• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟
الحمد للہ، اما بعد۔۔۔۔۔۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ اللہ کو خُدا کہتے ہیں اور بہت سے اہلِ علم کی کتابوں میں بھی اللہ کی جگہ خدا ہی پڑھا ہے
مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ہے بھی کہ نہیں ہم کہیں انجانے میں اپنے رب کو کسی ایسے نام سے تو نہیں پکار رہے کہ جو نام کسی غیر مسلم کے الٰہ کا نام ہواور ہم اُس نام کو اپنے سچے الٰہ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہوں اور اس طرح کسی غیرمسلم قوم کی مشابہت اپنے اللہ کو پکارنے کے معاملے میں کر رہے ہوں۔
نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی [کھانے پینے لباس، رہنے سہن میں] تو وہ انہی میں سے ہوگا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:
اس لیے دین اور دنیا کے کسی بھی معاملے میں کسی بھی غیر مسلم کی مشابہت سے بچنا لازمی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔۔
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ
کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں
بنی اسرا ئیل آیت نمبر ۱۱۰

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۲۷۳۶

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو جو شخص ان کو یاد کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزداں اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا۔
یعنی یہ نام مجوسیوں کے الٰہوں کے نام ہیں اس لیے اس نام سے ہم اپنے اللہ کو نہیں پکار سکتے کہ جس طرح ہم اللہ کو بھگوان یا رام کہنا گوارہ نہیں کرتے اسی طرح خُدا بھی نہیں کہنا چاہیےبھگوان ہندوں کے الٰہ کا نام ہے تو خُدا آتش پرستوں کے الٰہ کا نام ہے۔
قرآن و حدیث میں جو اللہ کے ننانوے نام آئے ہیں ان میں یہ نام شامل نہیں ہے۔
اور آپ سب بہن بھائیوں کو گارنٹی سے کہتا ہوں کہ قرآن اور حدیث میں لفظ خُدا کا وجود نہیں ہے میں نے اس کو تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے پر نہیں ملا اور کافی اہلِ علم سے بھی پوچھا پر جواب نفی میں ہی ملا ہے۔
اس لیے آپ سب بہن اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے رب کو پکارنے میں بھی غیر مسلم اقوام کی مشابہت نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ ہم کو آتش پرستوں کے ساتھ اُٹھایا جائے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم کو اپنے اچھے ناموں سے ہی پکارنے کی توفیق دے اور غیر مسلموں کی ہر طرح کی مشابہت سے بچا کر رکھے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
 

اسلم

مبتدی
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ-امابعد۔
عاصم صاحب بہت اچھے لیکن آپ ایک بات بھول رھے ہیں کہ سورہ اعراف آیت 180 میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو اللہ کے نام کو بگاڑتےہیں وہ عنقریب بدلہ دیے جائیں گے یعنی ان کو سزا دی جاۓ گی ابوالحسن علوی صاحب اور انس نضر صاحب پتہ نہیں کیسے اس کو جائز قرار دے رہے ہیں
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ-امابعد۔
عاصم صاحب بہت اچھے لیکن آپ ایک بات بھول رھے ہیں کہ سورہ اعراف آیت 180 میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو اللہ کے نام کو بگاڑتےہیں وہ عنقریب بدلہ دیے جائیں گے یعنی ان کو سزا دی جاۓ گی ابوالحسن علوی صاحب اور انس نضر صاحب پتہ نہیں کیسے اس کو جائز قرار دے رہے ہیں
اسلم بھائی مجھے علم نہیں ہے کہ وہ کس دلیل کی بنیاد پر اس کو جائز کہتے ہیں مگر ابھی تک میری جتنے بھی فورمز پر اس مسئلے پر بات چیت ہوئی ہے کوئی ایک بھی مدلل دلیل سامنے نہیں آئی ہے کہ ہم اللہ کو خدا، گاڈ، یا بھگوان کہہ سکتے ہیں۔
اگر کسی بھائی کے پاس ایسی کو دلیل ہے تو وہ پیش کریں تاکہ ہم بھی رہنمائی حاصل کرسکیں جزاک اللہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی، کھانے پینے لباس، رہنے سہن میں تو وہ انہی میں سے ہوگا قیامت میں اس کے ساتھ حشر ہوگا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:
جزاک الله خیر عاصم بھائی جان،

