• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا انسان اشرف المخلوقات ہے؟

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پیش کردہ : احقر عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری​
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
نیٹ سرفنگ کے دوران اتفاقیہ ایک موضوع پر نگاہ پڑی موضوع ہے ’’کیا انسان اشرف المخلوقات ہے؟‘‘میں نے اس لنک کا مطالعہ کیا تو دماغ میں کچھ تجسس پیدا ہوا دیر رات تک اس متعلق سوچتا رہا اور جیسے جیسے سوچتا گیا ذہن کروٹیں لیتا چلا گیااور اس کو میں ایک سادہ کاغذ پر بطور یاداشت لکھتا چلا گیا اس طرح سے ایک اچھا خاصا مضمون تیار ہوگیا اس دوران کچھ مطالعہ بھی کیا۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میری رائے حتمی رائے ہے اس سے بہتر بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ’’ فوق کل ذی علم علیم‘‘ بشری تقاضوں سے بھر پور غلطی کا امکان ہی نہیں یقیناً ہوسکتی ہے۔اگر ڈھیک ہوا تو یہ صرف اللہ کا نعام ہے اگر غلطی ہے تو یہ میری کم علمی کا ثبوت ہے۔کوئی غلطی نظر آئے بہت احسن انداز میں سمجھائیں ان شاء اللہ تصحیح کرلوں گا۔ لیجئے پیش خدمت ہے پہلے تو میں ان دونوں صاحبان کے نظریات پیش کرتا ہوں جن میں ایک عالم ہیں اور دوسرے غیر عالم ہیں
کیا انسان اشرف المخلوقات ہے؟

(۱)ایک عالم صاحب اس طرح فرماتے ہیں:
اکثر تحریر و تقریر میں لوگ کہتے رہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن ہمیں اب تک قران وحدیث‌ سے اس کے دلائل نہیں ملے بلکہ دلائل اس کے برعکس ملے مثلا:
اللہ فرماتاہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ۧ [١٧:٧٠] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی
الفاظ پر غور کیجئے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ''تمام مخلوق'' پر فضیلت دی ، بلکہ کہا :'' بہت سی '' مخلوق پر فضیلت دی یہ آیت اس سلسلے میں قاطع ہے کہ انسان اشرف المخلوقت نہیں ہے۔!!!!!
حدیث‌ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً "[صحيح البخاري 9/ 121 رقم7405]
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے ایک جماعت کے درمیان یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ایسی جماعت(فرشتوں) میں یاد کرتا ہوں جو اس (انسان) کی جماعت سے بہتر ہے ۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
حدیث‌ کے یہ الفاظ بتلارہے ہیں کہ فرشتے انسانوں‌سے افضل واشرف ہیں یعنی انسان اشرف المخلوقات نہیں ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
(۲)دوسرے غیر عالم صاحب اس طرح فرماتے ہیں:
(۱)شرف المخلوقات کے مطلب ہے کہ تمام خلائق میں وہ "مشرف" ہیں اب یہ شرف کس وجہ سے ہے ۔
پھر "اشرف المخلوقات" کس کی نظر میں ؟اللہ کی نظر میں یا انسان خود ہی اپنی نظر میں یہ بھی دلیل کی محتاج ہے ۔
(۲)کیا اس وجہ سے کہ اسکو اچھا ذہن (انٹیلجنٹ برین) دیا کہ وہ اپنی ذہانت محنت و لگن سے وہ کام کرجاتا ہے جو دوسرے مخلوق نہیں کرپاتے مثلاً سائسی ایجادات کی مثال ہے تعمیر و ترقی ہے وغیرہ ۔۔۔مگر اس سے کیا یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ "اشرف المخلوقات" ہے ؟؟ شرف ہونے کا یہ میعار خود انسان نے بنایا ہے ۔ورنہ جو سائنسی ایجادات تعمیر و ترقی بیسیویں صدی میں ہوئی ہے وہ اس پہلے نہیں تھی ۔تو اس لحاظ سے یوں کہنا چاہیے کہ "بیسویں صدی کا انسان اشرف المخلوقات ہے" ؟؟
(۳)سو میرے خیال سے "اشرف المخلوقات" اس لحاظ سے ہرگز نہیں کے اس کے پاس "عقل و فہم و ذہانت" دوسری مخلوقات سے زیادہ ہے ۔۔۔
ّعقل تو اللہ نے جن اور حیوانات میں بھی رکھی ہے ۔۔کیا کسی جانور کو دیکھا ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے آگ میں کود جائے ؟؟ اس لیے اسکو بھی اتنی عقل ہے کہ وہ آگ میں کودے گا تو جل جائے گا ۔اللہ نے ہر جاندار کو اتنی عقل دی ہے جتنی اسکے حیات کے لیے ضروری ہے
یہ بات البتہ کہی جاسکتی ہے کہ انسان میں عقل و شعور باقی مخلوقات سے تھوڑا زیادہ ہے ۔۔۔
اس لحاظ سے اسکو ذہین مخلوق کہنا زیادہ بہتر ہوگا بنسبت "اشرف المخلوقات" کے
