• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا افطار کے وقت کی گئی دعاء رد نہیں ہوتی؟

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
سنن ابن ماجه (1/ 557)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ»

کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
افطار کے وقت دعاء کرنے سے متعلق یہ حدیث سخت ضعیف ہے

امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي "[سنن ابن ماجه 1/ 557 رقم 1753]۔

اس سند میں موجود راوی ''إسحاق بن عبيد الله المدني'' یہ سخت ضعیف ہے کیونکہ یہ ''إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة،'' ہے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں۔

پہلی دلیل:
راوی کے تعین کے سلسلے میں سب سے مضبوط بنیاد زیر تحقیق سند کے دیگر طرق ہوتے ہیں اوراگر کسی طریق میں صراحت کے ساتھ راوی کا تعین موجود ہو تو یہ اس بات کی زبردست دلیل ہوگی کہ اس مقام پر یہی راوی ہے۔
زیرتحقیق سند کا بھی یہی معاملہ ہے کیونکہ اس کے ایک طریق میں ''اسحاق '' کی تعین موجود ہے ملاحظہ ہو:

أبو عبد الله محمد بن سعيد ابن الدبيثي ( المتوفی637 ) نے کہا:
قرأت على أبي محمد عبد العزيز بن أبي نصر البزاز من كتابه، قلت له: أخبركم أبو عبد الله محمد بن رمضان بن عبد الله الجندي، فأقر به، قال: أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الدوري، قال: أخبرنا أبو محمد الحسن ابن علي الجوهري، قال: حدثنا الحسن بن عمر بن حبيش، قال: حدثنا حامد ابن محمد، قال: حدثنا الحكم بن موسى، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة،قال: سمعت عبد الله بن أبي مليكة قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((إن للصائم عند إفطاره لدعوةً ما ترد)). قال ابن أبي مليكة: فسمعت عبد الله بن عمرو يقول إذا أفطر: ((اللهم إني أسألك رحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي)).[ذيل تاريخ بغداد لابن الدبيثي 1/ 334 واسنادہ حسن الی الولید]۔

دوسری دلیل:
ایک اور طریق میں اس راوی کا تعین ''الاموی'' کے ساتھ منقول ہے ۔

امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَهْزَادَ بْنِ مِهْرَانَ السَّيْرَافِيُّ، بِمِصْرَ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا أَسَدٌ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُمَوِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ دَعْوَةً لَا تُرَدُّ» . قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ اغْفِرْ لِي[الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين ص: 53]
اور إسحاق بن عبد الله بن أبى فروة بھی ''اموی'' ہے دیکھئے :[تهذيب الكمال للمزي: 2/ 446]۔

تیسری دلیل:
ولید بن مسلم کے اساتذہ میں إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة کا تذکرہ ملتا ہے دیکھئے:[تهذيب الكمال للمزي: 2/ 446]۔
اورزیرتحقیق سندمیں بھی بھی یہ ولیدبن مسلم کے استاذ ہیں۔

چوتھی دلیل:
زیرتحقیق سند میں اسحاق کی نسبت ''مدنی'' ہے اور إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة بھی مدنی ہی ہے۔

تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
والذى عندى أن هذه النسبة (المدنى) لم ترد فى شىء من الطرق الكثيرة المشار إليها عن الوليد بن مسلم إلا فى طريق ابن ماجه [إرواء الغليل للألباني: 4/ 42]۔

عرض ہے کہ علامہ موصوف کی یہ بات غیر مسموع ہے کیونکہ ابن ماجہ کے علاوہ بھی دیگر طرق میں ''مدنی '' کی صراحت موجوددہے۔
مثلا:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ» [الدعاء للطبراني ص: 286]

علامہ البانی رحمہ اللہ نے آگے فرمایا:
ومدار هذه الطريق على هشام بن عمار: حدثنا الوليد ... وهشام فيه ضعف وإن أخرج له البخارى , فقال الحافظ فى " التقريب ": " صدوق , مقرىء , كبر فصار يتلقن , فحديثه القديم أصح ".قلت: فمثله إذا تفرد بمثل هذه الزيادة لم تقبل منه لمخالفته بها الثقات , فهى شاذة إن لم تكن منكرة. [إرواء الغليل للألباني: 4/ 43]