میری سمجھ میں آپکی دی ہوئی حدیث سمجھ نہ آئ .
کیونکی میں نے یہ حدیث کی بار میرے خیال سے زندگی میں میں نے یہ حدیث کم سے کم ١٠٠ بار تو پڑھی ہوگی لیکن حدیث میں یہ ترجمہ کچھ نیا نظر آ رہا ہے.
اگر آپ ان الفاظوں کو سمجھنے کے لئے بریکٹس میں لکھتے یعنی () تو سمجھ میں آ جاتا، لیکن اگر حدیث میں یہ الفاظ اے ہے تو عربی مطن ضرور لکھے،
ورنہ یہ حدیث کہیں الله کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹھ باندھنے جیسا نہ ہو جائے،

اگر یہ حدیث میں یہ الفاظ (کھانے پینے لباس، رہنے سہن میں) موجود ہو تو ضرور پیش کریں ، عاصم بھائی آپکے جواب کا انتظار رہیگا،
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزداں اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا۔
۱۔ خدا کا لفظ اس ترکیب میں مضاف ہے یعنی خدائے اہرمن اور خدائے یزداں، اور معنی ہو گا اہرمن کا خدا اور یزداں کا خدا تو خدا تو ایک ہی ہوا اور آپ نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔
۲۔ آتش پرستوں کے دو الہ تھے تو مشرکین کے بیسیوں تھے لیکن پھر بھی قرآن مجید میں الہ کا لفظ مشرکین کے معبودان باطلہ کے علاوہ اللہ عزوجل کے لیے بھی استعمال ہوا ہے لہذا لفظی اشتراک کی ممانعت نہیں ہے اصل مقصود تصورات کی وضاحت ہے یعنی خدا کا لفظ بولتے ہوئے ہمارا تصور مجوسیوں کے خدا کا نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ جب ہم اللہ کے لفظ الہ استعمال کرتے ہیں تو یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے ہمارا تصور مشرکین کے الہ کا نہیں ہونا چاہیے۔
۳۔ اس روایت میں کلر شدہ الفاظ پر غور کریں، اس میں اہل علم کے لیے کچھ نکات ہیں لیکن اوپن فورم کے لیے شاید مناسب نہ ہوں:
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال
محترم جناب مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ لفظ” خُدا“ کا استعمال کیا غلط ہے؟
جواب
الجواب ومنہ الصدق والصوابِ


اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ”خدا“ کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں ”عجمی سازش“ نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ”خدا“ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ ”رب“ کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ ”خدا“ جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتاہے۔ کسی دوسرے کو ”خدا“ کہنا جائز نہیں۔” غیاث اللغات“ میں ہے:
”خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا“۔
ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ”رب“کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ”اللہ“ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ ”صفاتی نام“ ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ”خدا“”صاحب“اور ”مالک“ کے معنی میں ہے۔ اور لفظ”رب“ کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ ”رب“ کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں

