله اتباع من لم يقم حجة باعتباره، وهذا لا يوجد في الشرع فإن المكلف إما مجتهد فمتبع لما قام عنده بحجة شرعية، وإما مقلد فقول المجتهد حجة في حقه فإن الله - تعالى - أوجب العمل عليه به كما أوجب على المجتهد بالاجتهاد(التقریر والتحبیرلابن امیرالحاج 195)
بلکہ اس پر اصول اورفروع کا تقلید کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتاہے(یعنی اگر یہ مان لیاجائے کہ عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے)کیونکہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید ایسی بات کے ماننے کا نام ہوگا جس پر کسی جہت سے دلیل نہ ہواوریہ شرع میں نہیں پایاجاتاہے مکلف یاتومجتہد ہوگا اس صورت میں وہ شرعی دلائل کے تابع ہوگا یامقلد ہوگا تومجتہد کا قول اس کیلئے دلیل ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر(مقلدین)مجتہد کے قول کے مطابق عمل کرنے کوواجب کیاہے جیساکہ مجتہد پر اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کو واجب کیاہے ۔
ابن امیر الحاج کی یہ بات بہت قابل قدر اورآب زر سے لکھنے کے قابل ہے ان کی اس بات نے ہمارے مضمون نگار کے وہ جملے جو انہوں نے مقلدین کے حق میں برستے اورگرجتے ہوئے لکھاتھا اس کے سارے بخیے ادھیڑ دیئے ہیں۔
چونکہ یہ بات بڑی اہم ہے اس لئے اس کی مزید تشریح کرنا چاہوں گا۔
اگر اہل علم سے یامفتی سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے تو پھر دنیا میں کہیں بھی تقلید کاوجود نہیں رہے گا۔کیونکہ جس طرح ایک عام آدمی کسی مفتی سے جاکر کوئی مسئلہ پوچھ لے (بیشتر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں )تووہ دائرہ تقلید سے خارج ہوگئے۔ اسی طرح کچھ لوگ اگر اس بارے میں امام ابوحنیفہ کی رائے کتابوں میں تلاش کریں اوراس پرعمل کریں تو وہ بھی اس دائرہ سے خارج ہوں گے کیونکہ امام ابوحنیفہ کی فقہی مقام ومرتبہ مجتہد کاہے لہذا ان کی بات پر عمل کرنا مفتی کے بتلائے ہوئے مسئلہ پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔قران وحدیث میں یہ کہیں بھی موجود نہیں کہ جو اہل علم انتقال کرچکے ہیں ان کے بتائے ہوئے مسائل کی جانب رجوع نہ کیاجائے بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا توارشاد ہے کہ اگر تم پیروی اوراقتداء کرناہی چاہتے تو ان کی کرو جواس دنیاسے رخصت ہوچکے ہیں کیونکہ زندہ لوگوں کی حالت آئندہ کیاہوگی نہیں کہاجاسکتا۔
اب درج بالا تقلید کی تعریف کے تحت مفتی سے سائل کا مسئلہ پوچھنا تقلید کی تعریف کے تحت آتا ہی نہیں۔ اور آپ ہمارے کسی بھی عالم کی تقلید کے موضوع پر کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ وضاحت ضرور ملے گی کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع تقلید ہی نہیں ہے لہٰذا اس کی مخالفت نہ ہم کرتے ہیں۔ نہ اس کی مخالفت کتاب و سنت سے ثابت ہے بلکہ نہ جاننے والوں کو اہل علم کی طرف رجوع کا حق تو قرآن سے ثابت ہے۔ کچھ مزید وضاحت علوی بھائی نے یہاں کر رکھی ہے۔ ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اس کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے کہ عامی کامفتی اورمجتہد کی جانب رجوع کرناتقلید ہے یانہیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایک ضمنی بات تو یہ نوٹ کر لیں کہ آپ نے مثال پیش کی ہے ایسے شخص کی جو دلیل سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن کبار دیوبندی علماء کے نزدیک عام طور پر درست یہی ہے کہ مقلدین کو دلیل پوچھنی ہی نہیں چاہئے، بغیر اس بات میں تفریق کئے کہ وہ دلیل سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ مثال عرض ہے:

