• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابوں میں اغلاط کی نشاندہی

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم
کتابوں میں اغلاط کی نشاندہی

مکتبہ دارالسلام کی طرف سے شائع کردہ کتاب "اسلام میں بنیادی حقوق" میں صفحہ ٤٥ پر سورۃ بنی اسرائیل کا حوالہ دیا ہے اور سورۃ کا نمبر ١٨ لکھا ہے جبکہ سورۃ بنی اسرائیل کا نمبر ١٧ ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مکتبہ دارالسلام کی طرف سے شائع کردہ کتاب "رحمت عالم ﷺ " از سید سلمان ندوی صفحہ 72 پر ایک بات لکھی ہے جوکہ:
" نبی کریم ﷺ یہودیوں کی پیروی میں پہلے مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔"
یہاں لفظ "یہودیوں کی پیروی میں" نامناسب ہے۔رسول اللہ ﷺ خود اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔لہذا نیکسٹ ایڈیشن میں یہ الفاظ ہٹا دینے چاہیے۔ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اقبال کیلانی صاحب کی کتاب "توحید کے مسائل" صفحہ 40 پر صفحے کے نیچے سورۃ نوح کی آیت نمبر 23 نقل کی ہے
وَقَالُوا۟ لَا تَذَرُنَّ ءَالِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّۭا وَلَا سُوَاعًۭا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًۭا ﴿23﴾
وَلَا سُوَاعًۭا لکھنا بھول گئے ہیں۔
اور آیت کا نمبر 33 لکھا ہے جو کہ غلط ہے آیت کا نمبر 23 ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
توحید کے مسائل از محمد اقبال کیلانی۔صفحہ نمبر 75 کے نیچے سورۃ الزخرف آیت 15نقل کی ہے اور اس آیت میں عِبَادِهِ کا لفظ لکھنا بھول گئے ہیں اور یہ بھی کمپوزنگ کی غلطی ہے۔
وَجَعَلُوا۟ لَهُۥ مِنْ عِبَادِهِۦ جُزْءًا ۚ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَكَفُورٌۭ مُّبِينٌ ﴿15﴾
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
اسلام علیکم
چلئیے ارسلان بھائی
جب کتابوں میں اغلاط کی بات شروع ہوگئی تو میں بھی ایک نشاندہی کیے دیتا ہو۔
حافظ زبیر زئی کی کتاب ’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام‘‘ کے صفحہ نمبر ٣٣ پر یہ لکھا ہوا ہے۔
٨ :صحیح لہ فی مستدرک صحيح على شرط الشيخين و وافقہ الذہبی (ا،٤٨٣،ح١٤١٨)
یہ روایت مومل عن سفیان(الثوری)کی سند سے ہےلہذا مومل مذکور حاکم اور ذہبی دونوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہے
میں نے جب شاملہ میں یہ حدیث تلاش کی تو مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
1418 - حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا حميد بن عياش الرملي حدثنامؤمل بن إسماعيل ثنا سفيان عن عبد الرحمن بن الأصبهاني عن أبي حازم عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أولاد المؤمنين في جبل في الجنة يكفلهم إبراهيم وسارة حتى يردهم إلى آبائهم يوم القيامة
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
مستدرك الحاكم ]
الكتاب : المستدرك على الصحيحين
المؤلف : محمد بن عبد الله أبو عبد الله الحاكم النيسابوري
الناشر : دار الكتب العلمية - بيروت
الطبعة الأولى ، 1411 - 1990
تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا
عدد الأجزاء : 4
مع الكتاب : تعليقات الذهبي في التلخيص
اور پی ڈی ایٍف فائل میں یہ حدیث نمبر ١٤١٩ ہے اس میں بھی مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
اللہ حافظ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اسلام علیکم
چلئیے ارسلان بھائی
جب کتابوں میں اغلاط کی بات شروع ہوگئی تو میں بھی ایک نشاندہی کیے دیتا ہو۔
حافظ زبیر زئی کی کتاب ’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام‘‘ کے صفحہ نمبر ٣٣ پر یہ لکھا ہوا ہے۔
٨ :صحیح لہ فی مستدرک صحيح على شرط الشيخين و وافقہ الذہبی (ا،٤٨٣،ح١٤١٨)
یہ روایت مومل عن سفیان(الثوری)کی سند سے ہےلہذا مومل مذکور حاکم اور ذہبی دونوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہے
میں نے جب شاملہ میں یہ حدیث تلاش کی تو مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
1418 - حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا حميد بن عياش الرملي حدثنامؤمل بن إسماعيل ثنا سفيان عن عبد الرحمن بن الأصبهاني عن أبي حازم عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أولاد المؤمنين في جبل في الجنة يكفلهم إبراهيم وسارة حتى يردهم إلى آبائهم يوم القيامة
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
مستدرك الحاكم ]
الكتاب : المستدرك على الصحيحين
المؤلف : محمد بن عبد الله أبو عبد الله الحاكم النيسابوري
الناشر : دار الكتب العلمية - بيروت
الطبعة الأولى ، 1411 - 1990
تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا
عدد الأجزاء : 4
مع الكتاب : تعليقات الذهبي في التلخيص
اور پی ڈی ایٍف فائل میں یہ حدیث نمبر ١٤١٩ ہے اس میں بھی مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
اللہ حافظ
میں قطعا نہیں سمجھتا کہ حافظ زیبرعلی زئی حفظہ اللہ کی محولہ عبارت میں کوئی غلطی ہے ۔
آپ غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مستدرک میں مؤمل کی روایت ’’حدثنا‘‘ کے صیغہ سے ہے ۔
اورحافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ’’عن‘‘ کے صیغہ سے نقل کیا ہے !!!