(۴)اشرف المخلوقات" شائد اس وجہ سے کہا کہ انسان اچھے برے کی تمیز کرتا ہے ۔یہ نقطہ بھی "اشرف المخلوقات" کے عہدے کے لیے محال نظر آتا ہے کیونکہ اگر انسان کو اچھے برے کی تمیز ہوتی تو ہر انسان اپنے لیے بھلا ہی سوچتا اور جہنم میں نہ جاتا ، جہنم تو دور کی بات دنیا کے قید خانے یا جیل بھی نہ جاتا ۔۔۔اور بھلائی اور برائی صرف انسان کے لیے خاص نہیں یہ تو جنات کے لیے بھی ہے پھر کیوں نہ وہ "اشرف المخلوقات" کہلائے؟۔
(۵)کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہے کہ قرآن میں(سورہ التین ، آیت چار میں) ہے کہ "ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا"
''اللہ تعالیٰ تمہار ے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ (مسلم)
مطلب اللہ کے نزدیک انسان کی قدر قیمت شکل و صورت سے نہیں بلکہ اسکے پاک و صاف دل اور نیت اعمال سے ہے۔
اگر یہی معیار ہے "اشرف المخلوقات" کا اسکی ساخت بہترین ہونے کی وجہ سے ہے تو اس بات کی دھجیاں بھی انسان خودہی اڑاتا ہے ۔۔چنانچہ جو خوش شکل اور سڈول جسم اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں وہ کالے سیاہ
بدشکل ، بے ڈول جسم کمزور و لاغر انسان کو اپنے سے کم تر بلکہ حقیر جانتے ہیں ۔۔۔۔کیوں ؟؟کیا جسمانی نقص والا انسان ، انسان نہیں ؟؟ تو کیوں نہیں اسکو "اشرف المخلوقات" سمجھا جاتا ہے ؟
جبکہ حدیث کا مفہوم بتاتا ہے کہ "کسی گورے کو کسی کالے پر اور پھر اسی طرح کس کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں"۔
(۶)کیا انکو بھی "اشرف المخلوقات" کہا جائے جن کی مذمت قرآن میں اس طرح سے ہے
خواہش نفس کو اپنا خدا بنانے والے
اے نبی تم نے اس شخص کے حال پر غور بھی کیا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم نے ایسے شخص کی نگرانی کر سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ ہر گز نہیں، یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔"
(الفرقان۔ آیت 43۔44)
(۷)کفار کے بارے میں
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۵۵ۖۚ [٨:٥٥]
جانداروں میں سب سے بدتر خدا کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں سو وہ ایمان نہیں لاتے
لیجئے اب ان کو انسان تو کیا جانور سے بھی گیا گزرا کہا جارہا ہے ۔کیا یہ اشرف المخلوقات ہوسکتےہیں؟
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
(۳) میں عرض کرتا ہوں:
اللہ رب العزت جو کہ تمام کائنات کا خالق اور مختار کل ہے اس نے انسان کی تخلیق کے وقت ہی اس کی حیثیت متعین فرمادی تھی جس کا ذکر
اللہ تعالیٰ نےاس طرح فرمایا
''وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ ''الیٰ اٰیۃ '' وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۝۳۳ [٢:٣٣]''
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔
اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ ۔
انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے ۔
(تب)اللہ نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جاتنا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے۔
اور انسان کے تکریم کی انتہا دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۝۰ۭ
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸ [١٥:٢٨]فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۲۹ [١٥:٢٩] فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ۝۳۰ۙ [١٥:٣٠] اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۝۳۱ [١٥:٣١] (الحجر)
جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا ۔تو فرشتے تو سب کے سب سجدے میں گر پڑے ۔مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا ۔
یہ سجدہ انسان کو اس کے مقام اور تعظیماً کرایا گیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اسی اکرام کو اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ۧ
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات(بڑی مخلوق) پر فضیلت دی (الاسرا:۷۰)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حسن صور ت کے ساتھ بہترین عقل و فہم اور تدبیر عنایت فرمائی جس سے یہ انسان دنیوی اور اخروی مضاراور منافع کا دراک کرتا ہےیعنی اچھے برے میں تفریق کرتا ہے۔ترقی کی راہیں اس کے لئے کھلی ہوئی ہیں اور دوسری مخلوق کو اپنے کنٹرول میں کرتا ہے۔جانوروں کی پیٹھ پر سوار ہوکر خشکی کے راستوں کوطے کرتا ہے اسی طرح سے سمندروں کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سفر کرتا ہے،ہوا میں ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعہ سفر کرتا ہے ۔الغرض ہوا پانی اور خشکی بلا تفریق مذہب سب انسان کے قدرت میں دیدئےاور قسم قسم کی اشیاء سے منتفع ہوتا ہے۔اور اسی انسان کے سب سے پہلے باپ کو مسجود ملائکہ اور ان کے آخری پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کل مخلوق کا سردار بنایا ۔الغرض نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ نے کئی حیثیت سے عزت اور بڑائی دیکر اپنی بہت بڑی مخلوق پر فضلیت بخشی،چنانچہ اس آیت کا مضمون سابقہ آیت کے مضامین سے مربوط ہے ۔
