• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کوئی اہل حدیث دوست جواب دے

Aqeel Qureshi

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 29، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
72
پوائنٹ
0
آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔.
کرامات اہل حدیث - کتب لائبریری - علماء کے حالات و واقعات
محکم دلائل و براہین سے مزین متنوع و منفرد کتب پر مشتمل مفت آن لائن مکتبہ کوءی اہل حدیث بھاءی جواب دے آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔. پھر آپ کہتے کہ صرف اسم ذات کا ذکر کرنا منع ہے تو پھر آپ کے بزرگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یعنی صرف اللہ اللہ کا ذکر کرنا،اگر ہم کیہں کے ہمیں انوارات ذکر کرنے سے نظر آتے ہیں تو بدعت وشرک ہو جاتا ہے،اور آپکے بزرگوں کو پورا کمرہ انوارات سے بھرا نظر آ گیا،تو عین اسلام ،بلکہ آپ کے لہے باعثِ فخر ہے ،پلیز کوی اہلحدیث جواب دے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔.
کرامات اہل حدیث - کتب لائبریری - علماء کے حالات و واقعات
محکم دلائل و براہین سے مزین متنوع و منفرد کتب پر مشتمل مفت آن لائن مکتبہ کوءی اہل حدیث بھاءی جواب دے آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔. پھر آپ کہتے کہ صرف اسم ذات کا ذکر کرنا منع ہے تو پھر آپ کے بزرگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یعنی صرف اللہ اللہ کا ذکر کرنا،اگر ہم کیہں کے ہمیں انوارات ذکر کرنے سے نظر آتے ہیں تو بدعت وشرک ہو جاتا ہے،اور آپکے بزرگوں کو پورا کمرہ انوارات سے بھرا نظر آ گیا،تو عین اسلام ،بلکہ آپ کے لہے باعثِ فخر ہے ،پلیز کوی اہلحدیث جواب دے۔
اہلحدیث کے خلاف پرپیگنڈا کرنا آل تقلید کی روش ہے آل بدعت کے فورم حق فورم عرف باطل فورم پر بھی یہی سوال موجود ہے اور ادھر بھی اس کا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث کا اصول سمجھا جائے وہ درج ذیل ہے

اصول اہلحدیث۔
۱:شیخ العرب والعجم امام بدیع الدین شاہ راشدی ( ہمارا اصول ) سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ ہم سوائے قرآن و حدیث کے کسی دوسرے کے قول ( غیر نبی چاہے کو ئی بھی ہو)کو نہ سند سمجھتے ہیں اور حق مانتے ہیں اور نہ واجب الاتباع جانتے ہیں اور نہ ہی اس کو اس وقت تک اس کو قبول کرتے ہیں جب تک قرآن و حدیث سے موا فق نہ ہو ہم ہر ایک قول کو چاہے وہ مقلد کا ہو یا غیر مقلد کا قرآن و حدیث پر پیش کرتے
ہیں پھر قبول کرتے ھیں۔ہم کسی بھی فقیہ کو دین کے لیئے سند نہیں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ یہ فلاں کا قول ہے یا فلاں نے اس طرح لکھا ہے یہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے
کسی بھی اہلحدیث نے یہ نہیں کہا کہ فلاں امام یا مجتھد یا اہلحدیث عالم کی کتاب علی الاطلاق معتبر ہے قرآن و سنّت دیکھے بغیراس پرعمل بھی کریں اور فتوی بھی دیں اگر کوئی اس طرح کریگا تو وہ اہلحدیث نہیں۔(مروّجہ فقہ کی حقیقت صفحہ ۵۸)
اسی کتاب کے صفحہ ۵۹ پر لکھتے ہیں خبر دار اہلحدیثوں کا دوسرا کوئی امام نہیں فقط ایک ہی امام قائد اعظم جناب محمّدمصطفی ہیں۔
براۃ اہلحدیث صفحہ ۳۶ میں لکھتے ہیں کہ مذھب اہل حدیث کے لیئے یہ شرط ہے کہ خواہ چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا مسئلہ اس کے لیئے قرآن وحدیث سے حوالہ ضروری ہے۔
۲: حافظ عبداللّہ محدّث غازی پوری لکھتے ہیں کہ واضح رہے کہ ہمارے مذھب کا اصل الاصول اتباع کتاب و سنّت ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہلحدیث کو اجماع امّت اور قیاس شرعی سے انکار ہے کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنّت سے ثابت ہیں۔تو کتاب و سنّت کے ماننے میں ان کا ماننا بھیّ گیا۔(براۃ اہلحدیث صفحہ ۳۲)
۳:استاد محترم حافظ زبیر زئی حفظہ اللّہ نے تو الحدیث رسالے کی پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع کی برتر ی سلف صالحین کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کی طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حدیث کے ذریعے اتّحاد امّت کی طرف دعوت ۔

مزید تفصیل کے لیئے دیکھیں (فتاوی اہل حدیث ۱/۶۹ماہنامہ الحدیث ۱/۴)
۴:مولانا محمد ادریس فاروقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم برملا کھتے ہیں کہ ہم ہر اس قول کو تسلیم نہیں کرتے جو نصوص قر آن و سنت کے خلاف ہو اسی طرح ہم ہر اس کرامت کو نہیں مانتے جو نصوص قرآن و سنت کے متصادم ہو۔
(پیش گفتار ،کرامات اہل حدیث ص ۲۸)
۵:شیخ الحدیث محمد علی جانباز لکھتے ہیں کہ ہم قول رسول کی اطاعت کے مکلّف ہیں ہر بزرگ اور ہر شیخ یا امام کی اطاعت و پیروی کے مکلف نہیں
(احکام طلاق پرص ۱۳۶)
۶:امام ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیثوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سلف امت صحابہ و خیار تابعین کی روش پر قائم تھا ۔یہ لوگ عبادات ومعاملات کی طرح عقائد میں بھی اسی طرز قدیم یعنی اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کی طرف التفات کی اور نہ عقلی طریق پر ان کی تروید کی بلکہ صرف قرآن شریف اور سیرت نبوی کو کافی جان کر انہی پر قناعت کی
(تاریخ اہل حدیث ص۱۰۳)
۷:میرے شیخ محدث العصر ارشادالحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم واشگاف الفاظ میں اظہار کرتے ہیں کہ ہم مسائل اور اپنے عمل کی بنیاد کسی امام کے قول کو نہیں سمجھتے بلکہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کے قول و عمل کو سمجھتے ہیں
(مقالات ج۱ص ۱۴۹)
۸:استاد محترم مولانا مشر احمد ربانی لکھتے ہیں کہ اہل حدیث کا منہج کتاب و سنت ہی ہے ۔ جو بات کتاب و سنت سے واضح ہو جا تی ہے وہی ہمارا ایمان و عقیدہ، منہج وراستہ ہے اور جو اس سے ٹکرا جا تی ہے وہ ھمارے نزدیک قابل قبول نہیں خواہ وہ بات کسی امام ، مجتھد مفسّر ،مفتی،محدث کی ہی کیو ں نہ ہو
( پیش لفظ، آپ کے مسئل ان کا حل ۱/۲۸)
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اہل حدیث خوش نصیب افراد ہیں جن کے تمام مسائل کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول پر ہے ان کے اصول و فروع اور قواعد وضوابط کی اساس و بنیاد محض قرآن و حدیث پر استوار ہے۔
(تفہیم دین صفحہ ۲۵)
۹: راقم الحروف نے اپنے شیو خ (شیخ ارشاد الحق اثری ، شیخ حافظ محمد شریف ،شیخ حافظ مسعود عالم حفظھم اللہ) سے کلاس میں دوران سبق بار بار فرماتے ہوئے یہ سنا کہ قرآن و حدیث کو محدثین کے فہم کے بطابق سمجھنا چاہیئے کوئی نئی راہ نکالے سے ضرور بچنا چاہیئے اسی میں خیر اور بھلائی ہے جس کسی کی بات غلط ہو خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کی بات نہ مانو۔

اعلان:۱
علماء اہل حدیث میں جس کسی کا فتوی یا قول قرآن و حدیث یا اجماع کے خلاف ہے اس کو اہل حدیث حجت نہیں مانتے
اعلان :۲
عدم واقفیت کی بنا پر اگر کسی اہلحدیث عالم نے کسی کتاب یا کسی عالم کے متعلق تعریفی کلمات کہے ہوں ا ور اس کی کتاب میں قرآن و حدیث یا اجماع کے خلاف بات موجود ہو ،ہم اہل حدیث اس کی اس بات سے بری ہیں۔اور اس کے متعلق تعریفی کلمات اس کی کتاب یا اس عالم کی ہر بات کو حجت ماننے پر کوئی دلیل نہ سمجھے ۔
اعلان ۳: جو بات بہی اہلحدیث عالم سے غلط ہوئی ہے اس کو ہم مردود و باطل قرار دیتے ہیں
اصول اہلحدیث میں آپ نے بار بار پڑہا کہ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم ہم اہلحدیث لیتے ہیں جو سلف صالحین نے سمجھاہے ۔
اب فتاوی دارالعلوم دیو بند( ۳/۱۹۱) کہولئے وھاں لکھا ہے کہ،، اس زمانہ میں چونکہ اس عمل (فاتحہ خلف المام وآمین بلجہر ازنا قل) کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین کے مقلد نہیں ہیں اور محض اپنی خواہشات کے موافق احادیث کے معنی سمجھ کر ان پر عمل کرتے ہیں،،
اب آپ اس کے متعلق جو مرضی کہیں میں کچھ نہیں کہنا چاھتا اسی کتاب کے (۲/۹) لکہا ہے کہ ،، کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روائتیں نہیں ان کی دلیل صرف امام کا قول ہے۔
دوسری قسط میں اصول احناف کا مطالعہ کریں۔
یہی اہل حدیث کا اصول جس کی بات غلط ہے قرآن و حدیث کے خلاف ہے ہم اس وہ بات تسلیم نہیں کرتے ۔
افسس آل دیوبند پر جو اپنے بڑوں کی بات خواہ کیسی بھی ہو رد نہیں کرتے بلکہ مانتے ہیں اور اسے اپنے گلے کی زینت بناتے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون
 