عرض ہے کہ علامہ موصوف کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ''مدنی '' کی صراحت نقل کرنے میں هشام بن عمار منفرد ہے کیونکہ ’’أسد بن موسى الأموي‘‘ نے بھی اس کے ہم معنی بات نقل کی ہے چنانچہ :

امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَهْزَادَ بْنِ مِهْرَانَ السَّيْرَافِيُّ، بِمِصْرَ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا أَسَدٌ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُمَوِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ دَعْوَةً لَا تُرَدُّ» . قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ اغْفِرْ لِي[الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين ص: 53]

من اہل المدینہ اور مدنی ہم معنی ہے۔

واضح رہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے گرچہ زیربحث راوی کی تعیین دوسرے راوی سے کی ہیں لیکن پھر بھی علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف ہی کہا ہے کیونکہ علامہ موصوف کا متعین کردہ راوی بھی ضعیف ہے۔

بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق کے اخیر میں اس بات کا بھی احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ راوی ’’ إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة‘‘ بھی ہوسکتا ہے دیکھئے :[إرواء الغليل للألباني: 4/ 43]۔

نیز علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:
وإن كان هو ابن عبد الله مكبرا فالأرجح أنه ابن أبى فروة لأنه من هذه الطبقة وهو متروك كما قال الحافظ , والله أعلم.[إرواء الغليل للألباني: 4/ 44]

علامہ البانی رحمہ اللہ سے قبل امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی یہ احتمال ذکر کرتے ہوئے کہا:
إسحاق هذا إن كان ابن عبد الله مولى زائدة فقد خرج عنه مسلم و إن كان ابن أبي فروة فإنهما و لم يخرجاه[المستدرك للحاكم: 1/ 583]

اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تعلیق میں کہا:
وإن كان ابن أبى فروة فواه [بحوالہ إرواء الغليل للألباني: 4/ 43]
عرض ہے کہ علامہ البانی ، امام حاکم اور امام ذہبی رحمہم اللہ کا ذکر کردہ دوسرا احتمال ہی متعین ہے جیساکہ اوپر بادلائل ثابت کیا گیا ۔

دریں صورت یہ روایت صرف ضعیف ہی نہیں ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے بلکہ یہ سخت ضعیف ہے جیساکہ تفصیل پیش کی گئی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بوصیری رحمہ اللہ کا موقف اور اس کا جائزہ


اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے امام بوصیری رحمہ اللہ نے کہا:
هَذَا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات رَوَاهُ الْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك عَن عبد الْعَزِيز بن عبد الرَّحْمَن الدباس عَن مُحَمَّد بن عَليّ بن زيد عَن الحكم بن مُوسَى عَن الْوَلِيد بِهِ حَدثنَا إِسْحَاق فَذكره وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ من طَرِيق إِسْحَاق بن عبيد الله قَالَ عبد الْعَظِيم الْمُنْذِرِيّ فِي كتاب التَّرْغِيب وَإِسْحَاق هَذَا مدنِي لَا يعرف قلت قَالَ الذَّهَبِيّ فِي الكاشف صَدُوق وَذكره ابْن حبَان فِي الثِّقَات لِأَن إِسْحَاق بن عبيد الله بن الْحَارِث قَالَ النَّسَائِيّ لَيْسَ بِهِ بَأْس وَقَالَ أَبُو زرْعَة ثِقَة وَبَاقِي رجال الْإِسْنَاد على شَرط البُخَارِيّ [مصباح الزجاجة للبوصيري: 2/ 81]۔

عرض ہے کہ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس لئے صحیح قرار دیا کیونکہ انہوں نے اس روایت میں موجود ’’اسحاق مدنی ‘‘ کی تعیین ’’إسحاق بن عبد الله بن الحارث بن كنانة القرشى العامرى‘‘ سے کی ہے۔

اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

پہلی دلیل:
امام بوصیری نے اپنے مذکورہ کلام میں اسحاق کے ابن الحارث کہا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام بوصیری نے یہاں اسحاق سے اسحاق بن عبداللہ الحارث ہی کو مراد لیا ہے اور اسحاق کے والد عبداللہ کی جگہ عبیداللہ غلطی سے لکھا گیا جیساکہ اگلی بات سے واضح ہے۔

