• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کفیل اور غیر ملکی ورکروں کے تعلقات، سعودی سکالر نے انتہائی متنازعہ فتویٰ دیدیا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
کفیل اور غیر ملکی ورکروں کے تعلقات، سعودی سکالر نے انتہائی متنازعہ فتویٰ دیدیا
30 اگست 2015

جدہ (نیوز ڈیسک) ممتاز سعودی سکالر شیخ عبداللہ المطلاق جو کہ سعودی سینئر سکالرز کونسل کے رکن بھی ہیں، نے کہا ہے کہ اگر کفیل اپنے غیر ملکی ورکروں کو منافع کے لئے دوسرے مقامی افراد کو ’لیز‘ پر دے دیں تو یہ انسانی سمگلنگ نہیں بلکہ کاروبار کی ایک شکل ہے۔


ان کا کہنا ہے کہ تاہم ایسے غیر ملکی ورکر کی اجازت لینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینئر سکالرز کونسل نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سپانسر غیر ملکی ورکروں کو اپنے ڈرائیوروں، ملازماﺅں، الیکٹریشنز یا کسی بھی دوسرے ورکر کو اس کی مرضی سے کسی اور کے پاس بھجوا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی کمپنیاں بھی غیر ملکیوں کو کام پر رکھ کر انہیں اپنے کلائنٹس کو ’کرائے‘ پر دیتی ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں، گھریلو ملازمین کی حد تک تو اس کام کی اجازت مل جاتی ہے لیکن عمومی طور پر نہیں۔ انفرادی طور پر کوئی بھی کفیل غیر ملکیوں کو ’لیز‘ نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے پاس لائسنس موجود نہ ہو۔

دوسری جانب مبصرین نے سعودی سکالر کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر بھی یہ بات مناسب نہیں کہ کفیل کو ورکرز کرائے پر دینے کی اجازت دے دی جائے۔ عموماً غیر ملکی ورکروں کیلئے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کفیل کی کسی بات کو رد کر دیں۔ اگر سرکاری سطح پر اس بات کی اجازت دے دی گئی تو بہت سے نئے مسائل جنم لے لیں گے۔

روزنامہ پاکستان
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,732
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ کام تو یورپ میں کافی عرصہ سے جاری ہے، اب تمام کمپنیاں اسی ''کرائے کے ملازم'' رکھنا ہی پسند کرتی ہیں!
اسے تو جرمن میں کہا ہی'' کرائے کی ملازم '' جاتا ہے !
حتی کہ انڈیا سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی انڈین انفارمشین انجینیرز کو ''کرائے کے ملازم'' کی حثیت سے ہی منگوایا جا رہا ہے، کہ انڈین کمپنی یہاں اپنے ملازم کرائے پر دیتی ہے!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہ کام کہیں بھی نیا نہیں۔ اوورسیز سپلائی، سپلائیر۔ شارٹ ٹرم کنٹریکٹ!

شارٹ ٹرم کنٹریکٹ ورکرز کی سلیکشن کرنا، ویزہ دینا، ٹکٹ، رہائش، ٹرانسپوٹ، سروس پے کمپنی کے لئے نقصان دہ ہوتا ھے اس لئے وہ سپلائی کمپنیوں سے ورکرز حاصل کرتی ہیں۔

سپلائی کمپنیوں کے پاس اپنے ویزہ پر کام کریں تو بہتر ھے اگر ان سے ویزہ لیں تو پھر نقصان دہ ہوتا ھے۔

سپلائی ورکرز کو ڈیلی ویجز ملتی ھے یعنی جب کام کریں گے تو وہی معاوضہ، بیماری یا سرکاری چھٹی وغیرہ پر کوئی بینیفٹ نہیں ملتا، اگر کام ھے تو پورا ہفتہ لگائیں نہیں تو ہفتہ میں دو تین دن بھی لگتے ہیں۔

سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں بڑے عہدوں پر جو مواطنین کام کرتے ہیں یہ کمپنیاں زیادہ تر انہی کی ہوتی ہیں۔ جتنے بھی بڑے پروجیکٹ پر کام شروع ہوتا ھے اس پر ساری سپلائی اپنی کمپنیوں سے لیتے ہیں جس پر کمپنی کو پیمنٹ زیادہ ہوتی ھے مگر ورکرز کو معاوضہ اتنا نہیں ملتا جنتا اسے ملنا چاہئے۔ مثال سے حکومت پرمننٹ ٹیکنیشن کو مہینے کا 3 ہزار ریال دے رہی ھے تو سپلائی پر اسی ٹیکنیشن پر 5 سے 10 ہزار دے رہی ھے، اور سپلائی کمپنی اسی ٹیکنیشن کر 2000 روپے دے رہی ھے۔

پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس اپنا سٹاف کمپنی کی کپیسٹی کے حوالہ سے مکمل ہوتا ھے بوقت ضرورت یا کسی بھی امرجینسی کی صورت میں وہ سپلائی کپمنیوں سے شارٹ کنٹریکٹ پر ورکرز لیتی ہیں اس پر اگر کام مہینہ دن دن کا ھے تو ورکرز کو معاوضہ بہت زیادہ دیا جاتا ھے کیونکہ شارٹ ٹرم پر کم معاوضہ میں کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

اس پر اگر ورکرز تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتا ھے تو اندر بڑے آفیسرز سے اچھے تعلقات بنائے رکھے تو وہ اسی جگہ پر پرمننٹ بھی ہو جاتا ھے۔

والسلام
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
مزدور محنت کرے، اپنی جسمانی قوت خرچ کرے اور معاوضہ کفیل لے جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ تو زیادتی و ظلم ھے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
چونکہ بات سعودیہ کے حوالہ سے ہورہی ہے تو کوئی اہل علم ایک ”کنفیوژن " دور کردے۔
  1. کیا اسلام میں کسی غیر ملکی عورت (مسلم یا نان مسلم) کو اپنے ملک بلا کر بطور گھریلو ملازمہ رکھنا جائز ہے۔ جہاں وہ 24 گھنٹہ کسی غیر کے گھر میں رہے اور جہاں اس کا واسطہ گھر کے مردوں سے بھی پڑے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی پڑے۔
  2. کیا کسی مسلمان خاتون اور ان کے سرپرستوں کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر کی خاتون کو بیرون ملک بطور گھریلو ملازمہ کے بھیجے۔
@اسحاق سلفی
@انس
@خضر حیات
@محمد فیض الابرار
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
  1. کیا اسلام میں کسی غیر ملکی عورت (مسلم یا نان مسلم) کو اپنے ملک بلا کر بطور گھریلو ملازمہ رکھنا جائز ہے۔ جہاں وہ 24 گھنٹہ کسی غیر کے گھر میں رہے اور جہاں اس کا واسطہ گھر کے مردوں سے بھی پڑے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی پڑے۔
  2. کیا کسی مسلمان خاتون اور ان کے سرپرستوں کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر کی خاتون کو بیرون ملک بطور گھریلو ملازمہ کے بھیجے۔
اس کا جواب درج ذیل فتوی میں دیا گیا ہے ۔

’’ إحضار خادمة
ما الحكم في إحضار خادمة لتخدم والدي الزوج وهو قادر ماديّاً والزوجة مشغولة جداً بالأطفال والتنظيف ولا يستطيع الزوج مساعدتها ؟ مع العلم بأن الوالدين لا يفضلان هذا .
الحمد لله

الكلام عن الخادمات والنتائج السيئة من إحضارهن وإدخالهن لبيوت المسلمين كثير ، لذا فإن على المسلم عدم اللجوء لإحضار الخادمات وإبقائهن في البيوت وخاصة إذا كان في البيوت مراهقون من الشباب ، وعندما تكون الخادمة على غير دين الإسلام فإن المنع من إحضارها يتأكد ، والمآسي التي ترتبت على مثل هذا الفعل أكثر من أن تُحصى .