Aqeel Qureshi

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 29، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
72
پوائنٹ
0
شکر ہے بھائی آپ نے کھچھ تو جواب دیا،آپ نے واضح نیہں کیا کہ یہ کتاب لکھنیں والا گمراہ ہے؟ یا کرامتں جھوٹی ہیں؟ یا جن بزرگوں کا ذکر اس کتاب میں ہوا ہےوہ کیسے لوگ تھے؟پھر کرامات کے متعلق آپ کیا عقیدہ ہے؟اور انعام یافتہ گرہ کون سا ہے؟
آپ نے ایک پانچویں فقہ تعارف کرائی ہے،انشاء اللہ آگے چل کر ان لوگوں کی کتابوں سے بھی آپ کو اسطرح کی باتیں نکال کر دکھاوں گا،
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
شکر ہے بھائی آپ نے کچھ تو جواب دیا،آپ نے واضح نیہں کیا کہ یہ کتاب لکھنیں والا گمراہ ہے؟ یا کرامتں جھوٹی ہیں؟ یا جن بزرگوں کا ذکر اس کتاب میں ہوا ہےوہ کیسے لوگ تھے؟پھر کرامات کے متعلق آپ کیا عقیدہ ہے؟اور انعام یافتہ گرہ کون سا ہے؟
آپ نے ایک پانچویں فقہ تعارف کرائی ہے،انشاء اللہ آگے چل کر ان لوگوں کی کتابوں سے بھی آپ کو اسطرح کی باتیں نکال کر دکھاوں گا،
قریشی صاحب! پہلے ذرا تصوف کے مسئلے کو مکمل کر لیں ...
نہ جانے آپ نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟؟
 

Aqeel Qureshi

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 29، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
72
پوائنٹ
0
انشاء اللہ بھائی میں ضرور لکھوں گا،ایک بات میں واضح کروں کہ میں اہل حدیث کو میں برا نہیں سمجھتا بلکہ ایک اچھا مسلمان سمجھتا ہوں میرے نزدیک کیا بلکہ ہر اس شخص کے نزدیک جس کو رب کریم نے صیح سوچ وفکر دی ہوکبھی فروعی اختلافات پر اس قدر تشدد نہیں کرے گا،کہ گمراہ،فاسق،فاجر،حتی کہ کافر(استغفراللہ) کہنا شروع کر دے-
میرے بھائی برصغیر میں علم کا خاندانِ شاہ ولی اللہ سے پھیلتا نظر آتا ہے،دیوبند،اہلحدیث بھی ان ہی مدرسوں کے پڑھے ہوءے ہیں،تھوڑا سا آپ پیچھے چلے جائےتو آپ آپکو دیوبند اور اہلحدیث ایک سٹیج پر اگھٹے نظر آءے گے،یہ انگریز کے عہید میں پھٹنا شروع ہووئے اور آج کفر اور اسلام کا جگڑا لے کر خیمہ زن ہیں۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
تصوف بہت وسیع ٹاپک ہے،اس پرلکھنا بھی اتنا آسان نہیں ہے،میری گھریلوں مجبوری پھر ملازمت اور پھر ٹائم لکال کر لکھنا کیچھ آسان کام نہیں ہے،میرا ارادہ ہے کہ اس موغوع پر بلاگ بناوں گا انشاءاللہ۔
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ اہلحدیث میں بہت سے صوفیا گزرے ہیں کیونکہ حقیقت اپناآپ منوا لیتی ہے،حتی کہ آہل حدیث سرخیل علماء میں سے مولانا داوءد غزنوی رحمہ اللہ کا آپ ماموں کانجن ،جماعت اہلحدیث سے خطاب، پڑھے آپ کو اگر نہ ملے تو اس ناچیز سے لے لینا،اور وہاں پھر تو اہل حدیث کو تو وہ تصوف کی دعوت دے رہے ہیں ،میرے بہت سے دوست توفقہ اہل حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صوفی بھی ہیں،
اور آپ نے جس امام ابراھیم سیالکوٹی رحمہ اللہ کاحوالہ دیا ہے،کبھی انکے کے حلاتِ زندگی بھی پڑھ لینا اور بتنانا کہ وہ تصوف کے کیوں مخالف نہ تھے شاید آپ نے ایم-اے کیا ہو گا اور وہ ایم -اے نہ ہوں گے،
خدا راہ جب تک دل خوفِ خدا سےلبریز نہ ہو جائے،اور ذکر دوام نصیب نہ ہو،اور صحبتِ اہل اللہ نصیب نہ ہو زبان کھلنے کے بجا ئے بندرہے تو بہتر ہے، کیونکہ کہ زبان کہ فتنے ہی نے ہمیں ٹکڑے درٹکڑے کیا ہے۔
 

Aqeel Qureshi

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 29، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
72
پوائنٹ
0
:امام ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیثوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سلف امت صحابہ و خیار تابعین کی روش پر قائم تھا ۔یہ لوگ عبادات ومعاملات کی طرح عقائد میں بھی اسی طرز قدیم یعنی اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کی طرف التفات کی اور نہ عقلی طریق پر ان کی تروید کی بلکہ صرف قرآن شریف اور سیرت نبوی کو کافی جان کر انہی پر قناعت کی
(تاریخ اہل حدیث ص۱۰۳)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
:امام ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیثوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سلف امت صحابہ و خیار تابعین کی روش پر قائم تھا ۔یہ لوگ عبادات ومعاملات کی طرح عقائد میں بھی اسی طرز قدیم یعنی اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کی طرف التفات کی اور نہ عقلی طریق پر ان کی تروید کی بلکہ صرف قرآن شریف اور سیرت نبوی کو کافی جان کر انہی پر قناعت کی
(تاریخ اہل حدیث ص۱۰۳)
اس عبارت میں سے آپ کا استدلال کیا ہے؟ اس میں کون سی بات قابل اعتراض ہے؟ یا آپ کو کہاں اور کیا اشکال ہو رہا ہے؟
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
ابنِ دائود بھایئ مجھے اشکال نہیں ہو رہا،اس عبارت سے میری مراد یہ ہے کہ جو گرہ اسلاف کی دعوت پر قائم رہا،وہ تو انکا ر نہیں کرتا مگر اآپ کو کیا ہو گیا ہے؟ تصوف کا مطلق انکار کوئی نہیں کرتا،ہاں بدعات پر ہمکو بھی انکار ہے،پھر تصوف کے داعی تو بھت ہیں یہاں پر عامل لوگ ہیں وہ بھی صوفی بنے ہوے ہیں،اسی طرح شیعے بھی صوفی بنے ہوے ہیں،حلانکہ تصوف صرف اہل سنت میں پایا جاتا ہے،اسلیے جو لوگ معتدل عقیدے کے مالک ہیں انمیں صوفی ملتے ہیں،خوا وہ اہلحدیث ہوں یا حنفی ہوں،یہ جو' کراماتِ اہلحدیث'کیوں چھپی ہے؟
اسلئے کہ اللہ نے حق آپ لوگوں سے خود واضح کروا دیا،آپ اگر،مگر کے بجائے حقیقت کو تسلیم کر لیں اور اس تصوف کو تسلیم کریں جس کو اآپ کے بزرگوں نے مانا ہے اور اختیا ر کیا ہے،
باقی آپ کو عقیدہ رکھنے کا یہ حق حاصل ہے کی اپنی مرضی کے مطابق رکھے،مگر عقائد اور اعمال میں تواتر توارث ثابت ہو،آپ سے کراماتِ اہلحدیث کہ متعلق جو پوچھا ہے اسکا جواب دے
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
اہلحدیث کے خلاف پرپیگنڈا کرنا آل تقلید کی روش ہے آل بدعت کے فورم حق فورم عرف باطل فورم پر بھی یہی سوال موجود ہے اور ادھر بھی اس کا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث کا اصول سمجھا جائے
بھائی سمجھا دینا کہ پر پیگنڈا اسمیں کون سا ہے
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109


ابتدائيہ:

