• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کالم:واقع کربلا اور آج کے مسلمان کا تنقیدی جائزہ((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
کالم:واقع کربلا اور آج کےمسلمان کا تنقیدی جائزہ
ظفر اقبال ظفر
واقع کربلا واقعتًا ہی بہت بڑا سانحہ تھااور اس کی حقیقت سے کوئی بھی اہل بیت سے محبت کرنے والا اور نبی اکرمﷺ کی رسالت پر ایمان لانے والا انسان انکار کی جرت نہیں کرسکتا ۔ کربلا کے واقع کو بیان کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لینا اور اس واقع کی آڑ میں بد اعتقادی بھی کسی سانحے سے کم نہیں ۔جہاں تک اس واقع میں ہونے والیں عظیم شہادتوں اور یزید کی فوج کےاہل بیت پر ہونے والے ظلم کی سنگینی کا ذکر ہے تو آج بھی اگر تاریخ اسلام کی مستند کتب سے اگر سیرت امام علی اور امام حسین و حسن تلاش کریں توسرخ حروف میں اس انداز میں موجود ہیں کہ کوئی بھی ان واقعات کو مطالعہ کےلیےاٹھائے تو ہر لفظ سے خون کے قطرے ٹپکنے شروع اور ہر قلم خون کے آنسوں رونے لگیں۔اس سے نبی اکر م ﷺ اوراہل سے محبت کرنے والے کسی شخص کو اختلاف کی جرت نہیں ہونی چاہیے ۔
جہاں تک اس واقع کو بیان کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ سے مکمل واقفیت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ ورنہ آج کے اہل قلم اور خطیب حضرات کی طرح واقع کو بیان کرتے ہوئے اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے گا کہ خدا وند کریم جیسی پاک ذات کو بھی معاف نہیں جائے گا اور خدا کی خدائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ہیچ نظر آنے لگے گی ۔گویا کے خدا کا معاذ اللہ کوئی وجود نہیں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ہی خدائی صفات سے متصف ہے ۔
آج جتنے بھی اس عظیم واقع کو بیان کرنے کےلیے قلم اٹھتے ہیں نہ صرف واقع کربلا کی حقیقی تعلیمات اور حقائق سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ شہیدین کے فضائل کو بیان کرتے مبالغہ آرائی کے ایسے تیر چلاتے ہیں کہ خدا کی خدائی مانند پڑھ جاتی ‘حضرت علی اور خدا میں فرق کو یکسر ختم کر دیا جاتا ہے ۔یہیں پر بس نہیں وہ تاریخ اسلام سے اس قدر جاہل ہوتے ہیں کہ خلفاء راشدین جیسی پاک باز ہستیوں اور جمیع صحابہ کرام کی شان میں توہین اور لعن طعن کا نہ رکنے والا سلسلہ اس قدر طول پکڑتا ہے کہ انسانیت شرمندہ تعبیر بن کر رہ جاتی ہے ۔
حضرت امام حسن و حسین ‘ اہل بیت عظام اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل اگر بندہ لکھنا شروع کر دے تو شاید قلم وقرطاس کی کمی ان کا ساتھ نہ دے پائے ۔مگر بیان وہ شخص ہی کرسکتا ہے جو اسلامی تعلیم کی روشنی میں اہل بیت کی فضیلت کو جانتا ہو ۔کربلاکےعظیم واقع پر اکثر لکھنے والے حضرات اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے اس قدر جاہل ہوتے ہیں کہ ان کی علمی شخصیت پہ ترس آنے لگتا ہے ۔حضرت حسین کی شہادت اور واقع کربلا میں اہل بیت سے ہونے والے ظلم کو اس قدر مبالغہ آرائی اور غیر مبنی بر حقیقت واقعات کو ذکر کرتے ہیں کہ جن کا حقیقت اور اسلامی تعلیمات و تاریخ اسلامی سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ایسا ہی کچھ جمعۃ المبارک 21 ستمبر 2018 کو روز نامہ دنیا کے صفحہ 13 پر شائع ہونے والاعقیل خان‘جمبر کاکالم ہے ۔ جس میں موصوف نے غیر علمی اور غیر سنجیدگی کا کھل کر مظاہرہ کرنے میں ذرا شرم محسوس نہیں کی ۔موصوف اپنے قالم کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ دور جاہلیت سے محرم الحرام کے مہینے کی بڑی اہیمت ہے ۔موصوف رقم طراز ہیں کہ قیامت کی نشانیو ں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قیامت 10 محرم کو قائم ہو گی۔اس کے بعدموصوف ذکرکرتے ہیں کہ 10 محرم الحرام کو جب واقع کربلا پیش آیا دنیا کی ہر چیز متاثر ہوئی‘مثلًا زمین متاثر ہوئی‘آسمان متاثر ہوا ‘شمس و قمر اور حتی ٰ کے خود خدا وند کریم بھی متاثر ہوائے۔

