• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کفیل اور غیر ملکی ورکروں کے تعلقات، سعودی سکالر نے انتہائی متنازعہ فتویٰ دیدیا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
اگر آپ ضرورت مند ہیں تو کسی بھی کام پر آپکے کام کرنے کی شرائط نہیں ہوتی بلکہ آپ کو کام دینے والے کی شرائط ہوتی ہیں اگر آپ اس پر راضی ہیں تو کام کریں نہیں تو گھر بیٹھے رہیں یا اپنا کوئی کاروبار کر لیں۔
یہی تو غریب کا استحصال ھے، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے ھمیشہ مزدور کے حقوق کا استحصال ھی کیا ھے،،،، اور یہ سپلائی کمپنیز بھی اسی ڈگر پر ھیں اور مزدور کے استحقاقات کی پامالی کرتی ھیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی میرے اگر کبھی پردیس جانا ہوا اور وہاں شیئرنگ میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا تو تب آپ جان جائیں گے کہ سپلائی کمپنیوں سے بہت سے مجبور جنہیں کوئی کام نہیں دیتا انہیں یہاں کام مل جاتا ھے۔ میں جانتا ہوں آپ کو مزید لکھنے سے بھی سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ آپ ان باتوں سے ناواقف ہیں، پھر بھی ٹرائی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔

گلف کے کسی بھی ملک میں مزدور جائیں تو اس پر حکومت کی طرف سے ایک ایگریمنٹ بنتا ھے جس پر مزدور کی تنخواہ نیشنل ریٹ 700 ریال، دو سال بعد ٹکٹ، رہائش، ٹرانسپورٹ درج ہوتی ھے۔ اس پر جو لوگ کمپنیوں کے ویزوں پر جاتے ہیں انہیں اسی طرح تمام حقوق ملتے ہیں۔

جو لوگ ادھر ادھر کا ویزہ لے کر جاتے ہیں ایگریمنٹ ان کا بھی بنتا ھے مگر جو اپنے بھائی یا دوست کے لئے ویزہ خریدتا ھے اسے پہلے بتا دیا جاتا ھے کہ کام نہیں ھے صرف ویزہ ھے، اب وہ مزدور جب وہاں جاتا ھے تو اسے کام خود سے تلاش کرنا پڑتا ھے، وہ مزدور ہے ھے جو پاکستان سے گیا ھے اور کچھ نہیں جانتا۔ اسے اگر سپلائی کمپنی سے جاب ملتی ھے تو اس کو 700 ریال سے زیادہ تنخواہ بھی ملتی ھے کیونکہ جس کمپنی کو سپلائی کی جا رہی ھے اس کمپنی پر منحصر ھے کہ وہ کتنی بڑی ھے۔ تنخواہ اسے سپلائی کمپنی سے ہی ملے گی اور اگر کام دل لگا کے کرتے رہیں تو جو کمپنی سپلائی پر لے رہی ھے وہ اسے پرمننٹ اپنا ویزہ بھی دے دیتی ہیں۔

اب بتائیں مزدور کے ساتھ زیادتی کہاں ہوئی۔

والسلام
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
ایک خبر،
http://mbdinnews.com/20911


سعودی وزارت محنت نے سعودی عرب میں کام کرنیوالے تمام کارکنان سے کہا ہے کہ وہ استحصال پسندوں کفیلوں کو کسی بھی حالت میں کوئی رقم بالکل نہ دیں۔ وزارت محنت نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ سعودی عرب میں کام کرنیوالے کارکن وطن مخصوص حالات میں سابق کفیل سے رجوع کئے بغیر نقل کفالہ کراسکتے ہیں۔
وزارت محنت کے ایک عہدیدار نے مقامی جریدہ عکاظ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وزارت محنت سعودی عرب میں کام کرنیوالے غیر ملکیوں پر متعدد پابندیاں ختم کرانے جارہی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی کارکن کفیل کے دباؤ میں رہ رہے تھے اور اس وجہ سے مشکلات سے دو چار تھے۔ سعودی اموال و مسائل پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سعودی وزارت محنت کے اعلیٰ عہدیدار اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ سعودی عرب میں قانونی طور پر کفیل اور مکفول کی اصطلاح ختم کردی گئی ہے اور اسکی جگہ آجر اور اجیر یارب العمل یا عامل کی اصطلاح متعارف کروادی گئی ہے۔
وزارت کے عہدیدار نے کہا کہ کفیل حضرات اپنے مکفول کو دباؤ میں لانے کیلئے پولیس ھروب کی رپورٹ درج کرانے کی دھمکی دیتے تھے۔ یہ ہتھیار اب کفیلوں سے چھین لیا جائیگا، اگر کارکن نئے کفیل کا خط پیش کردے گا تو ایسی صورت میں اسے نقل کفالہ کا موقع دیا جائیگا، اطلاعات یہ ہیں کہ اس سلسلے کی تفصیل معلومات اور وضاحتیں جلد ہی پیش کردی جائینگی
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
السلام علیکم