ويقع الذي يحضر الخادمة – أيضاً – في محظورات منها : إحضارها من بلدها من غير محرَم ، ومنها : تعرضها للخلوة بالأجانب في الغرف والبيوت ، ومنها : النظر إليها وبالعكس .

لذا فقد حذر علماؤنا من استقدام الخدم إلا للحاجة أو الضرورة :

قال الشيخ محمد الصالح بن عثيمين :

أولاً :

ينبغي ألا نستقدم خادمات أو خدماً إلا عند الحاجة أو الضرورة ؛ وذلك أن هؤلاء الخدم إذا جاءوا فإنهم سوف يكلفون الإنسان نفقات لا حاجة إلى إنفاقها ولا ضرورة ، وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه " نهى عن إضاعة المال " .

ثانياً :

أن بعضهم غير مؤتمنات تلك الأمانة التي نثق بها ، لذا أقول : لا ينبغي أن نستقدم خادماً ولا خادمات إلا بشروط :

فبالنسبة للمرأة :

أولاً :
لا بدَّ أن يكون معها محرَم ، فإن لم يكن معها محرَم : فإنه لا يجوز استقدامها لقول النبي صلى الله عليه وسلم : " لا تسافر امرأة إلا مع ذي محرَم " ، فإذا استقدمتَها وليس معها محرَم : فهذه مخالفة لنهي الرسول صلى الله عليه وسلم .

ثانياً :
أن يكون محتاجاً إليها ، فإن لم يكن محتاجاً إليها وإنما يقصد بذلك الترفيه وسقوط الكلفة ولو كانت يسيرة عن أهله : ففي جواز ذلك نظر .

الشرط الثالث :
ألا يخشى الفتنة ، فإن خشي على نفسه الفتنة أو على أحدٍ من أولاده – إن كان عنده أولاد - : فإنه لا يجوز أن يعرِّض نفسه لذلك .

الأمر الرابع :
أن تلتزم ما يجب عليها من الحجاب بحيث تغطي وجهها ولا تكشفه ، ولا يصح أن يستدل بقول الله تعالى : { وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ } النور / 31 ، لا يصح الاستدلال بذلك على أنه يجوز للخادمة أن تكشف وجهها لمن هي عنده ؛ لأن المستخدم لم يملكها وإنما هي أجيرة عنده ، والأجيرة كالأجنبيَّة في مسألة الحجاب .

الشرط الخامس :
ألا يخلو بها ، فإن كان ليس عنده أحدٌ في البيت : فإنه لا يجوز أن يستقدمها مطلقاً ، وإن كان عنده أحدٌ في البيت وأهل البيت يذهبون عن البيت ويبقى وحده مع هذه الخادمة : فإن ذلك لا يجوز ؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم : " لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرَم " .
" أسئلة الباب المفتوح " ( رقم 619 ) .

وقال – أيضاً - :
أما إحضارها – أي : الخادمة – من بلدها من غير محرَم : فهو حرام لقول الرسول صلى الله عليه وسلم " لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرَم " ، وأما إذا كانت في البلد وأتى بها يستخدمها في بيته : فهذه إن كانت تأتي وتقضي الحاجة وتذهب إلى بيتها : فلا إشكال في جواز هذا ، أما إذا كانت تبيت عنده : فهذا على خطر ، لا سيما إذا كان عنده شباب مراهقون فإنه يُخشى من المفسدة كما جرى في بعض الأحيان ، أما إذا لم يكن عنده شباب : فنرجو – إن شاء الله – ألا يكون فيها بأس ، لكن التنزه عنها أولى ، وأن تبقى في مكان آخر وتجيء تقضي حاجته في الصباح أو المساء وترجع .
" أسئلة الباب المفتوح " ( رقم 526 ) .