پہلی بات :جہاں تک میری تحقیق ہے ذخیرہ کتب حدیث میں شاید ایک بھی صحیح حدیث موجود نہ ہو جس میں 10 محرم کو قیامت کے قائم ہونے کا ذکر ملتا ہو ۔یہ ضرور ملتا ہے کہ موصوف جیسے جاہل پیدا ہونگے جو بغیر علم کےلوگوں کے سامنے خود کو بڑا عالم ظاہر کرنے کے لیےبغیر علم کے فتوے دیں گے‘ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
دوسری بات :موصوف کا یہ کہنا کہ شمس و قمر متاثر ہوئے کس قدر غیر سنجیدہ اور غیر مبنی بر حقیقت بات ہے جس سے اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت ان کی جہالت کو مزیدواضح کر دیتی ہے ۔
سب سے پہلی :جس دن واقع کربلا پیش آیا اس دن سورج گرہن ہونا

اسلامی نقطہ نظر:
جس دن کربلا کا واقع پیش آیا اس دن سورج گرہن ہوا اسلامی تاریخ کی کسی معتبر کتاب میں اس کا ثبوت نہیں ملتا ۔سورج گرہن کو قدیم و جدید سب مذاہب میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کے بیٹے ابراھیم کی وفات پر سورج گرہن ہوا تولوگوں نے کہا کہ آپﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے گرہن ہوا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں گرہن کا اس جیسے واقع سے کوئی تعلق نہیں ۔بعض مذاہب اسے منحوس سمجھتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ خدا کے ناراض ہونے کی نشانی ہے۔ اسلام میں اس کی سائنسی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند خدا کے معین کردہ راستے پر چلتے ہیں اور گردش میں ہیں۔ مگر سورج گرہن کے بعد ایک نماز پڑھی جاتی ہے جسے صلوۃ کسوف یا نمازِ خوف کہا جاتا ہے۔
سائنسی نقطہ نظر:
سائنسی اعتبار سے اگر دیکھا جائے توزمین پر سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند دورانِ گردش زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کا مکمل یا کچھ حصہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔ چونکہ زمین سے سورج کا فاصلہ زمین کے چاند سے فاصلے سے 400 گنا زیادہ ہے اور سورج کا محیط بھی چاند کے محیط سے 400 گنا زیادہ ہے، اس لیے گرہن کے موقع پر چاند سورج کو مکمل یا کافی حد تک زمین والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ سورج گرہن ہر وقت ہر علاقے میں نہیں دیکھا جا سکتا، اس لیے سائنسدانوں سمیت بعض لوگ سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میں جاتے ہیں۔
تیسری بات :جو راقم الحروف نے کہی کہ کربلا کے دن خود خدا وند کریم کی ذات متاثر ہو جس کی علامت شفق کی سرخی ہے۔
ذرا مبالغہ آرائی اور موصوف کی بد اعتقادی کا اندازہ کریں کہ کس قدر وہ واقع کربلا کی سنگینی کی آڑ میں اللہ تعالیٰ کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں ۔موصوف نے خدا باری تعالیٰ کی ذات کو بھی معاذ اللہ معاف نہیں کیا موصوف نے یہاں تک کہہ دیاکہ خود خدا باری تعالیٰ کی ذات اس واقع سے متاثر ہوئی ۔وہ ذات جوہر نقص اور عیب سے پاک ہے ۔جس پرکوئی چیز اثرانداز نہیں ہو سکتی ۔جس پر کوئی چیز غالب نہیں آ سکتی ۔

معززقارئین کرام!
موصوف کیا کہنا چاہتے ہیں ‘کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں‘کس قدر اپنی بد اعتقادی اور جہالت کو واضح کر رہے ہیں ذرا سوچیں ۔واقع کربلا کو اس اندازسے ان کا پیش کرنا کہ بدر واحد‘حنین و تبوک جن میں میرے محبوب نبی کریمﷺ کے دانت مبارک شہید ہو گے ‘سر‘چہرہ مبارک زخمی ہو گئے۔اس محرم الحرام کے مبارک مہینے میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی شہادت کا واقع اور اس کی سنگینی کیا کسی سانحے سے کم ہے ۔ اس سےموصوف کی اصلیت اور اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے عدم واقفیت سے موصوف کی جہالت کو سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ۔
 
Last edited:
Top