• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کبھی کبھار بیوی کو ہدیہ اور تحفہ دینے کی نصیحت (شوہر) - سب لوگ ضرور پڑھیں اور رائے دیں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کبھی کبھار بیوی کو ہدیہ اور تحفہ دینے کی نصیحت (شوہر)۔
lلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
کبھی کبھار بیوی کو ہدیہ اور تحفہ دینے کی نصیحت :

یہ ایک سنہری نصیحت ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً اپنی بیوی کو ہدیہ اور تحفہ دیتا رہے ۔ یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ جب منگنی ہوجاتی ہے اور نکاح کا انتظار ہوتا ہے تو اس وقت اپنی منگیتر کو اتنے ہدیے بھیجتے ہیں کہ بھرمار کردیتے ہیں اور جب نکاح ہوجاتا ہے تو پھر اسے سال بعد بھی ہدیہ دینا یاد نہیں ہوتا ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ بیوی کو وقتاً فوقتاً چیزیں لےکر تو دینی ہوتی ہیں ۔ تو بجائے اس کے کہ وہ کہے آپ خود ہی پہل کردیں ۔ اپنے ذہن میں سوچیں کہ کون سی چیز اس کی ضرورت کی ہے اور کون سی چیز اس کو زیادہ پسند ہے ۔ اگروہ چیز آپ ازخود لے کرآئیں گے تو پھر بیوی کی خوشی کی انتہانہ ہو گی ۔

دینا تو ہوتا ہی ہے لیکن بیوی جھگڑ کرلے توپھر کیا فائدہ ۔ بیوی بار بار کہہ کرکچھ لے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس نے لڑائی جھگڑا کروا کر کوئی کپڑے بنوالیے یا زیور بنوا لیے اس طرح آپ نے ہزاروں بھی خرچ کردیئے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ لیکن بغیر کہے اور بغیر مانگے اپنی محبت سے آپ نے معمولی سی چیز بھی بیوی کو تحفہ میں دے دی تو وہ اس کو بہت بڑی نعمت سمجھے گی ۔

تحفہ دینا نبی علیہ السلام کی سنت ہے :

نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ (تھادواتحابوا) (تم آپس میں ہدیہ دو اس سے محبت بڑھے گی)۔ اب ہدیے کا یہ مطلب نہیں کہ مرد فقط مردوں کو ہی ہدیہ دے سکتے ہیں ۔ بلکہ بیوی تو زندگی کی ساتھی ہے اسکو بھی ہدیہ دینا چاہیے ۔

جب نبی علیہ السلام نے فرمادیا کہ (تھادوا تحابوا) تم ہدیہ دو گے تو محبت بڑھے گی ۔معلوم ہوا کہ یہ ایک سنہری نصیحت ہے جو دولفظوں میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھادیا ۔ چونکہ میاں اور بیوی میں بہت محبت مقصود ہے ، لہٰذا اپنی بیوی کو چھوٹی سی چیز ہدیہ دے دیا کرو۔ کیو نکہ چیز کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس سوچ کو دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہدیہ دیا ہے آپ کی چیز بہت قیمتی ہے یا کم قیمتی ہے اس سے بیوی کو کوئی غرض نہیں ۔ غرض تو اس کو اس سے ہے کہ میرے میاں نے مجھے تحفہ اور ہدیہ لاکردیا ۔ ضروری ہی نہیں ہو تا ہر تحفہ بڑا قیمتی ہو تب تحفہ بنتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی تحفہ بن جاتی ہیں ۔ کوئی نہ کوئی چیز اپنی بیوی کو دیتے رہنا گھر میں محبت کا سبب بن جاتا ہے۔

خاوند کا تحفہ بیوی کو یاد رہتا ہے :