بھائی میرے اگر کبھی پردیس جانا ہوا اور وہاں شیئرنگ میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا تو تب آپ جان جائیں گے کہ سپلائی کمپنیوں سے بہت سے مجبور جنہیں کوئی کام نہیں دیتا انہیں یہاں کام مل جاتا ھے۔ میں جانتا ہوں آپ کو مزید لکھنے سے بھی سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ آپ ان باتوں سے ناواقف ہیں، پھر بھی ٹرائی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔

گلف کے کسی بھی ملک میں مزدور جائیں تو اس پر حکومت کی طرف سے ایک ایگریمنٹ بنتا ھے جس پر مزدور کی تنخواہ نیشنل ریٹ 700 ریال، دو سال بعد ٹکٹ، رہائش، ٹرانسپورٹ درج ہوتی ھے۔ اس پر جو لوگ کمپنیوں کے ویزوں پر جاتے ہیں انہیں اسی طرح تمام حقوق ملتے ہیں۔

جو لوگ ادھر ادھر کا ویزہ لے کر جاتے ہیں ایگریمنٹ ان کا بھی بنتا ھے مگر جو اپنے بھائی یا دوست کے لئے ویزہ خریدتا ھے اسے پہلے بتا دیا جاتا ھے کہ کام نہیں ھے صرف ویزہ ھے، اب وہ مزدور جب وہاں جاتا ھے تو اسے کام خود سے تلاش کرنا پڑتا ھے، وہ مزدور ہے ھے جو پاکستان سے گیا ھے اور کچھ نہیں جانتا۔ اسے اگر سپلائی کمپنی سے جاب ملتی ھے تو اس کو 700 ریال سے زیادہ تنخواہ بھی ملتی ھے کیونکہ جس کمپنی کو سپلائی کی جا رہی ھے اس کمپنی پر منحصر ھے کہ وہ کتنی بڑی ھے۔ تنخواہ اسے سپلائی کمپنی سے ہی ملے گی اور اگر کام دل لگا کے کرتے رہیں تو جو کمپنی سپلائی پر لے رہی ھے وہ اسے پرمننٹ اپنا ویزہ بھی دے دیتی ہیں۔

اب بتائیں مزدور کے ساتھ زیادتی کہاں ھوئی

والسلام
و علیکم السلام و رحمۃاللہ

بھائی جان،
آپکی بات درست ھے کہ سہولت کاری فراہم کرنے والوں سے مختلف شعبوں میں کافی فائدہ بو جاتا ھے، عمومی طورپر ان سسہولت کاروں کو مڈل مین کی اصطلاح سے جانا جاتا ھے،
میرا مؤقف یہ ھے کہ،
مڈل مین نے جس مزدور کو سہولت کاری فراہم کی ھے وہ اس کے عوض اپنی کمیشن لے اور سائیڈ پر ھو جائے، اور مزدور کی روزانہ کی اجرت میں حصہ داری پر نظر نہ رکھے، کیونکہ ایسا کرنا مزدور کی حق تلفی ھو گی، جو محنت وہ کرتا ھے اسکی اجرت میں سے محض اس وجہ سے مستقل حصہ لیئے جانا کہ سہولت کاری فراہم کی تھی،
ھمارے یہاں پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ھیں کہ جو ویزہ پراسس کروا کر دیتے ھیں اور مزدور کی مزدوری اگر پندرہ سو ریال طے پاتی ھے توھر ماہ وہ پانچ سو ریال اپنی جیب ڈالتے ھیں اور مزدور کو ایک ہزار ریال دیتے ھیں،

بلکہ
مقامی سطح پر بھی معاملات اس حد تک پہنچ چکے ھیں کہ پورٹر اور لوڈر کا سخت ترین کام کرنے والے مزدوروں سے انکے سہولت کار مستقل حصہ وصول کرتے ھیں، جو کہ محنت کرنے والے مزدور سے زیادتی ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میرا مؤقف یہ ھے کہ،
مڈل مین نے جس مزدور کو سہولت کاری فراہم کی ھے وہ اس کے عوض اپنی کمیشن لے اور سائیڈ پر ھو جائے، اور مزدور کی روزانہ کی اجرت میں حصہ داری پر نظر نہ رکھے، کیونکہ ایسا کرنا مزدور کی حق تلفی ھو گی، جو محنت وہ کرتا ھے اسکی اجرت میں سے محض اس وجہ سے مستقل حصہ لیئے جانا کہ سہولت کاری فراہم کی تھی،


