• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا انبیاے کرام کے علاوہ صحابہ ہ کرام کے جسم بھی مٹی سے محفوظ ہیں؟

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
826
پوائنٹ
86
السلام علیکم،
انبیاے کرام کے جسم کو مٹی نہی کھاتی اس حدیث کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
کیا انبیاے کرام کے علاوہ صحابہ ہ کرام کے جسم بھی مٹی سے محفوظ ہیں؟
ان تاریخی روایات معہ تخریج اور اسناد بیان کردیں جسمیں بعض صحابہ کرام کے واقعاث ملثے ہیں؟

شیخ کفایت اللہ کے تفصیلی جواب کا انتظار رہیگا

جزاک اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
انبیاء کرام علیہ السلام کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی یہ بات قران وحدیث دونوں سے ثابت ہے۔

قران سے دلیل :
{ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ }
پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کی عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وه غیب دان ہوتے تو اس کے ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے[سبأ: 14]

قران کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی ان کا جسم کافی دنوں تک اس قدر صحیح وسالم موجود تھا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں نیز اس کے عصاکو کیڑے کھا گئے لیکن ان کے جسم کو کوئی چیز نہیں کھا سکی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا جسم وفات کے بعد محفوظ رہتاہے۔

حدیث سے دلیل:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ» قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ - يَقُولُونَ: بَلِيتَ -؟ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ» [سنن أبي داود 1/ 275 رقم1047 ، ابن ماجہ رقم 1636 واخرجہ غیرواحد من ھذا الطریق ]۔

یہ روایت اصلا ضعیف ہے لیکن اس کا یہ حصہ «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ»کہ اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء علیھم السلام کے جسم کو کھائے ۔ یہ ی شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔


انبیاء علیھم السلام کے علاوہ اللہ تعالی کسی بھی مسلمان کے جسم کو یہ سعادت بخش سکتا ہے۔ خواہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوں یا ان کے بعد کے صالحین۔

فی الوقت صرف ایک حوالہ یاد ہے ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ،"أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا". حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ"لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا ، وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ ، حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ".
ہم سے محمد نے بیان کیا ' کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ' کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ' ان سے ہشام بن عروہ نے ' ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔[صحيح البخاري 2/ 103]

لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کسی فوت شدہ شخص کے جسم کو مٹی گھاگئی تو اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ یہ اس کے برے ہونے کی دلیل ہے۔
 
Top