عرض ہے کہ حافظ موصوف کے مذکورہ جملہ کے سیاق کو سمجھنے کی کوشش کریں حافظ موصوف کے جملہ کا مقصود یہ ہے کہ سفیان ثوری کی جورایت مؤمل کے طریق سے آتی ہے اس میں بھی مؤمل ثقہ ہیں ۔
حافظ موصوف ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کر صیغہ ادا پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس سندمیں مؤمل نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اس مٍفہوم کو حافظ موصوف نے ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کربیان کیا ہے ۔دریں صورت اصل سند میں صیغہ ادا ’’عن‘‘ ہو یا ’’حدثنا ‘‘ اس سے مذکورہ جملہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

غورکریں کہ اس عبارت سے قبل صفحہ ٣٢ پر حافظ موصوف لکھتے ہیں:
ترمذی: صحح لہ (٤١٥، ٦٧٢ ، ١٩٤٨) وحسن لہ (٢١٤٦، [٣٢٦٦])
تنبیۃ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔



لیکن یہ روایات ترمذی سے ملاحظہ ہوں:
415 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ المُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ "،: «وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا البَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274]

یعنی یہاں ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

672 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا المُؤَمَّلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَعْطَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا بِطِيبِ [ص:50] نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا مِثْلُ أَجْرِهِ، لَهَا مَا نَوَتْ حَسَنًا، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ، مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لَا يَذْكُرُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ مَسْرُوقٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 49]

صرف اسی ایک حوالہ میں ’’عن ‘‘ کا صیغہ ہے۔

1948 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي، فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي يَقُولُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، فَالتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ» قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: «فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 335]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

2146 - حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً»: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي عَزَّةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا الحَدِيثِ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، وَأَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَهُ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 452]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اب کیا کہا جائے کہ یہاں بھی غلطی ہے ؟؟؟؟
کلام کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اشکال ختم ہوجائے گا ، ان مقامات پرحافظ موصوف ’’مؤمل عن سفیان ‘‘ کہہ کر فقط طریق کی نوعیت بتلانا چاہتے ہیں قطع نظر اس کے کی مؤمل نے کس سے صیغہ سے روایت بیان کی ہے، دریں صورت مؤمل کا صیغہ ادا ’’حدثنا‘‘ ہو یا ’’عن‘‘ ، بہرصورت حافظ موصوف کی عبارت اپنی جگہ درست ہے۔
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
میں قطعا نہیں سمجھتا کہ حافظ زیبرعلی زئی حفظہ اللہ کی محولہ عبارت میں کوئی غلطی ہے ۔
آپ غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مستدرک میں مؤمل کی روایت ’’حدثنا‘‘ کے صیغہ سے ہے ۔
اورحافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ’’عن‘‘ کے صیغہ سے نقل کیا ہے !!!

عرض ہے کہ حافظ موصوف کے مذکورہ جملہ کے سیاق کو سمجھنے کی کوشش کریں حافظ موصوف کے جملہ کا مقصود یہ ہے کہ سفیان ثوری کی جورایت مؤمل کے طریق سے آتی ہے اس میں بھی مؤمل ثقہ ہیں ۔
حافظ موصوف ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کر صیغہ ادا پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس سندمیں مؤمل نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اس مٍفہوم کو حافظ موصوف نے ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کربیان کیا ہے ۔دریں صورت اصل سند میں صیغہ ادا ’’عن‘‘ ہو یا ’’حدثنا ‘‘ اس سے مذکورہ جملہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

