• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جامیہ و مداخلہ بھی سلفی گروہ ہیں؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
535
ری ایکشن اسکور
170
پوائنٹ
77
کیا جامیہ و مداخلہ بھی سلفی گروہ ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بعض اخوانی قسم کے لوگ جو سلفیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں وہ مدخلیوں کو سلفیت کی جانب منسوب کرتے نظر اتے ہیں کہ جامیہ اور مداخلہ بھی سلفیوں کے ہی گروہ ہیں یہ حکمرانوں کے تعلق سے غلوں کرنے والے سلفی ہیں حالانکہ جامیہ و مداخلہ جیسے باطل فرقے کی نسبت سلفیت کی طرف کرنا یا انہیں سلفیوں سے جوڑنا سلفیت کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔

علامہ سلیمان العلوان فرماتے ہیں:

الجامية ليسوا من السلف في شيء، فهم يحملون الشدّة والغلظة على العلماء، والرحمة على أعداء الدين، ووصل بهم الطعن إلى ابن حجر، والنووي، والعز بن عبد السلام، ويلقبونهم بألفاظ نستقبح ذكرها في هذا المقام، وفي الحقيقة هم في باب الإيمان جهمية.

جامیہ کا سلف سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ انہوں نے علماء کرام کو اپنی شدت و غلظۃ کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور دین اسلام کے دشمنوں کے ساتھ رحم دل ہیں۔ ان کی طعن و تشنیع علامہ ابن حجر، امام نووی، شیخ عز بن عبد السلام تک پہنچی ہوئی ہے ان علماء کے متعلق جامیہ نے ایسے القابات استعمال کئے ہوئے ہیں کہ ہم انہیں یہاں ذکر بھی نہیں کر سکتے۔ اور حقیقت میں جامیہ ایمان کے باب میں جہمیہ ہیں۔


[الجامية في الميزان: ص: ١٥٩]

ہر گمراہ فرقہ خود کو اہل حق میں سے باور کرانے کے لئے خود کو حق کی جانب منسوب کرتا ہے جیسے شیعہ و قادیانی خود کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں بریلوی دیوبندی خود کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں اسی طرح یہ باطل فرقہ جامیہ مدخلیہ بھی اس کی جھوٹی نسبت سلفیت کی جانب کرتا ہے حالانکہ ان زنادقہ کا سلف صالحین، منہج سلف یا سلفیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

سلفیت اور مدخلیت دو متضاد مناہج ہیں سلفی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے منہج و طریقے کو اپنانے والے صحابہ کی اتباع و پیروی کرنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہوتے ہیں۔

علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں:

السلفية: هي اتباع منهج النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ لأنهم هم الذين سلفونا وتقدموا علينا، فاتباعهم هو السلفية.
سلفیت : یہ حقیقت میں منہجِ نبوی و منہجِ صحابہ کی اتباع کا نام ہے؛ کیونکہ وہی ہمارے سلف ہیں، اور ہم سے آگے ہیں، پس ان کی اتباع کرنا ہی سلفیت کہلاتا ہے۔


[لقاء الباب المفتوح، ج: ٥٧، ص: ١٥]

اور سلفیت کی نسبت بھی انہی سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف ہے کیونکہ جب لفظ سلف استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا سب سے پہلے اطلاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ہوتا ہے جیسا کہ علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں :

إذا أطلق لفظ السلف فالمراد به القرون الثلاثة المفضلة: الصحابة، والتابعون، وتابعوهم، هؤلاء هم السلف الصالح
جب لفظ سلف استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد قرون ثلاثہ مفضلہ: صحابہ، تابعین اور تبع تابعین ہوتے ہیں یہی لوگ درحقیقت سلف صالح ہیں۔


[فتاوى نور على الدرب للعثيمين، ج: ٢، ص: ٢]