دوسری دلیل:
امام بوصیری کی کتاب مصباح الزجاجہ کے دوسرے نسخہ سے علامہ سندی اس مقام کی عبارت کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أبو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى1138)نے کہا:
وَفِي الزَّوَائِدِ إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ لِأَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ النَّسَائِيُّ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ ثِقَةٌ وَذَكَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَبَاقِي رِجَالِ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ [حاشية السندي على سنن ابن ماجه 1/ 533]

اس حوالہ میں بھی اسحاق کو ابن الحارث کہا گیا ہے نیز اسحاق کے والد کو واضح طور پر ’’عبداللہ‘‘ کہا گیا ہے یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ امام بوصری نے اسحاق سے اسحاق بن عبداللہ بن الحارث کو مراد لیا ہے۔

تیسری دلیل:
امام بوصیری نے اپنے اس کلام میں اسحاق سے متعلق ابوزرعہ کی توثیق نقل کی ہے اور امام ابوزرعہ کی توثیق اس طبقہ میں اسحاق بن عبداللہ بن الحارث ہی سے متعلق ملتی ہے۔ دیکھئے:[تهذيب الكمال للمزي: 2/ 442]۔نیز ملاحظہ ہو[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 226]۔
اس کے برعکس اسحاق بن عبیداللہ المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق یا اس طبقہ میں اسحاق المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق ابوزرعہ کی کوئی توثیق نہیں ملتی۔

چوتھی دلیل:
امام بوصیری نے اپنے اس کلام میں اسحاق سے متعلق امام ذہبی سے ’’صدوق‘‘ کا لفظ نقل کیا ہے اور امام ذہبی نے اس طبقہ میں اسحاق بن عبداللہ بن الحارث ہی کو صدوق کہا ہے دیکھئے: [الكاشف للذهبي: 1/ 237]۔
اس کے برعکس اسحاق بن عبیداللہ المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق یا اس طبقہ میں اسحاق المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق امام ذہبی کی طرف سے صدوق کا لفظ نہیں ملتا۔

پانچویں دلیل:
امام بوصیری نے اپنے اس کلام میں اسحاق سے متعلق امام نسائی سے ''ليس به بأس'' کا لفظ نقل کیا ہے اور امام نسائی سے اس طبقہ میں اسحاق بن عبداللہ بن الحارث ہی سے متعلق ليس به بأس کا لفظ منقول ہے جیساکہ امام مزی نے نقل کیا ہے دیکھئے :[تهذيب الكمال للمزي: 2/ 442]۔
اس کے برعکس اسحاق بن عبیداللہ المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق یا اس طبقہ میں اسحاق المدنی نامی کسی بھی راوی سے متعلق امام نسائی کی طرف سے ليس به بأس کا لفظ نہیں ملتا۔

چھٹی دلیل:
امام بوصیری نے اسحاق کے بارے میں یہ بھی کہا کہ اسے ابن حبان نے ثقات میں ذکرکیا ہے اور اسحاق بن عبداللہ بن الحارث کو بھی ابن حبان نے ثقات میں ذکرکیا ہے دیکھئے: [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 4/ 24]
ان تمام دلائل سے یہ بات صاف طور سے معلوم ہوتی ہے کہ امام بوصیری نے اسحاق کا تعین ’’اسحاق بن عبداللہ بن الحارث‘‘ ہی سے کیا ہے ۔



لیکن امام بوصیری رحمہ اللہ کا یہ تعین قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ ’’''اسحاق بن عبداللہ بن الحارث‘‘ اس طبقہ کا راوی ہے ہی نہیں اور نہ اس کے تلامذہ میں ولید بن مسلم اور نہ ہی اس کے اساتذہ میں ابن ابی ملیکہ کا ذکر ملتاہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حافظ زبیرعلی زئی کا موقف اور اس کا جائزہ

