صحیح البخاریؒ
كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ
مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَصَاهُ، وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ
3110
(حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الجَرْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنَّ الوَلِيدَ بْنَ كَثِيرٍ، حَدَّثَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ، حَدَّثَهُ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ، لَقِيَهُ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ فَقُلْتُ لَهُ: لاَ، فَقَالَ لَهُ: فَهَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ القَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لاَ يُخْلَصُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا حَتَّى تُبْلَغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: «إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»، ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، قَالَ: «حَدَّثَنِي، فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلاَلًا، وَلاَ أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان
ترجمہ : سیدنا علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔ ( حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر مسورص نے کہا تو کیا آپ مجھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ اسے آپ سے نہ چھین لیں اور خدا کی قسم ! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیا ن کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہ ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی ۔"
ــــــــــــــــــــــــــ
تشریح: (
انا اخاف ان تفتن فی دینھا )سے مراد یہ کہ علی رضی اللہ عنہ دوسری بیوی لائیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سوکن پنے کی عداوت سے جوہر عورت کے دل میں ہوتی ہے‘ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔ مثلاً خاوند کو ستائیں‘ ان کی نافرمانی کریں یا سوکن کو برا بھلا کہہ بیٹھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ کا نکاح ثانی یوں ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد سنا تو فوراً یہ ارادہ ترک کیا اور جب تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں انہوں نے دوسری بیوی نہیں کی۔ قسطلانی نے کہا آپ کے ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی بیٹی اور عدواللہ کی بیٹی میں جمع کرنا حرام ہے۔
مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ قصہ اس لئے بیان کیا کہ حضرت زین العابدین کی فضیلت معلوم ہو کہ وہ کس کے پوتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے‘ جن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عتاب فرمایا اور جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدن کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔ اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔
وفی الفتح قال الکرمانی مناسبۃ ذکر المسورلقصۃ خطبۃ بنت ابی جہل عند طلبہ للسیف من جھۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ن یحترز عما یوجب وقوع التکدیر بین الاقرباءفکذالک ینبغی ان تعطینی السیف حتیٰ لا یحصل بینک وبین اقربائک کدورۃ بسببہ
یعنی مسور رضی اللہ عنہ نے بنت ابوجہل کی منگنی کا قصہ اس لئے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت زین العابدین سے تلوار کا سوال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزوں سے پرہیز فرمایا کرتے تھے جن سے اقراباءمیں باہمی کدورت پیداہو۔ پس مناسب ہے کہ آپ یہ تلوار مجھ کو دے دیں تاکہ آپ کے اقرباءمیں اس کی وجہ سے آپ سے کدورت نہ پیداہو۔
http://maktaba.pk/hadith/bukhari/3110/