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے پہلے سلف صالحین میں شامل ہیں جن کی اتباع و پیروی کرنا ہی سلفیت ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے سلفی کہلاتے ہیں لیکن مدخلیت اس کے متضاد ہے مدخلی منافقین ان قرون مفضلہ والے سلف صالحین کے راستے کو چھوڑ کر ان کے مخالف راہ پر گامزن ہیں؛

کیونکہ سلف صالحین جن احوال و اوصاف کے حامل تھے ان میں سر فہرست کافروں کے مقابلے میں سخت و متشدد ہونا اور آپس میں مسلمانوں کے لئے بڑے رحم دل ہونا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے۔
[سورۃ الفتح، آیت : ۲۹]

شیخ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

يخبر تعالى عن رسوله صلى الله عليه وسلم وأصحابه من المهاجرين والأنصار، أنهم بأكمل الصفات، وأجل الأحوال، وأنهم {أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ} أي: جادون ومجتهدون في عداوتهم، وساعون في ذلك بغاية جهدهم، فلم يروا منهم إلا الغلظة والشدة، فلذلك ذل أعداؤهم لهم، وانكسروا، وقهرهم المسلمون، {رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} أي: متحابون متراحمون متعاطفون، كالجسد الواحد، يحب أحدهم لأخيه ما يحب لنفسه

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ ﴿ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ﴾ کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدو جہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لئے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہوگئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آگئے۔ ﴿رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ وہ جسد واحد کی مانند ہیں ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔


[تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان، ص: ٧٩٥]

کفار کے مقابلے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ کار رہا ہے اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پیروی کریں کیونکہ یہ اہل السنۃ والجماعت کے اصولوں میں سے ہے کہ جس طریقے پر سلف صالحین تھے صحابہ کرام تھے اسے مضبوطی سے پکڑا جائے اسی طریقے کو اختیار کیا جائے اسی راہ پر چلا جائے جیسا کہ امام اہل السنۃ أحمد بن حنبل الشيبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أصُول السّنة عندنَا التَّمَسُّك بِمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم والاقتداء بهم

[أصول السنة لأحمد بن حنبل، ص: ١٤]

لہذا ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں کے لئے بڑا نرم، رحم دل اور شفقت کرنے والا ہو جبکہ کفار پر سختی کرنے والا ہو ان کافروں کے مقابلے بڑا متشدد رہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

ثُمَّ ثَنَّى بِالثَّنَاءِ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: {وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: {فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ} [الْمَائِدَةِ: ٥٤] وَهَذِهِ صِفَةُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يَكُونَ أَحَدُهُمْ شَدِيدًا عَنِيفًا عَلَى الْكَفَّارِ، رَحِيمًا بَرًّا بِالْأَخْيَارِ، غَضُوبًا عَبُوسًا فِي وَجْهِ الْكَافِرِ، ضَحُوكًا بَشُوشًا فِي وَجْهِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ

صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفت و ثنا بیان ہوئی ہے کہ وہ کافروں پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ» ۱؎ (۵-المائدۃ:۵۴) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم ، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیئے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنے والا اور کفر سے ناخوش رہے ۔


[تفسير القرآن العظيم (تفسير ابن كثير - ت السلامة) ،ج: ٧، ص: ٣٦٠]

جبکہ مدخلی منافقین اس کے برعکس کفار کے لیے تو بڑے مہربان اور رحم دل ہوتے ہیں ان سے ولاء کرتے ہیں ان کے خلاف جہاد جائز نہیں سمجھتے اور مسلمانوں کے لیے یہ مداخلہ بڑے متشدد اور دشمنی کرنے والے ہوتے ہیں بالخصوص مجاہدین اسلام کے لیے ان کے دلوں میں کوئی رحم نہیں ہوتا انہیں خوارج قرار دیکر ان کا خون حلال کرتے ہیں، جو مسلمان ان کے مدخلی منہج کو قبول نہیں کرتا انہیں منہجیت سے نکال کر ان سے بغض، عداوت و نفرت کرتے ہیں۔ اور ان کی مدخلی زندیقیت کا رد کرنے والے اہل السنۃ سلفیوں کو تکفیری، دہشت گرد، آتنک وادی جیسے قبیح القابل دیکر ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد رأيت لأهل الأهواء والبدع والخلاف أسماء شنيعة قبيحة، يسمون بها أهل السّنة، يريدون بذلك عيبهم، والطعن عليهم
[طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى، ج: ١، ص: ٣٥]