بسااوقات ايسا ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعاليٰ اپني مخلوق ميں سے کسي بندے کے ہاتھوں ايسا کارنامہ رونماکرواديتے ہيں کہ جس کو عقل انساني سمجھ نہيں سکتي۔ انسان کي عقل ،فہم اور سمجھ کوتاہ اور قاصر اور عاجز آجاتي ہے اس کے آگے ۔ اس قسم کا کام اگر نبي کے ہاتھوں نبوت سے پہلے رونما ہو تو اسے "ارہاص" کہتے ہيں اور اگر کسي نبي کے ہاتھوں يہ کام نبوت کے بعد رونما ہو تو اسے معجزہ کہتے ہيں۔اور اگر غير نبي سے اس قسم کاکوئي کارنامہ ہو تو اسے کرامت کہتے ہيں۔ارہاص، معجزہ اور کرامت تينوں ميں يہ چيز جس کے ہاتھوں رونماز ہوتي ہے اللہ رب العالمين اس بندے کو عزت عطا کرتا ہے۔بسا اوقات اللہ کےکسي نافرمان اور باغي سے بھي کوئي خرق عادت چيز رونما ہوجاتي ہے جس ميں وہ بندہ ذليل و رسوا ہوجاتا ہے اسے اہانت کہتےہيں۔ بسا اوقات ايسا ہوتا ہے کہ ظاہري طور پر جو لوگ ديکھنے والےہيں اگر ان کے دل ميں ايمان کامل اور مکمل ہے تو وہ کسي نافرمان اور باغي کے ہاتھوں خرق عادت واقعات کو ديکھ کر سمجھ جاتے ہيں کہ يہ اللہ کي طرف سے آزمائش ہے۔ اور جس کے ہاتھوں وہ کام رونما ہوتے ہيں آخر کار اس کا انجام بد ہوتا ہے۔ ليکن جن کے دلون ميں ايمان مضبوط نہيں ہوتا وہ اسے بھي کرامت سمجھ ليتے ہيں جسے علمي زبان ميں استدراج کہتے ہيں يہ کل چار قسم کي چيزيں ہيں جو مافوق الاسباب اور خرق عادت رونما ہوتي ہيں کچھ ايسي چيزيں بھي ہيں جن کے اسباب عام لوگوں کي نظروں سے پوشيدہ ہوتے ہيں جس کي وجہ سے وہ اسے خرق عادت سمجھتے ہيں حالانکہ وہ ہوتي ماتحت الاسباب ہي ہيں۔دنيوي ظاہري سبب ہوتا ہے ليکن عام لوگوں کو پتہ نہيں ہوتا ۔ اس کا نام ہے شعبدہ۔ شعبدہ کےسوا باقي تمام کي تمام چيزيں ، ارہاص، معجزہ ، کرامت ،اہانت اور استدراج جس آدمي کے ہاتھوں رونما ہوتي ہيں اس کي اپني مرضي اور بس اس پر نہيں چلتا۔ ہاں استدراج ميں کچھ مدت تک کےليے اللہ تعاليٰ نے تھوڑا سا اختيار ديا ہوتا ہے۔ مثاليں ان شاء اللہ آپ کے سامنے آگے رکھيں گے۔


صاحب معجزہ وکرامت اپنے اختيار سے کوئي نشاني نہيں دکھا سکتا :

پہلے ان چيزوں کے بارے ميں اہل السنہ والجماعہ کا جو عقيدہ ہے وہ سمجھ ليں۔ مثال کے طور پر نبي کريم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجيد ہے۔ اس معجزہ کا نزول ، نبي کريم کي اپني مرضي کے ساتھ نہيں ہے۔ اللہ تعاليٰ کا اذن اور حکم ہوتا ہے تو فرشتہ وحي لےکر آتا ہے۔ ايک دفعہ نبي کريم نے جبريل امين سے کہا کہ آپ وحي لانے ميں کافي وقفہ کرتےہيں ذرا اس وقفے کو کم کرديں اللہ تعاليٰ نے جبريل امين ﷺ کے ہاتھوں پيغام بھيجا نبي کريمﷺ تک ۔ قرآن مجيد فرقان حميد کي آيت اتار دي۔ فرمايا: وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ [مريم : 64]

کہ يہ جو معجزہ ہے قرآن ، اس کو لانے والا فرشتہ وہ بھي اپني مرضي سے نہيں آسکتا۔ رب کا امر ہوگا تو پھر معجزہ اترے گا۔ کفار نے مشرکين نے طلب کي کوئي نشاني دکھائو۔ مقصد تھا کہ رسول اللہﷺ کو خوامخواہ پريشان کيا جائے۔ يہ بات جب انہوں نے کي تو رسول اللہ ﷺ اللہ تعاليٰ سے دعا کرتے ہيں کہ چلو کوئي نشاني اور معجزہ اور ہي دکھا ديا جائے انہيں تاکہ يہ لوگ مان جائيں۔حالانکہ ماننے کي ان کي نيت نہيں تھي۔ جو ماننے والے تھے۔ انہوں نے تو چہرہ ديکھ کر ہي کہہ ديا تھا کہ يہ جھوٹے کا چہرہ نہيں ہے۔ اور جو نہيں ماننے والے وہ سارا کچھ ديکھ کر بھي نہيں مانتے۔ اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے نبي کريم ﷺ کے اصرار پر جواب ديا قرآن مجيد فرقان حميد ميں۔: فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقاً فِي الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِي السَّمَاء [الأنعام : 35]

اے پيارے حبيب! امام الانبياءجناب محمد مصطفيٰ ﷺ اگر آپ کے اندر طاقت ہے آپ اپني مرضي سے معجزات دکھانا چاہتے ہيں ، زمين ميں سرنگ کھود لو ، آسمان ميں سيڑھي لگا لو۔ اگر معجزہ دکھا سکتے ہو اپنے مرضي سے تو دکھا دو۔ ايسا ہونہيں سکتا۔بات کہنے کا مقصد يہ تھا اللہ رب العالمين کا کہ آپ جو مرضي کر ليں معجزہ ظاہر ہونے والا نہيں۔ اور بتا ديا : إِنَّمَا الآيَاتُ عِندَ اللہ [الأنعام : 109]، جو کرامتيں ہيں، ارہاص ہيں، معجزات ہيں،نشانياں ہيں، يہ اللہ تعاليٰ کے پاس ہيں۔ اللہ تعاليٰ کي طرف سے ہيں۔ کوئي بندہ اپني مرضي اور بس کے ساتھ ان کا اظہار نہيں کرسکتا ۔ موٹي سي بات ہے کہ نبي سے بڑھ کےاللہ تعاليٰ کا مقرب اور کوئي نہيں ہوسکتا ۔ تو جب کائنات کا سب سے بڑا ولي اللہ ، اللہ کا آخر الزماں پيغمبر، نبي اور رسول ﷺ وہ بھي عاجز ہيں ، اپني مرضي سے کچھ نہيں دکھا سکتے۔ تو باقي جتنے بھي ہيں وہ بالاوليٰ اپني مرضي سے کچھ نہيں کرسکتے۔

ارہاص

موسيٰ عليہ الصلوٰۃ والسلام، عيسيٰ عليہ الصلوٰۃ والسلام کو ، نبي کريم ﷺ کوبھي اللہ نے ارہاص سے نوازا ہے ۔ مثال کے طور پر عيسيٰ عليہ الصلوٰۃ والسلام بن باپ کے پيدا ہوئے۔ نبوت سے پہلے کاواقعہ ہے ناں!!يہ بھي ايک ارہاص تھا۔ عادت يہ ہے کہ باپ کے بغيرکوئي نہيں پيدا ہوسکتا۔ ليکن اللہ تعاليٰ ماں او ر باپ دونوں کے بغير آدم عليہ الصلوٰۃ والسلام کو پيدا کرسکتا ہے تو بن باپ کے عيسيٰ عليہ الصلوٰۃ والسلا م کو کيوں نہيں پيدا کرسکتا ۔ يہ ان کي ايک کرامت اور ارہاص ہے ، معجزہ ہے۔ پھراس کے فورا بعد لوگوں نے کہا: يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيّاً [مريم : 28] اے ہارون کي بہن! يہ تونے کيا کيا ہے، نہ تيرا باپ ايسا تھا اور نہ ہي تيري ماں ايسي تھي۔ فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ [مريم : 29]وہ اشارہ کرتي ہيں عيسيٰ عليہ الصلوٰۃ والسلام کي طرف ، ماں کي گود ميں، ايسي عمر ميں جب عموماً بچہ بولتا نہيں ہے۔ وہ بولے : قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيّاً وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً [مريم : 31۔30] يہ سارا کچھ کيا ہے؟ ارہاص ہے۔ نبوت سے پہلے اللہ تعاليٰ نے يہ نشانياں عطا کيں۔ ايسے ہي نبي کريم ﷺ فرماتےہيں صحيح مسلم کے اندر حديث موجو دہے: إني لأعرف حجرا بمكة كان يسلم علي قبل أن أبعث إني لأعرفه الآن " * [صحيح مسلم ، كتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلى الله عليه وسلم ، حديث:‏4320‏] نبوت سے پہلے ايک پتھر جو مجھے سلام کيا کرتا تھا ميں اب بھي اس کو پہچانتا ہوں۔ نبوت ابھي ملي نہيں۔ نبوت ملنے سے پہلے مکہ ميں پتھر تھا ايک جو رسول اللہﷺ کو سلام کيا کرتا تھا۔ يہ ارہاص ہے ، عقل نہيں مانتي۔ انسان کي سمجھ سے باہر ہے کہ پتھر بول کر السلام عليکم کہے گا۔ ليکن ہے ايسا ، حقيقت ہے۔ يہ تمام تر واقعات جو نبي سے نبو ت سے پہلے خرق عادت رونما ہوتے ہيں ، ارہاص کہلاتے ہيں۔