یہاں مفسرین میں ایک بحث شروع ہوجاتی ہے کہ ملائکہ اوربشر میں کون افضل اور کون مفضول ہے۔بعض نے کہا تکریم سے مرادتفضیل علیٰ بعض الخلائق ہےاور بعض نے کہا حیوانات اور جنات میں سب سے افضل ہیں اور بعض احناف نے یہ کہا کہ ''رسل بشر '' ''رسل ملائکہ''سے افضل ہیںاور سل ملائکہ(باستثنائے رسل بشرکے''باقی تمام فرشتوں اور آدمیوں سے افضل ہیں۔یعنی عام فرشتوں کو عام انسانوں پر فضلیت ہے۔
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۝۱ۙ [٩٥:١] وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ۝۲ۙ [٩٥:٢] وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۝۳ۙ [٩٥:٣] لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ [٩٥:٤] ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۝۵ۙ [٩٥:٥] اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝۶ۭ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ۝۷ۭ اَلَيْسَ اللہُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ۝۸ۧ۔
انجیر کی قسم اور زیتون کی ،اور طور سینین کی ،اور اس امن والے شہر کی ،کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے ،پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا ،(بوجہ کوتاہی عمل)مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انکے لیے بےانتہا اجر ہے ،تو (اے آدم زاد) پھر تو جزا کے دن کو کیوں جھٹلاتا ہے؟ کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟
معلوم یہ ہوا انسان اشرف تو رہا مگر کوتاہی عمل کی وجہ سے پستی میں ڈالا گیا اور اچھے اعمال کی وجہ سے اچھا انجام ہوا ۔مگر یہ نہیں ہوا کہ انسان سے حیوان بنا دیا ہو۔
جیسے شیطان(ابلیس) عبادت گزار رہا تب بھی وہ جنات میں سے تھا اور جب باغی ہوا تب بھی جنات ہی میں سے شمار کیا گیا۔جیسا مذکور ہوا۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو فضلیت ارضی مخلوق پر حاصل ہےیا کائنات کی تمام مخلوق پر؟
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
دیکھا جائے تو انسان میں دیگر مخلوق کے مقابلہ کئی خصوصیات ہیں:
(۱)ایک تو اللہ تعالیٰ نے انسان میں نفخ روح کیا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ
''اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں''
اور کسی دیگر مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کلمات نہیں فرمائے۔
(۲)انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔
(۳)انسان کو خلیفۃ فی الارض کے خطاب سے نوازا، کسی دیگر مخلوق کو یہ اعزاز نہیں بخشا گیا۔
(۴)انسان کو امانت کو متحمل قرار دیا،انسان کے علاوہ کسی دیگر مخلوق میں یہ اس امانت کے متحمل ہونے کی سکت نہیں تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔
(۵)علاوہ ازیں حضور پاک صلی الله علیه وآله وسلم کی ذات اقدس کا وجود ، انسان کاتمام مخلوقات من جملہ تما م ملائکہ ، اور جنات ،اشرف المخلوقات هو نے کا یک بین ثبوت هے۔
(۶)انسان کو وہ علم عطا کیا گیا جو کسی دوسری مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا ۔
(۷)دیگر مخلوقات کو انسانی انتفاع کے لئے پیدا کیا گیا
(۸)چرند پرند انسان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔انسان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کو یہ شرف حاصل نہیں۔
(۹)انسان کا اصل مقام جنت ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَ۝۱۰ۙ [٢٣:١٠]الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ۝۰ۭ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱
یہ ہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے (المؤمنون:۱۰،۱۱)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