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو کہیں لے جانا تھا ۔ جہاں زیورات پہن کر جانا مناسب نہیں تھا، محفوظ نہیں تھا۔ بیوی نے کہا کے ہاں مجھے زیور نہیں پہننے خاوند نے بھی کہانہ پہنو۔ بیوی نے سارے زیور اتار دیئے مگر ایک لاکٹ اس نے لے کر پھر گلے میں پہن لیا۔ کہنے لگی یہ تو میں ضرور پہن کر جاوٴں گی ۔ میاں نے پوچھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ وہ کہنے لگی کہ آپ کو تو یاد نہیں مجھے یاد ہے۔ اس نے کہا کیابات؟ کہنے لگی ۔ یہ وہ لاکٹ ہے جو آپ نے مجھے شادی کی پہلی رات پہنایا تھا۔ میں کبھی اس کو اپنے سے جدا نہیں کرتی ۔ سارا زیور میں دے سکتی ہوں لیکن اس لاکٹ کو میں سینے سے لگا کر رکھوں گی۔ اس لاکٹ میں محبت کا پیغام ہے جو پہلی ملاقات میں آپ نے مجھے دیا تھا۔ اس سے اندازہ کیجئے ۔ کہ بیوی اپنے میاں کے تحفہ کو کتنا عظیم سمجھتی ہے۔ اس لئے وہ چیز تو چھوٹی ہوتی ہے ۔ مگر اس کے ساتھ جو محبت منسلک ہوتی ہے ۔ اس چیز کو بڑا قیمتی بنادیتی ہے۔

بیوی تو محبت کی طلبگا ر ہوتی ہے۔ اس کو خاوند سے محبت ہی تو چاہیے ہوتی ہے۔ اس نے کوئی زیورات کو چوسنا تھوڑی ہوتا ہے ۔ یا گھر کی چیزوں کو اس نے کہاں لے کر جانا ہوتا ہے ۔ اس کو تو ہر چیز میں محبت ہی چاہیے ہوتی ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ زلیخا کو یوسف علیہ السلام سے اتنی محبت تھی کہ اس نے ہر چیز کانام یوسف ہی رکھ دیا تھا ۔ گھر کی ہر چیز کو یوسف کہہ کر پکارا کرتی تھی ۔ یہی بیوی کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ اس کو خاوند سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ ہر چیز میں اس کو خاوند کی محبت نظر آتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ اسے وقتاً فوقتاًہدیہ دیں گے ۔ تو یہ ہدیہ آپس میں محبت بڑھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔

بیوی سے محبت و ملاطفت کا اظہار کرنے کی نصیحت :

یہ بھی اہم نصیحت ہے کہ انسان اپنی بیوی سے محبت والفت کا اظہار کرتا رہے ۔ کوئی ایسی بات کرے یا کوئی ایسا کام کرے کہ بیوی کو شوہر کی محبت کا پیغام پہنچے ۔زبان سے دو میٹھے بول بول دینے سے بیوی کا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور وہ سوچتی ہے کہ میرے خاوند کو واقعی مجھ سے بہت محبت ہے۔ جب خاوند اپنی بیوی کو ایسی محبت دے گا تو بیوی کا دماغ خراب ہے کہ وہ گھر آباد نہیں کرے گی۔

نبی علیہ السلام نے فرمایا:

اکمل الموٴمنین ایمانا احسنھم خلقاو الطفھم باھلہ ۔

”ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان والا موٴمن وہ ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ لطف سے زندگی گزارنے والاہو“
یعنی ملاطفت سے زندگی گزارنے والاہو۔ اب غور کیجئے یہی ملاطفت کا لفظ قرآن پاک کا درمیانی لفظ ہے ، قرآن پاک میں جہاں اصحاب کہف کا تذکرہ ہے وہاں اللہ پاک نے فرمایا ﴿ولیتلطف﴾جب اصحاب کہف نے اپنے ساتھی کو کھانا لینے کے لئے بھیجا تو اس کو تلقین کی کہ تم جب بات کرنا تو ملاطفت سے، نرمی سے کرنا ، گویا قرآن پاک کے تمام الفاظ میں سے سب سے مرکزی اور درمیان کا لفظ یہی ہے، ”نرمی اور محبت سے برتاوٴ کرنا“ اور آج کا مسلمان اسی سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ جہاں ازدواجی زندگی کی بات آئی وہاں بھی شریعت نے اسی لفظ کو استعمال کیا، گویا یہ لفظ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئے بنیادی نکتہ ہے، پیار و محبت کی زندگی گزارنے کو ملاطفت کہتے ہیں ۔

