• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا روزِقیامت انسان کو ماں کے نام سے بلایا جائیگا؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
کیا روزِقیامت انسان کو ماں کے نام سے بلایا جائیگا؟

ابوعبدالسلام عبدالرؤف بن عبدالحنان
شارجہ، متحدہ عرب امارات​

بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے والد کے نام سے بلایا جائے گا یا والدہ کے نام سے ؟ استاذِ محترم شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کے فتـاویٰ ثنائیـہ مدنیـہ میں بھی یہ سوال موجود ہے اوراُنہوں نے اس کا مختصر سا جواب دیا ہے کیونکہ فتاویٰ کا عام طور پریہی اُسلوب ہے۔
چونکہ یہ سوال لوگ عموماً پوچھتے رہتے ہیں، اس لئے اس بارے میں تفصیل پیش کرنا مناسب ہے۔ درست بات یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں ہی کے نام سے بلایاجائے گا، ماؤں کے نام سے نہیں،جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور اوربعض علما کا موقف ہے۔
امام بخاری نے ’کتاب الادب‘ میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’باب ما یدعی الناس بآبائہم ‘‘اوراس کے تحت وہ عبداللہ بن عمرؓ کی درج ذیل حدیث لائے ہیں:
إن الغادر ینصب لہ لواء یوم القیامۃ فیقال:ھذہ غدرۃ فلان بن فلان
’’خائن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی خیانت ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وفي قولہ:ھذہ غدرۃ فلان بن فلان ردّ لقول من زعم أنہ لایدعی الناس یوم القیامۃ إلا بأمہاتم لأن في ذلک سترا علی آبائہم۔۔۔
’’رسول اللہﷺ کے اس فرمان: ھذہ غدرۃ فلان بن فلان میں ان لوگوں کے قول کاردّ ہے جن کاخیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، کیونکہ اس میں ان کے باپوں پرپردہ پوشی ہے۔ ‘‘
اور یہ حدیث ان کے اس قول کے خلاف ہے۔ اس حدیث کی بنا پر دیگر علما نے بھی اس قول کے قائلین کاردّ کیا ہے۔
مزید برآں اس کے بارے میں ایک صریح حدیث بھی ہے مگر وہ اسنادی اعتبار سے ضعیف ہے اوروہ حدیث ابوالدردائؓ سے بایں الفاظ مروی ہے :
إنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم وأسماء آبائکم فحسنوا أسمائکم
’’یقینا تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آبا کے نام سے بلائے جاؤ گے لہٰذا تم اپنے اچھے اچھے نام رکھو۔‘‘
حافظ ابن قیمؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جنہوں نے کہاکہ لوگ قیامت کے دن اپنی ماؤں کے نام سے بلائے جائیں گے، باپوں کے نام سے نہیں۔
جن علما نے یہ کہاہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایاجائے گا، باپ کے نام سے نہیں، ان کے دلائل دو نوعیت کے ہیں:
پہلی دلیل
قرآنِ کریم میں ہے : { یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسٍ بِـإِمَامِہِمْ } (الاسراء : ۷۱)
’’قیامت کے روز ہم لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔‘‘
محمد بن کعب نے بـإمامہم کی تفسیر میں کہا ہے : قیل: یعني بأمہاتہم
’’کہا گیا ہے یعنی ان کی ماؤں کے ناموں سے۔‘‘
ان کے اس قول کوامام بغویؒ اور امام قرطبیؒ نے ذکر کیا ہے اورکہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں:
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے
حسن اور حسین ؓ کے شرف کی بنا پر
اولادِ زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے۔
مگر محمد بن کعب کا یہ قول بے بنیاد ہے، اسی لئے علامہ شنقیطی نے ان کے اس قول کاردّ ان الفاظ میں کیا ہے :
قول باطل بلاشک وقد ثبت في الصحیح من حدیث ابن عمر
’’یہ قول بلاشک باطل ہے کیونکہ صحیح (بخاری) میں ابن عمر کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ابن عمر ؓ کی صفحہ اول پر مذکور حدیث کاتذکرہ کیا ہے۔
اسی طرح زمخشری نے بھی ’امام ‘کی تفسیر ’اُمہات‘ سے کی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
ومن بدع التفسیر أن الإمام جمع أمّ وأن الناس یدعون یوم القیامۃ بأمہاتہم وأن الحکمۃ في الدعاء بالأمہات دون الآبائ۔۔۔
’’منفرد تفسیروں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ إمام اُ مّ کی جمع ہے اور لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، باپوں کے بدلے ماؤں کے نام سے بلانے میں حکمت یہ ہے: (اس کے بعد اُنہوںنے انہی تین حکمتوں کاذکر کیا ہے جن کو بغوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے)‘‘
