• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کورٹ میرج کی شرعی حیثیت

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تین چار سال قبل ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں تعلقات ہو گئے اب اسی دوران لڑکی نے اپنی والدہ کو کہا تو وہ یہاں رشتہ کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ بات طے ہو گئی۔ نکاح کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ عین نکاح کے دن (چونکہ لڑکی کا والد سادہ آدمی تھا اس لیے اسے اس کے بھائیوں نے مجبور کیا کہ وہاں رشتہ نہیں دینا)۔پیغام ملا کہ آپ نکاح نہ لینےآئیں۔ لڑکی کی والدہ بھی جواب دے کر چلی گئی ۔ چند دنوں کے بعد لڑکی وہاں سے لڑکے کے پاس آ گئی۔ اور انہوں نے عدالت میں رجوع کر کے نکاح کر لیا۔ اس نکاح سے قبل دونوں زنا کے مرتکب بھی ہوئے ۔ اور عین نکاح کے وقت (بقول لڑکے کے) لڑکی کو حمل بھی تھا۔
کچھ عرصہ کے بعد لڑکی کی والدہ رات اس لڑکی کو واپس لے کے چلی گئی ۔ اور پھر عدالت میں کیس چلتا رہا آخر فیصلہ لڑکے کے حق میں ہو گیا ۔ اور وہ لڑکی کو اپنے گھر لے آیا ۔ چند ہی دنوں بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ نکاح کے وقت تو حمل تھا لہٰذا نکاح نہیں ہوا ۔ اب اس نے ایک مولوی صاحب سے رجوع کیا اور اس مولوی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر کچھ حق مہر کے تحت اس لڑکے کا نکاح پڑھ دیا ۔ جبکہ وہ گواہوں والے معاملے سے لاعلم تھا ۔ اور اب اسے اس بات کا بڑا افسوس ہے۔ لڑکی کی والدہ فوت ہو چکی ہے اور لڑکی کا والد اس اہل نہیں کہ وہ ولی بن سکے (وہ لائی لگ ہے) ان دونوں کی اولاد بھی ہو چکی ہے۔ لڑکی کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔لڑکا اور لڑکی کہتے ہیں کہ اب ہم نے سچے دل سے توبہ بھی کر لی ہے۔ باوضاحت جواب لکھیں؟
 
Top