غورکریں کہ اس عبارت سے قبل صفحہ ٣٢ پر حافظ موصوف لکھتے ہیں:
ترمذی: صحح لہ (٤١٥، ٦٧٢ ، ١٩٤٨) وحسن لہ (٢١٤٦، [٣٢٦٦])
تنبیۃ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔



لیکن یہ روایات ترمذی سے ملاحظہ ہوں:
415 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ المُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ "،: «وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا البَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274]

یعنی یہاں ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

672 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا المُؤَمَّلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَعْطَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا بِطِيبِ [ص:50] نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا مِثْلُ أَجْرِهِ، لَهَا مَا نَوَتْ حَسَنًا، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ، مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لَا يَذْكُرُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ مَسْرُوقٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 49]

صرف اسی ایک حوالہ میں ’’عن ‘‘ کا صیغہ ہے۔

1948 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي، فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي يَقُولُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، فَالتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ» قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: «فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 335]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

2146 - حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً»: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي عَزَّةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا الحَدِيثِ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، وَأَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَهُ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 452]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اب کیا کہا جائے کہ یہاں بھی غلطی ہے ؟؟؟؟
کلام کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اشکال ختم ہوجائے گا ، ان مقامات پرحافظ موصوف ’’مؤمل عن سفیان ‘‘ کہہ کر فقط طریق کی نوعیت بتلانا چاہتے ہیں قطع نظر اس کے کی مؤمل نے کس سے صیغہ سے روایت بیان کی ہے، دریں صورت مؤمل کا صیغہ ادا ’’حدثنا‘‘ ہو یا ’’عن‘‘ ، بہرصورت حافظ موصوف کی عبارت اپنی جگہ درست ہے۔
السلام علیکم انشاٰءاللہ میں سمجھنے کی پوری کوشیش کروںگا
نماز میں ہاتھ باندھنے کی کتاب کے صفحے ٣٥ پر حافظ زبیر زئی نے ١٦)نمبر پر امام نسائی کے حوالے سےیہ بات کہی(روی لہ فی سنن مجتبیٰ)(٤٠٩٧،٤٥٨٩)ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا’’وکذاکل من حدث عنہ نسائی فھو ثقہ(قواعد علوم حدیث ص٢٢٢)یعنی السنن الصغریٰ کی جس راوی پر امام نسائی جرح نہ کریں وہ(عام طور پر)ان (ظفر احمد تھانوی اور دیوبندیوں )کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
یہاں پر حافظ صاحب نے دیوبندی کے قول (ثقایت)کوکیوں تسلیم کیا؟ ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ امام نسائی کہ نزدیک مومل کو ثقہ ثابت کرتے ۔اور اوپر سے حافظ صاحب نے دیوبندی کی بات کو مومل کے معدلین میں شمار کرلیا؟
اب رہا امام نسائی کی جرح کا تعلق تو امام نسائی کی کتاب عمل الیوم واللیتہ للنسائی کے صفحہ نمبر ١٧٥حدیث نمبر ٨٥
مَا يَقُول إِذا خرج من بَيته85 - أَخْبرنِي عَليّ بن سهل قَالَ حَدثنَا مُؤَمل قَالَ حَدثنَا شُعْبَة عَن عَاصِم عَن الشّعبِيّ عَن أم سملة أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ إِذا خرج من بَيته قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذ بك أَن أزل أَو أضلّ أَو أظلم أَو أُظلم أَو أَجْهَل أَو يجهل عَليّ
قَالَ أَبُو عبد الرَّحْمَن هَذَا خطأ (عَاصِم) آعن الشّعبِيّ وَالصَّوَاب شُعْبَة عَن مَنْصُور ومؤمل بن اسماعيل كثير الْخَطَأ
نسخہ الشاملہ
اب یہاں پر جو جرح ہے وہ آپ کس کے ذمہ لگائے گے؟
اور آپ مجھے ذرا یہ اصول بھی سمجھا دے کہ ایک محدیث اپنی حدیثوں کی کتاب میں ایک راوی پر جرح کرتا ہے اور جب اسم رجال کی کتاب لکھتا ہے تو اسمیں اس راوی کے اوپر جرح نہیں کرتا تو اسمیں کونسی بات قبول کی جائے
اللہ حافظ
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
میں قطعا نہیں سمجھتا کہ حافظ زیبرعلی زئی حفظہ اللہ کی محولہ عبارت میں کوئی غلطی ہے ۔
آپ غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مستدرک میں مؤمل کی روایت ’’حدثنا‘‘ کے صیغہ سے ہے ۔
اورحافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ’’عن‘‘ کے صیغہ سے نقل کیا ہے !!!