فقط واللہ اعلم

دارالافتاء

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

[LINK=http://www.banuri.edu.pk/ur/node/2]http://www.banuri.edu.pk/ur/node/2[/LINK]
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آپ بھائیوں نے کوئی ایک بھی تو دلیل قرآن و حدیث سےپیش نہیں کی ہے کہ ہم اللہ کو خدا کہہ سکتے ہیں اور جو عقلی دلائل رکھے ہیں ان پر بات ہوگی ان شاءاللہ۔
پہلے بھائی ابو الحسن نے جو جواز پیش کیا ہے کہ
آتش پرستوں کے دو الہ تھے تو مشرکین کے بیسیوں تھے لیکن پھر بھی قرآن مجید میں الہ کا لفظ مشرکین کے معبودان باطلہ کے علاوہ اللہ عزوجل کے لیے بھی استعمال ہوا ہے
جہاں تک میرا علم ہے الہ کے معنی مفسرین نے بےشمار پیش کیئے ہیں ان میں چند ایک یہ ہیں الہ وہ ہے کہ جو مشکلات کو دور کرئے، رزق کا انتظام کرئے، حاجات کو پورا کرئے، اولاد عطاء فرمائے وغیرہ وغیرہ تو یہ سب کچھ مشرکین مکہ اللہ کے لیئے خاص کرتے تھے اس کی دلیل حاضر ہے
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 31 ؀
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ' اللہ ' تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔ سورہ یونس: ۳۱
اس آیت مبارکہ سے بات واضح ہوئی کہ وہ اللہ کو الہ مانتے تھے مگر اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرتے تھے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 18؀
اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالٰی کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ۔ سورہ یونس: ۱۸
ایسی آیات اور بھی ہیں آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ الہ اگر اللہ نے اپنی ذات کے لیئے بولا ہے تو مشرکین مکہ جن دیوں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے اُن کو الہ نہیں کہتے تھے بلکہ ان کے نام یہ تھے
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19؀ۙوَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى 20؀
کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا، اور منات تیسرے پچھلے کو ۔ سورہ النجم: ۱۹۔۲۰
اس کے علاوہ بھی کچھ نام ہمیں احادیث سے ملتے ہیں بات کو مختصر کرتے ہوئے آیات ہی پیش کرتا ہوں۔
اگر بلفرض مشرکین مکہ اپنے معبودانِ باطلہ کو الہ کہہ کر بھی پکارتے ہوں تو بھی ہمارے لیئے اپنے رب کو الہ کہنا جائز ہے کیونکہ جو معنی اور مفہوم الہ کا ہے وہ کسی اور میں پایا ہی نہیں جاتا اور دوسرا اللہ نے خود اس کو اپنے لیئے استعمال کیا ہے،
بھائی آپ کا اس بات کو جواز بنانا کسی طور بھی مناسب نہیں بیٹھ رہا ہے بہرحال اللہ ہماری رہنمائی فرمائے آمین۔
آپ نے مزید لکھا ہے کہ
لہذا لفظی اشتراک کی ممانعت نہیں ہے اصل مقصود تصورات کی وضاحت ہے یعنی خدا کا لفظ بولتے ہوئے ہمارا تصور مجوسیوں کے خدا کا نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ جب ہم اللہ کے لفظ الہ استعمال کرتے ہیں تو یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے ہمارا تصور مشرکین کے الہ کا نہیں ہونا چاہیے۔
بھائی جان اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ دل میں تصور اللہ کا رکھ کر خدا کہنے میں کوئی خرج نہیں ہے تو بھگوان، رام اور وشنو وغیرہ نام، اللہ کو پکارنے کے لیئے استعمال کیئے جاسکتے ہیں کہ نہیں جبکہ ہمارے تصور میں ان سے مراد اللہ ہی ہو؟؟؟؟ ان ناموں کے بھی معنی بہت اچھے ہیں آپ پہلے اس سوال کا جواب دیں باقی بات بعد میں ہوگی ان شاءاللہ
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
عامر بھائی آپ نے جو فتویٰ پیش کیا ہے اس بارے میں کوشش کرونگا جلد لکھ سکوں ان شاءاللہ اور حدیث کے معاملے میں مجھ سے واقعی غلطی ہوئی ہے اور یہ جان بوجھ کر نہیں ہوئی بریکٹ ڈالنی بھول گیا تھا، اللہ مجھے معاف فرمائے آمین۔
میں ابھی صحیح کیئے دیتا ہوں ان شاءاللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسلم

مبتدی
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ۔اما بعد۔
اللہ اسم ذات ہے، یہ خالق کائنات کا اصلی نام ہے،اس کا کو ئ ترجمہ نہیں ہو سکتا،اللہ کےجو ترجمے اب تک کۓ جاتے رہے ہیں خواہ کسی زبان میں ہوں، اللہ تبارک تعالی کے شایان شان نہیں۔
اللہ تبارک تعالی کے لۓ جو الفاظ مختلف مذاہب میں استعمال ہوتے ہیں وہ ان اہل مذاہب کی اصطلاح کے لحاظ سے اللہ کےلۓمناسب نہیں۔مثلا خدا،گوڈ(God) ان الفاظ سے نقص کا پہلو نکلتا ہے
مثلا خدا، یہ فارسی لفظ ہے پارسیوں کےعقیدہ کے مطابق خدا تین ہیں ۔پہلا خدا فیزان ،دوسرا خدا نیکی کا خدا جسے "یزداں"کہتےہیں،تیسرابدی کا خدا جسے "اہرمن" کہتے ہیں،گویا ہر خدا ناقص ہے ہر ایک کی بادشاہت ناقص ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات نقص سے منزّہ ہے اس کی بادشاہت کامل ہے ناقص نہیں
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالی تمام کمزوریوں،مجبوریوں،اور
نقائص سے بالکل پاک ہے،اس کی حکومت نیکی پر بھی ہے اور بدی پر بھی۔کیونکہ پارسیوں کے عقیدہ
کے مطابق"خدا" ناقص ہے،لہذا اللہ تبارک تعالی کے لۓ "خدا"استعمال نہیں کرنا
چاہیۓ قران وحدیث میں موجود اللہ تعالی کے ناموں کے علاوہ خود ساختہ ناموں کا استعمال واجب سزا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے
اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں انہی ناموں سے اللہ کو پکارو
اورجو لوگ اس کےناموں میں کجی کرتے ہیں(یعنی اس
کےناقص نام تجویز کرتے ہیں یا اس کے نام کو بگاڑتے
ہیں) ان سے کنارہ کش رہیں،عنقریب وہ اپنے عملوں
کی سزا پائیں گے۔ (الاعراف۔آیت۔180)
علوی صاحب اگر عاصم صاحب نےخداۓ یزدا ں اور خداۓ اہرمن کےاال الفاظ لکھ دیۓ تو آپ نے ان کے الفاظ کی گرفت کرتے ہوۓ لکھا کہ
خدا تو ایک ہی ہوا نا۔اور اس طرح ان کی بات کا مفہوم ہی بدل دیا ۔اس کو کیا کہا جا ۓ؟
اور جہاں تک لفظ"الہ"کی بات ہے تو الہ کا مطلب معبود بھی ہے یعنی جس کی عبادت کی جاتی ہو۔
تو مشرکین کے الہ بت ٹہرے کہ وہ ان کی عبادت کرتے ہیں ،اورموحدین کا الہ صرف اللہ ہے
ایسی مثال آپ دے چکے ہیں یعنی خالد اور پاکستان، اورزمین اور آدمی،
آخر میں بصد ادب و احترام یہ کہوں گا کہ اتنی مثالیں دینے اور عقلی گھوڑے دوڑانے کی
کیا ضرورت ہے،سیدھے سیدھے کیوں نہ مان لیا جا ۓ کہ اللہ کے
اچھے اچھے نام ہیں لہذا انہی ناموں سے اللہ کو پکارا جاۓ جو اللہ
نے ہمیں بتاۓ ہیں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ہندوستان کے معروف و مشہور مفتی ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی حفظہ اللہ (صدرشعبہ فقہ وافتاء ، جامعہ محمدیہ مالیگاؤں) کا اس سلسلے میں بہت پہلے ایک فتوی پڑھنے میں آیا تھا جس میں انہوں نے ’’اللہ‘‘ کو ’’خدا‘‘ کہنا ناجائز بتلایا تھا، اگرکسی کے پاس یہ فتوی ہو تو شیئر کردیں ۔
 
Top