سر جی جس ملک کا شہری ہو اس کے لئے طریقہ کار اور دوسرے ملک کے شہری پر طریقہ کار الگ الگ ہوتے ہیں اگر آپ پاکستان میں ہیں آپ پر طریقہ کار اور ھے اور پاکستان میں جو بیرون ملک سے آئے گا اس کا معاملہ اور ہوتا ھے۔ یہ کوئی گھوڑا، کار، گھر سیل نہیں ہو رہا جس پر سودا ختم ہونے پر اپنی کمشن جیب میں ڈال کر آگے چل نکلیں گے۔

سعودی عرب میں ایک بندہ کے پاس ویزہ ھے تو اسے وہیں کام کرنا ھے، اگر اس نے ویزہ خریدہ ھے اور وہاں کام نہیں تو اپنی مرضی سے کسی دوسری جگہ اگر کام کرتا ھے تو اسے ویزہ بدلنا پڑے گا جس پر اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور دوسری جگہ کام کرتا ہوا پکڑا جاتا ھے تو اسے قانون کو غلط استعمال کرنے پر اس ملک سے نکال دیا جاتا ھے۔ یہی بندہ اگر سپلائی کپمنی کے ذریعے کام کرتا ھے تو اسے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ کمپنی اسے فارورڈ کرتی ھے جیسے جس کے ویزہ پر ھے اس کفیل سے تنازل لیٹر لے گا "تنازل جسے ٹیمپریری ریلیز کہتے ہیں جو ایک کاغذ پر لکھا ہوتا ھے جو جاری کی گئی تاریخ سے 6 مہینے تک ویلڈ ہوتا ھے۔
جو سپلائی کمپنی اسے آگے سپلائی پر دے گی وہ اس کا ویزہ کاپی، بتاخہ کاپی اور تنازل لیٹر اصلی والا اپنے پاس رکھے گی۔ سارے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اسے آگے سپلائی پر دیا جائے گا۔ اس پر اسے کام کرتے ہوئے پکڑا نہیں جا سکتا اور انہی 6 مہینے اگر اس کی کارکردگی اچھی رہی تو سپلائی کمپنی اسے اپنا ویزہ دے سکتی ھے یا جہاں وہ سپلائی ہوا ھے وہ بھی اسے اپنا ویزہ دے سکتے ہیں۔

ھمارے یہاں پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ھیں کہ جو ویزہ پراسس کروا کر دیتے ھیں اور مزدور کی مزدوری اگر پندرہ سو ریال طے پاتی ھے توھر ماہ وہ پانچ سو ریال اپنی جیب ڈالتے ھیں اور مزدور کو ایک ہزار ریال دیتے ھیں،
اس کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، جہاں تک میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں اوورسیز والے ایک بھاری رقم لیتے ہیں جس کے بعد ان کا تعلق ختم ہو جاتا ھے۔ بندہ بیرون ملک گیا پھر وہ بندہ جانے اور کمپنی، جس پر اوورسیز والے ایک دھوکہ دیتے ہیں اپنی رقم زیادہ بٹورنے کے لئے انہیں غلط بتاتے ہیں کہ وہاں آپ کو اتنی تنخواہ ملے گی مگر جب بندہ وہاں جاتا ھے تو مزید مشکلات میں گر جاتا ھے۔

مقامی سطح پر بھی معاملات اس حد تک پہنچ چکے ھیں کہ پورٹر اور لوڈر کا سخت ترین کام کرنے والے مزدوروں سے انکے سہولت کار مستقل حصہ وصول کرتے ھیں، جو کہ محنت کرنے والے مزدور سے زیادتی ھے
پورٹر اور لوڈر کہاں کے، ائرپورٹ کے! تو انہیں تنخواہ بھی ملتی ھے اور وہ ٹپ لئے بغیر جان بھی نہیں چھوڑتے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ایک خبر،
http://mbdinnews.com/20911


سعودی وزارت محنت نے سعودی عرب میں کام کرنیوالے تمام کارکنان سے کہا ہے کہ وہ استحصال پسندوں کفیلوں کو کسی بھی حالت میں کوئی رقم بالکل نہ دیں۔ وزارت محنت نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ سعودی عرب میں کام کرنیوالے کارکن وطن مخصوص حالات میں سابق کفیل سے رجوع کئے بغیر نقل کفالہ کراسکتے ہیں۔