زیربحث راوی اسحاق کے تعین میں محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے عجیب تسامح ہوا ہے موصوف لکھتے ہیں:
1753-[حسن]اخرجہ الحاکم: 422/1 علی تصحیف فی السند من حدیث الولید بہ ، وصححہ البوصیری ،وقال:'' رجالہ ثقات'' ، وحسنہ الحافظ فی امالی الاذکار ۔ اسحاق بن عبیداللہ المدنی وثقہ ابن حبان والبوصیری ونقل البوصیری عن الذہبی قال: صدوق، ولحدیثہ شاھد عندالضیافی المختارہ وغیرہ۔[سنن ابن ماجہ رقم 1753 مطبوعہ دار السلام]۔

موصوف کی اس عبارت میں درج ذیل چیزیں ہیں:

  1. امام بوصری نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے۔
  2. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تحسین کی ہے۔
  3. اسحاق بن عبیداللہ المدنی کو ابن حبان نے ثقہ کہاہے۔
  4. بوصیری نے امام ذہبی سے نقل کیا کہ انہوں نے اسحاق کو صدوق کہا ہے۔
  5. مختارہ میں اس حدیث کا شاہدہے۔
ان تمام باتوں پر ہمارا تبصرہ پیش خدمت ہے۔

امام بوصیری کی توثیق :
گذشتہ سطور میں تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اسحاق کی تعین ابن الحارث سے کی ہے اسی لئے اسے ثقہ کہا اور یہ راوی بے شک ثقہ ہے لیکن اس سند میں موجود اسحاق سے یہ راوی مراد نہیں ہے اس لئے امام بوصیری کی توثیق اس سند میں موجود اصل اسحاق کی توثیق نہیں ہے۔جیساکہ پوری تفصیل سے وضاحت کی جاچکی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین ان کی اصل تحقیق کے خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس سند میں موجود اسحاق کی تعین ’’إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر‘‘سے کی ہے اور اسے خود حافظ موصوف نے مقبول کہا ہے چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
إسحاق بن عبيد الله بن أبي مليكة التيمي مجهول الحال من السادسة وعندي أن الذي أخرج له بن ماجة هو إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر وهو مقبول ق [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 370 ]۔

ایسی صورت میں ان کی تحسین راوی سے متعلق ان کی خصوصی تحقیق کے خلاف ہے اور راوی والی تحقیق ایک خاص تحقیق ہے اور پوری حدیث کو ایک ساتھ حسن کہنا ایک عام بات ہے اس لئے عام بات کے بالمقابل خاص بات کو ترجیح دی جائے گی ۔یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی اس سند میں ایک راوی ضعیف ہے لیکن غالبا اسے حسن کہتے وقت وہ اس بات کو مستحضر نہ رکھ سکے ۔
یہ بات اس صورت میں کہی جائے گی جب یہ فرض کرلیا جائے کہ اس سند میں اسحاق سے مراد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا متعین کردہ راوی ''إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر'' ہی ہے لیکن گذشتہ سطور میں پوری تفصیل سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ اس سند میں موجود اسحاق یہ ابن ابی فروہ ہے جو سخت ضعیف ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی متروک قرار دیا ہے ۔
دریں صورت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ تحسین قطعا لائق التفات نہیں کیونکہ اسحاق کے تعین میں ان سے تسامح ہوا ہے۔

ابن حبان کی طرف سے اسحاق کی توثیق :
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
إسحاق بن عبید الله المدني يروى عن بن أبي مليكة روى عنه الوليد بن مسلم [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 48]

نوٹ: بعض مخطوطہ میں یہاں پر اسحاق کے والد کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہے اوریہی درست معلوم ہوتا ہے گرچہ محقق نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ اس کے اصل ماخذ یعنی پیش نظر سند میں عبداللہ ہی ہے۔

عرض ہے کہ غالبا ابن حبان رحمہ اللہ نے زیربحث سند ہی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی ‘‘ نامی راوی کو ثقات میں ذکر کیا ۔اورہوا یوں ہوگا کہ موصوف اس راوی کو پہچان نہیں سکے اور مجاہیل کی توثیق والے اپنے منفرداصول کے تحت اسے ثقات میں ذکر کردیا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اس راوی کو نہ پہچان پانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ امام منذری رحمہ اللہ بھی اس راوی کو نہ پہچان سکے اور زیربحث سند کے بارے میں کہا:
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ عَن إِسْحَاق بن عبيد الله عَنهُ وَإِسْحَاق هَذَا مدنِي لَا يعرف وَالله أعلم[الترغيب والترهيب للمنذري: 2/ 53]