عرض ہے کہ حافظ موصوف کے مذکورہ جملہ کے سیاق کو سمجھنے کی کوشش کریں حافظ موصوف کے جملہ کا مقصود یہ ہے کہ سفیان ثوری کی جورایت مؤمل کے طریق سے آتی ہے اس میں بھی مؤمل ثقہ ہیں ۔
حافظ موصوف ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کر صیغہ ادا پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس سندمیں مؤمل نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اس مٍفہوم کو حافظ موصوف نے ’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کربیان کیا ہے ۔دریں صورت اصل سند میں صیغہ ادا ’’عن‘‘ ہو یا ’’حدثنا ‘‘ اس سے مذکورہ جملہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

غورکریں کہ اس عبارت سے قبل صفحہ ٣٢ پر حافظ موصوف لکھتے ہیں:
ترمذی: صحح لہ (٤١٥، ٦٧٢ ، ١٩٤٨) وحسن لہ (٢١٤٦، [٣٢٦٦])
تنبیۃ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔



لیکن یہ روایات ترمذی سے ملاحظہ ہوں:
415 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ المُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ "،: «وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا البَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274]

یعنی یہاں ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

672 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا المُؤَمَّلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَعْطَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا بِطِيبِ [ص:50] نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا مِثْلُ أَجْرِهِ، لَهَا مَا نَوَتْ حَسَنًا، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ، مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لَا يَذْكُرُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ مَسْرُوقٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 49]

صرف اسی ایک حوالہ میں ’’عن ‘‘ کا صیغہ ہے۔

1948 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي، فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي يَقُولُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، فَالتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ» قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: «فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 335]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

2146 - حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً»: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي عَزَّةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا الحَدِيثِ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، وَأَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَهُ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 452]۔