والخلاصة : أنه لما سبق من المحاذير الشرعية ولعدم وجود ضرورة وحاجة عندكم ؛ ولعدم رغبة الوالديْن بإحضارها فإننا لا ننصح الأخ السائل بإحضار خادمة .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bringing servants from abroad
What is the ruling in islam about serving the inlaws if husband is making good money can he get a servant for his wife even though his parents did not like this but wife is very busy with the little kids and cleaning the house and husband does not have any time to help.

Praise be to Allaah.


There is much that could be said about female servants and the bad consequences of bringing them from abroad and letting stay in Muslim homes. Hence the Muslim should not resort to bringing servants to live in the home, especially if there are adolescent boys in the house. If the servants are not Muslim, then it is even more definite that they should not be brought into the home. The regrettable consequences of such actions are greater than can be enumerated.

The one who brings in a servant also commits other haraam actions, such as bringing her from her country without a mahram; causing her to be alone with non-mahram men in rooms and houses; and looking at her and vice versa.

Hence our scholars have warned against employing servants except in cases of necessity.

Shaykh Muhammad ibn Saalih ibn ‘Uthaymeen said:

Firstly:

We should not employ female or male servants except in cases of necessity. That is because bringing these servants involves spending money that a person does not need to spend. It was proven that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) forbade wasting money.

Secondly:

Some of them are not honest enough to deserve the trust we place in them, hence I say that we should not bring male or female servants from abroad unless the following conditions are met:

With regard to women:

Firstly:

The female servant should have a mahram with her, because it is not permissible to bring her to the country otherwise. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, “No woman should travel without a mahram.” If a woman is brought in and has no mahram with her, this is going against the prohibition of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him).

Secondly:

There should be a need for her services. If there is no need and the only reason for bringing her here is to live a life of luxury and have no obligations, or to make life easy for his wife even though the housework is not much, then the issue is subject to further discussion.

The third condition:

There should be no fear of fitnah (temptation). If a man fears that he or one of his sons – if he has sons – may be subject to temptation, then it is not permissible for him to expose himself to that.

The fourth condition:

She should adhere to what is required of her of hijab, so she should cover her face and not uncover it. It is not correct to quote as evidence the verse (interpretation of the meaning):

“And tell the believing women to lower their gaze (from looking at forbidden things), and protect their private parts (from illegal sexual acts) and not to show off their adornment except only that which is apparent (like both eyes for necessity to see the way, or outer palms of hands or one eye or dress like veil, gloves, headcover, apron), and to draw their veils all over Juyoobihinna (i.e. their bodies, faces, necks and bosoms) and not to reveal their adornment except to their husbands, or their fathers, or their husband’s fathers, or their sons, or their husband’s sons, or their brothers or their brother’s sons, or their sister’s sons, or their (Muslim) women (i.e. their sisters in Islam), or the (female) slaves whom their right hands possess”
[al-Noor 24:31]

and it is not correct to interpret that as meaning that it is permissible for a female servant to uncover her face in front of her male employer, because the one who hires a servant does not own her (as in the case of a slave); rather she is a hired worker employed by him, and a hired worker is like any other non-mahram female when it comes to hijab.

The fifth condition:

He should not be alone with her. If there is no one else in the house with him, it is not permissible for him to employ her at all. If there are other people in the house with him but the household members go out from the house and leave him alone with this servant, that is not permissible, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “No man should be alone with a woman unless her mahram is present.”

As’ilat al-Baab al-Maftooh, no. 619

He also said:

Bringing a female servant from her country without a mahram is haraam, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “No woman should travel alone without a mahram.” But if she is already in the country and he brings her to work as a servant in his house, if she is going to come to the house, do what is needed then go back to her own house, there is no doubt that this is permissible, but if she is going to stay in his house, this is a dangerous matter, especially if he has adolescent sons, for then there is the fear of immorality as has happened on some occasions. But if he does not have adolescent sons, then we hope – in sha Allaah – that there is nothing wrong with that, but it is better to avoid that and for her to stay elsewhere and come to do her work in the morning or afternoon and then go back.