معجزہ

اس کے بعد نمبر آتا ہے معجزہ کا ، نبوت کے بعدخرق عادت کام, موسي عليہ الصلوٰۃ والسلام کوبھي معجزہ ديا تھا۔ عيسي ٰ عليہ الصلوٰۃ والسلام کو بھي اللہ تعاليٰ نے معجزات عطا کيے تھے۔ نبي کريم ﷺ کو بھي اللہ تعاليٰ نے معجزات ديئے تھے۔ ابراہيم عليہ الصلوٰۃ والسلام کو بھي معجزات ديئے تھے۔ آپ اکثر سنتے رہتے ہيں معجزات کے باب ميں بہت ساري باتيں۔ ليکن اس سب کے باوجود ذکر کرنے کا مقصد يہ ہے کہ کچھ لوگ ايسے ہيں جو معجزات کے منکر ہيں۔ کہتے ہيں معجزہ کوئي شے نہيں۔ وہ سکولوں ، کالجوں ميں جس کي تصويريں لگي ہوتي ہيں سرسيد احمد خان، وہ معجزات کا منکر تھا۔ اس کي فکر اور نظريہ رکھنے والے بھي معجزات کے منکر ہيں۔ زيادہ دور جانے کي ضرورت نہيں ، اس نے قرآن کي ايک تفسير لکھي ہے وہي ديکھ لو ، پتہ چل جاتا ہے۔ کہتا ہے فرشتے کوئي نہيں ہيں، جنات بھي کچھ نہيں ہيں۔ مغيبات جتني چيزيں ہيں سب کا منکر ہے۔ تو قرآن مجيد ميں بھي اللہ تعاليٰ نے معجزات ذکر کيے ہيں ۔ ايک توقرآن مجيد ، جس کا ہم نے ابھي ذکرکيا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ [البقرة : 23] اگر جو کچھ ہم اپنے بندے پر نازل کررہے ہيں اس کے بارے ميں تمہيں کوئي شک ہے تو اس جيسي ايک سورت بنا کر لے آؤ۔ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ [البقرة : 23] اللہ کے علاوہ تمہارے جتنے بھي معاونين ہيں سب کو اکھٹا کرلو،اگر سچے ہوتو بناؤ۔ اور ساتھ ہي خبردار بھي کرديا۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ اگر اب تک تم کر نہيں نہ سکے، اس جيسا کوئي کلام بنا نہيں سکے، وَلَن تَفْعَلُواْ بنا بھي نہيں سکو گے۔ لہٰذا فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اس آگ سے ڈر جاؤ جس کا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں۔ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ جو کافروں کےليے تيار کي گئي ہے۔ [البقرة : 24] أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ کہہ کر اشارہ کيا ہے اس بات کي طرف کہ جو لوگ اللہ تعاليٰ کي آيات ميں شک کرتے ہيں ، وہ کافر ہيں، ان کا ايمان ہے ہي نہيں۔ جب تک وحي الہٰي پر غير مشروط ايمان نہيں لائيں گے ۔ اس وقت تک مومن بن ہي نہيں سکتے۔ ايمان ذرا بھي ان ميں پيدا نہيں ہوگا۔ يہ ضروري ہے کہ اللہ تعاليٰ کي آيات پر بلاشک و شبہ ايمان لايا جائے۔ پھر اسي طرح قرآن مجيد فرقان حميد ميں ہي اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے فرمايا ہے: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى [الإسراء : 1] وہ ذات بڑي بابرکت ہے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصيٰ تک چلايا ہے۔ رات ہي رات ميں وہاں پہنچا ديا۔ اور پھر وہاں تک ہي نہيں بلکہ اسرا ءکے بعد معراج بھي ہوا۔ اللہ تعاليٰ نے آسمانوں پر بھي بلايا۔ انبياء کرام سے ملاقات بھي ہوئي۔ انبياء کي امامت بھي کروائي اور سارے لمبے چوڑے واقعات۔ يہ سارے رسول اللہ ﷺ کے معجزات ہيں۔ ليکن ا ن ميں سے کوئي بھي معجزہ دکھانے ميں رسول اللہ ﷺ کا اپنا بس اور اختيار نہيں ہے۔ خندق کھود رہے ہيں پيٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہيں۔ وہ چھوٹے چھوٹے پتھر لے کر کپڑے کے اندر ،ان کو معدے کے اوپر رکھ کر کس کر باندھ ديتے ہيں تاکہ بھوک کي وجہ سے جو پيٹ ميں تکليف اور درد ہے وہ کم ہوجائے۔ ہوتا کيا ہے ، جابر رضي اللہ تعاليٰ عنہ ديکھتے ہيں سب بھوک کے ساتھ پريشان حال ہيں۔ ، نڈھال ہيں۔ گھر جاتے ہيں ، گھر ميں کوئي تھوڑا سا گوشت اور روٹي کا بندوبست کرتے ہيں اور آکر بني کريم ﷺ کو اطلاع ديتے ہيں کہ تھوڑا سا کھانا ہے۔ چند بندے لے آئيں۔ چلو کچھ تو کھا پي ليں۔ نبي کريمﷺ نے يہ بات سني تو اعلان کرديا: ، إن جابرا صنع لکم سورا[ صحيح البخاري کتاب المغازي باب غزوۃ الخندق 4102] ۔ جابر نے تمہارے ليے ضيافت کا اہتمام کيا ہے چلو، ہوتا کيا ہے وہ سارا لشکر جرار جاتا ہے ، سير ہوکے کھاتا ہے، کھانے پھر بھي ويسے کا ويسا بچا ہوا ہے۔ واقعہ مشہور ہے ، آپ اکثر سنتےر ہتے ہيں۔ لہٰذا تفصيل ميں جانے کي ضرورت نہيں۔ تو تين دن تک بھوکے رہے، اگر اپني مرضي سے يہ کام کرسکتے ہوتے تو پہلے ہي کرليتے ، نہيں کرسکتے، بس ہي نہيں تھا۔ جب اللہ کا حکم ہوا تب يہ کام ہوا۔ ايسے ہي تمام تر معجزات ہيں۔



کرامت

آگے باري آتي ہے کرامات کي۔ اللہ تعاليٰ کا نيک آدمي ، جو فرائض کي پابندي کرتا ہو، کوئي بھي فرض ايسا نہ ہو، جس کو چھوڑ دے۔اگر کوئي شخص اللہ تعاليٰ کے فرض کردہ کاموں ميں سے ايک کام کو بھي چھوڑ دے وہ اللہ کا ولي نہيں ہوسکتا۔ نبي کريمﷺ فرماتے ہيں، حديث قدسي ہے، اللہ تعاليٰ کا فرمان ہے کہ ميرا بندہ جو جو کام کرتا ہے ميرا قرب حاصل کرنے کےليے ، ميرے قريب ہونے کےليے، جتنے بھي کام کرتا ہے، ان سارے کاموں ميں سے جو سب سے زيادہ اہم ترين اور بندے کو ميرے زيادہ قريب کرنے والے ہيں، وہ کيا ہيں؟؟ فرائض ہيں۔ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ [صحيح بخاري کتاب الرقاق باب التواضع 6502]، جو کچھ ميں نے اس پر فرض کيا ہے اس سے زيادہ اور کوئي کام نہيں جو بندے کو ميرے قريب لےآئے۔ ليکن يہ بندہ کيا کرتا ہے ، فرائض کي پابندي کرتا ہے اور فرائض کي پابندي کرنے کے بعد ، وہ نوافل بھي پڑھتا ہے۔ فرائض بھي پورے ، اور فرائض پورے پڑھنے کے ساتھ جتنے اس سے نوافل ہوسکتے ہيں ، انہيں ادا کرتا ہے۔ نفلي نماز، نفلي صدقات، اور کوئي ايک نفلي کام ہيں۔ فرضي جو اللہ تعاليٰ نے اس پر فرض کيے ہيں ، اس ميں بالکل کوتاہي نہيں کرتا اور نوافل کا بھي اہتمام کرتا ہے تو وہ بندہ اللہ کے قريب ہوجاتا ہے, اسکا ہر قول وفعل اللہ کے احکامات کے تابع ہو جاتا ہے اور وہ مستجاب الدعوات بھي بن جاتا ہے ۔ پھر ايسے آدمي کو اللہ تعاليٰ دنيا ميں عزت ديتے ہيں۔ ثم يوضع لہ القبول في الارض۔ [ صحيح بخاري کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ 3209] زمين ميں اس کےليے مقبوليت پيدا کردي جاتي ہے۔ لوگوں کے ہاں وہ مقبول ومحترم ٹھہرتا ہے۔ اللہ تعاليٰ اسے عزتيں، رفعتيں اور بلندياں بھي عطا کرديتے ہيں۔ خواہ دنيا اس کو جو مرضي کہےليکن دلوں کے اندر اس کا احترام اور عزت ضرور موجود ہوتي ہے۔ اور پھر ايسے بندوں کے ہاتھوں کچھ ايسے کام کروا ديتا ہے، اس امت کے سب سے بڑے ولي ، اولياء صحابہ کرام ہيں۔ ان سے بڑھ کر کوئي شخص فرائض کي پابندي اور نوافل کا اہتمام اور سنت کي پاسداري کرنے والا کوئي پيدا ہي نہيں ہوا۔ صحيح بخاري کےا ندر کئي صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين کي کرامات کا ذکر ہے۔مثلاً صحيح بخاري کے اندر يہ حديث موجود ہے، أَنَّ رَجُلَيْنِ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ وَإِذَا نُورٌ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا حَتَّى تَفَرَّقَا فَتَفَرَّقَ النُّورُ مَعَهُمَا [صحيح بخاري کتاب المناقب باب منقبۃ أسيدبن حضير وعباد بن بشر 3805]

سيدنا عباد بن بشر اور اسيد بن حضير رضي اللہ عنہما دونوں رات گئے تک بيٹھےرہے، مسجد نبوي ميں رسول اللہ ﷺ کے پاس۔ گھر ان کا ذرا فاصلہ پر تھا۔ اندھيرا خوب چھا گيا جب يہ اٹھ کر جانے لگے توان کے سامنے روشني ہوگئي اور وہ روشني کےاندر گھر پہنچے۔ يہ ان کي ايک کرامت ہے۔ ابوبکر رضي اللہ عنہ کے بارے ميں ايک بڑا مفصل واقعہ صحيح بخاري ميں موجود ہے۔ کہ کچھ مہمان تھے مسجد نبوي ميں انہيں گھربھيجا ضيافت کے ليے ۔ مہمانوں نے کہاکہ نہيں جي ابوبکر تشريف لائيں گے تو پھر ہي ہم کھانا کھائيں گے۔ وہ ذرا مصروف تھے۔ ليٹ آئے تو ديکھا کہ ابھي تک ان کو کھانا نہيں کھلايا گيا تھا ، ۔ خير کھانا کھانا شروع کيا۔فرماتے ہيں کہ جيسے ہم کھانا کھاتے ، لقمہ اٹھاتے ، ہوتا کيا کہ جتنا ہم سالن نکالتے يا کھانا کھاتے، اس سے زيادہ نيچے سے اور آجاتا۔ سب نے سير ہوکر کھانا کھايا ، کھانا پہلے سے بھي بڑھ گيا ۔ [صحيح بخاري کتاب المناقب باب علامات النبوۃ في الاسلام 3581]

