• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیثِ سبعہ أحرف متشابہات میں سے ہے؟ اِمام سیوطی﷫ کے موقف کا تجزیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سے یہ نتیجہ اَخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امام سیوطی﷫ متنوع قراء ات پر اِصرار کرنے والے ہیں نہ کہ ان کا اِنکار کرنے والے۔حافظ زبیر صاحب اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
امام سیوطی﷫ کیا قراء ات کو نہیں مانتے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے وہ قراء اتِ عشرہ کے قائل ہیں۔ ان کی ’الإتقان‘ اٹھا کر دیکھ لیں تو قراء ات کے بارے میں ان کا مؤقف واضح ہوجائے گا۔ غامدی صاحب کے علم میں اِضافہ کے لیے ہم ذکر کئے دیتے ہیں کہ اِمام سیوطیa تو درکنار ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ سلف و خلف میں سے قراء ات کا اِنکار کسی امام نے نہیں کیا اور نہ متنوع قراء اتِ قرآنیہ کو ماننے میں انہیں کوئی شبہ ہے، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کی تعیین میں ہے، جسے غامدی صاحب نے کم فہمی سے متنوع قراء ات کو نہ ماننے کی بنیاد کے طور پر پیش کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سبعہ اَحرف کے مفہوم کے ضمن میں پیش کردہ تمام اَقوال کے قائلین کے درمیان ایک شے بہرحال قدر مشترک ہے کہ وہ تمام قرآن کریم میں پڑھنے کے متعدد اَسالیب کے قائل ہیں- (رُشد قراء ات نمبر دوم، ص۵۱۳)
اِمام سیوطی﷫کے ہاں قراء ات قرآنیہ میں اختلاف قراء کی کیا حیثیت ہے ؟ اس کا جائزہ ان کی تفسیر ’تفسیر جلالین ‘کی چند امثلہ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ حافظ فیاض حسن جمیل اپنے مقالہ’الإمام جلال الدین السیوطی وأہم آثارہ فی علم القراء ات‘ میں رقمطراز ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قرآن کریم کی آیت ’’یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَالَّذِیْنَ ئَامَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ إِلاَّ أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۹)میں متنوع قراء ات سے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ آیت میں موجود لفظ’’وَمَا یَخْدَعُوْنَ‘‘ میں ایک قراء ت ’’وَمَا یُخٰدِعُوْنَ‘‘ ہے۔ (تفسیر جلالین:۵،۶)
(٢) قرآن کریم کی ایک آیت’’وَلَا تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَإِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الکٰفِرِیْنَ‘‘(البقرۃ: ۱۹۱) میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ آیت میں موجود تینوں افعال ایک قراء ت میں بغیر الف کے ہیں:’’وَلَا تَقْتُلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یَقْتُلُوْکُمْ فِیْہِ فَإِنْ قَتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الکٰفِرِیْنَ‘‘(تفسیر جلالین:۳۷)
(٣) قرآن کریم کی ایک اور آیت ’’ وَرٰوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ…الآیۃ‘‘ (یوسف:۲۳) میں علامہ سیوطی ﷫ رقمطراز ہیں کہ آیت کے لفظ’’ہَیْتَ لَکَ‘‘ میں ایک قراء ت ہاء کے کسرہ اور تاء کے ضمہ کے ساتھ ’’ہَِیْتُ لَکَ‘‘ بیان کی گئی ہے۔
امام سیوطی﷫ نے ’الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور‘ میں بھی اَحادیث نبویہ کی مدد سے مختلف قراء ات قرآنیہ تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ بطور مثال ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:
اولاً: امام سیوطی﷫ سورۃ فاتحہ کی آیت’’صِرٰطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ‘‘ (الفاتحہ:۷)