ماہنامہ رسالہ تجلی ‘ جو دیو بند سے نکلتا ہے اس کی جلد نمبر 19 ‘ شمارہ نمبر ۱۱‘ ماہ جنوری فروری 1968ءصفحہ 47 میں اس کے ایڈیٹر مولانا عامر عثمانی فاضل دیو بند ایک مسئلہ کی بابت سوال کاجواب دینے کے بعد لکھتے ہیں ۔
”یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں کہہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپر د قلم کیا ہے یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دیں اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاءکے فیصلوں اور فتوؤں کی ضرورت ہے “۔
اور جس کو آپ اندھی تقلید کہہ کر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ یقین مانیں اہلحدیث بھی اسی اندھی تقلید سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ اندھی تقلید کی فوری طور پر صرف ایک مثال حاضر ہے۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ کیا یہ اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ ازراہ کرم انصاف، خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کو ذہن میں رکھئے گا۔ ہم اس پر آپ سے بحث کریں گے ہی نہیں۔
تقلید اورتباع میں ایک عامی کیلئے جوہری فرق کیاہے وہ مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا ۔اگرآنجناب سمجھادیں توبڑامشکور ہوں گا۔ آپ لوگوں نے دلیل سمجھنے کامعنی شاید دلیل سننا سمجھاہے۔ورنہ دلیل سمجھنا کوئی عام سی شیےء نہیں ہے۔
ائن اسٹائن کے اصول انگلش میں لکھے ہوئے ہیں مجھے امید ہے کہ انگلش سے آنجناب واقف ہوں گے تومحض پڑھ کر یاکسی سے سن کر آپ اسے سمجھ جائیں گے۔اگراثبات میں دعویٰ ہے توپھرمیں آنجناب سے آئن اسٹائن کے کچھ نظریات ضرور سمجھناچاہوں گا۔
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
فیصلہ آپ خود کرلیں کہ حق و انصاف پر واقف ہو جانے کے باوجود امام کی تقلید کے وجوب کو واحد دلیل کے طور پر مانتے ہوئے مخالف بات پر عمل پیرا ہو جانا اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ اور آپ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ عام مقلد بھی تحقیق کے بعد دلیل سے واقف ہو تو اپنی تحقیق پر عمل کرے۔! دوسری طرف ایک عالم ہیں۔ کس کی بات مانیں!
اس پر میں نے اس تھریڈ میں بات کی ہے دیکھیں۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/غیر-اسلامی-افکار-و-نظریات-87/دین-میں-تقلید-کا-مسئلہ-1366/index2.html#post7411
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جاہل کے لیئے تقلید کے عدم جواز کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجتہد اور عالم بن جائے یا خود مسائل کو حل کرنا شروع کر دے کیونکہ اللہ نے ہر ایک کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آج کا جاہل یعنی عامی طبقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزارنے کی حتی الامکان کوشش کرے کیونکہ ان میں بھی عامی طبقہ موجود تھا جس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنے متبعین حق علماء کے پاس تصفیہ طلب مسائل لیکر جاتے اور متعلقہ مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث کا حکم معلوم کرتے۔اور علماء صرف کتاب و سنت کی روشنی میں حل پیش کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عامی طبقہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو جاتا اور علماء مبلغ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مقلد عامی ، اپنے مفتی کے پاس جا کر مسئلہ حل کرواتا ہے اور فقہ حنفی کا حکم معلوم کر لیتا ہے لیکن پھر بھی مفتی کا مقلد نہیں بنتا بلکہ حنفی ہی رہتا ہے۔ لہٰذا عامی اہلحدیث بھی کتاب و سنت کا متبع ہی رہے گا نہ کہ مفتی کا مقلد بن جائے گا۔