زمخشری کی اس انوکھی تفسیرکا ردّ امام ناصر الدین احمد بن منیرمالکی نے ان الفاظ سے کیا ہے :
ولقد استبدع بدعا لفظا ومعنا فإن جمع الأم المعروف:الأمہات أما رعایۃ عیسی علیہ السلام بذکر أمہات الخلائق لیذکر بأمہ فیستدعی أن خلق عیسی من غیر أب غمیزۃ في منصبہ وذلک عکس الحقیقۃ، فإن خلقہ من غیر أب کان لہ آیۃ و شرفا في حقہ۔ واﷲ أعلم
’’زمخشری نے لفظی اور معنوی بدعات ایجاد کی ہیں کیونکہ ’امّ ‘کی معروف جمع ’اُمہات‘ ہے۔ رہا عیسیٰ علیہ السلام کی رعایت کی خاطر لوگوں کا ان کی ماؤں کے ساتھ ذکر تاکہ حضرت عیسیٰ کی ماں کا ذکر کیاجائے۔ تو یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسیٰ کی بغیر باپ کے خلقت سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے جبکہ یہ بات حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ان کابغیر باپ کے پیدا کیا جانا ان کے لئے معجزہ اور ان کے حق میں شرف ہے۔ واللہ اعلم!‘‘
بعض دیگر علما نے مذکورہ تمام حکمتوں کا ردّ کیا ہے اور بعض نے اس ردّ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
نوٹ: استاد محترم نے’فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ‘ (ص۲۴۲) میں ’اُمہات ‘کی تفسیر کو قراء تِ شاذہ قرار دیا ہے مگر مجھے کوئی ایسی قراء ت نہیں ملی۔٭ واللہ اعلم بالصواب
واضح رہے کہ ’امام‘ کی معتبر مفسرین نے تین چار تفسیریں ذکر کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبرتفسیر یہ ہے کہ ’امام‘ سے مراد آدمی کا اعمال نامہ ہے، کیونکہ یوم ندعوا کل أناس بـإمامہم کے بعد اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: {فَمَنْ أُوْتِيَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۔۔۔ الآیۃ}
حافظ ابن کثیرؒ نے اسی تفسیر کو اختیارکیاہے اور علامہ شنقیطیؒ نے ان کی تائید کی ہے۔
إمام کی تفسیر نبی اور پیشوا سے بھی کی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر ؒلکھتے ہیں:
قال بعض السلف: ھذا أکبر شرف لأصحاب الحدیث لأن إمامہم النبيﷺ
’’بعض سلف نے کہا ہے کہ یہ اہل الحدیث کے لئے بہت بڑا شرف ہے، کیونکہ ان کے امام نبیﷺ ہیں۔‘‘
دوسری دلیل
بعض بے کار اور سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں، جودرج ذیل ہیں:
حدیث ِانسؓ ،جس کے الفاظ یہ ہیں:
یُدعی الناس یوم القیامۃ بأمہاتہم سترا من اﷲ عزوجل علیہم
’’روزِ قیامت لوگوں کو اللہ عزوجل کی طرف سے ان پر پردہ پوشی کی خاطر ان کی ماؤں کے ساتھ بلایا جائے گا۔‘‘
مگر اس حدیث کی سند سخت ضعیف ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ کا اس حدیث کی تقویت کی طرف رجحان ہے، چنانچہ اُنہوں نے اس حدیث پر ابن جوزیؒ کاتعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے:
قلت:صرح ابن عدي بأن الحدیث منکر فلیس بموضوع ولہ شاھد من حدیث ابن عباس أخرجہ الطبراني
’’میں کہتا ہوں: ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث منکر ہے، چنانچہ یہ موضوع نہیں، اور اس کا ابن عباسؓ کی حدیث سے ایک شاہد ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
جبکہ امام سیوطی کا دعویٰ درست نہیں ، طبرانی والی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
إن اﷲ یدعو الناس یوم القیامۃ بأسمائہم سترا منہ علیٰ عبادہ
مگر یہ حدیث درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر شاہد بننے کے قابل نہیں :
اس میں بأسمائہمہے، بأمہاتہم نہیں۔
اس کی سند بھی سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔
نوٹ: مزید برآں حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۶۳) میں ابن بطال کا یہ قول ’’في ھذا الحدیث رد لقول من زعم أنہم لا یدعون یوم القیامۃ إلا بأمہاتہم سترا علی آبائہم ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:
قلت: ھو حدیث أخرجہ الطبراني من حدیث ابن عباس وسندہ ضعیف جدا وأخرج ابن عدي من حدیث أنس مثلہ،وقال: منکر أوردہ في ترجمۃ إسحاق بن إبراھیم الطبري
میں کہتا ہوں کہ حدیث ابن عباس میں بھی بأسمائھم ہے، بأمہاتہم نہیں۔ اسی طرح ان کا حدیث أنس مثلہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں بأمہاتہم ہے۔