میں درج ذیل مؤقف بیان کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) وکیع، ابو عبید، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی داؤد اور ابن الانباری﷭ عمر بن خطاب﷜ کے طرق سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نماز میں ’’صرط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم وغیر الضالین‘‘ پڑھا کرتے تھے۔
(٢) اسی طرح ابوعبید، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی داؤد اور ابن الانباری﷭ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر﷜ نماز میں ’’صرط من انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم وغیر الضالین‘‘ کی قراء ت کرتے تھے۔
(٣) ابن الأنباری ابو الحسن﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ہاء اور میم کے کسرہ اور ثبوت یاء کے ساتھ ’’عَلَیْہِِمِیْ‘‘پڑھا کرتے۔
(٤) ابن الانباری أعرج﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ہاء اور میم کے ضمہ اور واؤ کے الحاق کے ساتھ ’’عَلَیْہُمُوْ‘‘پڑھتے۔
(٥) ابن الانباری، عبداللہ بن کثیر﷫ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ہاء کے کسرہ، میم کے ضمہ اور واؤ کے الحاق کے ساتھ’’عَلَیْہِمُوْ‘‘ پڑھتے ہیں۔
(٦) ابن الانباری ابن اسحاق﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ہاء اور میم کے ضمہ اور واؤ کے بغیر ’’عَلَیْہُمُ‘‘ کی قراء ت کرتے ہیں۔
(٧) ثعلبی، ابوہریرۃ﷜سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ’’أنْعَمْتَ عَلَیْہِِمْ‘‘ کی قراء ت کی۔(الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور:۱؍۴۰،۴۱)
اِمام سیوطی﷫سورۃ بقرۃ کی آیت’’وَإِنْ یَأتُوْکُمْ أُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ …الآیۃ‘‘ (البقرۃ:۸۵) کے تحت رقمطراز ہیں:
(١) اس آیت کے ضمن میں سعید بن منصور﷫، ابراہیم النخعی﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ’’وَإِنْ یَأْتُوْکُمْ أُسٰرٰی تَفْدُوْہُمْ ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔
(٢) سعید بن منصور﷫، حسن سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ’’أُسٰری تُفٰدُوْہُمْ‘‘بالاما لہ پڑھتے تھے۔
(٣) ابن ابی داؤد اَعمش﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:ہماری قراء ت’’وَإِنْ یُؤْخَذُوْا تَفْدُوْہُمْ‘‘کی ہے۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور:۲۱۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
المختصر اِمام سیوطی﷫ کے قول کی بنیاد پر متنوع قراء اتِ قرآنیہ کا اِنکار سراسر حقائق سے منہ موڑنے کے مترادف ہے سچ تو یہ ہے کہ امام صاحب قراء ات عشرہ کی بھر پور تائید اور تفسیر قرآن اور دیگر تشریعی مسائل میں ان سے مدد لینے والوں میں سے ہیں ۔ غامدی صاحب اگر پھر بھی قراء اتِ عشرہ کے اِنکار پر بضد ہیں تواپنا شوق ضرور پورا کریں لیکن امام سیوطی﷫ کے سر اس قسم کا الزام تھوپنے سے باز رہیں۔ انہوں نے حدیث سبعہ اَحرف کو متشابہات میں سے شمار کیا ہے تو صرف اور صرف اس اعتبار سے کہ عشرہ قراء ات کو ’سبعہ اَحرف‘ میں کیسے سمویا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف پر بیان کیے جانے والے اَقوال