میں پہلے بھی کہہ چکاہوں اورایک مرتبہ مزید کہہ رہاہوں ہم مصنف ابن ابی شیبہ اورمصنف عبدالرزاق کی ورق گردانی کریں اوردیکھیں کہ کتنے سائلین کے سوال میں جواب میں اکابر صحابہ اورتابعین نے قال رسول اللہ کہاہے اورکتنے امور میں اپنی رائے سے جواب پیش کیاہے۔ پھر اس کے بعد یہ بھی دیکھتے چلیں کہ کتنے سائلین نے دلیل کی مانگ کی ہے اورمفتی صحابہ کرام اورتابعین عظام نے کتنے سائلین کو دلیل سمجھ کر مسئلہ پر عمل پیراہونے کی ہدایت دی ہے؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عامی طبقہ دلائل سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ عقل اور ایمان کی دولت ایک عام شخص کے پاس بھی ہوتی ہے اور مومن کا سینہ حق و باطل میں تمیز کرنے والے نور سے منور ہوتا ہے۔ اپنی عقل اور ایمانی بصیرت کی روشنی میں عامی طبقہ بھی دلائل کو سمجھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دل و دماغ اور نیت میں بغض و عناد کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس کو عمل بروایت کہتے ہیں نہ کہ عمل بالرأی۔ یعنی راوی کی روایت پر عمل ہوتا ہے نہ کہ اس کی رائے پر۔ یہی سب باتیں امام شوکانی نے القول المفید:۲۷، امام ابن قیم نے کتاب الروح:۲۵۶ اور امام شاطبی نے کتاب الاعتصام:۳۴۵-۳۴۲ میں کہیں ہیں ۔ اور الزامی جواب یہ بھی ہے کہ جیسے ایک عامی غیر مسلم ان پڑھ دیہاتی، فرض کریں عیسائی ، جسے عربی یا عبرانی کا ایک لفظ پڑھنا نہ آتا ہو، وہ بھی اگر غیر متعصب ہو کر دل سے حق کی تلاش کرنا چاہے تو کی اسلام کی روشنی نہ پالے گا؟
آنجناب نے پتہ نہیں دلیل سمجھنے سے کیاسمجھ رکھاہے۔ انسان کا ایمان اوراخلاص الگ شے ہے اورکسی علم میں درک اورمہارت الگ شے ہے۔ کتنے صالحین اورنکوکار حضرات تھے لیکن وہ روایت حدیث کے قابل نہ تھے ۔حضرت امام مالک کی وہ بات یاد کیجئے کہ میں نے ایسے لوگوں کو پایاجواگربارش کی دعاکرتے توبارش ہوجاتی لیکن میں نے ان سے حدیث نہیں لیاکیونکہ وہ اس کے اہل نہ تھے۔
لہذا یہ جذباتی تقریر کہ ایمانی بصیرت کی روشنی میں عامی طبقہ بھی دلائل کو سمجھ سکتاہے۔کیاخوب ایک حدیث کے ناسخ ومنسوخ اوراس کے راویوں کی جرح وتعدیل پر بحث ہوگی اور پھر متن پر اشارۃ النص دلالت النص عبارت النص اوراقتضاء النص کے اعتبار سے بحث ہوگی۔ کتنے عامی اس کے فہم کی لیاقت رکھتے ہیں؟ذراہم بھی توجانیں۔
اللھم ارناالحق حقا وارزقنااتباعہ وارناالباطل باطلاوارزقنااجتنابہ
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
السلام علیکم
شیخ الاسلام کا جو فتویٰ کفایت اللہ بھائی نے نقل کیا ہے اس میں صرف یہ بات بیان ہوئی ہے کہ کسی ایک معین شخص کی تقلید کو واجب قرار دینا جائز نہیں ہے، جیسے اگر کوئی شخص امام حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید تمام امت پر واجب قرار دے تو اس کا قول مردود ہے البتہ عامی کیونکہ خود اجتہاد و استنباط کا اہل نہیں ہوتا اس لیے دوسرے ائمہ سے تعصب رکھے بغیر کسی ایک عالم کی تقلید کر لے تو درست ہے۔
شیخ الاسلام کے فتویٰ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ" تمام عوام پر صرف ایک امام کی تقلید واجب قرار دینا" انتہائی قبیح فعل ہے- نہ کہ مجتہدین میں سے ایک کو چن کر باقیوں کی تقلید شخصی بھی جائز سمجھنا- جیسا کہ تقلید شخصی قائلین ائمہ اربعہ میں سے کسی بھی ایک کی شخصی تقلید کے قائل ہیں- آپ کے شاگرد ابن القیم اس مسئلے میں آپ سے ذیادہ سخت تھے جنہوں نے تقلید شخصی کو قبیح بدعت کہا -

یہ بات مجھے ایک صاحب علم نے بتائی- یہ کہاں تک درست ہے ؟
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
شیخ الاسلام کے مزاج سے متعلق پوسٹس دوسرے دھاگے میں منتقل کردی جائیں تو بہت مفید ہوگا-
 
Top