وزارت محنت کے ایک عہدیدار نے مقامی جریدہ عکاظ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وزارت محنت سعودی عرب میں کام کرنیوالے غیر ملکیوں پر متعدد پابندیاں ختم کرانے جارہی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی کارکن کفیل کے دباؤ میں رہ رہے تھے اور اس وجہ سے مشکلات سے دو چار تھے۔ سعودی اموال و مسائل پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سعودی وزارت محنت کے اعلیٰ عہدیدار اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ سعودی عرب میں قانونی طور پر کفیل اور مکفول کی اصطلاح ختم کردی گئی ہے اور اسکی جگہ آجر اور اجیر یارب العمل یا عامل کی اصطلاح متعارف کروادی گئی ہے۔

وزارت کے عہدیدار نے کہا کہ کفیل حضرات اپنے مکفول کو دباؤ میں لانے کیلئے پولیس ھروب کی رپورٹ درج کرانے کی دھمکی دیتے تھے۔ یہ ہتھیار اب کفیلوں سے چھین لیا جائیگا، اگر کارکن نئے کفیل کا خط پیش کردے گا تو ایسی صورت میں اسے نقل کفالہ کا موقع دیا جائیگا، اطلاعات یہ ہیں کہ اس سلسلے کی تفصیل معلومات اور وضاحتیں جلد ہی پیش کردی جائینگی
خبریں پیسٹ کرنے سے آپ وہاں کے حالات پر تبصرہ نہیں کر سکتے مگر معلومات ضرور حاصل کر سکتے ہیں چلیں ایسے ہی سہی۔ حکومت تو یہ بھی کہتی ھے کہ ہم ویزہ مفت میں جاری کرتے ہیں آپ کفیل کو پیسے نہ دیں اگر کفیل پیسے مانگے تو پولیس کو اطلاع کریں، مگر ایسا کیسے ہو سکتا ھے کہ ایک بندہ اتنے ریال دے کر ویزہ لے اور پھر رپورٹ بھی کرے جس پر اسے وہی خارج الدولہ ہو گا، تو کفیل نہ تو دوست ھے اور نہ ہی انکل، جو اپنی جاب سے اٹھ کر لیبر کورٹ ویزہ اپروول کے لئے دھکے کھائے اور پھر جوازات وغیرہ میں۔ جس نے بھی اپنا وقت ضائع کرنا ھے تو اس نے اس پر فیس لینی ھے۔ نقل کفالہ اتنا آساں ہوتا تو اخبار میں لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ یہ مسئلہ بہت طویل ھے یہیں تک آپ کے لئے کافی ھے اب اگر آپ کو کچھ جاننا ہوا تو پوچھیں اس کا جواب دیں گے ورنہ آپ کا جو دل کرے لکھتے رہیں۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
السلام علیکم
خبریں پیسٹ کرنے سے آپ وہاں کے حالات پر تبصرہ نہیں کر سکتے مگر معلومات ضرور حاصل کر سکتے ہیں چلیں ایسے ہی سہی۔ حکومت تو یہ بھی کہتی ھے کہ ہم ویزہ مفت میں جاری کرتے ہیں آپ کفیل کو پیسے نہ دیں اگر کفیل پیسے مانگے تو پولیس کو اطلاع کریں، مگر ایسا کیسے ہو سکتا ھے کہ ایک بندہ اتنے ریال دے کر ویزہ لے اور پھر رپورٹ بھی کرے جس پر اسے وہی خارج الدولہ ہو گا، تو کفیل نہ تو دوست ھے اور نہ ہی انکل، جو اپنی جاب سے اٹھ کر لیبر کورٹ ویزہ اپروول کے لئے دھکے کھائے اور پھر جوازات وغیرہ میں۔ جس نے بھی اپنا وقت ضائع کرنا ھے تو اس نے اس پر فیس لینی ھے۔ نقل کفالہ اتنا آساں ہوتا تو اخبار میں لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ یہ مسئلہ بہت طویل ھے یہیں تک آپ کے لئے کافی ھے اب اگر آپ کو کچھ جاننا ہوا تو پوچھیں اس کا جواب دیں گے ورنہ آپ کا جو دل کرے لکھتے رہیں۔
والسلام
محترم کنعان صاحب غصے میں نہ آئیں ، سجاد صاحب فورم کے ایک سنجیدہ رکن ہیں ، کاروباری پس منظر رکھتے ہیں ۔
’ تنازل ‘ ، ’ نقل کفالہ ‘ وغیرہ الفاظ ایسے ہیں جنہیں سنتے ہی سر میں درد شروع ہوجاتا ہے ، حالانکہ اللہ کا شکر ہے طالبعلموں کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ، لیکن پھر بھی ادھر ادھر کی سنتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ ان معاملات کو ایجنٹوں کی چکنی چپڑی باتوں یا اخباروں کی سرخیوں سے سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے ۔
 
Top