• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امریکہ کو کشمیر اور فلسطین میں بھارتی‘ اسرائیلی مظالم نظر نہیں آتے؟

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
اوبامہ کا دوہرا معیار اور عالمی امن و سلامتی کے تقاضے۔
امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہونیوالی ظالمانہ کارروائیوں کیخلاف ایکشن لیا جائیگا اور ہم مستقبل میں ہولوکاسٹ کی کبھی اجازت نہیں دینگے جس کیلئے ہونیوالی کوششوں کو ہر صورت روکیں گے۔ گزشتہ روز واشنگٹن میں ”ہولوکاسٹ میموریل میوزیم“ کے دورہ کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خودمختاری کا یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی ملک کو اسکے عوام کے قتل کرنے کا لائسنس دےدیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شام پر اس حوالے سے سفارتی دباﺅ بڑھایا جائیگا اور ایران کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکیں گے۔ انہوں نے باور کرایا کہ امریکی عہدیداروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنیوالی حکومتوں کیخلاف پابندیاں لگانے کی اجازت دی جائیگی اور اس حوالے سے شام اور ایران کیخلاف خاص طور پر ایکشن لیا جائیگا۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انسانیت کیخلاف ہونیوالے ظالمانہ اقدامات کو مکمل طور پر روکیں۔ اوبامہ نے یہ بھی باور کرایا کہ متعلقہ ممالک کی انٹرنیٹ سروس کو بھی بلاک کیا جا سکتا ہے جبکہ امریکہ ہر صورت اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے یوگنڈہ میں امریکی افواج کے قیام کی مدت بڑھانے کا بھی عندیہ دیا۔
یو این چارٹر کے تحت ہر ملک کیلئے‘ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو‘ دوسرے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کا احترام لازم ہے جبکہ پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت بھی ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترم کرکے اور کسی دوسرے ملک کی سلامتی کیخلاف کوئی اقدام نہ اٹھانے کی یقین دہانی کراکے ہی دوطرفہ تعلقات استوار کئے جا سکتے ہیں اور عالمی و علاقائی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جبکہ اوبامہ کے دوسری اقوام کے بارے میں خیالات یو این چارٹر اور بقائے باہمی کے آفاقی اصولوں کے قطعی منافی نظر آتے ہیں‘ انکے لب و لہجے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود کو پوری دنیا کا مختارِکل سمجھتے ہیں اور اسی تناظر میں دنیا کو اپنی مرضی کے تابع کرکے اپنے اشارہ¿ ابرو پر چلانا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے اگلے صدارتی انتخابات میں اپنے یہودی ووٹرز کا دل جیتنے کیلئے بالخصوص مسلم ممالک کے بارے میں ایسا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہو مگر ان کا پیش کردہ ایجنڈہ پرامن بقائے باہمی اور عالمی امن و سلامتی کا نہیں‘ عالمی تباہی کا ایجنڈہ ہے۔ مسلم دنیا کے بارے میں اوبامہ کے تعصب کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مبینہ ظالمانہ کارروائیاں روکنے کیلئے بالخصوص شام اور ایران کا ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت ہر صورت جاری رکھے گا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اوبامہ کو مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 60 سال سے زائد عرصہ سے جاری بھارتی افواج کے مظالم بھی نظر نہیں آئے اور فلسطین میں اسرائیلی جبر و تسلط سے وہ صرفِ نظر ہی نہیں کر رہے بلکہ ان ظالمانہ اقدامات پر اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں جبکہ کسی ملک کے اندر اسکے عوام کیخلاف ظالمانہ اقدامات میں تو خود امریکہ سرفہرست ہے اور اس حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سب سے زیادہ مثالیں تو اسی امریکہ نے قائم کی ہیں۔ خودساختہ امریکی نائن الیون کی آڑ میں گزشتہ گیارہ سال سے دو برادر مسلمان ممالک پر قبضہحملہ کر چکا ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی نیٹو افواج کے ہاتھوں مسلمانوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کی داستانیں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔ ان دونوں ممالک میں کارپٹ بمباری کرکے اور کیمیکل ہتھیار استعمال کرکے انسانوں کے علاوہ انکی دھرتی ماں کے بھی چیتھڑے اڑائے گئے۔ ان دونوں ممالک کے لاکھوں باشندے امریکی جنونیت کی بھینٹ چڑھے ہیں جبکہ اب اسکی توسیع پسندانہ سوچ شام کے علاوہ ایران اور پاکستان کو بھی اپنا ہدف بنانے کی ٹھانے بیٹھی ہے۔