يہ بہت بڑي کرامت ہے ابوبکر رضي اللہ عنہ کي۔ يہي وہ تھے جو بھوک کي وجہ سے پريشان پھرتے تھے گھر سے باہر نکلےتونبي کريمﷺ سے ملاقات ہوجاتي ہے, عمرفاروق رضي اللہ عنہ بھي ساتھ تھے ۔ تينوں مل کر ابو ايوب انصاري کے گھر پہنچ جاتے ہيں ، بھوک کا يہ عالم ہے۔ [صحيح مسلم کتاب الاشربة باب جواز استتباعہ غيرہ الي دار من يثق برضاہ2038] ليکن اللہ تعاليٰ جب کرامت دکھانے لگتا ہے تو گھر سے ہي دکھا ديتا ہے۔ تو کرامت کا ظہور ہونا يہ بھي برحق ہے۔ کچھ لوگ تو کرامات کے بالکل ہي انکاري ہوجاتے ہيں۔ کہ کرامت ہے ہي نہيں۔ليکن کرامات ہوتي ہيں، اللہ تعاليٰ ظاہر فرماديتے ہيں۔ اپنے بندوں کےہاتھوں ليکن وہ بندہ اللہ تعاليٰ کي نافرماني کرنے والا نہيں ہوتا يہ شرط ہے اس کي ۔ کہ کسي کبيرہ گناہ کا مرتکب نہيں۔ اور صغيرہ گناہ پر اصرار اور دوام کرنے والا نہيں۔ اگر کوئي آدمي کبيرہ گناہ کا ارتکاب کرے ياصغيرہ پر دوام کرنے والا ہو، بار بار صغيرہ گناہ کرنے والا ہو اور وہ کوئي ايسا خرق عادت کام تمہارے سامنے تمہيں کرکے دکھائےيا تو وہ شعبدہ ہے يا پھر جادوگر، تيسري چيز نہيں ہوسکتي۔ کيونکہ کرامات وہ بندے کو عزت دينے کےليے ہوتي ہيں ساري مخلوق پر، لوگوں سے ممتاز کرنے کےليے ہوتي ہيں۔ تو اللہ تعاليٰ ايسا امتياز اپنے باغي اور نافرمان کو کبھي نہيں ديا کرتے۔ تو يہ تينوں کام ، ارہاص، معجزہ اور کرامت، صاحب ارہاص، صاحب معجزہ اور صاحب کرامت کےليے فخر، باعث کرم اور باعث عزت ہوتے ہيں۔ لوگوں کے درميان اس کي عزت ہوتي ہے، اللہ رب العزت کےہاں تو وہ پہلے ہي باعزت اور محترم ہوتا ہے۔

اہانت

اگلا نمبر آتا ہے اہانت کا،يعني اللہ رب العالمين کا اصول تو يہ ہے ، کلي قاعدہ، کہ دنيا ميں اللہ تعاليٰ عموماً لوگوں کو سزا نہيں ديتا ۔ بلکہ ڈھيل ديتا ہے۔ ليکن بسا اوقات انہيں دنيا ميں سزا دے دي جاتي ہے۔ جس کو وہ کيا سمجھتا ہے کہ يہ حوادث ِ زمانہ ہے۔ گردش ايام ہے۔ جيسے سيلاب آگئے، زلزلے آگئے۔ طوفان آگئے۔خوفناک بارشيں ہوگئيں, ايکسيڈنٹ کوئي ہوگيا۔ تو اس کو لوگ معمولي سمجھتے ہيں۔بسا اوقات يہ اللہ کي طرف سے آزمائش ہوتي ہے۔ اور بسا اوقات يہ اللہ تعاليٰ کا عذاب ہوتا ہے۔ تو اس کے درميان فرق کرنا کہ يہ آزمائش ہے يا عذاب ہے ، مشکل ہوتا ہے تھوڑاسا۔ اور بسا اوقات ايک ہي چيز کئيوں کےليے عذاب ہوتي ہے اور کئيوں کے ليے آزمائش ہوتي ہے۔ تو کچھ اوقات اور بسا اوقات ايسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمين ايک بندے کو ايسي سزا ديتے ہيں کہ سب پکار اُٹھتے ہيں کہ يہ اللہ کا عذاب ہے۔ آپ کےقريب ہي کا واقعہ،نصرت فتح علي خاں ، جب وہ مرگيا تو اس کي لاش کو کسي وجہ سے نکالا گيا۔اخبارات ميں يہ باتيں آتي رہي ہيں۔ آپ نے پڑھي ہيں۔ تو ديکھا گيا کہ اس کي زبان اس کے سارے جسم کے اردگرد لپٹي ہوئي تھي۔ يہ اہانت ہے۔يعني کسي آدمي کي شکل بدل جائے ، يہ دنيا ميں اللہ کي طرف سے عذاب ہے۔ اور جس کي شکل بدل جاتي ہے ، چہرہ مسخ ہوجاتا ہے۔ اور واضح ترين ايک انسان ، بعد ميں اس کا چہرہ کتے کا ، گدھے کا يا بندر کا بن جائے تو يہ واضح ترين اہانت ہے۔ اس کو کہتے ہيں اہانت ، يعني اللہ کا عذاب کہ جس کو ديکھ کر ہر کوئي يہ سمجھ ليتا ہے کہ يہ اللہ کا عذاب ہے۔ اور وہ بندہ دنيا ميں ذليل و رسوا ہوجاتا ہے۔ چاہے مرنے کے بعد ، چاہے مرنےسے پہلے۔ايسے بھي ہوتا ہے کہ بندہ فوت ہوا، اس کو قبر ميں دفنايا گيا، دفنانے کے واپس آئے تو قبر نے اس کو نکال کے باہر پھينک ديا۔ آپ کے قريب دور ميں کتنے ہي ايسے واقعات ہوئے ہيں۔ اخبارات کي زينت بھي بنے ہيں۔ اور سابقہ ادوار ميں بھي اس کي کئي ايک مثاليں ہيں۔ قارون کو ديکھ لو ، اللہ نے قرآن ميں اس کا واقعہ ذکر کيا ہے۔ اتنا بڑا خزانہ تھا کہ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ [القصص : 76] ايک بڑي جماعت ، قوت والي ، وہ اس کي چابياں اُٹھاتي تھي،اور وہ کہتا کيا تھا: إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي [القصص : 87]کہ يہ مجھے ملا ہے کيوں؟؟ اللہ کے فضل سے؟؟ نہيں !!ميرے اپنے علم کے زور پہ۔ ميں نے اپني عقل کے ساتھ کمايا ہے، يہ سارا کچھ بنايا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ[القصص : 81]اس کو بھي اوراس کے گھر کو بھي ، اس کے مال ومنال سب کو زمين کے اندر اللہ تعاليٰ نے دھنسا ديا۔ اور حديث ميں آتا ہے قيامت تک دھنسا رہے گا۔[ صحيح بخاري کتاب اللباس باب من جر ثوبہ من الخيلاء 5789,5790]

تو اس کي ہستي بستي زندگي کو اللہ نے زمين بوس کرديا ، زمين کے اندر زندہ ہي درگور کرديا۔ يہ کيا ہے؟ اہانت۔۔عادت عموماً ايسي نہيں ہے۔ اللہ کا عمومي اصول اور قانون يہ نہيں ہے۔ ليکن بسا اوقات جو اللہ تعاليٰ کي بغاوت ، سرکشي اور نافرماني ميں حد سے بڑھ جائے ، پھر اللہ تعاليٰ اس کے ساتھ يہ کام کرتا ہے۔ نمرود کو لے ليں۔ کبھي کسي بادشاہ نے اپنے نوکروں سے اپنے سر پہ جوتے کھائے ہيں۔؟؟ہوا کہ نہيں نمرود کے ساتھ ايسا؟؟کہتا تھا ميں بھي زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔مناظرہ ہوا ابراہيم کے ساتھ، رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ [البقرة : 258]کہنے لگا : أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ [البقرة : 258]ميں بھي زندہ کرتا ، مارتا ہوں۔اللہ نے ايسے جوتے سر پر پڑوائے کہ رسوا ہوکے رہ گيا۔ اس کا نام اہانت ہے۔ اس ميں کسي شخص کا ، کسي انسان کا اختيار نہيں ہوتا۔ اللہ رب العالمين کي طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعاليٰ کسي کو ذليل کرنا چاہے۔ قرآن مجيد فرقان حميد ميں اہانت کے کئي ايک واقعات درج ہيں۔ آسمان سے پتھروں کي بارش، آسمان سے آگ کي بارش، فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا [الحجر : 74] اٹھايا زمين کو، زمين کو، بستي پوري کو،زمين سے اکھيڑا اوپر ، واپس نيچے پھينک ديا۔ نيچے والا حصہ اوپر ، اوپر والا حصہ نيچے۔اور اوپر سے پتھروں کي بارش کردي۔ سورہ ہود ميں اللہ تعاليٰ نے کئي ايک ايسے واقعات ذکر کيے ہيں۔ تو اس کو اہانت کہا جاتا ہے۔