As’ilat al-Baab al-Maftooh, no. 526.

In conclusion: because of the shar’i restrictions that we have noted above, and because there is no need in your case – since the parents do not want to bring a servant – then we do not advise the brother to bring a servant.

And Allaah knows best.

Islam Q&A
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا سعودی علماء اس بارے میں سعودی حکومت سے کچھ نہیں کہتے؟ سعودی گھرانوں میں غیر ملکی مسلم اور غیر مسلم ملازماؤں کی بہتات ہے۔ اور اکثر ان کے ساتھ ظلم اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

مزدور محنت کرے، اپنی جسمانی قوت خرچ کرے اور معاوضہ کفیل لے جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ تو زیادتی و ظلم ھے
مزدور سپلائی کمپنی کا حصہ دار نہیں، ملازم ھے جو ایک ایگریمنٹ کے مطابق کسی معاوضہ پر کام کرنے کے لئے راضی ہوتا ھے ٹیمپریری ریلیز لیٹر کے ساتھ کیونکہ اس کے پاس جہاں کا ویزہ ھے وہاں اسے کام نہیں ملتا جس پر اسے کمرہ کا کرایہ اور کھانا یا تو اس کے عزیز اسے مہیا کر رہے ہوتے ہیں یا کمرے والے مل کا آپس میں شیئر کر لیتے ہیں اور وہ ان کے لئے کھانا بنے کے ساتھ دوسرے کام بھی کرتا ھے مزید اگر اسے کام مل بھی جائے تو نقل کفالہ پر بھی سرکاری خرچہ ھے اس پر بھی اس کے پاس ادا کرنے کے لئے فیسیں نہیں ہوتیں تو سپلائی کمپنیوں میں ایک محدود معاوضہ پر کام مل جاتا ھے۔

اگر آپ ضرورت مند ہیں تو کسی بھی کام پر آپکے کام کرنے کی شرائط نہیں ہوتی بلکہ آپ کو کام دینے والے کی شرائط ہوتی ہیں اگر آپ اس پر راضی ہیں تو کام کریں نہیں تو گھر بیٹھے رہیں یا اپنا کوئی کاروبار کر لیں۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,478
پوائنٹ
964
ممتاز سعودی سکالر شیخ عبداللہ المطلاق جو کہ سعودی سینئر سکالرز کونسل کے رکن بھی ہیں،
عبد اللہ االمطلق درست نام ہے ۔

عرب نیوز کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں، گھریلو ملازمین کی حد تک تو اس کام کی اجازت مل جاتی ہے لیکن عمومی طور پر نہیں۔ انفرادی طور پر کوئی بھی کفیل غیر ملکیوں کو ’لیز‘ نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے پاس لائسنس موجود نہ ہو۔
دوسری جانب مبصرین نے سعودی سکالر کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر بھی یہ بات مناسب نہیں کہ کفیل کو ورکرز کرائے پر دینے کی اجازت دے دی جائے۔ عموماً غیر ملکی ورکروں کیلئے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کفیل کی کسی بات کو رد کر دیں۔ اگر سرکاری سطح پر اس بات کی اجازت دے دی گئی تو بہت سے نئے مسائل جنم لے لیں گے۔
روزنامہ پاکستان
بظاہر تو فتوی میں کوئی قابل اعتراض بات محسوس نہیں ہوتی ،
قانونی اعتبار سے اس میں کیا خرابی ہے ؟
حرمین میں جو لوگ کام کرتے ہیں خاص طور پر جن کو ’’ عمال ‘‘ کہا جاتا ہے ، میرے خیال میں تو سب اسی نظام کے تحت ہے ، بن لادن نامی کوئی کمپنی ہے اکثر کام اس کے مزوور کرتے ہیں ، لیکن ان کا لین دین حرمین کی انتظامیہ کی بجائے اپنی کمپنی کے ساتھ ہوتا ہے ۔
 
Last edited:
Top