شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 1,977
- ری ایکشن اسکور
- 6,263
- پوائنٹ
- 412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمارے ایک اہل حدیث بھائی کو استخارہ کے غیرثابت شدہ ہونے پر عاطف نامی شخص کی یہ نام نہاد تحقیق حاصل ہوئی ہے۔ اب وہ اسکے جواب کے طالب ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اللہ تعالی فرماتا ہے۔
'' اے نبی ﷺ ! معاملات میں مشورہ کریں ان (اصحاب) سے ، پھر جب آپﷺ پکّا ارادہ کر لیں تو اللہ پر توکّل کریں'' (آلِ عمران:۱۵۹) نہ کہ آپس کے مشورے کو ترک کر کے استخارہ کے نام پر خوابوں اور غیبی اشاروں پر بھروسہ کرنے لگیں ۔ اللہ نے اس آیت میں اس پر توکّل کرنے کاحکم فرمایا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر کام کے کرنے سے پہلے دو رکعات پڑھی جائیں اور استخارہ کیا جائے ۔ اس طرح تو کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ استخارہ کی روایت میں کسی مخصوص کام کی قید نہیں ہے اور نہ ایسا رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے جو کام کیا ہو تو اس سے پہلے استخارہ کیا ہو۔
استخارہ کی روایت کچھ یوں ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺ ہمیں معاملات میں خیر طلب کرنے (استخارہ) اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب بھی تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ فرض کے علاوہ دو رکعات پڑھے پھر کہے(پھر استخارہ کی دعاء سکھائی)(صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۱۶۶)۔
اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے (الکامل، صفحہ نمبر ۱۶۱۶) میں منکر کہا ہے ۔ اس روایت پر امام احمد کی جرح کو ابنِ عدی، امام ذہبی (میزان، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰)، علامہ عینی (عمدۃ القاری) ، شوکانی (نیل الاوطار،حدیث نمبر ۹۶۵) وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور امام احمد کی جرح کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام علماء اس روایت کے منکر ہونے پر متفق ہیں۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال میں ضعف ہے۔ (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰) ابنِ عدی اس روایت کو منکر بتاکر کہتے ہیں ''اسے کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے'' جن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت مسند بزار حدیث نمبر ۱۵۸۳)میں ہے جس کا راوی عمران بن ابی لیلہ مجہول اور محمد بن عبدالرحمن منکر الحدیث ہے۔ (میزان، ترجمہ نمبر ۷۸۳۱)
ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۵۲۸ میں ہے جس کا راوی عباس بن ہیثم مجہول ، صالح بن موسیٰ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۳۸۳۵ ) اور سلیمان بن ماہران مدلّس ہے۔
ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۸۳۵ میں ہے جس کا راوی عاصم بن ابی نوجد ضعیف (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۰۷۳) اور مبارک بن فضالہ ضعیف مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ ۷۰۵۴) ۔
ایک سند مسند ابو حنیفہ روایت ابو نعیم، صفحہ نمبر ۸۱ میں ہے جس کا راوی نعمان بن ثابت
( ضعفاء عقیلی ، ترجمہ نمبر ۱۸۸۰) اور محمد بن سلیمان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۲۵۶) منکر الحدیث ہیں۔
ایک سند مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث نمبر ۲۸۸۲۷ میں ہے جس کا ایک راوی ابراھیم نخعی کی ملاقات ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے اور ابو معاویہ ابراھیم سے روایت کرنے میں ضعیف اور مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۱۰۶۲۶)
ایک سند (الجامع معمار بن راشد ، حدیث نمبر ۲۰۲۱۰) میں ہے جس کا راوی قتادہ بن دیامہ کی ملاقات ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے ۔ پھر قتادہ اور عبدالرّزاق دونوں مدلّس ہیں۔
ایک سند طبرانی صغیر ، صفحہ نمبر ۱۹۰ میں ہے جس کا راوی عبدالرّحمن بن عبداللہ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۱۲) اور اسمعٰیل بن عیاش کی روایت اس سے منکر ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۲۴) ۔
ایک سند اسماء والصفات ، صفحہ نمبر ۱۲۱ میں ہے جس کا راوی یحییٰ بن یامان منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۶۶۹) ۔
ایک سند اخباراصبہان ، جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۳۳۲) میں ہے جس کا راوی نوح بن منصور مجہول اور سفیان ثوری مدلّس ہیں۔