ممکن ہے ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول ہی سمجھاہو اور پھر مجہول کی توثیق والے اپنے منفرد اصول کے تحت اس کی توثیق کردی ہے۔

اگریہ درست ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی سند کو سامنے رکھا ہے تو یہ ابن حبان رحمہ اللہ کا وہم ہے کیونکہ اس سند میں موجود اسحاق یہ کوئی مجہول راوی نہیں بلکہ یہ اصل میں’’ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي‘‘ ہے اور اسے خود امام حبان رحمہ اللہ نے بھی مجروح قرار دے کر اپنی کتاب مجروحین میں ذکرکرتے ہوے کہا:
إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي۔۔۔۔۔۔[المجروحين لابن حبان: 1/ 131]

اگرکہا جائے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے زیربحث سند کو سامنے نہیں رکھا ہے بلکہ انہوں متعدد طرق کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی‘‘ نامی کسی خاص راوی کی توثیق ہے ۔

تو عرض ہے کہ :
اولا:دیگر طرق میں اس راوی کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔
ثانیا: ابن حبان اس کی توثیق میں منفرد ہیں۔
ثالثا: زیربحث سند میں یہ راوی موجود ہی نہیں بلکہ اس سند میں تو ’’إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي‘‘ جسے خود ابن حبان رحمہ اللہ نے مجروح قراردیا ہے کمامضی۔

الغرض یہ کہ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ابن حبان کی توثیق پیش کرنا بے سود ہے کیونکہ اول تو وہ توثیق میں منفرد ہیں، دوم وہ جس راوی کی توثیق کررہے ہیں وہ اس سند میں ہے ہی نہیں ،اور جو اس سند میں ہے اسے ابن حبان رحمہ اللہ نے خود مجروح قرار دیا ہے۔

امام بوصیری کا امام ذہبی سے صدوق کا لفظ نقل کرنا:
اسحاق کا تعین جس راوی سے محترم زبیرعلی زئی حٍفظہ اللہ کررہے ہیں اس راوی سے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ سے صدوق کا لفظ قطعا ثابت نہیں ہے امام ذہبی کی کسی بھی کتاب سے یہ بات ثابت نہیں کی جاسکتی ہے۔
دراصل امام بوصیری نے اسحاق کا تعین ابن الحارث سے کیا ہے اور اسی کے تعلق سے امام ذہبی نے صدوق کہا ہے جیساکہ پوری تفصیل پیش کی جاچکی ہے لیکن زیربحث سند میں اسحاق سے یہ راوی قطعا مراد نہیں خود محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں ۔بلکہ آں محترم کو غلط فہمی ہوئی ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ امام بوصیری بھی اسحاق سے اسی راوی کو مراد لے رہے ہیں جسے آں جناب مراد لے رہے ہیں ۔لیکن یہ بات قطعی طور پرغلط ہے اور حقیقت یہ کہ امام بوصیری کی مراد ایسا راوی ہے جو ثقہ تو ہے لیکن اس کا اس سند میں ہونا ممکن ہی نہیں جیساکہ تفصیلی پیش کیا جاچکی ہے۔

فائدہ:
محترم زبیرعلی زئی حٍفظہ اللہ کا اصول ہے کہ جرح وتعدیل کے اقوال ثابت شدہ ہوں تبھی اس سے استدلال کیا جاسکتاہے ۔
لیکن آں جناب نے یہاں پر امام ذہبی کے حوالہ سے جو ''صدوق'' کا لفظ نقل کیا ہے اس کا اصل حوالہ نہیں دے سکے بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ امام بوصیری نے امام ذہبی سے ایسا نقل کیا ہے۔یہ طرزعمل موصوف کے عمومی اصول کے خلاف ہے۔
دریں صورت ان کے پاس صرف اور صرف ابن حبان کی توثیق بچتی ہے جو منفرد ہونے کی وجہ سے مردود ہے
مزید یہ کہ ابن حبان کی طرف سے ثقہ قرار دیا گیا راوی اس سند میں موجود بھی نہیں کیونکہ دوسری سند نے اس راوی کا تعین کردیا ہے جیساکہ وضاحت کی گئی۔