افسوس کہ آج ہم اپنے گھروں میں ایسا رویہ رکھتے ہیں ۔ جیسے کوئی جابر حاکم ہوتا ہے حتیٰ کہ جو بڑے بڑے دیندار ہوتے ہیں وہ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ انتہائی خشک رویہ رکھتے ہیں، یہ بات بالکل درست نہیں ۔ لطف ومحبت کو غالب رہنا چاہیے ۔ چنانچہ روایات میں ایسا بھی آیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ توڑ کر ڈالتے ۔
اب یہ کھانے کے دوران منہ میں لقمہ دینا دیکھنے میں چھوٹی سی چیز ہے مگر اس سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت :

نبی علیہ السلام گھر میں کتنی محبت فرماتے۔آ پ اس روایت سے اندازہ لگائے کہ نبی علیہ السلام ایک دن گھر تشریف لائے ۔

آپ نے دیکھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیالے میں پانی پی رہی تھیں ۔ اللہ کے محبوب نے دور سے دیکھا فرمایا، اے حمیرا! نبی علیہ السلام نے حمیرا لفظ اس لئے کہا کہ آپ ان کو پیار سے حمیرا کہا کرتے تھے ۔ حالانکہ نام تو ان کا عائشہ تھا۔ مگر کبھی کبھی آپ پیار سے حمیر ا کہتے تھے ۔ یہاں سے ایک بات اور نکلی کہ بیوی کو ایک ایسے نام سے پکارنا جس کو بیوی بھی پسند کرے خاوند بھی پسند کرے ، یہ سنت ہے۔ اس لئے کہ یہ بورڈ ہے خاوند کی محبت کا ۔ جب خاوند بیوی کو اس نام سے پکارتا ہے ، اسکو پیار کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی نام جس کو دونوں پسند کریں وہ پکارنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خاوند کوئی ایسا لفظ بولے کہ بیوی کے تن بدن میں آگ لگ جائے ۔ یہ سنت نہیں ۔ بلکہ یہ تو ایذا رسانی ہوگی ۔ تو کوئی ایسا پیار کانام کہ جس کو خاوند بھی پسند کرے اور بیوی بھی پسند کرے وہ پکارنا چاہیے کہ اس طرح سے محبت کا اظہار ہے ۔ اوریہ نبی علیہ السلام کی مبارک سنت ہے اللہ کے محبوب نے فرمایا حمیرا ! عرض کیا ، لبیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! حکم فرمایئے ، آپ نے فرمایا تم جو پانی پی رہی ہو اس میں سے کچھ تھوڑا سامیرے لئے بھی بچادینا ۔ اب ذرا سوچئے کہ پانی کی کوئی کمی تو نہیں تھی ، اورپانی بھی آسکتا تھا مگر محبت تو کچھ اور چیز ہے اللہ کے محبوب سکھانا چاہتے تھے اپنی امت کو کہ گھر میں بیوی کے ساتھ یوں محبت اور پیار کے ساتھ رہاجاتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ، تھوڑا سا پانی میرے لئے بھی بچادینا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کو فرمارہے ہیں میرے لئے پانی بچادینا ، حالانکہ برکتیں تو نبی علیہ السلام کی ذات مبارک میں تھیں ، رحمة للعالمین آپ تھے ، خاوند آپ تھے ، مرشد آپ تھے ، سب برکتیں آپ میں تھیں مگر محبت کی بات ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا عائشہ ! کچھ میرے لئے پانی بچادینا ۔چنانچہ انہوں نے تھوڑا سا پانی بچادیا ۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام قریب تشریف لائے ۔ آپ نے اپنے ہاتھوں میں وہ پیالہ لے لیا آپ چاہتے تھے کہ وہ پانی پئیں لیکن نبی علیہ السلام رک گئے ۔ فرمایا حمیرا ! تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تم نے کس جگہ منہ لگا کر پانی پیا تھا۔

چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیالے کے کنارے کی نشاندہی کی کہ اے اللہ کے محبوب ! میں نے یہاں سے لب لگا کر پانی پیاتھا۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ اللہ کے محبوب نے پیالے کے رخ کو پھیرا اور عین اسی جگہ لب مبارک لگائے اور پانی نوش فرمایا۔ دیکھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار محبت ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک عمل ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے اور ازدو اجی زند گی کو خو شگو ار بنا نے کیلئے ایک بہترین نمونہ ہے ۔