استخارہ کے حوالے سے ایک روایت ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے صحیح ابنِ حبان، حدیث نمبر ۴۰۴۰ میں ہے جس کا ایک راوی خالد بن ابی ایوب مجہول ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت سنن ترمذی ، حدیث نمبر ۳۵۱۶ میں ہے جس کا ایک راوی زنفل مکّی منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۹۰۹) ۔ ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر ۱۳۴۲ میں ہے جس کا ایک راوی محمد بن اسحاق منکر الحدیث (ترجمہ نمبر ۷۲۰۳) اور عیسیٰ بن عبداللہ مجہول ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت مسند احمد حدیث نمبر ۱۴۴۴ میں ہے کہ ''ابنِ آدم کی سعادت میں سے ہے اللہ سے استخارہ کرنا اور جو فیصلہ اللہ فرما دے اس پر راضی ہونا''
اس روایت کا ایک راوی محمد بن ابی حُمیدمنکر الحدیث ہے (تاریخ کبیر بخاری، ترجمہ نمبر ۱۶۸) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے طبرانی کبیر ، حدیث نمبر ۱۱۴۷۷ میں ہے جس کا ایک راوی عبداللہ بن ہانی کذاب (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۶۷۰( اور ہانی بن عبدالرّحمن مجہول ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۹۳۵ میں ہے جس کا راوی عمروبن سلٰمہ(میزان، ترجمہ نمبر ۶۳۸۵) حفاص بن غیلان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۱۶۵) منکر الحدیث اور حکم بن عبداللہ کذّاب ہے (میزان، ترجمہ حدیث نمبر ۲۱۸۳) ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر ۸۸۶ میں ہے جس کا راوی اعلیٰ بن عبدالرّحمن منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۵۷۴۱) اور شِبل بن اعلیٰ مجہول ہے۔
اس کی ایک سند مسند ابی حنیفہ روایت ابن یعقوب ، حدیث نمبر ۸۳۵ میں ہے جس کا راوی احمد بن صالح ، محمد بن قاسم مجہول ، اور قاسم بن حکم (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۸۰۷) ، ناصح بن عبداللہ (میزان ، ترجمہ نمبر ۸۹۹۵) منکر الحدیث ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے ''جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوا، اور جس نے مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہو ا اور جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا'' (طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۶۶۲۷) اس کا راوی عبدالقدّوس بن حبیب (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۶۲۷) اور عبدالسلام بن عبدالقدّوس (میزان، ترجمہ نمبر ۵۰۵۹) کذّاب ہیں۔ لہٰذا اس بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے۔
تحقیق از قلم عاطف احمد خان۔
ہمارے ایک اہل حدیث بھائی کو استخارہ کے غیرثابت شدہ ہونے پر عاطف نامی شخص کی یہ نام نہاد تحقیق حاصل ہوئی ہے۔ اب وہ اسکے جواب کے طالب ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اللہ تعالی فرماتا ہے۔
'' اے نبی ﷺ ! معاملات میں مشورہ کریں ان (اصحاب) سے ، پھر جب آپﷺ پکّا ارادہ کر لیں تو اللہ پر توکّل کریں'' (آلِ عمران:۱۵۹) نہ کہ آپس کے مشورے کو ترک کر کے استخارہ کے نام پر خوابوں اور غیبی اشاروں پر بھروسہ کرنے لگیں ۔ اللہ نے اس آیت میں اس پر توکّل کرنے کاحکم فرمایا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر کام کے کرنے سے پہلے دو رکعات پڑھی جائیں اور استخارہ کیا جائے ۔ اس طرح تو کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ استخارہ کی روایت میں کسی مخصوص کام کی قید نہیں ہے اور نہ ایسا رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے جو کام کیا ہو تو اس سے پہلے استخارہ کیا ہو۔
استخارہ کی روایت کچھ یوں ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺ ہمیں معاملات میں خیر طلب کرنے (استخارہ) اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب بھی تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ فرض کے علاوہ دو رکعات پڑھے پھر کہے(پھر استخارہ کی دعاء سکھائی)(صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۱۶۶)۔
اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے (الکامل، صفحہ نمبر ۱۶۱۶) میں منکر کہا ہے ۔ اس روایت پر امام احمد کی جرح کو ابنِ عدی، امام ذہبی (میزان، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰)، علامہ عینی (عمدۃ القاری) ، شوکانی (نیل الاوطار،حدیث نمبر ۹۶۵) وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور امام احمد کی جرح کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام علماء اس روایت کے منکر ہونے پر متفق ہیں۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال میں ضعف ہے۔ (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰) ابنِ عدی اس روایت کو منکر بتاکر کہتے ہیں ''اسے کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے'' جن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت مسند بزار حدیث نمبر ۱۵۸۳)میں ہے جس کا راوی عمران بن ابی لیلہ مجہول اور محمد بن عبدالرحمن منکر الحدیث ہے۔ (میزان، ترجمہ نمبر ۷۸۳۱)
ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۵۲۸ میں ہے جس کا راوی عباس بن ہیثم مجہول ، صالح بن موسیٰ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۳۸۳۵ ) اور سلیمان بن ماہران مدلّس ہے۔
ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۸۳۵ میں ہے جس کا راوی عاصم بن ابی نوجد ضعیف (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۰۷۳) اور مبارک بن فضالہ ضعیف مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ ۷۰۵۴) ۔
ایک سند مسند ابو حنیفہ روایت ابو نعیم، صفحہ نمبر ۸۱ میں ہے جس کا راوی نعمان بن ثابت
( ضعفاء عقیلی ، ترجمہ نمبر ۱۸۸۰) اور محمد بن سلیمان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۲۵۶) منکر الحدیث ہیں۔
ایک سند مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث نمبر ۲۸۸۲۷ میں ہے جس کا ایک راوی ابراھیم نخعی کی ملاقات ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے اور ابو معاویہ ابراھیم سے روایت کرنے میں ضعیف اور مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۱۰۶۲۶)
ایک سند (الجامع معمار بن راشد ، حدیث نمبر ۲۰۲۱۰) میں ہے جس کا راوی قتادہ بن دیامہ کی ملاقات ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے ۔ پھر قتادہ اور عبدالرّزاق دونوں مدلّس ہیں۔
ایک سند طبرانی صغیر ، صفحہ نمبر ۱۹۰ میں ہے جس کا راوی عبدالرّحمن بن عبداللہ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۱۲) اور اسمعٰیل بن عیاش کی روایت اس سے منکر ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۲۴) ۔
ایک سند اسماء والصفات ، صفحہ نمبر ۱۲۱ میں ہے جس کا راوی یحییٰ بن یامان منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۶۶۹) ۔
ایک سند اخباراصبہان ، جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۳۳۲) میں ہے جس کا راوی نوح بن منصور مجہول اور سفیان ثوری مدلّس ہیں۔
استخارہ کے حوالے سے ایک روایت ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے صحیح ابنِ حبان، حدیث نمبر ۴۰۴۰ میں ہے جس کا ایک راوی خالد بن ابی ایوب مجہول ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت سنن ترمذی ، حدیث نمبر ۳۵۱۶ میں ہے جس کا ایک راوی زنفل مکّی منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۹۰۹) ۔ ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر ۱۳۴۲ میں ہے جس کا ایک راوی محمد بن اسحاق منکر الحدیث (ترجمہ نمبر ۷۲۰۳) اور عیسیٰ بن عبداللہ مجہول ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت مسند احمد حدیث نمبر ۱۴۴۴ میں ہے کہ ''ابنِ آدم کی سعادت میں سے ہے اللہ سے استخارہ کرنا اور جو فیصلہ اللہ فرما دے اس پر راضی ہونا''
اس روایت کا ایک راوی محمد بن ابی حُمیدمنکر الحدیث ہے (تاریخ کبیر بخاری، ترجمہ نمبر ۱۶۸) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے طبرانی کبیر ، حدیث نمبر ۱۱۴۷۷ میں ہے جس کا ایک راوی عبداللہ بن ہانی کذاب (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۶۷۰( اور ہانی بن عبدالرّحمن مجہول ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۹۳۵ میں ہے جس کا راوی عمروبن سلٰمہ(میزان، ترجمہ نمبر ۶۳۸۵) حفاص بن غیلان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۱۶۵) منکر الحدیث اور حکم بن عبداللہ کذّاب ہے (میزان، ترجمہ حدیث نمبر ۲۱۸۳) ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر ۸۸۶ میں ہے جس کا راوی اعلیٰ بن عبدالرّحمن منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۵۷۴۱) اور شِبل بن اعلیٰ مجہول ہے۔
اس کی ایک سند مسند ابی حنیفہ روایت ابن یعقوب ، حدیث نمبر ۸۳۵ میں ہے جس کا راوی احمد بن صالح ، محمد بن قاسم مجہول ، اور قاسم بن حکم (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۸۰۷) ، ناصح بن عبداللہ (میزان ، ترجمہ نمبر ۸۹۹۵) منکر الحدیث ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے ''جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوا، اور جس نے مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہو ا اور جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا'' (طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۶۶۲۷) اس کا راوی عبدالقدّوس بن حبیب (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۶۲۷) اور عبدالسلام بن عبدالقدّوس (میزان، ترجمہ نمبر ۵۰۵۹) کذّاب ہیں۔ لہٰذا اس بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے۔
تحقیق از قلم عاطف احمد خان۔