• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کافر کو سلام کہنا


سوال:
ان دنوں جب ہم مشرق و مغرب کے مختلف ممالک میں جاتے ہیں جن کے باشندوں کی غالب اکثریت مختلف مذاھب سے تعلّق رکھنے والے غیر مسلموں کی ہے، وہ ہمیں جہاں بھی ملتے ہیں تو سلام کہتے ہیں تو اس سلسلہ میں ہم پر کیا واجب ہے؟

جواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ، وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ؛ فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ
ترجمہ: یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں ابتدا نہ کرو اور جب تم ان میں سے کسی کو راستے میں ملو (تو بجائے اس کے وہ یہ کام کرے) تم اسے راستے کے تنگ حصے کی طرف جا نے پر مجبور کردو۔
(صحیح مسلم، كِتَابٌ : السَّلَامُ. | بَابٌ : النَّهْيُ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَام: ٢١٦٧)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ
ترجمہ: جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف «وعليكم» کہو۔
(صحیح بخاری، كِتَابٌ : الِاسْتِئْذَانُ، بَابٌ: كَيْفَ يُرَدُّ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ السَّلَام: ٦٢٥۸ صحیح مسلم، كِتَابٌ : السَّلَامُ. | بَابٌ : النَّهْيُ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَام: ٢١٦٣)

اہل کتاب سے مرد اگرچہ یہود و نصاریٰ ہیں لیکن بقیہ کفار کا حکم بھی اس مسئلہ میں یہی ہے کیونکہ ان میں اور دیگر کافروں میں فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے. کافر کو مطلقاً پہلے سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو واجب ہے کے جواب میں صرف "وعلیکم" کہا جائے جیسا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اس کے بعد یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تمہارا کیا حال ہے؟ بچوں کا کیا حال ہے؟ جیسا کہ بعض اہل علم مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی اجازت دی ہے، خصوصاً جب کہ اسلامی مصلحت کا یہ تقاضہ بھی ہو مثلاً اسے اسلام کی رغبت دینا، اسلام سے اسے مانوس کرنا تاکہ وہ دعوت اسلام قبول کر لے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
ترجمہ: اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے.
(سورۃ النحل: ١٢٥)

نیز فرمایا:
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
ترجمہ: اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو.
(سورۃ العنکبوت: ٤٦)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ

(مصدر: فتاویٰ اسلامیہ اردو، جلد نمبر: ١ صفحہ نمبر: ١٧۲-١٧٣)
 
Top