یہاں بھی ’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اب کیا کہا جائے کہ یہاں بھی غلطی ہے ؟؟؟؟
کلام کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اشکال ختم ہوجائے گا ، ان مقامات پرحافظ موصوف ’’مؤمل عن سفیان ‘‘ کہہ کر فقط طریق کی نوعیت بتلانا چاہتے ہیں قطع نظر اس کے کی مؤمل نے کس سے صیغہ سے روایت بیان کی ہے، دریں صورت مؤمل کا صیغہ ادا ’’حدثنا‘‘ ہو یا ’’عن‘‘ ، بہرصورت حافظ موصوف کی عبارت اپنی جگہ درست ہے۔
میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حافظ صاحب نے مستدرک الحاکم کا جو حوالہ دیا اسمیں مومل بن اسماعیل ثنا سفيان ہے۔
اسکے نیچے یہ الفاظ ہے ’’یہ روایت مومل عن سفیان(الثوری)کی سندسے ہے۔لہذا مومل مذکور حاکم اور ذہبی دونوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہے
یہ روایت سے مراد اگر ابن خزیمہ کی حدیث ہے۔تو مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔مگر یہ روایت سے مراد مستدرک الحاکم کی ہے۔جسکا حوالہ حافظ صاحب نے دیا ہے تو اس میں مومل بن اسماعیل ثنا سفيان ہی ہے۔میں صرف یہ بات ہی کہنا چاہتا تھا۔
اللہ حافظ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
السلام علیکم انشاٰءاللہ میں سمجھنے کی پوری کوشیش کروںگا
نماز میں ہاتھ باندھنے کی کتاب کے صفحے ٣٥ پر حافظ زبیر زئی نے ١٦)نمبر پر امام نسائی کے حوالے سےیہ بات کہی(روی لہ فی سنن مجتبیٰ)(٤٠٩٧،٤٥٨٩)ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا’’وکذاکل من حدث عنہ نسائی فھو ثقہ(قواعد علوم حدیث ص٢٢٢)یعنی السنن الصغریٰ کی جس راوی پر امام نسائی جرح نہ کریں وہ(عام طور پر)ان (ظفر احمد تھانوی اور دیوبندیوں )کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
یہاں پر حافظ صاحب نے دیوبندی کے قول (ثقایت)کوکیوں تسلیم کیا؟ ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ امام نسائی کہ نزدیک مومل کو ثقہ ثابت کرتے ۔اور اوپر سے حافظ صاحب نے دیوبندی کی بات کو مومل کے معدلین میں شمار کرلیا؟
اب رہا امام نسائی کی جرح کا تعلق تو امام نسائی کی کتاب عمل الیوم واللیتہ للنسائی کے صفحہ نمبر ١٧٥حدیث نمبر ٨٥
مَا يَقُول إِذا خرج من بَيته85 - أَخْبرنِي عَليّ بن سهل قَالَ حَدثنَا مُؤَمل قَالَ حَدثنَا شُعْبَة عَن عَاصِم عَن الشّعبِيّ عَن أم سملة أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ إِذا خرج من بَيته قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذ بك أَن أزل أَو أضلّ أَو أظلم أَو أُظلم أَو أَجْهَل أَو يجهل عَليّ
قَالَ أَبُو عبد الرَّحْمَن هَذَا خطأ (عَاصِم) آعن الشّعبِيّ وَالصَّوَاب شُعْبَة عَن مَنْصُور ومؤمل بن اسماعيل كثير الْخَطَأ
نسخہ الشاملہ
اب یہاں پر جو جرح ہے وہ آپ کس کے ذمہ لگائے گے؟
اور آپ مجھے ذرا یہ اصول بھی سمجھا دے کہ ایک محدیث اپنی حدیثوں کی کتاب میں ایک راوی پر جرح کرتا ہے اور جب اسم رجال کی کتاب لکھتا ہے تو اسمیں اس راوی کے اوپر جرح نہیں کرتا تو اسمیں کونسی بات قبول کی جائے
ان باتوں کا کوئی تعلق نہ تو میرے گذشتہ مراسلہ سے ہے اور نہ ہی اس دھاگہ کے موضوع سے ہے۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کی کتاب کے صفحے ٣٥ پر حافظ زبیر زئی نے ١٦)نمبر پر امام نسائی کے حوالے سےیہ بات کہی(روی لہ فی سنن مجتبیٰ)(٤٠٩٧،٤٥٨٩)ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا’’وکذاکل من حدث عنہ نسائی فھو ثقہ(قواعد علوم حدیث ص٢٢٢)یعنی السنن الصغریٰ کی جس راوی پر امام نسائی جرح نہ کریں وہ(عام طور پر)ان (ظفر احمد تھانوی اور دیوبندیوں )کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
یہاں پر حافظ صاحب نے دیوبندی کے قول (ثقایت)کوکیوں تسلیم کیا؟ ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ امام نسائی کہ نزدیک مومل کو ثقہ ثابت کرتے ۔اور اوپر سے حافظ صاحب نے دیوبندی کی بات کو مومل کے معدلین میں شمار کرلیا؟
آپ کو حافظ موصوف سے اختلاف کاحق حاصل ہے مگراس دھاگہ میں آپ کا یہ سب کچھ لکھنا کیا معنی رکھتاہے؟؟ دھاگہ کا موضوع ہے ’’کتابوں میں اغلاط کی نشاندہی‘‘
یعنی ایسی غلطی جو کتابت یا کمپوزنگ وغیرہ کی ہو جس کے غلط ہونے میں کسی کو کلام نہ ہو۔
جہاں تک علمی اختلاف کی بات ہے تو آگر آپ کو کسی کتاب کی کوئی بات سے اختلاف ہے تو اس کے لئے آپ کو دوسرا موضوع شروع کرناچاہئے۔

اب رہا امام نسائی کی جرح کا تعلق تو امام نسائی کی کتاب عمل الیوم واللیتہ للنسائی کے صفحہ نمبر ١٧٥حدیث نمبر ٨٥
مَا يَقُول إِذا خرج من بَيته85 - أَخْبرنِي عَليّ بن سهل قَالَ حَدثنَا مُؤَمل قَالَ حَدثنَا شُعْبَة عَن عَاصِم عَن الشّعبِيّ عَن أم سملة أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ إِذا خرج من بَيته قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذ بك أَن أزل أَو أضلّ أَو أظلم أَو أُظلم أَو أَجْهَل أَو يجهل عَليّ
قَالَ أَبُو عبد الرَّحْمَن هَذَا خطأ (عَاصِم) آعن الشّعبِيّ وَالصَّوَاب شُعْبَة عَن مَنْصُور ومؤمل بن اسماعيل كثير الْخَطَأ
نسخہ الشاملہ
اب یہاں پر جو جرح ہے وہ آپ کس کے ذمہ لگائے گے؟
اور آپ مجھے ذرا یہ اصول بھی سمجھا دے کہ ایک محدیث اپنی حدیثوں کی کتاب میں ایک راوی پر جرح کرتا ہے اور جب اسم رجال کی کتاب لکھتا ہے تو اسمیں اس راوی کے اوپر جرح نہیں کرتا تو اسمیں کونسی بات قبول کی جائے
اللہ حافظ
اس بات کا بھی موضوع سے کوئی تعلق نہیں یہ بھی علمی اختلاف جس کے اظہار کی جگہ دوسری ہے۔
 
Top