• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ثوری رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رح کو افقہ اہل الارض کہا؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا الخلال، قال: أَخبَرنا الحريري أن النخعي حدثهم، قال: حَدثنا عمر بن شهاب العبدي، قال: حَدثنا جندل بن والق، قال: حَدثني محمد بن بشر قال كنت أختلف إلى أبي حنيفة وإلى سفيان فآتي أبا حنيفة فيقول لي من أين جئت فأقول من عند سفيان فيقول لقد جئت من عند رجل لو أن علقمة والأسود حضرا لاحتاجا إلى مثله فآتي سفيان فيقول لي من أين فأقول من عند أبي حنيفة فيقول لقد جئت من عند أفقه أهل الأرض.[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي: 15/ 471]۔


یہ من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو والی رویت مردود ہے کیونکہ اس کی سند میں موجود ’’عمربن شہاب العبدی ‘‘ کی توثیق کہیں نہیں ملتی ۔

نیز جندل بن والق بھی متکلم فیہ ہے۔

بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں امام مسلم سے سخت جرح نقل کرتے ہوئے کہا:
قال مسلم في الكنى متروك
امام مسلم ’’الکنی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ متروک ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 2/ 102]

عرض ہے کہ الکنی میں ’’أبو علي جندل بن والق‘‘ کاذکر موجود ہے لیکن اس کے کسی بھی دستیاب نسخہ میں اس راوی پر یہ جرح نہیں ملتی بلکہ اس کے فورا بعد جو دوسرا راوی ’’أبو علي الحسن بن عمرو‘‘ ہے اس کے بارے میں امام مسلم کی جرح متروک موجود ہے۔

ظن غالب ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے امام مسلم کی جرح نقل کرنے میں سہو ہوا ہے شاید سبقت نظر کے سبب بعدوالے راوی سے متعلق جرح کو پہلے والے راوی سے متعلق سمجھ لیا واللہ اعلم۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے امام مزی رحمہ اللہ نے مومل بن اسماعیل سے متعلق امام بخاری کی جرح منکر الحدیث نقل کردی حالانکہ امام بخاری کی کتاب میں مُؤَمَّل بْن إِسماعِيل کاذکر موجود ہے لیکن اس کے کسی بھی دستیاب نسخہ میں اس راوی پر یہ جرح نہیں ملتی بلکہ اس کے فورا بعد جو دوسرا راوی’’مُؤَمَّل بْن سَعِيد‘‘ہے اس کے بارے میں امام بخاری کی جرح منکرالحدیث موجود ہے۔
ظن غالب ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح نقل کرنے میں سہو ہوا ہے شاید سبقت نظر کے سبب بعدوالے راوی سے متعلق جرح کو پہلے والے راوی سے متعلق سمجھ لیا واللہ اعلم۔

اگر کوئی مومل بن اسماعیل سے متعلق یہ بات تسلیم نہیں کرتا تو اسے اپنے اصول کا خیال کرتے ہوئے درج بالا روایت کو سخت ضعیف کہنا چاہئے کیونکہ متروک کی روایت سخت ضعیف ہوتی ہے۔


واضح رہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام صاحب کی شدید مذمت باسانید صحیحہ منقول ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ امام صاحب کی مدح میں اس حد تک مبالغہ کریں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نوٹ:
آپ کے پیش کردہ مواد میں ذیل تاریخ بغداد لابن النجار کے ٹائٹل پیج کا اسکین دیا گیا ہے۔
لیکن اس میں پیش کردہ روایت کا کوئی وجود نہیں البتہ تاریخ بغداد للخطیب میں یہ روایت اسی طرح موجود ہے۔اوراصل مواد کے لئے جس صفحہ کا اسکین دیا گیاہے وہ تاریخ بغداد ہی کا ہے نہ ذیل تاریخ بغداد کا۔
 
Top