یہی وہم علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی کو ہوا ہے کہ اُنہوں نے حدیث ابن عباس کو لفظ بأمہاتہم سے ذکر کیا ہے۔ نیز اُنہیں ایک غلطی یہ بھی لگی ہے کہ اُنہوں نے کہا ہے کہ حدیث ِابن عباس کو طبرانی نے بہ سند ضعیف روایت کیا ہے، جیسا کہ ابن قیم نے حاشیۃ السننمیں کہا ہے جبکہ ابن قیم نے حدیث ابن عباس کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے حدیث ِابوامامہ کا ذکر کیا ہے جوعنقریب آرہی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
حدیث ابن عباس ؓ :
اس حدیث کا ابھی حدیث انس ؓ کے ضمن میں ذکر ہوا اور یہ بھی بیان ہواکہ دو وجوہ کی بنا پر اس سے حجت لینا درست نہیں۔
حدیث ابوامامہؓ :
یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کردینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
إذا مات أحد من إخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم أحدکم علی رأس قبرہ ثم لیقل: یا فلان بن فلانۃ فإنہ یسمعہ ولا یجیب ثم یقول: یا فلان بن فلانۃ ۔۔۔ فقال رجل: یارسول اﷲ فإن لم یعرف أمہ قال: فینسبہ إلی حواء یا فلان بن حوائ
’’جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی فوت ہوجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی کو برابر کرلو تو تم میں سے کوئی ایک اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر یہ کہے: اے فلاں فلاں عورت کے بیٹے، تو وہ یقینا اس کی بات کو سنتا ہے، لیکن جواب نہیں دے پاتا۔ پھر کہے: اے فلاں فلاں عورت کے بیٹے۔ ایک آدمی نے سوال کیا : یا رسول 1! اگر وہ اس کی ماں کو نہ جانتا ہو تو فرمایا :وہ اس کو حوا کی طرف منسوب کرے کہے: اے فلاں، حوا کے بیٹے۔ ‘‘
مگر اس حدیث سے بھی حجت لینا درست نہیں،کیونکہ یہ سخت ضعیف ہے۔
حافظ ابن قیم الجوزیہؒ نے اس حدیث کو اس لئے بھی ردّ کیا ہے کہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے،چنانچہ لکھتے ہیں :
ولکن ھذا الحدیث متفق علی ضعفہ فلا تقوم بہ حجۃ فضلاً عن أن یعارض بہ ما ھو أصح منہ
’’لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے۔ چنانچہ اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی، چہ جائیکہ اس کو جو اس سے أصح (زیادہ صحیح) ہے ،کے مقابلے میں لایا جائے۔‘‘
ما ھو أصح سے ان کی مراد حدیث عبداللہ بن عمرؓ اور حدیث ابو الدردائؓ ہے جو اس مضمون کے شروع میں گزرچکی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی تردید حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے:
استغفروا لأخیکم واسئلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل
’’اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جارہا ہے ۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لئے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا، نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کیا ہے۔
اور یہ کس قدر عجیب بات ہے، کیونکہ استغفار ، ثابت قدمی اور تلقین میں بہت فرق ہے۔ اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لقنوا موتاکم لا إلـٰہ إلا اﷲ
’’اپنے مردوں (یعنی قریب المرگ لوگوں) کو لا إلہ اﷲ کی تلقین کرو۔‘‘
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ روزِ قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایاجائے گا بلکہ عبداللہ بن عمرؓ کی صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایاجائے گا۔
بعض علما نے ان روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے اوروہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے ،وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہے اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے، وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ کو ان کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔
اس جمع یا تطبیق کو مولاناشمس الحق عظیم آبادیؒ نے علقمیؒ سے نقل کیا ہے۔ن بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے، وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اسکی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس تطبیق کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔ه
بعض نے حدیث ابن عمرؓ کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے جو ولدالزنا نہ ہو یا لعان ‚سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔
مگر یہ سب تکلّفات ہیں، کیونکہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوتیں جبکہ حدیث ِابن عمرؓ کے خلاف جو روایات ہیں، وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے ۔ ابن بطالؒ لکھتے ہیں:
والدعاء بالأباء أشد في التعریف وأبلغ في التمییز وبذلک نطق القرآن والسنۃ’’باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور تمیز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہیں۔‘‘
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
مضمون کی مکمل وضاحت ہوچکی ہے ، میں نے اس مضمون کو اپنے ڈھنگ سے مختصرترین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے تاکہ سوشل میڈیا پہ شیئر کیا جاسکے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
یہ بات عوام میں کافی مشہور ہوگئی ہے ، آئیے اس کی حقیقت دیکھتے ہیں ۔اس کو سمجھنے کے لئے یہ پہلے دیکھنا پڑے گا کہ آدمی دنیا میں کس سے پکارا جاتا تھا؟چنانچہ یہ بات بدیہی ہے کہ دنیا میں لوگ باپ کے نام سے ہی پکارے جاتے ہیں ، رجسٹر پہ ، فائل میں ، معاملات میں اور دنیا کے تمام تر مشاغل میں باپ کا نام استعمال کیا جاتا ہے اور یہ حکم قرآن کا بھی ہے ۔
(1) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ۔(احزاب:5)
ترجمہ: لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔
اور حدیث پاک میں غیر باپ کی طرف نسبت کرنے والوں پہ جنت کی حرمت بتلائی گئی ہے ۔
(2) من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام(رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ : نبی ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف اپنے اپ کو منسوب کیا جب کہ وہ جانتا ھو کہ اس کاباپ نہیں ھے اس پر جنت حرام ہے۔
(3) لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن أبيه فهو كفر(بخاري 6786)
ترجمہ : اپنے آباء و اجداد سے اعراض نہ کرو! جس نے اپنے باپ کے علاوہ کس دوسرے کی طرف نسبت کی اس نے کفر کیا۔
پتہ یہ چلا کہ دنیامیں لوگ والد کی نام سے پکارے جاتے تھے تو یہی حکم وفات کے بعد بھی باقی رہے گا یعنی وفات کے بعد بھی ہر جگہ والد کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ چنانچہ اس کے صریح دلائل بھی ہیں۔
پہلی دلیل :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ( صحیح بخاری کتاب الادب: 6177)
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایاقیامت کے دن دغا باز کی سرین پر جھنڈا لگایا جائے گا جس پر لکھا ہوگا کہ اس نے فلاں بن فلاں سے غدر کیا تھا۔
دوسری دلیل :
إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم، فحسنوا أسماءكم۔(ابوداؤد)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایاکہ تم لوگ قیامت کے دن اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤگے تو اپنا نام اچھا رکھو۔
٭ اس حدیث کی سند جید ہے ۔

بعض لوگ ایک ضعیف حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں کہ لوگوں کو قیامت کے دن ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ حدیث دیکھیں :
الناس یوم القیامة بامھاتھم سترا من اللہ عز وجل علیھم(الآلی المصنوعۃ للسیوطی : ۴۴۹/۲ نقلہ عن الطبرانی)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : "بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن اُن کی ماؤں (کے نام) سے پکارے گا تاکہ اس کے بندوں کی پردہ پوشی رہے۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع اور باطل قرار دیا ہے ، تفصیل کے لئے مذکورہ حدیث کے تحت دیکھیں السلسلہ الضعیفہ۔

قرآن کی ایک آیت سے بھی ماں کے نام سے پکارے جانے کی دلیل پکڑی جاتی ہے ۔یوم ندعوکل اناس بامامھم﴿ (الاسرائ: 7)
ترجمہ: جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔یہاں امام سے مراد ماں لیتے ہیں جو کہ غلط ہے ۔

مذکورہ باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن بھی باپ کے نام سے پکارا جائے گا جیساکہ دنیا میں پکارا جاتا تھا، جو لوگ اس کے خلاف بات کرتے ہیں ان کے پاس کوئی صحیح اور ٹھوس دلیل نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
 
Top