استدراج

تيسرا نمبر آتا ہے استدراج کا۔ اس کو ذرا غور سے سمجھنے کي ضرورت ہے۔ اور اس کو نہ سمجھنے کي وجہ سے بہت سارے لوگ گمراہ ہوئے ہيں۔ استدراج ميں يہ ہوتا ہے يعني استدراج، درجہ بدرجہ کسي کو کسي مقام تک پہنچانا۔ آہستہ آہستہ کرکے۔ تو ہوتا يہ ہے کہ اللہ رب العالمين خرق عادت کسي بندے کے ہاتھوں کوئي کام رونما کرواتا ہے، ہوتا وہ اللہ تعاليٰ باغي ونافرمان ہے۔ ليکن ايسا کام اس کے ہاتھوں ظہور پذير ہوتا ہے جس کو ظاہراً ديکھ کر لوگ کرامت سمجھتے ہيں۔ اور بڑا کمال سمجھا جاتا ہے اس کا ۔ مثال اس کي دجال کو لے ليں۔ حديثوں ميں آتا ہے، صحيح مسلم کے اندر، سنن ابي داؤد ميں، جامع ترمذي ميں، صحيح بخاري ميں، کتاب الفتن ميں، اشراط الساعۃ ميں بڑي تفصيلي حديثيں موجود ہيں۔