مختارہ میں موجود اس کا شاہد:
موصوف نے مختارہ میں اس حدیث کے شاہد کا وجود بتلایا ہے لیکن آں جناب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ شاہد ان کی نظر میں صحیح ہے یا نہیں جب کہ موصوف کا عمومی طور پر یہ اصول ہے کہ جب وہ شواہد کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا درجہ بھی بتلا دیتے ہیں۔
ہماری نظر میں اس حدیث کا شاہد بھی ضعیف ہے لیکن خود موصوف نے بھی اسے صحیح نہیں کہا ہے اس لئے ہم اس پر بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام


مذکورہ روایت کی سند میں ایک راوی ’’إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی‘‘ ہے، یہ کون ہے ؟؟؟ اس سلسلے درج ذیل اقوال ہیں:

پہلا قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد ’’إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة‘‘ ہے اور یہ سخت ضعیف راوی ہے۔
یہ ہمارا (راقم الحروف) کاموقف ہے ۔ امام حاکم ، امام ذہبی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے بھی اسی راوی کے متعین ہونے کا احتمال ذکرکیا ہے ، ہم نے اس احتمال کو اس لئے متعین مانا ہے کیونکہ ایک دوسری سند میں اس راوی کی تعیین اسی نام سے آ گئی ہے نیز اس کے علاوہ مزید دلائل بھی اسی موقف کے حق میں ہے جنہیں ہم نے اوپر تفصیل سے پیش کردیا ہے۔
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔

دوسراقول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد ’’إسحاق بن عبيد الله بن أبى المهاجر المخزومى مولاهم الدمشقى‘‘ہے اور یہ ضعیف راوی ہے۔
یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے۔

تیسرا قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجرہے اور یہ مقبول یعنی عدم متابعت کی صورت میں لین الحدیث راوی ہے۔
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے۔

چوتھا قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' یہ غیرمعروف راوی ہے۔
یہ امام منذری رحمہ اللہ کا موقف ہے
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے۔

پانچواں قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد ‘‘إسحاق بن عبد الله بن أبي المهاجر’’ہے اور یہ غیرمعروف راوی ہے۔
یہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔ دیکھئے : [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 194] نیز[لسان الميزان لابن حجر: 1/ 365]
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے۔

چھٹا قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد ''إسحاق بن عبد الله بن الحارث بن كنانة القرشى العامرى''ہے اور یہ ثقہ راوی ہے۔
یہ امام بوصیری رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث صحیح ہوگی لیکن اس راوی کا اس سند میں ہونا ناممکن ہے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔

ساتواں قول:
''إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِی'' سے مراد إسحاق بن عبید الله المدنينامی علیحدہ راوی ہے۔
یہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا موقف ہے۔اورامام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنے منفرد اصول یعنی مجاہیل کی توثیق کے تحت اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔
نوٹ : اس موقف کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہوگی کیونکہ امام حبان کی منفرد توثیق غیر مقبول ہوتی ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی حفطہ اللہ نے بھی امام ابن حبان کے موقف کو اپنایا ہے ۔یعنی ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی ‘‘ کو مذکورہ تمام رواۃ سے الگ راوی مانا ہے ۔
لیکن چونکہ اس راوی کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا اس لئے موصوف نے اسے ثقہ ثابت کرنے کے لئے بڑا ہی عجیب وغریب تکلف کیا وہ یہ کہ امام بوصیری ، امام ذہبی اور حافظ ابن حجررحمہم اللہ کو بھی اپنا ہم نوا ظاہر کیا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ یہ تینوں ائمہ (امام بوصیری ، امام ذہبی ، امام ابن حجر) زیر بحث راوی سے الگ الگ راوی مراد لے رہے ہیں اوران میں سےہر ایک کا مراد لیا گیا راوی محترم زبیرعلی زئی کے مراد لئے گئے راوی سے بالکل الگ ہے۔فافہم۔
 
Top