انسانی دنیا کی تاریخ میں اگر انسانوں پر مظالم کا شمار کیا جائے تو امریکہ اس میں سرفہرست آئیگا جس کا اعتراف امریکی پروردہ وکی لیکس کی منظرعام پر لائی گئی رپورٹس میں بھی کیا گیا ہے ان رپورٹس میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی کہ امریکہ ہی عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو دوسرے ممالک میں اپنے لوگوں کو بھجوا کر دہشت گردی کرتا ہے۔ ان جارحانہ جنونی اور توسیع پسندانہ امریکی عزائم کا عملی مظاہرہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک کر کیا گیا جس میں نہ صرف لاکھوں جاپانی باشندے اس امریکی جنونیت کی بھینٹ چڑھے بلکہ انکی آنیوالی نسلیں بھی ایٹمی تابکاری کے اثرات کی زد میں آکر اپاہج ہوئیں۔ اگر دنیا کو ایٹمی تباہیوں سے بچانا مقصود ہے تو پھر سب سے پہلے امریکہ کو نکیل ڈالنا ہو گی جو اس وقت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہر قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں سب سے آگے ہے جبکہ وہ بالخصوص مسلم دنیا کو اپنے دفاع اور توانائی کے حصول کے پرامن مقاصد کے تحت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی میں آگے نکلتا برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر امریکہ کی نیت فی الواقع دنیا کو ایٹمی تباہ کاریوں سے بچانے کی ہو تو وہ بھارت اور اسرائیل کے بھی کان کھینچتا نظر آئے اور خود بھی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرکے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کی راہ اختیار کرے مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کےلئے بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی اور مسلم ممالک کو دھمکیاں امریکی دوہری پالیسیوں کی ہی غماز نہیں‘ مسلم دنیا کے بارے میں اسکے متعصبانہ عزائم کو بھی بے نقاب کر رہی ہیں۔ مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں درحقیقت ایک امریکی صدر نے کی‘ مسلم امہ کیخلاف کروسیڈ کا ہی آغاز کیا تھا اور اب اوبامہ اسی کروسیڈ کی قیادت کر رہے ہیں جس کا عراق اور افغانستان کے بعد اب شام‘ ایران اور پاکستان کیخلاف امریکی جارحانہ عزائم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایران پر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں کے جرم میں اقتصادی پابندیاں عائد کرکے بالخصوص پاکستان کو بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر اس نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کو برقرار رکھا تو اس پر بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائینگی۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا گزشتہ روز کا بیان اس سلسلہ کی ہی کڑی ہے جس کے تحت انہوں نے ایران سے گیس منصوبہ پر عمل کی کوشش کی صورت میں پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے۔
آخر امریکہ کو دنیا کے کس قانون اور کس اصول کے تحت یہ خدائی اختیار مل گیا ہے کہ وہ دنیا کے جس ملک کو بھی چاہے تہس نہس کردے اور اسکے ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ اس تناظر میں تو دنیا میں انسانوں پر مظالم روکنے کیلئے اوبامہ کے بیان کردہ ایجنڈہ کا خود امریکہ پر اطلاق ہونا چاہیے جس نے عراق اور افغانستان کو تہس نہس کرنے کے بعد پاکستان کی دھرتی کو بھی وحشیانہ ڈرون حملوں سے اجاڑ دیا ہے۔ کیا یہ کارروائیاں امریکہ اپنی خودمختاری کے نام پر نہیں کررہا؟ اور کیا اقوام متحدہ کو سب سے پہلے انسانی مظالم پر امریکہ کی خبر نہیں لینی چاہیے اور دنیا کے امن و آشتی کو تاراج کرنے کے جرم میں اس پر پابندیاں عائد نہیں کی جانی چاہئیں؟ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں امن اور طاقت کا توازن قائم کرنا ہے تو پھر سب سے پہلے امریکہ کو نکیل ڈال کر اسکی بدمعاشی بند کرنا ہو گی۔ اگر دنیا میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو یہ سب امریکی جنونیت کا ردعمل ہے اس لئے اوبامہ اپنے فلسفہ کو پہلے امریکہ پر ہی لاگو کریں۔
 
Top