(۱۰)جنات میں بھی اگرچہ مومن اور کافر ہوتے ہیں اورایمان سے ان کو نفع ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝۲۹ [٤٦:٢٩]
قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ يَہْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ۝۳۰ [٤٦:٣٠] يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۱ [٤٦:٣١]

(الاحقاف:۲۹:۳۱)
اور جب ہم نے جنوں میں سے کئی شخص تمہاری طرف متوجہ کئے کہ قرآن سنیں۔ تو جب وہ اس کے پاس آئے تو (آپس میں) کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ جب (پڑھنا) تمام ہوا تو اپنی برادری کے لوگوں میں واپس گئے کہ (ان کو) نصیحت کریں ،کہنے لگے کہ اے قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو (کتابیں) اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں ان کی تصدیق کرتی ہے (اور) سچا (دین) اور سیدھا رستہ بتاتی ہے ،اے قوم! خدا کی طرف بلانے والے کی بات قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ۔ خدا تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دکھ دینے والے عذاب سے پناہ میں رکھے گا ۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات میں مومن وکافرہوتے ہیں آخرت میںجنات کفار کو جہنم کا عذاب ہوگا البتہ مومن جنات کے بارے میں اختلاف ہے ، امام مالک اورابن ابی لیلیٰ ،امام ابو یوسف اورامام محمد رحمہم اللہ فرماتے ہیں وہ مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے ،قاضی بیضاوی ؒ اور صاحب کشافؒ نے بھی اسی کواختیار کیا ہے ،ضحاک ؒ کہتے ہیں کہ یہی اکثر مشائخ کا قول ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے اوروہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اس کے برخلاف بعض کی رائے ہے کہ مومنین مرد جنت کی نعمتو ں سے لذت پائیں گے اورمومنین جنات ذکر اورتسبیح سے لذت پائیں گے ،بعض کی رائے ہے کہ و ہ جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ اس کے ار د گردگھومیں گے امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ جنات کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ ایمان ان کو فقط آگ سے بچائے گا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
(۱۱)اور تفسیراکلیل میں ہے کہاللہ تعالیٰ کے فرمان'' ولو الی قومھم منذرین'' سےیہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنات میں کوئی رسول نہیں ہو ا ،رسالت اورنبوت فقط انسانوں کے ساتھ ہی خاص مخصوص ہے البتہ جنات میںصرف ڈرانے والے ہوتے ہیں ۔
(۱۲)انسان بشری تقاضوں کے باوجود بندگی کا حق ادا کرتا ہے جب کہ ملائک بشری تقاضوں سے مبراّ ہیںاور صرف ان ہی امور کو انجام دیتے ہیں جن پر ان مامور کیا جاتا ہے۔
(۱۳)انسان کاسب سے بڑا اعزاز یہ ہوگا کہ اس کو دیدار الٰہی نصیب ہوگا دیگر کو نہیں۔
(۱۴)انسان کو معراج ہوئی فرشتوں کونہیں،اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے جب حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم معراج کے لئے تشریف لے گئے جبرئیل علیہ السلام ایک متعینہ مقام تک ہی آپ کے ساتھ رہے اس کے بعد آگے بڑھنے سے معذرت فرمالی۔
(۱۵)انسان کی وجہ سے ہی یہ دنیا تخلیق کی گئی اور انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہی قیامت برپا ہوگی۔
تو اس سے معلوم ہوا من حیث الانسان چاہے وہ کا فر ہوں یا مومن دیگر مخلوق سے افضل ہیں لیکن اعمال کی وجہ سے ان کے مراتب جدا جدا ہیں ۔
جیسے انبیاء رسل کی شریعت کے تابع ہوتے ہیں،اور ''رسل'' میں بھی فرق مراتب ہے جس کی قرآن پاک میں ''تلک الرسل فضلنا بعضہم علیٰ بعض''سے وضاحت ہوتی ہے۔
یا مثلاً تمام انسان میں ڈاکٹر وغیرہ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر کچھ شرطوں کے ساتھ ۔
اسی طرح سے جانور ں کی مثال لے لیجئےجانوروں کا سردار شیر ہوتا ہے لیکن جانور ہونے کی صفت سے خارج نہیں ہوسکتا ۔
اسی طرح سے پھلوں کا معاملہ ہے کہ پھلوں کا سردار ''آم'' ہے لیکن سب کو پھل ہی کہا جائے گا۔
اس لئے انسان تمام مخلوق میں افضل ہے لیکن انجام ''اعمال پر موقوف ہے۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحقیق ہے عابد بھائی۔ آپ نے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں، جو عموماً ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top