دینداروں کیلئے لمحہ ء فکریہ :

افسوس کہ ہم نے دین کو سمجھا ہی نہیں ۔ آج ہم شریعت و سنت کے مطابق ظاہر تو بنا لیتے ہیں مگر گھر کے اندر جا کر اتنا آگ بگولہ بنے ہوتے ہیں کہ بیوی بے چاری سہمی ہوئی ہوتی ہے اور ہم اس کو دینداری سمجھتے ہیں ۔ ہم باہر بڑے بڑ ے دیند ار بنے پھر تے ہیں مگر گھر میں بیوی خون کے آنسو رورہی ہوتی ہے۔ یہ دینداری بھلا کس کام کی کہ زندگی کے ساتھی تک دین نہ پہنچا سکے ۔ اس لئے اکثر یہی دیکھا گیا کہ باہربعض لوگ کتنے دیندار ہوتے ہیں مگر گھر میں ان کی بیوی بد دین بنی ہوتی ہے۔ کس لئے ؟ اس لئے کہ ان کہ شخصیت کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے کیونکہ فقط ان کے پاس قال ہوتا ہے حال نہیں ہوتا۔ باتیں دین کی بڑی کرتے ہیں مگر گھر میں دین پر عمل نہیں کرتے ۔
اس لئے خاوندوں کو چاہیے کہ وہ نبی علیہ السلام کی ان مبارک سنتوں کو پلے باندھ لیں ۔

اللہ کے محبوب گھر کے اندر محبت وپیار سے رہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھر کے اندر دین اتنا تھا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا میری عائشہ تو آدھا دین ہے۔ یعنی آدھا دین جو باہر کی زندگی سے متعلق تھا صحابہ نے سمجھااور آدھا دین ازدواجی زندگی سے متعلق ہے وہ دین میری بیویوں نے سیکھا اور انہوں نے امت تک پہنچایا ۔ تو جب انسان بیوی کو ایسا پیار دیتا ہے تو یوں سمجھیں کہ بیوی پھر آدھا دین بن جاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہو اکہ ہمیں چاہیے کہ بیوی کے ساتھ محبت کا اظہار کریں ۔

مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے محبوب کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کوئی ایسی بات کرنا جس سے بیوی کے دل میں محبت پیدا ہو اس سے سنت کا ثواب بھی ملے گا اور اس پر گھر کے اندر محبتوں کا ماحول بھی پیدا ہوگا۔ تو بیوی سے محبت کا اظہار کردینا یہ سنہری نصیحت ہے۔ اس کو مرداپنی کمزوری نہ سمجھے بلکہ اپنی عظمت سمجھے کہ میں اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کروں گا تو وہ مجھ سے محبت کرے گی۔ کئی خاوند شاید یہ سوچتے ہوں کہ ہم اگر محبت کا اظہار کردیں گے تو بیوی کہیں سر پر ہی نہ چڑھ جائے ۔ ہرگز ایسا نہیں ۔ بیو ی کو اعتدال میں رکھنا یہ تو خاوند کے بس میں ہوتا ہے۔ جو سر پر چڑھنے والی ہوتی ہیں وہ دیندار نہیں ہوا کرتیں اور جو دیندار ہوتی ہیں انہوں نے قرآن میں پڑھ لیا ہوتا ہے۔(الرجال قوامون علی النساء ) لہٰذا وہ بات مان کے چلنے والی ہوتی ہیں ۔ اور خاوند کو ہمیشہ بڑا بنا کر رکھتی ہیں ۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات.....................
.................سوچئے اور جواب دیجۓ
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شادی میں میاں اور بیوی میں ''محبت'' نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکے وہ ایک ''جنسی ہیجان'' ہوتا ہے۔ یہ صرف '' شہوت'' ہوتی ہے جو مرد اور عورت کو شادی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میاں بیوی میں کسی ایک کے مرنے کے بعد کوئی کسی کو نہ تو یاد کرتا ہے اور نہ ہی کسی دی ہوئی چیز کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ لہٰذا مجھے میاں اور بیوی میں'' محبت'' کا ڈھول پیٹنے والوں پر سخت تعجب تو ہوتا ہی ہے مگر غصے کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب کوئی میاں بیوی کےدرمیان '' محبت '' کے قصے سناتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شادی میں میاں اور بیوی میں ''محبت'' نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکے وہ ایک ''جنسی ہیجان'' ہوتا ہے۔ یہ صرف '' شہوت'' ہوتی ہے جو مرد اور عورت کو شادی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میاں بیوی میں کسی ایک کے مرنے کے بعد کوئی کسی کو نہ تو یاد کرتا ہے اور نہ ہی کسی دی ہوئی چیز کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ لہٰذا مجھے میاں اور بیوی میں'' محبت'' کا ڈھول پیٹنے والوں پر سخت تعجب تو ہوتا ہی ہے مگر غصے کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب کوئی میاں بیوی کےدرمیان '' محبت '' کے قصے سناتا ہے۔
تعجب تو آپ جیسی سوچ رکھنے والوں پر ہوتا ہے جو اپنے تجربہ پر پوری دنیا کو رکھتے ہے،