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث سبعہ اَحرف کو اس اعتبار سے متشابہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے مفہوم میں بہت زیادہ اَقوال کا ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ اُمت میں سبعہ اَحرف کا کوئی مفہوم متعین نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن اگر غیر جانبداری اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو اس حقیقت سے اِنکار ممکن نہیں ہے کہ شریعت اِسلامیہ کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر اُمت کی طرف سے ایک ایک مسئلے پر پچاس سے بھی زیادہ آراء بیان کی گئی ہیں اور ان آراء میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں جن کا نفس مسئلہ سے تعلق ہی نہیں ہوتاتو کیا اس کی بناء پر اصل مسئلہ ہی کو ترک کر دیا جاتا ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔بالکل اسی طرح سبعہ اَحرف کے مفہوم پر بیان کئے جانے والے اکثر اَقوال سبعہ اَحرف سے مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ بطور مثال ہم چند ایک اَقوال ذکر کرتے ہیں جن سے یہ ثابت کرنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ حدیث سبعہ احرف کے ساتھ ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے:
(١) یہ کہ سبعہ اَحرف سے یہ سات اَشیاء مراد ہیں۔ مطلق، مقید، عام، خاص، مؤول، ناسخ و منسوخ، مجمل و مفسر، استثناء اور اس کی اَقسام۔ یہ بعض اصولیین کا مذہب ہے۔
(٢) یہ کہ اس سے مراد حذف و صلہ، تقدیم و تاخیر، قلب و استعارہ، تکرار و کنایہ، حقیقت و مجاز ، مجمل و مفسر، ظاہر اور غریب ہیں۔ یہ بعض اہل لغت کا مذہب ہے۔
(٣) یہ کہ سبعہ اَحرف سے مراد تذکیر و تانیث، شرط و جزا، تصریف و اعراب، اَقسام اور جواب اَقسام، جمع و تفریق، تصغیر و تعظیم اور اختلافات ادوات۔ یہ بعض نحویوں کا مذہب ہے۔
(٤) یہ کہ اس سے مراد معاملات کی سات اَقسام ہیں، جو یہ ہیں: زہد وقناعت، حزم و خدمت، سخاوت و استغنائ، مجاہدہ و مراقبہ، خوف و رجاء، صبر و شکر اور محبت و شوق۔یہ بعض صوفیوں کا مذہب ہے۔
(٥) یہ کہ سبعہ اَحرف سے مراد وہ سات علوم ہیں جن پر قرآن حکیم مشتمل ہے۔
علم الإثبات والإیجاد، علم التوحید والتنزیہ، علم صفات الذات، علم صفات الفعل،علم صفات العفو والعذاب، علم الحشر و الحساب اور علم النبوات والامامات۔
حدیث سبعہ اَحرف کے ضمن میں بیان کیے جانے والے اکثر اَقوال کے قائلین مجہول ہیں اور ان میں سے بہت سے سارے اَقوال ایسے ہیں جنہیں حدیث سبعہ کے ذیل میں پیش کرنا حقائق سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف سے مراد
لغوی طور پر حرف کا لفظ چھ معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
(١) حافہ (٢) ناحیہ (٣) وجہ
(٤) طرف (٥) حد (٦) کسی چیز کا ٹکڑا
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) حرف بمعنی وجہ
یہ لغوی معنی کے مطابق ہے یعنی قرآن سات وجوہ پر نازل ہوا ہے اور’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہَ عَلیٰ حَرْفٍ‘‘(الحج:۱۱) ’’بعض لوگ اللہ کی عبادت ایک وجہ پر کرتے ہیں۔‘‘ بھی اسی معنی میں ہے۔ پھر آگے اس کی توضیح فرمائی ہے کہ اگر ان کو خیرحاصل ہوتی ہے تو ایمان پر جمے رہتے اور عبادت کرتے ہیں اور اگر سختی، نقصان اور آزمائش کی حالت پیش آجاتی ہے تو کفر اختیار کر کے عبادت چھوڑ دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)حرف بمعنی قراء ت
حرف کا یہ معنی مجازی ہے اور یہ اس بناء پر کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کسی شے کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس چیز کا جزو، قریب، مناسب، سبب یا اس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کا نام ہو۔ بس چونکہ مختلف قراء ات حروف میں تغیر سے پیدا ہوتی ہیں مثلاً حرکات کی تبدیلی، ایک حرف کا دوسرے سے ابدال، تقدیم وتاخیر، اِمالہ، زیادتی وکمی اس لیے عرب کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے رسالت مآب ﷺ نے قر اء ت کو حرف فرما دیا۔خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں جو سبعہ اَحرف کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہ لغوی اعتبار سے وجہ کے معنی میں ہے اور مجازاً قراء ات کے معنی میں۔
