• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ مت بیٹھیں

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ مت بیٹھیں

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَقْعَدِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا » [متفق علیه]
’’اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس میں بیٹھ جائے بلکہ کھل جاؤ اور کشادگی پیدا کرلو۔‘‘ (متفق علیہ)
تشریح:
1۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ کسی کی مخصوص جگہ یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا آ کر بیٹھ جائے تو اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ وہاں بلا اجازت بیٹھنا تو اس کے لئے جائز ہی نہیں ، اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں بیٹھا ہر مسلمان کے لئے جائز ہے مثلا مسجد، حکام کی مجالس، اہل علم کے حلقہ ہائے درس، بازار میں تجارت کےلئے کوئی جگہ ، دستکاری کے لئے کوئی جگہ ، تفریحی مقامات، مزدلفہ ، عرفات وغیرہ میں جو شخص پہلے آکر بیٹھ جائے کسی کےلئے جائز نہیں کہ اسے اٹھا کر خود بیٹھ جائے۔
2۔ جو شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر خود بیٹھتا ہے یا تو اس لیے کہ یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر ترجیح دے رہا ہے اور یہ بات مسلمان کے لائق نہیں ہے:
﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ [حشر:9]
’’ وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو ) ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو۔‘‘ یا پھر تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ اس سے بھی بد تر ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں تواضع کا حکم دیا ہے۔
3۔ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کے نتیجے میں دلوں کی اند ر دوری اور بغض پیدا ہونے کا خطرہ ہے، جب کہ مومنوں کو باہمی محبت و اخوت کی تاکید کی گئی ہے۔
4۔ لا یقیم ’’ نہ اٹھائے ‘‘ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود بخود اٹھ کر بیٹھنے کی پیشکش کرے تو وہاں بیٹھنا جائز ہے، البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے بھی اجتناب کرتے تھے اگر کوئی شخص ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔ [بخاری: 6270]
مگر اہل علم نے ان کے اس عمل کو مزید احتیاط پر محمول کیا ہے کہ ممکن ہے وہ شخص دل سے نہ اٹھا ہو صرف شرم کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔
5۔ اس حدیث سے پاگل اور بے وقوف مستثنیٰ ہیں اگر وہ مجلس علم کو خراب کر رہے ہوں یا مسجد کے ادب میں خلل انداز ہوں تو انہیں نکالنا درست ہے:
﴿وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ ﴾
’’ اور بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔‘‘
مجلس علم کا مقام مال سے بہت زیادہ ہے، جب بے وقوفوں کو اس بات سےروکا جا سکتا ہے کہ وہ مال خراب کر یں تو انہیں علم کی دولت خراب کرنے سے کیوں نہیں روکا جائے گا۔
6۔ جو شخص بد بو دار چیز کھا کر مسجد میں آئے یا کسی کو تکلیف دے اسے مسجد سے نکالنا جائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس شخص نے یہ سبزیاں تھوم، پیاز یا گندنا کھائی ہوں وہ ہماری مسجد کےقریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ [مسلم: 74]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کے خطبہ کے آخر میں فرمایا:
’’ لوگو! تم یہ دو پودے کھاتے ہو جنہیں میں تو خبیث (برا) ہی سمجھتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اس کے متعلق حکم دیتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ [مسلم: 78]
حقے اور سگریٹ کی بدبو تو پیاز اور لہسن سے کئی گنا تکلیف دہ ہوتی ہے۔
 
Top