آسمان کو حکم دے گا، آسمان سے بارش برسے گي۔زمين کو حکم دے گا زمين سبزہ اگائے گي۔ اس نے اپنيايک جنت اور جہنم بنا رکھي ہوگي۔ لوگوں کو کہے گا کہ ميں رب ہوں، مجھے مانو، اور بندے کو تلوار مار کے دو ٹکڑے کردے گا، ايک حصہ ادھر، ايک اُدھر، درميان ميں چلے گا۔ تماش بينوں سے کہے گا کہ اگر ميں اسے دوبارہ زندہ کردوں تو کيا تم مجھے سچا رب مان لو گے؟؟ وہ کہيں گے کہ ہاں جي ضرور۔ وہ پھر حکم دے وہ جڑ جائے گا۔ زندہ سلامت پھر سامنے کھڑا ہوگا۔ وہ باقي سارے تو اس کے معتقد ہوجائيں گے ليکن جس کو تلوار ماري ہوگي وہ کہے گا کہ پہلے تو شايد ميں شک کرتا ليکن اب مجھے پکا يقين ہوگيا ہے کہ تو دجال ہے۔ وہ دوبارہ اس پر وار کرے گا ليکن اس کا وار چل نہيں سکے گا۔ يعني اختيارات اس کو ہيں ليکن محدود۔ مکہ مدينہ ميں وہ داخل نہيں ہوسکے گا۔ اس کي ايک آنکھ کاني ہوگي۔ کبھي دائيں آنکھ کاني ہوجائے گي کبھي بائيں۔ اتنا اختيار ہوگا ، جو کہے گا کہ ہم نے حديثوں ميں پڑھا ہے اعور عين اليمني دائيں آنکھ کا کانا۔ اس کے سامنے کہے گا کہ دائيں تو ميري ٹھيک ہے۔ جو کہے گا کہ ميں نے بائيں آنکھ کا پڑھا ہے اس کے سامنے کہے گا کہ بائيں تو ٹھيک ہے۔ ليکن دونوں ٹھيک کرلے،يہ نہيں ہوسکتا۔حديث ميں دونوں باتيں آتي ہيں کئي حديثوں ميں آتاہے کہ دائيں آنکھ سے کانا ہے اور کئي حديثوں ميں آتا ہے کہ بائيں آنکھ سے کانا ہے۔ کچھ ہمارے لوگ سمجھتے ہيں کہ چونکہ حديثوں ميں تضاد آگيا، لہٰذا حديثيں ختم، حديثيں نہيں ختم ، تضاد ہے ہي نہيں۔ وہ کبھي دائيں آنکھ کو کانا بنا لے گا کبھي بائيں کو کانا بنا لے گا۔ لوگوں کے ساتھ دھوکا کرے گا۔ اور نبي کريمﷺ نے بتايا ہے کہ ان ربکم ليس باعور کہ تمہارا رب کانا نہيں ہے۔ اس کے ماتھے پر اہل ايمان، جن کے دلوں ميں پختہ ايمان ہوگا ک ف ر موٹے حرفوں ميں لکھا ہوا پڑھ ليں گے۔ يہ سارے باتيں صحيح بخاري، صحيح مسلم، سنن ابي داؤد اور جامع ترمذي کے اندر موجود ہيں۔ تفصيل کے ساتھ حديث موجود ہے۔ بخاري کے اندر بھي بڑي مفصل روايت موجود ہے اس بارے ميں۔ تو خير! يہ استدراج کي ايک قسم ہے۔ دجال ايک مثال ہے استدراج کي۔ وہ لوگ جو صرف کرامتيں ہي ايسي ديکھتے ہيں اور وہيں لمبے ہوجاتے ہيں ، يہ تو بڑي پہنچي ہوئي سرکار ہے۔ وہ اس پر بھاگ بھاگ کر ايمان لائيں گے کہ واقعي رب ہي ہے۔ اور يہ بھي ياد رہے کہ ہارپ ٹيکنالوجي وہ ايک عليحدہ چيز ہے۔آج کل يہ بھي بڑا رولا چلا ہوا ہے ناں۔ ہارپ کا (HAARP) مختصراً ہم اس کو ہارپ کہہ ديتے ہيں۔ وہ کيا ہے؟ ايسا سائنسي نظام ہے کہ اوزون کو کنٹرول کيا جاتا ہے ، آکسيجن کي تہ کو۔ اس کے اندر تغيرات پيدا کرکے سورج کي تپش کو ايک خاص علاقے پر مرکوز کرديا جاتا ہے۔ وہاں پر گرمي زيادہ ہوجائے گي۔ اس کو کنٹرول کرکے آپ جس علاقے ميں چاہيں گرميوں کے موسم ميں برفباري کروا سکتے ہيں۔ يہ ايک سائنسي تکنيک ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ پتہ نہيں دجال کيسےکرے گا۔ اللہ نے دکھا ديا ہے کہ دنيا ميں يہ ہورہا ہے۔ اور کچھ بيچارے يہ سمجھتے ہيں کہ يہ ہمارا 2005 والا زلزلہ اور يہ سيلاب اسي ہارپ ٹيکنالوجي کا نتيجہ ہے۔ کئي تو ايسے بھي ضعيف الاعتقاد ہوگئے ہيں۔ حالانکہ ايسي بات نہيں ہے۔ بہرحال يہ ايک عليحدہ موضوع ہے۔ دجال اور اس کي حقيقت، اس کو ہم ان شاء اللہ آخر ميں مستقل طور پر بيان کريں گے۔ ليکن في الحال يہ سمجھ ليں کہ يہ استدراج کي ايک مثال ہے۔ ايسے ہي جادوگر جادو کے زور پہ۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [البقرة : 102] جادو گر کيا کرتا؟ جادو کے ذريعے مياں اور بيوي کے درميان اختلافات پيدا کرديتا۔ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى [طه : 66] جادو کيا رسيوں پہ ، وہ حرکت کرتي ہوئي نظر آنے لگيں سانپ بن کے۔ تو جادوگر بھي جادو کے زور پہ کافي سارے کام کرليتا ہے۔ ليکن اس کے يہ اختيارات بھي محدود پيمانے کے ہوتے ہيں۔ ادھر آپ کے علاقے کے قريب کا ہي ايک واقعہ ہے۔ گجرانوالہ سے ميرا ايک مہمان آرہا تھا ، اس کو لينے کےليے ميں لاري اڈے پہ پہنچا تو ايک دوست نے فون کيا کہ ايک کوئي پہنچي ہوئي سرکار ہے اور پتہ نہيں بڑے بڑے اس کے دعوے ہيں بلند بانگ قسم کے۔ اور بہت کچھ وہ بتاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ پانچ منٹ کے اندر ميں آب زمزم کے کنويں کے نيچے کي مٹي بھي لے آتا ہوں۔ اور پتہ نہيں کيا کيا کچھ وہ کہتا ہے تو آپ آئيں اور ديکھيں کہ يہ کيا چيز ہے۔ تو مہمان آيا ، اس کو ليا۔ ميں نے اس سے کہا کہ اس طرح کا کوئي مسئلہ ہے تو گھر ہم بعد ميں جائيں گے پہلے يہ ديکھ ليں۔ خير حقيقت کيا تھي کہ اس کے اوپر ايک جن حاضر ہوتا ہے وہي اس کے اندر آکر بولتا اور سارا کچھ بتاتا ہے۔ اس نے آکر وہ اپنا کام کرتب شروع کرنا چاہا۔ ہم دونوں بيٹھے ہوئے ايک طرف اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھنا شروع کرديا بس! ۔ اس نے اپنا زور لگايا جو لگايا ليکن بنا کچھ نہيں۔ وہ جو شيطان اس پر حاضر ہوتا تھا، حاضر نہ ہوسکا۔ اعوذ باللہ جو پڑھي جارہي ہے۔ دوسرا جو ميرے ساتھ ساتھي تھا وہ حافظ تھا اس نے سورۃ بقرہ پڑھني شروع کردي آہستہ آہستہ۔ بڑا زور لگايا، کچھ نہ بنا۔ خير! وہ تھوڑي دير بعد اُٹھ کے وہاں سے چلا گيا۔ اور باہر اس کا وہ شيطان موجود ہوگا کہ ميں اس وجہ سے نہيں آسکا تھا اندر۔ اس نے بتاديا۔ وہ جاکے کہتا ہے کہ يہ جو دو بندے بيٹھے ہوئے ہيں ناں! يہ ہيں شيطان۔ جب تک يہ يہاں سے نہيں جائيں گے تمہارا کام نہيں ہونا۔ تو بندہ پوچھے اعوذ باللہ پڑھنے سے کون بھاگتا ہے؟ تو ان جادوگروں کے جو اختيارات ہيں وہ بھي دجال کي طرح محدود ہيں۔ مختصر پيمانے کے۔ اگر کوئي سمجھنے والا ہوتو۔ يہ ہے استدراج۔ کہ وقتي طور پر اسے لوگوں کے ہاں بڑي عزت مل جاتي ہے۔ ليکن وہ بھي ايک خاص طبقے ميں، سب ميں نہيں۔ دجال کو بھي عزت ملے گي وقتي طور پر۔ سب ميں نہيں ، ايک خاص طبقے ميں۔ جن کے ايمان کمزور ہوں گے۔ ايسے ہي جادوگر کو عزت ملتي ہے کمزور ايمان والوں کے ہاں۔ جو مضبوط ايمان والے ہيں وہ جانتے ہيں کہ اس کي سزا قتل ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئي سزا ہي نہيں ہے اس کي۔ جادوگر کو پکڑو قتل کردو۔يہ حد مقرر کي ہے دين اسلام نے۔ يہ ہوتا ہے استدراج کہ اللہ سبحانہ وتعاليٰ خرق عادت کسي آدمي کے ہاتھوں کچھ کام رونما کرواتے ہيں۔لوگ، کمزور عقيدے والے، کمزور ايمان والے، اس کو ديکھ کر اس کي کرامت سمجھتے ہيں ۔ مضبوط ايمان والے، مضبوط عقيدے والے اسے ديکھ کر عذاب الہٰي سمجھتے ہيں اس پر۔ پھر جب اس کا انجام ہوتا ہے تو بہت برا ہوتا ہے۔ آپ نے کبھي کسي جادوگر کے مرنے کي خبر سني ہے؟ کہ فلاں جادوگر مرا تو کيسے مرا؟ يقيناً کسي نے نہيں سني ہوگي۔ جب تک وہ زندہ رہتا ہے بڑے اس کے چرچے ہوتے ہيں پتہ ہي نہيں ہوتا،نہ اسکا آگا ہوتا ہے نہ پيچھا۔ اور اس کے ساتھ بنتا کيا ہے؟ وہ جن شياطين جن کے ساتھ اس کے معاہدے ہوتے ہيں اور ابليس کے نام پر قربانياں کرکے ، ابليس کو سجدے کرکے اور گندگي کھا کھاکے ابليس کو راضي کرکے اس کے چيلے چانٹے اپنے ساتھ جوڑ کے رکھتا ہے پھر وہي اس کا ساڑھے ستياناس کرتے ہيں۔ خير! يہ بھي، اس کو ہم جادو کے موضوع ميں کھول کر بيان کريں گے۔ مختصراً يہ ہے کہ يہ ايک استدراج ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمين کسي بندے کے ہاتھوں خرق عادت عام طور پر ايسا ہونا ممکن نہيں ہوتا ليکن کچھ کرواتا ہے، ظاہر ہوتا ہے اور آخرکار اس کا انجام برا ہوتا ہے۔ اس ميں لوگوں کےليے آزمائش ہوتي ہے کہ کون ايمان پہ پکا رہتا ہے اور کون نہيں رہتا۔ نبي کريم ﷺ فرماتے ہيں: جو بندہ عراف يا کاہن کے پاس گيا۔ اس کي بات کي تصديق کردي۔ فقد کفر نما نزل علي محمدﷺ۔ [سنن ابي داود کتاب الطب باب في الکاہن 3904] اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ ساري شريعت کا انکار کرديا۔ کاہن، نجومي، عراف، جادوگر، قسمت کا حال بتانے والا، چوري کے بارے ميں بتانے والا کہ کس نے کي ہے۔ آج کل لوگوں نے ايک نيا طريقہ بنايا ہوا ہے کہ ہم استخارہ کرکے بتاديں گے کہ چوري کس نے کي ہے۔ يہ بھي جادو ہے۔ او استخارہ ہوتا کيوں ہے؟ استخارہ لفظ کا معني ہے طلب خير۔ فرض نماز کے علاوہ کوئي بھي نماز ہو نفل يا سنتيں ہو يا ويسے بندہ مستقل دو نفل پڑھ لے اس کے بعد دعا کرے: اللہم إني استخيرک بعلمک وقدرتک... يہ ساري دعا پڑھے اور اپني حاجت اور ضرورت کا نام لے۔ تو کيا ہوگا؟ اگر وہ کام اس کےليے بہتر اور اچھا ہوگا تو ہوجائے گا، نہيں بہتر تو اللہ تعاليٰ اس ے ختم کردے گا۔ يہ کرنا کب ہے: إذا اہم امرا۔ جب بندہ کسي کام کا ارادہ کرے اور متردد ہو، کروں کہ نہ کروں۔ جب يقين ہوگيا ناں پکا کہ يہ کام کرنا ہے تو پھر استخارہ نہيں۔ اس سے پہلے پہلے، جب ابھي شش وپنج ميں ہے۔ کروں کہ نہ کروں۔ پھر ہوتا ہے استخارہ۔ اور استخارہ سنٹر کھلے ہوئے ہيں۔ او استخارہ بندہ خود کرے۔ کوئي دوسرا کرکے دے سکتا ہوتا تو صحابہ سارے آتے نبي کريم ﷺ کے پاس استخارہ کروانے۔ آپ ﷺ نے سکھايا ہے کہ خودکرو۔ تو يہ عجيب وغريب انداز وطريقہ کار ہے۔ ان کو کہا جاتا ہے عراف۔ جو کسي عراف، کاہن کے پاس گيا اور اس کي بات کي تصديق کردي کہ ہاں تو ٹھيک کہہ رہا ہے کافر ہوگيا۔ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے بندہ۔ کتني بڑي آزمائش ہے۔ اورلوگوں کو تھوڑي سي پريشاني آجائے تو چلو جي حساب کتاب کرواؤ کہ کس نے ہم پر کچھ کيا ہے؟ کسي نے کيا ہے کہ نہيں کيا ہے۔ يعني جادوگروں کا وجود اس دنيا ميں يہ ايک استدراج ہے۔ اور جو ان کا جو باوا آدم ہے ان جادوگروں کا دجال وہ آئے گا، اور جو اس سے بھي بڑا ہے ابليس وہ تو قيامت کے دن ہي پکڑا جائے گا۔ اس سے پہلے نہيں۔ لوگوں کے ليے آزمائش ہے۔ ان کي وجہ سے لوگ دو گروہوں ميں تقسيم ہوجاتے ہيں۔ ايک اللہ پر کامل ايمان رکھنے والے جو ان کے پاس نہيں جاتے۔ اگر جادو کا کوئي مسئلہ بھي ہوتا ہے تو وہ رب کا قرآن تلاوت کرتے ہيں۔ جو طريقہ کار رسول اللہﷺ نے بتايا ہے اس طريقہ کار کےمطابق وہ علاج کرتے ہيں۔ اور دوسرا وہ گروہ کہ کالا بکرا، کالي مرغي دو مجھے تاکہ ميں اسے ابليس کے نام پر اسے ذبح کروں۔ دے کر آتے ہيں جاکر۔ اور پھر وہ غير اللہ کے نام پر اسے ذبح کرتا ہے۔ اس کے خون کے ساتھ تعويذ لکھے جاتے ہيں پھر اس کو پتہ نہيں کس چيز کي دھوني دي جاتي ہے۔ بہرحال بہت کچھ کرتے ہيں۔ ان کا ايک پورا شعبہ ہے۔ تو يہ استدراج ہے۔ يہ وہ چار امور ہيں خرق عادت جن کے ظاہري اسباب ہوتے ہي نہيں۔ ظاہراً اس کا کوئي سبب نہيں ہے۔ مافوق الاسباب آپ انہيں کہيں۔کہ مافوق الاسباب يہ کام ہوتے ہيں، اللہ تعاليٰ کا اذن اور اس کي قدرت اس ميں کارفرما ہوتي ہے۔ جادو کے بارے ميں بھي اللہ تعاليٰ نے کہا ہے کہ : وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللہ[البقرة : 102] جادوگر جادو کے ذريعے کسي کو کوئي نقصان نہيں پہنچا سکتے۔ الا باذن اللہ۔ اللہ کا اذن ہوگا تو نقصان ہوگا کسي کو وگرنہ نہيں۔ کئيوں کو جادوگر بڑا زور لگا کر تھک جاتے ہيں ان کو کچھ بھي نہيں ہوتا۔ اللہ کا اذن ہي نہيں۔ اللہ کا حکم ہي نہيں۔ جس پر اللہ کا اذن ہوتا ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے۔ ہے اللہ کے اذن سے يہ بھي۔ ليکن اذن کا يہ معني نہيں کہ اللہ تعاليٰ اس کام پہ راضي ہے۔ کافر اللہ کي اجازت اور اذن کے بغير کفر کرسکتا ہے؟ اللہ نہ چاہے کافر کا کفر کرنا تو کيا کوئي کفر کرسکتا ہے؟ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں کہ اگر اللہ چاہتے تو لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى [الأنعام : 35] لوگوں کو ہدايت پر جمع کرديتا ۔ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً [هود : 118] لوگوں کو ايک امت بنا ديتا۔ ليکن اللہ کي يہ مشيت نہيں۔ ليکن کافر کے کفر پر اللہ راضي بھي نہيں ہے۔ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ [الزمر : 7] اللہ نے دونوں راستے ديئے ہيں، دونوں راستے سمجھائے ہيں۔ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ [البلد : 10] إِمَّا شَاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً [الإنسان : 3] ايک راستے پر اللہ راضي ہے دوسرے پر راضي نہيں ہے۔ اجازت اللہ نے دونوں کي دي ہے۔ اجازت دونوں کي ہے ليکن ايک کے بارے ميں فرمايا کہ ميں راضي نہيں۔ ايک کے بارے ميں بتايا کہ ميں راضي ہوں۔ کفر کي اللہ نے اجازت دي ہے کرو کفر۔ دل کھل کر کرو۔ ليکن ياد رکھنا اس کا انجام جہنم ہے۔ ايمان کي اللہ نے اجازت دي ہے، اس کو اپنا لو، دنيا ميں مشقت اُٹھالو گے ليکن آخرت ميں صلہ بڑا اچھا ملنے والا ہے۔ لہٰذا يہ جادو يا دجال کي آمد يا ديگر استدراج کي جتني بھي مثاليں آپ سمجھ ليں اللہ تعاليٰ کے اذن کے ساتھ ہوتي ہيں۔ اسباب ان کے اندر ظاہري نہيں ہوتے۔ يہ مافوق الاسباب ہوتے ہيں۔ بسا اوقات سمجھنے والا يہ سمجھتا ہے کہ ميں اسے اپني مرضي سے کررہا ہوں کيونکہ کسي حد تک اس کي مرضي چلتي ہے ليکن کھلي چھوٹ نہيں ہوتي۔ مثال وہي واقعہ آپ دوبارہ ديکھ ليں۔ کہ دجال نے کيا کہا؟ وہ کيا کہے گا اس کے دو ٹکڑے کرنے کےبعد کہ اگر ميں اس کو جوڑ دوں تو پھر؟ يعني اس کو جوڑنے تک اس کا اختيار ہے جوڑ کر دوبارہ مارنا چاہے گا تو مار نہيں سکے گا۔يعني اس کے بعد اس کا اختيار ختم ہوگيا۔ جادوگر کو بھي اتنا سا اختيار ہے کہ جادو کرے۔ اور جادو کرکے کسي کو نقصان يا نفع پہنچا دے جس طرح دجال اس نے دنيا ميں جنت بنائي ہوگي اور جہنم بھي بنائي ہوگي۔ لوگوں کو جہنم ميں بھي پھينکے گا، ماننے والوں کو جنت ميں داخل کرے گا۔ کچھ فائدہ پہنچائے گا نا انہيں؟ ليکن جو اس کي جہنم ہے وہ حقيقتاً جنت ہوگي اور جو اس کي جنت وہ حقيقتاً جہنم ہوگي۔ کيونکہ آخرت ميں اس کا انجام برا نکلنے والا ہے۔ تو اس ليے استدراج کرنے والا يہ سمجھتا ہے کہ شايد اس پر ميرا اپنا بس اور اختيار چلتا ہے۔ اس ليے وہ اس کو ايک بہت بڑي سعادت سمجھ بيٹھتا ہے۔ ايک بہت بڑا مدرسہ ہے لاہور کے اندر، بڑا نام ہے اس کا پورے پاکستان ميں بڑا نام ہے۔ اس کا ايک شيخ الحديث مہتمم ہے۔ وہ بھي بڑا نامي گرامي ہے، ہے جادوگر۔ کئي دلائل ہيں اس کے جادوگر ہونے کے۔ وہ اپنے مريدين کو الٹي سيدھي عجيب حرکتيں دکھا کر اپنا ديوانہ وفريفتہ کرتا ہے، ظاہري طور پر بڑا متقي و پرہيزگار بھي ہے۔ ليکن اندرون خانہ اس کا کام ہي کچھ اور ہے۔ شيخ الاسلام امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اس بارے ميں ايک کتاب لکھي ہے "الفرقان بين اولياء الرحمن واولياء الشيطان" کہ رحمن اور شيطان کے وليوں کے درميان فرق کرنے والي کتاب۔ انہوں نے بڑي ايک مثاليں دي ہيں اور سمجھايا ہے شعبدے اور حقيقي کرامت کے درميان فرق۔ اگر آپ اس کا مطالعہ کرليں تو وہ اس باب ميں، اس موضوع ميں بڑا مفيد رہے گا ان شاء اللہ۔ چھوٹا سا کتابچہ ہے اس کا اردو ميں ترجمہ ، مکتبہ سلفيہ لاہور والوں نے شائع کيا ہے۔ فيصل آباد والوں نے۔ تو کئي ايک ان کے واقعات ہيں۔ ہوتا يونہي ہے کہ جادوگر جادو کے زور پہ کوئي کام کرتا ہے، سمجھنے والا اس کو اس کي کرامت سمجھ بيٹھتا ہے۔ يا بسا اوقات شعبدہ دکھاتاہے۔شعبدے ميں آپ کو بتايا ہے کہ اسباب موجود ہوتے ہيں۔ ماتحت الاسباب ہوتا ہے ليکن لوگوں کو پتہ نہيں چلتا۔ اس کي ايک مثال ابن تيميہ کے دور کي وہ سن ليں۔ کچھ لوگوں نے کہا ابن تيميہ ہمارے ساتھ مناظرہ کرلے، مباہلہ کرلے۔ وہ بھي آگ ميں کودے، ہم بھي آگ ميں کودتے ہيں۔ ديکھيں گے جو بچ گيا وہ سچا۔ شيخ صاحب نے کہا: ٹھيک ہے ليکن ايک شرط۔ کہ پہلے ميں بھي گرم پاني سے نہاؤں گا، ميرے کپڑے بھي گرم پاني سے دھوئے جائيں۔ يہ بھي گرم پاني سے غسل کريں اور ان کے کپڑے بھي گرم پاني سے دھوئے جائيں۔ پھر کودتے ہيں آگ ميں۔ ديکھي جائے گي۔ وہ بھاگ گئے۔ تو سلطان نے پوچھا: شيخ صاحب! يہ کيا ماجرا ہے؟ وہ اس شرط کو کيوں نہيں قبول کرتے؟ کہنے لگے: اصل ميں آپ کو پتہ نہيں ہے يہ مينڈک کي چربي اور ايک پتھر ہوتا ہے اس کو ملا کر ايک دوائي تيار کي جاتي ہے جس جگہ پہ لگ جائے آگ اس جگہ پر اثر نہيں کرتي۔ وہ انہوں نے اپنے جسم اور کپڑوں پہ ملي ہوئي تھي۔ ان کو پتہ تھا کہ ہميں کچھ نہيں ہوتا۔ آؤ آگ ميں کودتے ہيں۔ ايک آدمي بيٹھ گيا ولي باکرامت بن کے۔ کرامت کيا ہے جي کہ جس پيالے ميں بھي ہاتھ ڈالے پاني ميٹھا ہوجاتا ہے۔ اچھا بھئي۔ ايک کو اس کا فراڈ سمجھ آگيا۔ اس نے کہا وہ پيالہ ميٹھا کرتا ہے ، ميں اس سے بھي بڑا ولي ہوں۔ کيسے؟ پاني کاجو مرضي ٹب لے آؤ ميں اپنا رومال اس ميں گھماؤں گا پورا ٹب ميٹھا ہوجائے گا۔ لوگوں نے کہا واقعي يہ تو بہت پہنچا ہوا ہے۔ اس سے بھي بڑھ کے۔ پھر اس نے لوگوں کوبتايا کہ اس نے ہاتھ پہ سکرين لگائي ہوتي ہے ميں نے رومال کو لگائي ہوئي ہے۔ فرق تو کچھ نہيں ہے۔ وہ ديکھتے ہيں پير صاحب پاني کا برتن ہے، نلکے سے پاني لے کے آئے،پيرصاحب نے تھوکا، پاني کو آگ لگ گئي۔ کيوں؟ اس ليے کہ منہ ميں فاسفورس ڈالي ہوئي تھي۔ اس کا خاصہ ہے کہ پاني کو لگے گي تو جلا دے گي۔ پير صاحب يوں پاني کي طرف اشارہ کرتے ہيں بسا اوقات وہ برتن بھي دھماکےکے ساتھ پھٹ جاتا ہے۔ کيوں؟ سوڈيم ہے ہاتھ ميں ۔ اس کا خاصہ ہے کہ جونہي سوڈيم پاني کے ساتھ ٹچ ہوگي، دھماکا کرے گي بلاک ہوجائے گي۔ يہ شعبدے ہيں۔ ظاہري اسباب لوگوں کو پتہ نہيں۔ ليکن ہوتے ضرور ہيں اس کے اندر۔ اور عام طور پر بندہ اس کو سمجھنے سے تھوڑا سا قاصر رہتا ہے۔ تو يہ کل پانچ امور ہيں۔ معجزہ، ارہاص، استدراج، کرامت اور اہانت جو خرق عادت ہوتے ہيں، عام طور پر جو عادت ہے اس کے برخلاف ہوتے ہيں۔ ليکن شعبدے ميں ظاہري اسباب موجود ہوتے ہيں۔ لوگوں کو پتہ ہو چاہے نہ ہو۔ باقي پانچوں کاموں ميں اسباب ظاہري نہيں ہوتے۔ يہ من جانب اللہ ہوتے ہيں۔ اور پہلے تين کاموں ميں کسي کا بھي ذرا سا اختيار نہيں ہوتا۔ نہ معجزہ ميں، نہ کرامت ميں، نہ ارہاص ميں اور نہ ہي اہانت ميں۔ استدراج ميں جس آدمي کے ہاتھوں يہ ظاہر ہورہا ہے اس کو محدود سا اختيار ديا جاتا ہے۔ کلي طور پر نہيں۔تو ان کي حقيقت ہے اور واقعتاً ان کا وجود ہے دنيا ميں۔ تو ان کو سمجھنے کي ضرورت ہے۔ سمجھے گا تو بندہ اپنے عقيدہ اور عمل کو درست کرے گا اور اپنے ايمان کو بچا لے گا۔ اللہ رب العالمين سے دعا ہے کہ اللہ تعاليٰ سمجھنے اور عمل کرنے کي توفيق دے۔

وما علي الاالبلاغ۔
 
Top