مگر غصے کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب کوئی میاں بیوی کےدرمیان '' محبت '' کے قصے سناتا ہے۔
اس معاملے میں آپ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم پر کیا رائے قائم کریں گے؟؟؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائی کوئی دلیل تو دو اس طرح بات نہیں بنتی۔ جس '' محبت'' کی لوگ بات کرتے ہیں وہ حقیقت میں '' جنسی محبت'' ہوتی ہے۔ آپ اپنا تجربہ بیان کر دیں آپ کیا کہتے ہیں۔ '' جنسی محبت کوئی بری چیز نہیں ہے اگر اس کو دین کے دائرے میں لے لیں۔ بہر حال حقیقت تو بدل نہیں سکتی چاہے دنیا کا تجربہ کیسا ہی ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
میرے بھائی کوئی دلیل تو دو اس طرح بات نہیں بنتی۔ جس '' محبت'' کی لوگ بات کرتے ہیں وہ حقیقت میں '' جنسی محبت'' ہوتی ہے۔ آپ اپنا تجربہ بیان کر دیں آپ کیا کہتے ہیں۔ '' جنسی محبت کوئی بری چیز نہیں ہے اگر اس کو دین کے دائرے میں لے لیں۔ بہر حال حقیقت تو بدل نہیں سکتی چاہے دنیا کا تجربہ کیسا ہی ہو۔
بھائی آپ ہی دلیل دیجئے کہ شادی صرف جنسی تشنگی کے لئے کی جاتی ہے،
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مجھے اب بھی تعجب ہے ایک شخص سورج کو دیکھ کے بھی سورج موجود ہونے کی دلیل مانگتا ہے۔ میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے اگر آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے تو کوئی دلیل دیں اس طرح ہوا میں تیر چلانا آپ کو زیبا نہیں دیتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مجھے اب بھی تعجب ہے ایک شخص سورج کو دیکھ کے بھی سورج موجود ہونے کی دلیل مانگتا ہے۔ میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے اگر آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے تو کوئی دلیل دیں اس طرح ہوا میں تیر چلانا آپ کو زیبا نہیں دیتا۔
شاید آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہے کہ نکاح کا مطلب جنسی مراد کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہی سکتا، نکاح کے بعد اور بھی بہت سے کام ہیں جسے کرنا ہوتا ہے صرف آپ کی طرح ایک بات کو پکڑ کر نکاح کے فضائل کو کم نہیں کیا جا سکتا،
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائی میں نے نکاح کے فضائل نہیں پوچھے میرے کہنے کا مطلب تھا کہ '' جنسی محبت'' ہی شادی کرنے کا محرک ہوتی ہے۔ شادی کا انکار تو میں نے نہیں کیا۔ '' جنسی محبت'' کو ہی تو جائز بنانے کیلئے انسان شادی کرتا ہے۔ اگر آپ '' جنسی محبت'' کے خلاف ہو تو اور بات ہے۔
 
Top