حضرت عمر﷜ کا جو حضرت ابی﷜سے جو مشہور اِختلاف ہوا تھا اس کے ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت عمر﷜ نے پہلے فرمایا: وہو یقرأ علی حروف کثیرۃ،پھر بعد اَزاں اسی اختلاف حروف کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: فقرأ علیہ القرائۃ التي سمعتہ یقرأ۔ حضرت عمر﷜ نے پہلے ’علی حروف‘ کہا پھر انہی حروف کو ’القراء ۃ ‘ سے تعبیر فرمایا۔
اسی طرح حضرت ابی﷜ کا بیان ہے : ’’فقرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ‘‘’’اس نے اپنے ساتھی کے علاوہ کوئی دوسری قراء ۃ پڑھی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:۸۲۰)
اس تقریر سے یہ بات واضح ہوئی کہ حدیث میں’حروف‘ سے مراد معانی ومطالب کے بجائے قراء ت اور تلاوت سے متعلقہ پڑھنے کے سات اَسالیب مراد ہیں، اور یہ حروف اَئمہ عشرہ کی قراء ا ت میں موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علاوہ اَزیں سلف وخلف میں سے تمام لوگوں نے سبعہ اَحرف کی تشریحات پیش کی ہیں جو اس کی سب سے بڑی دلیل ہیں کہ سبعہ اَحرف متشابہات میں سے نہیں، کیونکہ اگر یہ متشابہات میں سے ہوتی تو جمیع اہل علم کو اس کی حقیقت بیانی کی ضرورت ہی نہیں تھی، سبعہ اَحرف کے مفہوم میں پیش کئے جانے والے تمام اَقوال بہر حال اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان کے قائلین قرآن کریم میں پڑھنے کے متعدد اَسالیب کے قائل ہیں۔
نتیجہ بحث یہ ہے کہ تعدد قراء ات یا متنوع اَسالیب تلاوت ( سبعہ اَحرف) کے نزول پر تو پوری اُمت کا اِجماع ہے، بحث صرف سبعہ اَسالیب تلاوت ( سبعہ اَحرف) کی تعیین کے بارے میں ہے، جو کہ ایک علمی بحث ہے اور متنوع قرائات کے ثبوت سے اس کا تعلق بھی اضافی ہے۔سلف و خلف کے تمام علماء کرام متنوع قراء ات قرآنیہ کو تسلیم اور ان کی بھرپور تائید کرنے والے ہیں۔علماء کرام کے درج ذیل اقوال ملاحظہ کیجیے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن نجیم﷫ لکھتے ہیں:
’’اگر ہم قراء اتِ سبعہ میں غور وحوض کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قراء تِ متواترہ، مشہورہ اور (علماء فن کے ہاں) مقبولہ ہے۔ نسل در نسل لوگوں نے ان کو نقل کیا اور یہ قراء ات مصحف عثمانی کے موافق ہیں۔ جو قراء ات مصحف عثمانی کے مطابق مشہور اور متواتر ہیں ان پر نسل در نسل لوگوں نے اجماع نقل کیا ہے۔‘‘ (فتح الغفار:۱؍۸۷)
٭ قاضی عبدالجبار فرماتے ہیں:
’’صحابہ نے لوگوں کو مصحف عثمانی پر جمع کیا انہوں نے منزل متواتر قراء ات میں سے کچھ بھی ہم تک پہنچنے سے نہیں روکا۔ قراء ات متنوعہ ثبوت کے اعتبار سے متواتر ہیں جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور صحیح ترین قراء ات کا علم حاصل کرنا ہم پر واجب ہے۔‘‘ (المغنی:۵۹،۶۰)
٭ احمد الونشریشی﷫ نے لکھا ہے :
’’ہم سب پر واجب ہے کہ منقول قراء ات متواترہ پر ایمان لائیں۔ یہ بات دینی اور عقلی طور پر ناممکن ہے کہ ان میں تصحیف(غلطی) یا تحریف ہوئی ہو۔‘‘(المعیار المعرب:ص۸۷)
٭ ملا علی قاری﷫ فرماتے ہیں:
’’متواتر کا اِنکار صحیح نہیں، کیونکہ اِس پر اُمت کا اجماع ہوچکا ہے۔ قراء ات کا تواتر ایسے حتمی امور میں سے ہے جن کا جاننا واجب ہے۔‘‘ (شرح الفقہ الاکبر:۱۶۷)
 
Top