علامہ سلیمان العلوان نے ان جامیہ مداخلہ کے متعلق فرمایا کہ وفي الحقيقة هم في باب الإيمان جهمية. ویسے تو مدخلی زنادقہ جہمیوں سے بھی بدتر ہیں لیکن ایمان کے باب میں ان زنادقہ نے جہم بن صفوان کے مذہب کو اپنایا ہے جس نے تعطیل، جبر اور ارجاء کی بدعت ایجاد کی تھی۔

مدخلی زنادقہ بھی اہلسنہ کے اصول ایمان کا اپنے ارجائی دلائل سے اس کی شروحات میں مخالفت کرتے ہیں۔ اور طواغیت کو مؤمن باور کرواتے ہیں بلکہ امیر المومنین کے احکامات سیسی، ایم بی ایس اور حفتر جیسے ملحد طواغیت پر چسپا کرتے ہیں۔ طواغیت کے متعلق ان کا یہ موقف ہوتا ہے کہ شرک وکفر اور الحاد اختیار کرنے والے سیاستدان یا حکمران کے ایمان و اسلام پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی کیونکہ وہ صرف عمل میں یہ کفر کر رہے ہیں اور دل و اعتقاد سے نہیں اس لیے یہ گناہ گار و ظالم ہو سکتے ہیں لیکن مشرک و کافر نہیں۔!!!

نیز اہلسنہ کا یہ اصول تسلیم کریں گے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا اصل ایمان کے منافی اور صریحاً کفر ہے، لیکن اس اصول کی شرح میں ارجائی دلیل اپنائیں گے اور کہیں گے کہ صرف اپنے نفس اور دنیاوی مصلحتوں کے خاطر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے سے یہ حکمران کافر نہیں ہونگے۔ یعنی مدخلی زنادقہ کے نزدیک یہ کفر اسی صورت میں ہوگا جب کوئی دل اور اعتقاد سے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کو جائز اور حلال سمجھتا ہو۔ پس مدخلی زنادقہ اصول ایمان کے ضوابط و شروحات میں غالی مرجیہ ہیں وہ صرف دل سے اصل ایمان و کفر کے قائل ہیں۔

اب کوئی تقیہ کر چھپا ہوا سعودی بھکت یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ آپ ان غلاۃ مرجئہ کہیں انہیں جہمیہ کیوں کہہ رہے ہیں! تو اس کے لئے ہم سعودی کے جید عالم علامہ ابن عثیمین کا فرمان نقل کر دیتے ہیں۔

علامہ ابن عثیمین سے صحيح البخاری کے درس میں سوال ہوا تھا کہ شيخ فيه فرق بين المرجئة والجهمية؟
جس کے جواب میں علامہ ابن عثیمین نے فرمایا تھا: لا المرجئة هم الجهمية
[شرح كتاب بدأ الوحي والإيمان والعلم-05b]

اب ان جمہیوں کا حکم شرعی کیا ہے ان کے تعلق سے اہل السنہ کا کیا موقف ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :

امام اللالكائی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں نقل کیا کہ
زُهَيْرٌ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السِّجِسْتَانِيُّ أَنَّهُ سَأَلَ سَلَّامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ عَنِ الْجَهْمِيَّةِ , فَقَالَ كُفَّارٌ وَلَا يُصَلَّى خَلْفَهُمْ

امام زہیر ابو عبد الرحمٰن السجستانی نے سلام بن ابی مطیع سے جہمیہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : وہ کفار ہیں ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، ج: ٢، ص: ٣٥٥]
 
Top